آج کل قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ہورہے ہیں ۔ میں بھی چلا جاتا ہوں، شاید کوئی خبر مل جائے۔ قومی اسمبلی خالی ہوتی ہے۔ جس اسمبلی میں پہنچنے کے لیے ایم این ایز پاپڑ بیلتے ہیں، خاندانی دشمنیاں پالتے ہیں، بندے مرتے ہیں، وہ سب شوق یہاں آکر ختم ہوجاتے ہیں۔ کوئی اونگھ رہا ہے۔ کوئی گپیں ہانک رہا ہے۔ چند ایم این ایز ہی آپ کو سنجیدہ لگتے ہیں۔ اکثر حاضری لگوا کر نکل جاتے ہیں۔ ایک دن سپیکر نے توجہ دلائو نوٹس پر بحث کے لیے نام پکارے تو پتہ چلا جنہوں نے بحث کرنی تھی وہ ہائوس سے ہی غائب تھے۔رہی سہی امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب پچھلے ہفتے ایک بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ۔ اس بل کے تحت وزیراعظم کے لیے لازمی قرار دیا جانا تھا کہ وہ ہر نئے اجلاس کے پہلے بدھ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات میں سوالات کا جواب دیا کریں گے۔ یہ برطانوی پارلیمنٹ کی روایت ہے جہاں وزیراعظم خود پارلیمنٹ میں ارکان کے سوالات کا جواب دیتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تھے تو انہوں نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا ۔ وہ خود ہائوس میں موجود ہوتے اور سوالات کے جوابات بھی دیتے تھے۔ ایک دفعہ گیلانی صاحب وقفہ سوالات میں موجود تھے۔ ایک وزیر سے کسی سوال کا جواب نہیں دیا جارہا تھا۔ گیلانی صاحب حیران کہ ان کی کابینہ میں ایسا وزیر بھی پایا جاتا ہے جو ہائوس میں کھڑے ہوکر معمولی سوال کا جواب تک نہیں دے سکتا؟
گیلانی صاحب خود کھڑے ہوئے اور اس وزیر کی جگہ جواب دیا اور ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا آج کے بعد وہ وزیر ہائوس میں کسی سوال کا جواب نہیں دے گا کیونکہ اس سے حکومت کی سبکی ہورہی تھی۔ گیلانی یہ جرأت تو نہ کر سکے کہ وہ اس وزیر کو ہی برطرف کرتے۔ ان کی کابینہ واحد کابینہ تھی جس پر وزیراعظم کا بس نہیں چلتا تھا۔۔وہ وزیر بھی کوئی عام نہ تھا، اس نے فائیو سٹار ہوٹل میں کمرہ لے رکھا تھا جہاں اس کے برخوردار بیٹھ کر ٹھیکیداروں کے ساتھ ڈیل کرتے تھے کیونکہ وہ موصوف ان دنوں اربوں روپے کے صاف پانی پینے کے منصوبے کی نگرانی کر رہے تھے۔ ا گر اس وقت ملک میں چالیس فیصد سے زائد آبادی ہیپاٹائٹس کا شکار ہوچکی ہے تو حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسے ہی وزراء کی بدولت نوبت یہاں تک پہنچی ہے جو ایک سوال کا جواب دینے تک کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے لیکن وزارتیں چلا رہے تھے اور ان کے بچے ہوٹل کے کمروں میں بیٹھ کر ٹھیکے بانٹ رہے تھے۔
نواز شریف کے دور میں بھی قومی اسمبلی کی حالت وہی ہو چکی ہے۔ کسی کو دلچسپی نہیں رہی، خود نواز شریف کو نہیں رہی، وزیر نہیں آتے۔ نواز شریف خود وزیراعظم بننے کے بعد سات ماہ تک قومی اسمبلی تشریف نہیں لائے۔ سینیٹ میں وہ ایک سال تک نہ گئے۔ رضاربانی، اعتزاز احسن اور اپوزیشن نے رولا ڈالا،پھر بھی نہ گئے۔ آخر سینیٹ کے قوانین میں تبدیلی کی گئی کہ وزیراعظم سینیٹ میں ہر ماہ ایک دفعہ تشریف لائیں گے۔ اس کے بعد ایک دفعہ وزیراعظم گئے، چند طعنے اور جگتیں ماریں، بولے بھی‘ سنا ہے کچھ لوگوں کو ان کی یاد ستا رہی تھی، اس کے بعد پھر نہ گئے۔سینیٹرز نے بھی اتنے پر ہی شکر کیا اور پھر کسی کو یاد نہ رہا کہ رولز کے تحت وزیراعظم کو ہر ماہ سینیٹ آنا پڑے گا۔ جس ملک میں وزیر اعظم کو سینیٹ میں لانے کے لیے، رولز میں تبدیلی کرنا پڑے۔وہاں کیسی جمہوریت اور کہاں کے جمہور پسند۔
مجھے یاد ہے لندن میں میرے اور ارشد شریف کے کان یہ سن سن کر پک گئے تھے کہ جنرل مشرف دور میں پارلیمنٹ کا وقار ختم ہوگیا ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی، یہ ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ ہے۔ اگر ہم ہوتے تو پارلیمنٹ کی شان و شوکت دیکھتے وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھاشن ایک سال تک ان سب صحافیوں نے سنے جو لندن میں ان دنوں رپورٹنگ کرتے تھے۔
جب وہ لوٹے تو قومی اسمبلی اور سینیٹ تک میں جانے سے گریزاں۔عمران خان دھرنا لے کر بیٹھے تو فوراً پارلیمنٹ کی اہمیت بڑھ گئی۔ دس ارب روپے کا ترقیاتی فنڈ قائم ہوگیا، داماد کیپٹن صفدر کو اس کا مالک بنا دیا گیا، ایم این ایز کی قطاریں لگ گئیں۔ دو دو کروڑ روپے ہر ایک کو فوری امداد دی گئی۔ بھلا ہو عمران خان کا، سب کو کچھ نہ کچھ مل گیا اور کچھ خرچہ پانی نکل آیا ۔ عمران غائب اور اس کے ساتھ ہی نواز شریف بھی پارلیمنٹ سے غائب۔
یہ بات طے ہے کہ ایم این ایز کی اکثریت ہائوس میں ترقیاتی فنڈز لینے اور اپنے کام نکلوانے کے لیے جاتی ہے۔۔اس لیے جب نواز شریف انہیں ہائوس میں نظر نہیں آتے تو وہ بھی غائب۔ اگر حکومتی ارکان سمجھدار ہوتے اور اپنے کاموں کی فکر ہوتی تو وہ اپوزیشن کے اس بل کی حمایت کرتے جس میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف ہر اجلاس کے پہلے بدھ کے روز وقفہ سوالات میں بیٹھ کر سوالات کا جواب دیا کریں گے۔ اس بہانے ان کے اپنے وزیراعظم کے درشن ہوتے اور وہ اپنے کام نکلوا سکتے تھے۔ تاہم اس وقت سب کو حیرت ہوئی جب حکومت نے اس بل کی مخالفت کی کہ وزیراعظم کو ہائوس میں وقفہ سوالات میں نہیں بلایا جاسکتا اور حکومتی ایم این ایز نے خود بل مسترد کر دیا۔
ویسے اگر وزیراعظم ہائوس میں وقفہ سوالات میں آنے کو تیار نہیں تو پھر پارلیمنٹ کو ہم نے کیا کرنا۔اگر وزیراعظم پارلیمنٹ میں اپنے ارکان کو سوالات کے جواب نہیں دے سکتا تو پھر یہ جمہوریت کس بلا کا نام ہے۔ ایک فوجی آمر اور وزیراعظم میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ آمر بھی پارلیمنٹ کو جواب دہ نہیں ہوتا اور نواز شریف بھی جواب دہ ہونے کو تیار نہیں ہے۔ تو کیا جمہوریت اس لیے ہے کہ آپ کا خاندان، دوست اور کاروباری احباب فائدے اٹھائیں؟ اب اسلام آباد کا میئر ایک ایسا شخص لگایا جارہا ہے جو کبھی سی ڈی اے کا ٹھیکیدار تھا ۔ کئی کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں وہ کیا کیا خدمات شریف انسانوں کو فراہم کرتے ہیں ۔ وجہ آپ خود جان سکتے ہیں کہ نواز شریف کیوں مہربان ہورہے ہیں ۔
بیوروکریٹس نے بھی سیاسی خاندان جوائن کر لیے ہیں۔ اس لیے نوید قمر نے اپنی تقریر میں کہا وزیراعظم ہاوس کی بیوروکریسی نے نواز شریف کو ہائی جیک کر لیا ہے۔ نوید قمر کا کہنا تھا بیوروکریٹس نے نواز شریف کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ اگر وہ پارلیمنٹ گئے تو ان کی قدر و قیمت میں کمی ہوگی۔ ایم این ایز آپ کو کام کہتے ہیں،ان سے دور رہنا ہی آپ کے لیے بہتر ہے۔۔یوں ایم این ایز تو چھوڑیں، وزراء تک کو رسائی نہیں رہی۔ وہ بیوروکریٹس وزیراعظم ہاوس میں رہ سکتے ہیں جو لاہوری ہوں اور اوپر سے اپنی برادری کے۔ ایسے بیوروکریٹس کو داد دینی پڑتی ہے جن کے نزدیک عزت بے عزتی کوئی چیز نہیں ہوتی، تابعداری اور یس باس ہی سب کچھ ہے۔ بیوروکریٹس نے بھی سیاستدانوں کی طرح اب اپنی اپنی جماعتیں اور گینگ بنا رکھے ہیں۔ جو بیوروکریٹ گینگ حکمرانوں کے قریب ہوجاتا ہے وہ پھر اپنے بیچ میٹس اور دوستوں کو ہی بڑے بڑے عہدوں سے نوازتا رہتا ہے۔ ابھی ایک سپر بیوروکریٹ نے اپنے ایک بیچ میٹ کو فرانس میں سفیر لگوایا ہے۔ ہر کارپوریشن اور محکمے میں اپنا بیچ میٹ اور پھر مزے ہی مزے!
مجھے یاد پڑتا ہے چین کے دورے میں نواز شریف نے ہم صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں یس باس ٹائپ بیوروکریٹس کی ضرورت ہے۔ پرانے بیوروکریٹس رولز نکال کر بیٹھ جاتے ہیں، نئے اورنوجوان بیوروکریٹس کا یہ فائدہ ہے، جو حکم دیں گے وہ کریں گے۔ یہی وجہ ہے اسحاق ڈار نے پانچ سو ارب روپے کی آئی پی پیز کو براہ راست ادائیگی کرنی ہو اور اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان سے بلز بھی کلیئر نہیں کرانے، ادائیگی ایک گھنٹے میں ہوجاتی ہے چاہے بعد میں آڈٹ رپورٹ یہ کیوں نہ چلاتی رہے کہ ایک سو نوے ارب روپے کی زائد ادائیگی کی گئی تھی یا اٹھارہ ارب روپے کی ادائیگی فوٹوکاپی کے بلوں پر ہوئی تھی، بتیس ارب روپ کا آئی پی پیز کو جرمانہ ادا کیا گیا لیکن جو جرمانہ بائیس ارب روپے آئی پی پیز نے ادا کرنا تھا وہ معاف کر دیا گیا۔یہ سب ہمارے ان نوجوان بیوروکریٹس کے کارنامے اور ذہن کی کارستانیاں ہیں۔۔کوئی دستاویز آڈٹ تک نہیں پہنچنی چاہیے۔یہ بھی ان نوجوان بیوروکریٹس کا کام ہے اور وہ یہ کام کر گزرتے ہیں۔ ان بیوروکریٹس نے ان حکمرانوں کے ساتھ ایک اتحاد کر لیا ہے۔دونوں مل کر مزے کر رہے ہیں۔ وہ حکم دیتے وقت نہیں سوچتے اور یہ بیوروکریٹس اس حکم پر عمل کرتے وقت نہیں سوچتے اور دونوں کا کام چل رہا ہے۔
مجھے ترس آتا ہے ان بے چارے ایم این ایز پر جو خود چاہتے ہیں کہ ان کا وزیراعظم ہائوس میں تشریف نہ لائے۔ تو پھر وہ کیوںشکایت کرتے ہیں ان کی کوئی نہیں سنتا۔ پھر بیوورکریٹس ہی حکمرانی کریں گے۔ ان بے چاروں کو ہر سال صرف دو کروڑ روپے کا ترقیاتی فنڈ چاہیے جو وہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے ساتھ مل کر اپنی مرضی کے ٹھیکیدار کو دلا کر چندلاکھ روپے کما سکیں،باقی کون کتنا کما رہا ہے،انہیں اس سے غرض نہیں!
ہاں ایک کام وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر نے ان ایم این ایز سے کرالیا ہے اب ہر اجلاس کے شروع ہونے سے قبل نعت پڑھی جائے گی۔ اس پر یہ سب ارکان مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ چلیں کچھ تو ہوا ۔ اب اس کے بعد اتوار کی بجائے جمعہ کی چھٹی کا بل پاس ہوگا ۔ نواز شریف جس پارلیمینٹ کو جلاوطنی ترک کے لندن سے سپر ایکٹو کرنے آئے تھے وہ اللہ کے فضل سے اب خالی پڑی ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں تین سو بیالیس کے ہائوس میں صرف بیاسی کے قریب ایم این ایز کی موجودگی کو پورا کرنے کے لیے مسلسل گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں۔اجلاس شروع ہو یا نہ ہو لیکن شکر ہے سب کو دو دو کروڑ روپے کا فنڈ ، وقت پر تنخواہیں اور بھاری الائونسز مل رہے ہیں...!