ویک اینڈ بہت مصروف گزرا۔ صوابی سے لاہور تک کا سفر دو دن میں کرنا پڑا۔
میجر عامر نے صوابی میں دریا کنارے اپنے فارم ہاؤس پر دعوت دے رکھی تھی۔ اسلام آباد کے بیشتر صحافی بھی پہنچے ہوئے تھے۔ اس فارم ہاؤس کی خوبصورتی کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ دعوت میں سب سے اہم شرکت دبئی سے آئے حمید قدوائی کی تھی۔ میجر عامر نے ہنستے ہوئے کہا: جب قدوائی صاحب شہر میں ہوتے ہیں تو پھر سمجھ لیں کوئی بڑی خبر بننے والی ہے۔ اس سے پہلے قدوائی صاحب سے ملاقات اسلام آباد کے سابق کمشنر طارق پیرزادہ کے گھر ہوئی تھی۔ ان کا نام بہت سن رکھا تھا لیکن ملاقات پہلی دفعہ ہو رہی تھی۔ قدوائی صاحب نواز شریف اور جنرل مشرف کے قریبی رہ چکے ہیں‘ اور سیاسی امور بارے بہت آگاہی رکھتے ہیں۔ سبھی قدوائی صاحب سے کچھ اگلوانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے‘ لیکن وہ مسکرا کر ٹال رہے تھے۔ بولے صاحب! میں تو اپنے علاج کے لیے پاکستان آیا ہوں۔ کسی نے لقمہ دیا: وہ تو درست ہے لیکن پنڈی جی ایچ کیو کے کونے والے ہوٹل میں ہی کیوں رہائش پذیر ہیں؟ مسکرا کر بولے: میں ہمیشہ وہیں ٹھہرتا ہوں۔
اس دعوت میں حامد میر، سلیم صافی، محسن بیگ ، ڈاکٹر شاہد مسعود، محسن رضا، عادل عباسی، پشاور سے نوائے وقت کے محمد ریاض، صحافی دوست عقیل یوسف زئی اور دیگر شریک تھے۔ اگرچہ میجر عامر نے بار بار کہا کہ سیاسی گفتگو سے پرہیز کیا جائے۔ انہوں نے کہا: کمبختو! کسی ایک دن تو سیاست کو بھول جایا کرو، یہاں مل بیٹھے ہیں تو کچھ اور باتیں کریں‘ ہر وقت ٹاک شو چلتا رہتا ہے۔
اس پر سب کی نظریں سلیم صافی کی طرف گئیں‘ جو پچھلے دنوں ریحام خان سے لندن میں ملاقات کر کے آئے تھے‘ اور ان کے پاس اندر کی خبریں تھیں، تاہم وہ اس وقت ان ملاقاتوں کے حوالے سے اس محفل میں کچھ کہنے پر تیار نہیں تھے؛ البتہ سلیم صافی اس بات پر خاصے ڈسٹرب تھے کہ فاٹا کے صحافیوں کو جو مسائل درپیش تھے‘ اس پر کوئی بھی بات کرنے اور ان کی مدد کرنے کو تیار نہیں تھا۔ سلیم کی رائے تھی کہ گورنر سردار مہتاب اس معاملے میں زیادہ ایکٹو کردار ادا کریں۔
اگلے دن لاہور پہنچا، جہاں ہمارے دوست اور بھائی مشتاق احمد جاوید نیویارک سے آئے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ سینیٹر طارق چوہدری بھی تھے۔ طارق بھائی سے گپ شپ کا اپنا ہی مزہ ہے۔ وہ پاکستان کی چلتی پھرتی تاریخ ہیں۔ وہ آپ کو بور نہیں ہونے دیتے۔ خوبصورت انداز، مزاحیہ چٹکلے اور بے پناہ معلومات اور سنجیدہ تبصرے، غرضیکہ طارق چوہدری پورا ''پیکج‘‘ ہیں۔ مشتاق صاحب اب نیویارک چھوڑ کر میامی جا بسے ہیں‘ جہاں ان کے بچوں عمر، علی اور حمزہ نے اپنا کاروبار جما لیا ہے۔ میں اکثر ان سے شکایت کرتا ہوں‘ جناب، ہم نے سال میں ایک دفعہ امریکہ آنا ہوتا ہے۔ ورجینیا میں اکبر چوہدری، شاہین صہبائی، ڈاکٹر عاصم صہبائی تو ڈیلیور میں سیالکوٹ کے زبیر بھائی، جارجیا میں اعجاز بھائی، نیویارک میں آپ ،آفاق خیالی اور عارف سونی سے ملنا ہوتا ہے۔ آپ بھی ہم سے تنگ آکر نیویارک چھوڑ گئے ہیں، اب کوئی اور گھر نیویارک میں ڈھونڈنا پڑے گا۔
وہ پہلے سینیٹر طارق چوہدری کے ساتھ اسلام آباد تشریف لائے‘ لیکن طے ہوا کہ اب مجھے لاہور آنا پڑے گا‘ جہاں مجیب الرحمن شامی صاحب نے ان کے لیے دعوت کا بندوبست کر رکھا تھا۔ شامی صاحب کا فون آیا کہ جناب تشریف لے آئیں۔ انکار کی خواہش تھی نہ ہی گنجائش۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جیسے اسلام آباد میں عامر متین کے ڈیرے پر آپ کو ہر قسم کا ہجوم ملتا ہے‘ ویسے ہی شامی صاحب کے گھر پر بھی ہوتا ہے۔ کمال کی مہمان نوازی کرتے ہیں شامی صاحب! ویسے داد دینا پڑتی ہے‘ آگ اور پانی کو ایک چھت کے نیچے اکٹھا دیکھنا ہو تو پھر کسی دن ان کے گھر تشریف لائیں۔ ایسے بڑے بڑے صحافی آپ کو وہاں ملیں گے جو عام زندگی میں ایک دوسرے سے شاید ہاتھ بھی نہ ملائیں‘ لیکن شامی صاحب کی محبت میں وہ مجبور ہوتے ہیں کہ دو تین گھنٹے ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ شامی صاحب کی خوبی ہے کہ وہ محفل میں تلخی پیدا نہیں ہونے دیتے۔ اگر کہیں دو کردار ایک دوسرے الجھ رہے ہوں تو وہ کوئی ایک ایسا کمال کا جملہ کہہ دیں گے کہ محفل قہقہوں میں بدل جائے گی۔ ہارون الرشید ، سہیل وڑائچ، عارف نظامی، غلام حسین، حفیظ اللہ نیازی، لیاقت بلوچ، ڈاکٹر یونس بٹ، یاسر پیرزادہ، رئوف طاہر، اجمل جامی، حبیب اکرم، عمر شامی، نوخیز اختر، صوبائی وزیر چودھری شفیق سب موجود تھے۔ ہمارے دوست سہیل وڑائچ نے چپ کا ایسا روزہ رکھا کہ مجال ہے آخر دم تک کچھ بولے ہوں۔ یوں لگا کہ وہ جیسے ہم میں سے نہیں رہے، کوئی ایک لفظ بھی بول کر ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔
ایک دفعہ پھر یہاں بھی موضوع عمران خان تھے۔ حفیظ اللہ نیازی کچھ تھکے تھکے لگ رہے تھے۔ سب ان سے کچھ جاننا چاہتے
تھے کہ اندر کھاتے کیا ایسا ہو گیا تھا۔ عارف نظامی کی طرف بھی نظریں اٹھ رہی تھیں‘ جنہیں مجیب الرحمن شامی نے ''ماہر ریحانیات‘‘ کا لقب دے دیا۔ ہارون الرشید بھی عمران کے قریبی سمجھے جاتے ہیں لیکن وہ بھی خاموش رہے۔ مجیب الرحمن شامی نے حفیظ اللہ نیازی کی توجہ ان کے ماضی کے عمران خان سے جڑے رومانس کی طرف دلائی کہ ان سب کو عمران کی طرف لے جانے والے وہی تھے۔ اس وقت عمران ان کے نزدیک واحد پیر تھے جو قوم کو نجات کا راستہ دکھا سکتے تھے۔ اب جبکہ دائیں بازو کے لکھاری اور دانشور عمران خان کو نجات دہندہ سمجھنے لگ گئے ہیں‘ تو اب تحریروں اور گفتگو سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ عمران خان اس قابل نہیں تھا کہ وہ اس قوم کو لیڈ کر سکتا... شامی صاحب کا غصہ بجا تھا، خیر ہار حفیظ اللہ نیازی نے بھی نہیں مانی۔ شامی صاحب حفیظ اللہ کو یہ سمجھانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے کہ بے شک عمران خان کے وہ قریبی تھے، ان کے کزن اور بہنوئی تھے‘ لیکن جب عمران خان ایک بڑا سیاسی لیڈر بن گیا تھا تو اب انہیں عمران کے ساتھ سیاسی اجلاسوں میں اس طرح کا سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا‘ جیسے کزن یا دوست گھر پر کرتے ہیں۔ مجیب الرحمن شامی کے خیال میں عمران اور حفیظ اللہ نیازی کا اختلاف جلد یا بدیر ہونا تھا خصوصاً تیس اکتوبر 2011ء کے لاہور کے کامیاب جلسے کے بعد عمران خان وہ نہیں رہا تھا‘ جو پہلے تھا۔ اب حفیظ اللہ کو اسے ایک سیاسی لیڈر کے طور پر ٹریٹ کرنا چاہیے تھا‘ جو وہ نہ کر سکے اور یوں دونوں کے درمیان تلخیوں نے جنم لیا۔
اگرچہ شامی صاحب کے ڈرائنگ روم میں بیس سے زائد لوگ موجود تھے‘ پھر بھی کسی نہ کسی وقت تھوڑی دیر کے لیے سناٹے سے بھرپور خاموشی چھا جاتی، جیسے کسی کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں۔ لگتا تھا کہ اب ایک دوسرے سے اختلافات، اختلافات کی حدود عبور کر کے ذاتی رنگ اختیار کر چکے تھے۔ چہروں سے صاف لگ رہا تھا کہ ایک دوسرے کو مشکل سے برداشت کیا جا رہا ہے‘ لہٰذا سب نے بہتر سمجھا کہ ان موضوعات پر بات نہ کی جائے جن سے تلخی پیدا ہونے کا خدشہ ہو؛ تاہم اس بات پر اتفاق تھا کہ ریحام اتنی خاموش نہیں رہے گی‘ جتنی خاموشی ماضی میں جمائما یا دیگر نے دکھائی تھی۔
ڈاکٹر یونس بٹ سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی۔ میں اُن کا بہت بڑا فین رہا ہوں۔ انہوں نے مزاح کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ اچھا کالم لکھتے تھے۔ پھر چھوڑ گئے۔ کتابیں بھی لکھیں۔ پھر انہوں نے ایک ہٹ سیاسی مزاح کا شو شروع کیا۔ کہنے لگے: پھر لکھنے کا جنوں سوار ہو رہا ہے۔ اندر سے آواز آرہی ہے کہ لکھو۔ ایک نفیس اور مہذب انسان لگے‘ مجھے۔ شامی صاحب کے زندگی سے بھرپور قہقے سنتے ہوئے ان سے کہا‘ وہ ہمارے اس سرائیکی پیر کی طرح لگتے ہیں جو ہر ایک کو بیٹا دیتا ہے‘ سب کو خوش کرتا ہے، ناراض کرنا ان کے مذہب میں نہیں ہے۔ ان کے گھاٹ پر شیر اور بکری سب اکٹھے پانی پیتے ہیں!
شاید مجیب الرحمن شامی کی کامیاب زندگی کا راز ہی یہی ہے کہ سب سے بنا کر رکھو اور سب کو خوش رکھو!
رات گئے جب محفل ختم ہوئی تو ایک گہری سانس لے کر سوچا‘ کاش ہم نے بھی سب کو خوش رکھنے کا گر سیکھا ہوتا۔ ہم بھی نروان کی تلاش میں سات دریا عبور کر کے کسی دور دراز جنگل میں خزاں کے موسم میں درختوں سے بچھڑتے زرد پتوں کے درمیان، بوڑھے برگد کے درخت کے نیچے آلتی پالتی مار ے آنکھیں بند کیے صدیاں گزار دیتے... کچھ ہم بھی سیکھتے۔ کچھ شعور پاتے، کچھ اپنی ذات کا کھوج لگاتے،اپنی انا کو کچلنے کے لیے گائوں گائوں نگر نگر گوتم بدھ کے بھکشوؤں کی طرح کشکول اٹھائے پھرتے!