برسوں بعد ایک دن میں نے ڈاکٹر ظفر الطاف سے پوچھا کہ انہوں نے نواز شریف، بینظیر بھٹو، جنرل مشرف ، یوسف رضاگیلانی اور آصف زرداری کے ساتھ فیڈرل سیکرٹری کے طور پر کام کیا ، اگر دوبارہ موقع ملے تو کس کے ساتھ کریں گے؟
بولے‘ بینظیر بھٹو‘ بی بی میں خوبی تھی ‘ لڑتی تھیں، ڈانٹ دیتی تھیں لیکن ذاتی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرتی تھیں ۔ وہ بہت پڑھی لکھی وزیراعظم تھیں ۔ بھٹو کے بعد کسی کو کتاب پڑھتے دیکھا تو بی بی کو۔ ہر اجلاس میں تیار ہو کرآتیں۔اخبارات کی کٹنگ کی فائل ساتھ ہوتی اور ہر وزیر کو وہ اجلاسوں میں اڑا کر رکھ دیتیں۔ ظفرالطاف پر غصے ہوتیں کیونکہ وہ دیگر سیکرٹریوں کے برعکس بی بی سے بحث کرتے۔ اکثر ان کے ساتھی بیوروکریٹس کہتے ،یار ظفر، کیوں بینظیر بھٹو سے بحث کر کے برا بنتے ہو ۔ چند منٹ کی بات ہوتی ہے، چپ کر کے ڈانٹ کھا لیا کرو، جیسے ہم سب کھاتے ہیں۔ اس کے بعد پندرہ دن سکون‘وہ اس فلاسفی سے کبھی متفق نہ ہوئے۔ بولے ،نہیںبات ہوگی، بحث ہوگی۔ یہ کیا بات ہوئی وہ وزیراعظم ہیں تو ہم چپ رہیں ؟
ڈاکٹر ظفر الطاف نے ایک کتاب لکھی جو شاہین صہبائی کے ویب نیوزپیپر سائوتھ ایشیا ٹریبون میں لکھے گئے کالموں کا مجموعہ تھی۔ یہ مضمون جو بہت سخت تھے، اس وقت لکھے گئے جب جنرل مشرف اپنی پوری دہشت کے ساتھ قوم پر حکمرانی کر رہے تھے اور کسی میں جرأت نہ تھی کہ وہ ان کے خلاف ایک لفظ لکھتا۔ آج بھی وہ کالم پڑھیں تو حیران ہوجائیں کہ ایک بیوروکریٹ میں اتنی جرأت کیسے آگئی تھی جس پر نیب کے بائیس مقدمات بھی چل رہے تھے۔
کتاب کا نام تھا:Working with Nawaz, BB & Musharraf نواب یوسف تالپور نے دبئی میں وہ کتاب بینظیر بھٹو کو پیش کی تو پڑھنے سے پہلے بی بی نے نواب صاحب سے پوچھا کہ اس کو پڑھنے کے بعد بھی ہماری ڈاکٹر ظفر الطاف سے دوستی رہے گی؟
بی بی نے وہ کتاب پڑھی اور جواب میں اپنے ہاتھ سے چٹ لکھ کر ظفرالطاف کو بھیجی ۔ اس میں لکھا تھا آپ نے اپنی تحریروں میں میرے ساتھ زیادہ مہربانی کا سلوک کیا ہے۔ میں آپ کے ساتھ بطور وزیراعظم اتنی اچھی نہ رہی تھی لیکن آپ نے پھر بھی میری تعریف کی ہے اوران تمام چیف ایگزیکٹوز میں سے مجھے بہتر قرار دیا جن کے ساتھ آپ نے کام کیا تھا ۔
مجھے بی بی کی چٹ پڑھاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو یاد آیا، جب وہ جنرل ضیاء دور میں ڈپٹی کمشنر ساہیوال تھے تو بینظیر بھٹو کو گرفتار کیا تھا ۔ جب وہ 1993ء میں وزیراعظم بنیں اور ظفر الطاف کے ساتھ ایک اجلاس میں تعارف ہوا تووہ فوراً بول پڑیں اور پوچھا، آپ وہی ظفر الطاف ہیں جنہوں نے مجھے گرفتار کیا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب بولے، جی بالکل وہی ہوں۔تین سال وہ ان کے ساتھ سیکرٹری رہے۔ کتنی دفعہ انہیں ہٹانے کا منصوبہ بنایا لیکن ہر دفعہ کسی نہ کسی وجہ سے پیچھے ہٹ گئیں ۔ لیکن دوسری طرف بینظیر بھٹو نے کبھی ظفر الطاف کو وہ فیورز نہ دیں جو دوسرے بیوروکریٹس کو ملیں۔ بی بی کے بہت قریبی لوگ ڈاکٹر ظفر الطاف کے خلاف تھے لہٰذا ان کے خلاف سیکرٹ ایجنسی آئی بی کی رپورٹس بنوا کر بی بی کو بھجوائی جاتی تھیں۔ ایک دفعہ تو بی بی نے ڈاکٹر ظفر الطاف کے خلاف آئی بی کی طرف سے بھیجی گئی وہ رپورٹس پڑھنا شروع کردیں۔ بی بی نے اجلاس شروع ہونے سے پہلے اپنے پرنسپل سیکرٹری احمد صادق کو کہا کہ کدھر ہے وہ فائل جو ڈاکٹر ظفر الطاف کے خلاف آئی بی نے بھیجی ہے۔ڈاکٹر ظفر الطاف کو کافی عرصہ دکھ رہا کہ جتنی تیزی سے دوڑ لگا کر احمد صادق وہ فائل لانے باہر بھاگے ‘سب حیران ہوئے کہ کیا ایک بیوروکریٹ بھی اس سازش میں شریک تھا کہ ظفر الطاف کو بی بی سے ذلیل کرایا جائے اور سب کے سامنے کرایا جائے۔ جب بی بی نے وہ فائل پڑھی تو بغیر کسی خوف کے ڈاکٹر صاحب نے پورے اجلاس میں سب کے سامنے جوابات دیے۔ وہ جو یہ سمجھ کر فائل لائے تھے کہ آج ڈاکٹر صاحب کا آخری دن ہوگا اور وہ برطرف ہوکر گھر جائیں گے، انہیں ناکامی ہوئی ۔
شاید بی بی کے دل میں یہ غصہ بھی تھا کہ یہ وہ واحد سیکرٹری ہے جو ان کے ساتھ کابینہ اجلاسوں میں چپ رہنے کی بجائے بحث کرتا ہے۔اس لیے بی بی نے انہیں جہاں او ایس ڈی نہ بنایا وہیں انہوں نے سزا کے طور پر ڈاکٹر ظفرالطاف کو پروموٹ نہ کیا۔ ان کے ساتھ کے کئی گریڈ بائیس میں پروموٹ ہوگئے، حتیٰ کہ جونئیر بھی سینئر ہوگئے، لیکن بی بی نے ترقی نہیں دی ۔ ایک دن پیپلز پارٹی کے ایم این اے غضنفر گل نے ایک پارٹی اجلاس میں کہہ دیا کہ جو سیکرٹری سب سے زیادہ کسانوں کے لیے لڑتا ہے‘ اسی کی آپ نے پروموشن نہیں کی۔ بی بی بولیں :آپ اس لیے ڈاکٹر ظفر الطاف کی حمایت کر رہے ہیں کہ وہ آپ کی برادری کا ہوگا ۔ غضنفر گل بولے، بی بی وہ میری نہیں آپ کی برادری کا ہے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف ارائیں ہے اور بھٹو قبیلہ بھی ارائیوں کی ایک شاخ ہے۔ پروموشن پھر بھی نہ ہوئی۔ میں نے پوچھا اگر پھر بھی موقع ملتا تو آپ بینظیر کے ساتھ کام کرتے؟بولے‘ رئوف تم نہیں سمجھو گے۔ بی بی کتاب دوست تھیں۔ ایسے بندے کے ساتھ کام کرنا آسان ہوتا ہے جو کتاب پڑھتا ہو۔ اس کے ساتھ بات ہوسکتی ہے،بحث ہوسکتی ہے۔باقی جتنے چیف ایگزیکٹو گزرے ،وہ کتابیں نہیں پڑھتے تھے۔ ان کے ذہن بند ہو چکے۔ جو درسی کتب برسوں پہلے سکول میں پڑھی تھیں، انہی کے سہارے چل رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کیا بات ہوسکتی ہے۔ لہٰذا میں کسی وزیراعظم یا جنرل کے ساتھ ایک سال سے زیادہ نہیں چل پایا،چاہے وہ جنرل مشرف ہوں یا نواز شریف۔ بینظیر بھٹو کا واحد دور تھا جب میں نے تین سال ان کے ساتھ کام کیا اور ایک دفعہ بھی انہوں نے برطرف نہیں کیا۔ باقی جنرل مشرف اور نواز نے ایک ایک سال بعد گھر بھیج دیا تھا کیونکہ انہیں میرا کابینہ اجلاسوں میں بحث کرنا پسند نہیں تھا۔ وہ سب یس باس ٹائپ لوگ تھے۔ انہیں قائل کرنا مشکل تھا۔ بی بی ایسی نہ تھیں کیونکہ ان کو قائل کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے بی بی کے ساتھ کام کرنا پسند کروں گا ۔
ڈاکٹر ظفر الطاف کو زندگی میں تین لوگوں سے متاثر دیکھا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان حفیظ کاردار اور ان کے اساتذہ ڈاکٹر اجمل اور سابق وائس چانسلر طارق صدیقی۔ ڈاکٹر ظفرالطاف کے جنازے کے روز لاہور میں طارق صدیقی صاحب کو ایک کونے میں خاموش اور بکھرا دیکھ کر ان کے پاس گیا ۔ میں نے کہا، زندگی میں وہ جن تین لوگوں سے متاثر تھے ان میں سے ایک آپ تھے۔ وہ خاموش آنکھوں سے مجھے دیکھتے رہے۔ عمران خان کو بھی وہ پاکستان کا بہترین کپتان سمجھتے تھے اور کہتے تھے کرکٹ کپتان دو ہی پیدا ہوئے تھے۔ کاردار اور عمران۔ کرکٹ کی اتنی کہانیاں ہیں اگر ان پر کالم لکھنا شروع کروں تو شاید ختم نہ ہوں۔ جب وہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے جنرل مشرف کے حکم پر ہٹا دیے گئے تو شعیب اختر کے ساتھ روا رکھے گئے رویے پر خوش نہیں تھے۔ بولے ،پاکستان کرکٹ بورڈ اس عظیم بائولر کو ضائع کر رہا ہے ۔ اس سے پہلے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین خالد محمود نے انہیں برطانیہ میں ہونے و الے1999ء کے ورلڈ کپ کا منیجر بنا کر بھیجا کیونکہ مشکل ٹور تھا ۔ منیجر کے طور پر شعیب اختر کو قریب سے دیکھا ۔ ایک دن میں نے کہا، آپ کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہوتے ہیں‘ شعیب اختر کو آپ کیوں نہیں سمجھاتے۔بولے ،کیا ہوا؟ میں نے کہا: وہ ہر جگہ لڑتا ہے، کھلاڑیوں کو کہنیاں مارتا ہے۔ گھوریاں ڈالتا ہے۔ وہ بولے ، ستر اور اسی کی دہائی میں ویسٹ انڈیز بائولرز نے ہمارے کھلاڑیوں کا بھرکس نکال دیا تھا۔ وہ بائونسر مارتے، گھوریاں ڈالتے اور جاتے ہوئے دھکا بھی دیتے کہ جرأت ہے تو چوکا مار کر دکھائو، ہم سب نے یہ سب کچھ برداشت کیا۔ آج ہمارے پاس شعیب اختر ہے جو دنیا کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو خوفزدہ کرتا ہے، بائونسر مارتا ہے، انہیں گھوریاں ڈالتا ہے اور وہ سہم جاتے ہیں تو پوری قوم کو شعیب اختر کے رویے کی فکر پڑ گئی ہے۔ دنیا میں وہ اکیلا بائولر ہے جو ایک سو ساٹھ کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے بال پھینک سکتا ہے۔کتنے بائولر ز پھینک سکتے ہیں۔ تم لوگ چاہتے ہو کہ وہ بال تو ایک سو ساٹھ کی رفتار سے کرائے لیکن اس کا رویہ اقبال قاسم کی طرح ہو۔ایسا نہیں چلے گا بھائی جان۔
ڈاکٹر الطاف کی وسیم اکرم کے ساتھ بہت قربت تھی۔اسے دنیا کا بہترین بائولر سمجھتے تھے۔ تاہم انہیں وسیم اکرم سے اس وقت مایوسی ہوئی جب برطانیہ کے ورلڈ کپ میں انہوں نے دیکھا کہ وسیم اکرم کپتان کے طور پر شعیب اختر کے ساتھ برا سلوک کر رہا ہے۔ منیجر کے طور پر انہوں نے وسیم اکرم سے بات کی کہ اسے کپتان کے طور پر شعیب اختر کو اس طرح آگے لانا چاہیے جیسے کبھی عمران خان اسے لایا تھا۔ اگر عمران وہی رویہ اس کے ساتھ رکھتا جیسا وہ اب شعیب اختر کے ساتھ رکھ رہا ہے تو کیا وہ اپنی جگہ بنا پاتا؟ تاہم ڈاکٹر ظفرالطاف کو محسوس ہوا ‘وسیم اکرم کو لگ رہا تھا اس کا دور ختم ہورہا تھا اور شعیب اختر کا سورج طلوع ہورہا تھا ۔ وسیم اکرم بھی انسان تھا ۔ جب شعیب اختر دوڑتا تھا تو پورا گرائونڈ اس کے ساتھ نعرے لگاتا تھا۔ وسیم اکرم اس بات کو انجوائے کرنے کی بجائے شعیب اختر کے خلاف ہوگیا تھا ۔ ڈاکٹر ظفرالطاف کو اب فیصلہ کرنا تھا کہ اس نے وسیم اکرم کے ساتھ اپنی پرانی دوستی نبھانی تھی یا پھر اسے ایک نئے فاسٹ بائولر کا ساتھ دینا تھا جو پاکستان کا فیوچر تھا۔
ظفرالطاف نے ایک اہم فیصلہ کیا۔ انہیں پتہ تھا کہ ورلڈکپ جیتنا تھا تو پھر وسیم اکرم کو شعیب اختر کو وہ جگہ اور عزت دینا ہوگی جس کا وہ مستحق تھا۔ ڈاکٹر ظفرالطاف کو وہ کمنٹ عمربھر نہ بھولا جب ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں شعیب اختر نے اتنی تیز بال پھینکی کہ وہ بیٹسمین کے ہاتھ پر لگ کر بائونڈری کے باہر جاگری اور رچی بینو کمنٹری باکس میں چیخ پڑا کہ دنیا کے سب سے تیز ترین فاسٹ بائولر کا جنم ہوچکا ہے ۔ اب سوال یہ تھا وسیم اکرم کو کیسے سمجھایا جائے کہ وہ شعیب اختر کو استعمال کرے ‘اسے ضائع نہ کرے۔ شعیب کے لیے وہ کردار ادا کرے جو کبھی عمران نے اس کے لیے کیا تھا ۔ لندن میں ورلڈکپ جاری تھا ۔ پاکستان کو یہ کپ شعیب اختر ہی جتوا سکتا تھا ۔ سوال یہ تھا کہ وسیم اکرم کو کون سمجھائے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف خود ناکا م ہوگئے تھے۔ انہیں یاد آیا‘ وسیم اکرم کو ایک ہی شخص سمجھا سکتا ہے اور اسی سے ہی مددلینے کا فیصلہ کیا ۔ (جاری)