"RKC" (space) message & send to 7575

وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے!

بنگلہ دیش سے خبر آئی ہے کہ جنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان کی آخری متحدہ قومی اسمبلی کے آخری بنگالی سپیکر فضل قادر چوہدری کے بیٹے صلاح الدین قادر چوہدری جو خالدہ ضیاء کی پارٹی کی طرف سے سات دفعہ پارلیمنٹ کے ممبر رہے ہیں، کو اگلے ہفتے ڈھاکہ جیل میں پھانسی دے دی جائے گی ۔ ان کے ساتھ جماعت اسلامی کے لیڈر کو بھی۔ ان پر الزام تھا کہ 1971ء کی جنگ میں پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر ایک بنگالی کو قتل کیا تھا۔ 
قسمت بھی عجیب کھیل کھیلتی ہے۔ 
2008ء کے آخری دنوں میںالیکشن کوریج کے لیے ڈھاکہ گیا تھا۔ شاید بنگلہ دیش نہ جاتا لیکن دوماہ پہلے صلاح الدین قادر اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ان سے اسحاق خاکوانی کے پاس پہلی ملاقات ہوئی۔ اسحاق خاکوانی ہمیں ایک سابق نگران وزیر کے فارم ہائوس پر لے گئے۔ ہنستامسکراتا اور قہقہے لگاتا چوہدری۔ لمحوں میں ان سے دوستی ہوگئی۔ بڑی خوبصورت سرائیکی بولی تو میں حیران ہوا۔ بولے: سائیں آپ کے ملتان بہاولپور میں ساری عمر بسر کی ہے۔ پھر کہنے لگے:دو ماہ بعد بنگلہ دیش کے الیکشن ہورہے ہیں۔ تم وہاں کیوں نہیں آجاتے؟۔ دوماہ بعد میں ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اترا تو ان کا ڈرائیور لینے کے لیے موجود تھا۔ الیکشن ہوئے۔ صلاح الدین کی پارٹی ہار گئی، حسینہ واجد جیت گئی تھی۔ دو تین دن بعد میں نے پاکستان لوٹنا تھا ۔ صلاح الدین چوہدری نے اپنے گھر پر دعوت کی،جہاں بنگلہ دیش میں پاکستان کی خاتون ہائی کمشنر بھی موجود تھیں ۔ ان دنوں گیلانی صاحب چاہتے تھے کہ ان کے پرانے دوست خواجہ علقمہ کو بنگلہ دیش میں ہائی کمشنر لگا دیا جائے۔ پاکستانی تحریک کے علمبردار خواجہ خیرالدین کا صاحبزادہ ۔ تاہم بنگالی حکومت ان کا نام کلیر نہیں کر رہی تھی۔ صلاح الدین چوہدری نے مجھے کھانے کی میز پر کہا: رئوف جا کر حکومت کو بتائو کہ وہ خواجہ علقمہ کو یہاں ہائی کمشنر لگا کر نہ بھیجے۔ بڑے مسائل پیدا ہونے والے ہیں۔ حسینہ واجد مجھے بھی نہیں چھوڑے گی۔ 
آج عجیب بات ہے۔ خواجہ خیرالدین کا بیٹے اور سابق وائس چانسلر خواجہ علقمہ اس وقت جیل میں ہے۔ نیب نے انہیں جس طرح ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا، اس پر ان کے طالب علموں کی غصے بھری ای میلز آرہی ہیں۔ عجیب کہانی ہے۔ بنگالی لیڈر خواجہ خیرالدین جو پاکستان سے محبت کرتے تھے، کا بیٹا جیل میں ہے تو قادر چوہدری کا بیٹا پھانسی لگ رہا ہے۔ 
صلاح الدین کی کہانی اس طرح شروع ہوئی کہ جب ان کا والد قومی اسمبلی کے سپیکر بنے تو وہ اپنے دونوں بچوں کو اپنے ساتھ مغربی پاکستان لے آئے اور انہیں صادق پبلک سکول بہاولپور میں داخل کرایا۔ اسحاق خاکوانی اور سابق نگران وزیراعظم محمد میاں سومرو جیسے ان کے کلاس فیلو اور دوست بنے۔ چھٹیاں ہوتیں تو دونوں بھائی ملتان میں اسحاق خاکوانی کے گھر میں رہتے۔ یوں صلاح الدین پاکستان میں رچ بس گئے۔ اس دوران مشرقی پاکستان میں حالات بگڑنا شروع ہوگئے۔ صلاح الدین ڈھاکہ گیا تو باپ نے واپس بھیج دیا۔ کچھ دن صلاح الدین کراچی میں ہارون فیملی کے ساتھ رہے۔ وہاں سے لاہور آگئے، جہاں ان دنوں وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔ تعلیم مکمل کی اور لندن چلے گئے۔ بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ ایک دن صلاح الدین قادر مری میں اسحاق خاکوانی کے ساتھ گئے ہوئے تھے۔ وہیں پتہ چلا کہ کسی نے شیخ مجیب کو قتل کر دیا تھا۔ وہ گھنٹوں روتے رہے۔ 
مشرقی پاکستان اب بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ صلاح الدین بھی وہیں چلا گیا ۔ وہ نئے ملک کا شہری ہوتے ہوئے بھی اپنے اندر سے پاکستان کو نہ نکال سکا۔ پاکستان کی محبت اسے واپس لے آتی۔ اس کی سب دوستیاں پاکستان میں تھیں۔ اس دوران وہ سات بار بنگلہ دیش پارلیمنٹ کا ممبر بنا اور اہم عہدے پر رہا۔ ہمیشہ بھارت کے خلاف رہا اور اسے بھارتی لابی نے کبھی پسند نہ کیا۔ اس لیے جب حسینہ واجد وزیراعظم بنی تو اس نے واضح طور پر مجھے اپنے گھر پر بتادیا تھا کہ اب وہ اسے نہیں چھوڑے گی، لیکن اس نے پھر بھی بنگلہ دیش نہیں چھوڑا۔ 
ڈھاکہ سے لوٹنے کے کچھ عرصہ بعد میں نے خبر پڑھی کہ صلاح الدین چوہدری کو جنگی جرائم ٹربیونل کے حکم پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک ہندو کو قتل کیا تھا۔ سب کا خیال تھا کہ یہ جھوٹ ہے۔ مقدمے کے مطابق جس دن یہ ہندو قتل ہوا،اس دن وہ پاکستان میں تھا اور پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ اس کی گرفتاری پر اس کے پاکستانی دوستوں نے اسے بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے شروع کردیے۔ اسحاق خاکوانی نے پنجاب یونیورسٹی سے سارا ریکارڈ جمع کیا کہ ان دنوں وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا ۔ ڈان گروپ کی عنبر سہگل نے بھی ایک بیان حلفی لکھا کہ جن دنوں اس پر بنگلہ دیش میں قتل کا الزام تھا، وہ ان کے گھر کراچی ٹھہرا ہوا تھا کیونکہ ان کے والد آپس میں دوست تھے۔ اسی طرح محمد میاں سومرو، اور دیگر نے بھی بیان حلفی لکھ کر دیے کہ وہ ان دنوں پاکستان میں پڑھ رہا تھا ۔ بنگلہ دیش کی عدالت کے ایک جج نے بھی ٹربیونل کو لکھ کر کہا کہ اسے بلایا جائے تو وہ گواہی دے گا کہ صلاح الدین چوہدری اس کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں تھا اور اس پر قتل کا الزام جھوٹا تھا۔ تاہم ٹربیونل نے وہ چاروں بیان حلفی عدالت میں جمع نہیں ہونے دیے اور نہ ہی بنگالی جج کو گواہی کے لیے بلایا اور ایک دن پتہ چلا کہ صلاح الدین کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اس پر سب پاکستانی دوست پریشان ہوئے اور انہوں نے بنگلہ دیش سپریم کورٹ کو لکھا کہ انہیں اجازت دی جائے ، وہ ڈھاکہ پہنچ کر بیان دینا چاہتے ہیں۔ اس پر بنگلہ دیش سپریم کورٹ نے باقاعدہ حکم جاری کیاکہ ان چار پاکستانیوں کو بنگلہ دیش میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔ الٹا یہ بھی کہا گیا کہ یہ چاروں بیان حلفی جعلی تھے۔ اس پر ان چاروں پاکستانیوں نے ویڈیو پیغام ریکارڈ کر کے بنگلہ دیش بھجوایا جو اپ لوڈ ہوئے اور بنگلہ دیش میں بحث شروع ہوئی کہ صلاح الدین کے دوستوں کو کیوں روکا گیا۔ 
اس دوران اسحاق خاکوانی نے ہر دروزاہ کھٹکھٹایا۔ وہ جی ایچ کیو افسران اور سیکرٹ ایجنسیوں کے سربراہوں سے ملے۔ وزارت خارجہ کے افسران کے منت ترلے کیے۔ جنرل مشرف تک سے بات کی کہ وہ سعودیوں یا کسی اور کو کہہ کر بنگلہ دیش پر دبائو دلوائیں۔ مشرف نے کچھ کوشش بھی کی۔ مگرپاکستانی فارن آفس نے صاف جواب دے دیا کہ ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہیں کہا بھی گیا کہ یہ سزائیں پاکستان کے نام پر دی جارہی تھیں اور جب معاہدے ہوئے تھے تو ان میں طے ہوا تھا کہ اس طرح کے مقدمات نہیں کھولے جائیں گے۔ تاہم فارن آفس نے اس معاملے میں مداخلت سے انکار کر دیا۔ یوں جو لوگ مشرقی پاکستان میں پاکستان کے لیے لڑ رہے تھے، انہیں اکیلا چھوڑ دیا گیا۔
ایک آخری امید بنگلہ دیش سپریم کورٹ تھی کہ شاید وہ صلاح الدین چوہدری کے چاروں پاکستانی دوستوں کو بلوا کر ان کی گواہی لے۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ عالمی جنگی جرائم کا ٹربیونل گواہوں کو پیش کرنے سے روک دے۔ پاکستان چاہتا تو وہ یہ معاملہ عالمی عدالت میں لے جاسکتا تھا اور سکیورٹی کونسل میں اٹھا سکتا تھا کہ انصاف کا قتل 
کیا جارہا ہے ۔ افسوس کہ جب صلاح الدین چوہدری جیسے کرداروں کی بنگلہ دیش میں اپنے مفادات کے لیے ضرورت تھی تو اسے ڈارلنگ بنا کر رکھا گیا اور جب اسے ایک لابی نے پھانسی گھاٹ پر پہنچا دیا تو یہ کہہ کر جان چھڑ الی گئی کہ پاکستان کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے ۔ جماعت اسلامی کے کئی لیڈروں کو بھی پھانسیاں دی گئیں اور پاکستان چُپ رہا۔ 
داد دینا چاہتا ہوں عنبر سہگل، اسحاق خاکوانی، محمد میاں سومرو اور دیگر دوستوں کو جو اپنے اس بنگالی دوست کو بچانے کے لیے پچھلے چھ برس سے کوششیں کر رہے تھے۔ انہوں نے اس بے گناہ کو بچانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔لیکن شاید قسمت کا اپنا لکھا ہوتا ہے۔ تقدیر کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ اب جب کہ صلاح الدین چوہدری کو پھانسی لگنے میں کچھ دن باقی ہیں،مجھے یاد آیا کہ ڈھاکہ میں اس کے گھر میں ڈنر کے بعد اس کی لائبریری میں بیٹھے ایک کتاب پسند آگئی تھی۔ اس کتاب کا نام تھا ''برطانوی پارلیمنٹ کے سکینڈلز‘‘۔ میں نے للچائی نظروں سے کتاب کو دیکھا تو مسکرا پڑے اور بولے: ایک شرط پر دے سکتا ہوں کہ پاکستان جاتے وقت مجھے لوٹا جانا۔ میں نے جھوٹا وعدہ کر لیا کہ ضرور۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں صلاح الدین قادر چوہدری کو یقینا جہاں اسحاق خاکوانی، میاں محمد سومرو، عنبر سہگل اور چند دیگر پاکستانی دوستوں پر فخر ہوگا کہ انہوں نے اسے بچانے کے لیے آخری حد تک کوششیں کیں، وہیں وہ اس بات پر شاید مغموم بھی ہوگا کہ اس کے پہلے ملک پاکستان، جہاں وہ پلا بڑھا، لکھا پڑھا، جوان ہوا ،کے حکمرانوں نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی تھی کہ جلاد جانے اور صلاح الدین قادر جانے! جب کہ میں اسلام آباد کی اداس راتوں میں، یہاں سے ہزاروں میل دور پھانسی کی کوٹھڑی میں اپنے جلاد کے منتظر صلاح الدیں قادر چوہدری کی برسوں قبل دی گئی کتاب تلاش کرنے میں لگا ہوا ہوں۔ پتہ نہیں، کہاں گم ہوگئی ہے۔ صلاح الدین قادر چوہدری کی طرح !

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں