پی آئی اے کے بارے میں میرے کالم پر آدھی قوم ناراض ہو گئی۔ رپورٹر ہونے کے فوائد ہیں تو نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ آپ رپورٹر نہ ہوں تو حقائق کا علم نہ ہوتے ہوئے بھی جو چاہیں لکھ دیں، جو نظر آرہا ہے وہی لکھ دیں کہ وہی سچ ہے اور بِکتا ہے۔ جو حکمران ہمارے درد میں مرے جا رہے ہوتے ہیں، ان کے پیچھے کئی پرسرار کہانیاں ہوتی ہیں۔ میں حکمرانوں سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ پی آئی اے کو کس نے تباہ کیا کیونکہ نو برس سے انہی کی حکومت ہے۔ 2007 ء میں جنرل مشرف کا دور ختم ہوا تو پی آئی اے کا خسارہ 30 ارب روپے تھا۔ زرداری اور نواز شریف صاحبان کی سیاسی حکومتوں کے نو برسوں میں یہ 200 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ذمہ دار کون ہے؟ کوئی حساب دینے کو تیار نہیں‘ حالانکہ انہی کے دور میں پی آئی اے پوری طرح بیٹھ گئی۔ زرداری اور گیلانی صاحب سے نہیں پوچھا گیا کہ انہوں نے پی آئی اے کو کیسے برباد کیا۔ سب نے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا کہ پی آئی اے کے ملازمین کو برطرف کرنا ہی اصل حل ہے۔
زرداری صاحب کے ایک پائلٹ دوست کو ایم ڈی لگایا گیا کہ مزے کرو‘ باپ کا مال ہے۔ نواز شریف ڈھائی برس اپنے پرانے محسن کی نوکری بچانے کے لئے سپریم کورٹ سے لڑتے رہے۔ میں شرطیہ کہتا ہوںکہ زرداری یا نواز شریف ایسے لوگوں کو اپنے فارم ہائوس یا فیکٹری کا جنرل منیجر تک نہیں لگائیں گے، ملک کے قومی ادارے جن کے حوالے کر دیئے گئے۔ انہیں علم ہے کہ یہ لوگ ان کے ذاتی کاروباری تباہ کر دیں گے اور لوٹ کر کھا جائیں گے۔
نواز شریف اور اسحاق ڈار کے اس سال جمع کرائے گئے گوشواروں سے پتا چلتا ہے کہ ان کا اپنا کاروبار ترقی کر گیا ہے اور منافع میں جا رہا ہے، لیکن ہر حکومتی ادارہ گھاٹے کا شکار ہے۔ وجہ سب کو معلوم ہے۔ ہمارے سیاستدان سمجھدار ہیں، وہ پہلے ایک چیز کو تباہ کرتے ہیں، اسے سفید ہاتھی بنا کر پیش کرتے ہیں، اسے بیچنے کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں اور پھر اپنے ہی بندوں کے ہاتھ فروخت کر دی جاتی ہیں۔ نواز شریف صاحب کو آج کل پی آئی اے کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ کیا وہ قوم کو بتائیں گے کہ زرداری دور میں بوئنگ طیاروں کی خریداری میں کتنا مال کمایا گیا؟ کیا بنا اس اجلاس کا جس میں نواز شریف نے فیصلہ کیا تھا کہ اب اس کی خواجہ آصف تحقیقات کریں گے؟ کیا کبھی کسی نے سنا کہ کروڑوں ڈالر کے سکینڈل کی تحقیقات کا کیا بنا؟ کیا نواز شریف اور خواجہ آصف نے بھی جمہوریت کے نام پر مک مکا کر لیا ہے؟
مان لیتے ہیں، پی آئی اے کو ملازمین نے تباہ کیا، تو کیا بوئنگ طیاروں کے سکینڈل میں بھی پی آئی اے کے ملازمین شامل تھے؟ یا وہ لوگ تھے جن کے ساتھ جمہوریت بچانے کے معاہدے چل رہے ہیں؟ کیا کھائے گئے اس کمیشن کے ذمہ دار بھی پی آئی اے کے عام ملازمین ہیں؟ کبھی جرأت کر کے بتائیں گے کہ ان طیاروں میں زرداری کی پارٹی کے کن کن بڑوں نے مال کمایا تھا اور تحقیقات کیوں روک دی گئی تھی؟ یہ بھی بتائیں گے کہ جب سے نواز شریف اقتدار میں آئے ہیں، کتنے طیارے لیز پر لئے گئے اور کن شرائط پر؟ سارا پیسہ قوم کی جیب سے ادا کرنے کے باوجود پی آئی اے خسارے میں کیوں جا رہی ہے؟ اگر قوم کی جیب سے طیارے خرید کر انہیں نجی پارٹی کے حوالے کر دینے ہیں تو نجکاری کا کیا فائدہ؟ آپ کار بیچنے جا رہے ہیں، بولی ایک لاکھ لگتی ہے، آپ کہتے ہیں رک جائیں، پہلے ہم اس کی آرائش پر دو لاکھ روپے لگائیں گے اور پھر آپ کو ایک لاکھ روپے میں بیچ دیں گے۔ پی آئی اے کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ یہ ساری کہانی بھی سامنے آجائے گی کہ دو برسوں میں اسحاق ڈار کابینہ کی اقتصادی کمیٹی میں بیٹھ کر ہر ہفتے کتنے طیارے لیز پر لینے یا خریدنے کی منظوری دیتے رہے۔ کون پی آئی اے کے روٹس کو غیر ملکی ایئرلائنزکو بیچتا رہا؟
جس طرح بینک بیچے گئے، سب کو علم ہے، ان میں کس کا کتنا حصہ تھا۔ سب سے منافع بخش ادارہ پی ٹی سی ایل بھی بیچ دیا گیا۔ اس کی
کہانی منفرد ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ نجکاری کے فراڈ کیسے ہوتے ہیں۔ جنرل مشرف دور میں اس پر ہنگامہ کھڑا ہوا تھا۔ ہمیں سمجھایا گیا کہ اس کے کیا فوائد ہوں گے؛ چنانچہ ایک غیر ملکی پارٹی کو بیچنے کا فیصلہ ہوا، جب ٹینڈرز کھلے تو اس پارٹی کو پتا چلا شاید اس نے زیادہ قیمت کی پیشکش کر دی ہے۔ وہ خریدنے سے مکر گئی۔ اس کی ضمانتی رقم ضبط کرنے اور نئے سرے سے اشتہار دینے کی بجائے اسی پارٹی کے ساتھ نیا معاہدہ کر لیا گیا‘ جس میں یہ شرط رکھی گئی کہ پی ٹی سی ایل کی پاکستان میں جتنی جائیداد ہے وہ سب کی سب اس کمپنی کے نام منتقل کی جائے گی۔ ان جائیدادوں کی مالیت پی ٹی سی ایل کی بولی سے بھی زیادہ تھی۔ تقریباً 3400 جائیدادیں اس غیرملکی کمپنی کو دیے جانے کا فیصلہ ہوا۔ کمپنی والوں نے کہا‘ جب تک ساری جائیدادیں ان کے نام منتقل نہیں ہوں گی وہ بقایا 800 ملین ڈالر ادا نہیں کریں گے۔ یہ 2007ء کی بات ہے۔ آج نو برس گزرنے کے بعد بھی یہ رقم پاکستان کو نہیں ملی۔ کمپنی آرام سے پی ٹی سی ایل چلا کر منافع کما رہی ہے۔ پہلے زیادہ پیشکش کر کے پی ٹی سی ایل لے لی، ادائیگی کا وقت آیا تو ڈاکٹر حفیظ شیخ
کے ذریعے نئے معاہدے میں ایسی شقیں رکھوا لیں جو آج تک
پاکستان پوری نہیں کر سکا۔ چنانچہ کمپنی نے 800 ملین ڈالر اپنے پاس رکھ لیے۔ دو ارب ڈالر سے زیادہ کی بولی دے کر پہلے دوسری پارٹیوںکو مقابلے سے باہر کیا گیا پھر800 ملین ڈالر نہ دیے۔ یوں پی ٹی سی ایل ایک ارب ڈالر میں بک گیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ان جائیدادوں کو منتقل کرانے کے لئے وفاقی حکومت نے صوبوں کو کہا کہ جائیدادیں دے دیں۔ صوبوں نے کہا‘ وہ کیوں اپنی جائیدادیں اور پی ٹی سی ایل کے دفاتر مفت میں غیرملکی کمپنی کو دیں؟ اس پر ان جائیدادوں کی مالیت کا تخمینہ لگایا گیا۔ شاید کسی کو معلوم نہ ہو کہ وفاقی حکومت نے ان جائیدادوں کی اربوں روپے کی نقد ادائیگی صوبوں کو کر دی تاکہ یہ غیر ملکی مالک کے نام منتقل کی جا سکیں۔ لہٰذا 3400 سے زیادہ جائیدادیں غیرملکی کمپنی کے نام منتقل ہو چکی ہیں‘ جن کی قیمت پاکستانی قوم کی جیب سے ادا کی گئی۔ اس کے باوجودکمپنی نے 800 ملین ڈالر ادا نہیںکیے۔ پتا چلا کہ 30 کے قریب ایسی جائیدادیں ہیں جو فوج کے استعمال میں ہیں جنہیں فوج نے ٹرانسفر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے کیونکہ اس سے دفاع کمپرومائز ہو سکتا ہے۔ ان 30 جائیدادوں کا بہانہ بنا کر غیر ملکی کمپنی نو برس سے 800 ملین ڈالر دبا کر بیٹھی ہوئی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اس رقم پر ایک روپیہ بھی مارک اپ نہیں مانگ رہا۔ ایران کے 400 ملین ڈالر امریکہ کے پاس تھے، یہ اب اسے واپس ملنے ہیں تو ایران نے ان پر مارک اپ مانگا ہے؛ چنانچہ اب ایران کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم ملے گی۔
اسحاق ڈار صاحب نے ابھی یورو بانڈ کے نام پر 500 ملین ڈالرکا قرضہ لیا ہے۔ دس برس بعد پاکستان 410 ملین ڈالر کا سود ادا کرے گا
جبکہ ایک غیرملکی کمپنی نے ہمارے 800 ملین ڈالر کے دبا رکھے ہیں جن پر ایک روپیہ بھی مارک اپ نہیں ملے گا۔ مجھے سمجھایا جائے، پاکستان کو نقصان کون پہنچا رہا ہے؟ وہ لوگ جو ان اثاثوں کو بیچنے کے مخالف ہیں یا وہ لوگ جو غیرملکی کمپنی سے اپنے 800 ملین ڈالر تو واپس نہ لے سکے لیکن دنیا کی تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ (یورو) لے آئے جس پر 410 ملین ڈالر کا سود ادا کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے اس لئے غیرملکی کمپنی کے ساتھ 3400 جائیدادیں ٹرانسفرکرنے کا فراڈ معاہدہ کیا کہ وہ دبئی میں رہتے اور وہیں نوکری کرتے ہیں۔ زرداری اور ڈار بھی ڈر کے مارے ہمارے یہ رقم واپس نہیں لا سکے کیونکہ ان کے بچے اور جائیدادیں بھی دبئی میں ہیں۔ ارشد شریف کے پاس ایک دستاویز ہے جس میں پی آئی اے کی جائیدادوں کے تخمینے لگائے گئے ہیں۔ کیا اس بات پر یقین کیا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد میں بلیو ایریا کے دل میں واقع پی آئی اے کا مرکزی بکنگ آفس‘ جس کی مالیت کم ازکم دس ارب روپے ہونی چاہیے، اس کی مالیت صرف پانچ کروڑ روپے دکھائی گئی ہے؟ میرے دوست ہارون الرشید نے مارگریٹ تھیچر کا حوالہ دیا ہے کہ وہ کیسے ڈٹ گئی تھیں۔ بالکل ڈٹ گئی تھیں، لیکن یاد رہے مارگریٹ تھیچر کسی فائونڈری کی مالک نہیں تھیں اور نہ ہی انہوں نے ادارے اپنے کاروباری دوستوں کو بیچے تھے۔ سب سے بڑھ کر ان کی ساکھ تھی۔ برطانوی عوام ان پر اعتماد کرتے تھے اور وہ اس اعتماد پر پوری اتری تھیں۔
وزیر اعظم پی آئی اے کے ملازمین کو ضرور دھمکیاں دیں، پرویز رشید بھی جنرل مشرف دور کا اپنا پرانا غصہ ان پر نکالیں۔ کرنی تو آپ نے اپنی مرضی ہے کہ اپنے دوست کو کیسے ایئرلائن حوالے کرنی ہے۔ اس کا نام سب جانتے ہیں، لیکن میرے اس ادنیٰ مشورے پر بھی غور کر لیں کہ پی آئی اے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کریں، لیکن گولیاں برسا کر زندگی سے نہیں!