اگرچہ دبئی میں پہلے بھی جا چکا ہوں لیکن ہر دفعہ ایک رات سے زیادہ نہ گزار سکا، لہٰذا دبئی کو اس آنکھ سے نہ دیکھ سکا جو اس بار وہاں تین دن رہ کر دیکھا۔ پہلی بار دبئی اس وقت گیا جب آصف زرداری اپنے تئیں جنرل مشرف کی سیکرٹ ایجنسیوں کے جنرلوں کے ساتھ ایک خفیہ ڈیل کے بعد رہا ہوکر پاکستان سے چلے گئے تھے۔ انہیں باورکرایا گیا تھا کہ اگر وہ لاہور میں بڑا سیاسی شو کر سکیں تو نئے انتخابات کرادیے جائیںگے۔ زرداری دبئی سے تشریف لائے اوران کے ساتھ جو حشر لاہور ایئرپورٹ پر ہوا وہ ایک اور کہانی ہے۔ اس وقت بھی کچھ صحافی دبئی گئے تھے تاکہ کوریج کی جاسکے۔ دوسری بار2011ء میں جانا ہوا، ایک رات کے لیے رکا اس لئے دبئی کو نہ دیکھ پایا۔ اب گیا تو دبئی کو پہلی دفعہ کھلی آنکھوں سے دیکھا اور یقین کریں کہ آنکھیں ابھی تک کھلی ہوئی ہیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ دبئی اس قدرترقی کر چکا ہوگا کہ اس کے سامنے یورپ اور امریکہ بھی ہیچ لگیں گے۔ جن کا بدو کہہ کر ہم مذاق اڑاتے تھے انہوں نے جو مقام حاصل کیا ہے وہ اپنی جگہ کرشمے سے کم نہیں۔ صحرا کے بیچ ایک خوبصورت شہر کھڑا کردینا کوئی مذاق نہیں!
اختر درانی لیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بڑے عرصے سے کہہ رہے تھے کہ دبئی کا چکر لگائیں۔ میں ٹھہرا سست الوجود جو سفر کرنے سے کتراتا ہے، سفر کے نام سے ہی اس کی جان نکلتی ہے۔ تاہم اس دفعہ ایسا بہانہ بن گیا کہ سفر کرنا پڑگیا۔ اختر درانی دبئی کے ایک سکول میں پروفیسر ہیں۔ ایک روایتی سرائیکی سے ملنا ہو تو اختر درانی سے مل لیں، آپ کو جنوبی پنجاب کا اندازہ ہوجائے گا۔ وہیں خالد نواز سے ملاقات ہوئی جو اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چک 88 سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے گائوں سے اتنی محبت ہے کہ اپنی گاڑی کا دبئی میں نمبر بھی 88 لے رکھا ہے۔ خالد نواز جیسے لوگ پاکستان سے افرادی قوت دبئی لے جاتے ہیں۔ دبئی
میں مختلف کمپنیاں انہیں آرڈر دیتی ہیں کہ انہیں فلاں کیٹیگری میں اتنے افراد کی ضرورت ہے اور وہ پاکستان سے اس معیار کے مطابق لوگوں کو لے کر جاتے ہیں۔ خالد نواز سے میں نے پوچھا کہ دبئی میں کس قومیت کی زیادہ طلب ہے، کس کو زیادہ نوکریاں ملتی ہیں؟ پتا چلا کہ 40 فیصد سے زیادہ ہندوستانی دبئی میں کام کرتے ہیں جبکہ پاکستانی 17فیصد ہیں جو زیادہ تر ٹیکسیاں چلاتے یا کوئی دوسرا معمولی کام کرتے ہیں۔ اگرچہ بینکوں اور دیگر اچھی کمپنیوں میں بھی پاکستانی کام کرتے ہیں لیکن بھارتی وہاں چھائے ہوئے ہیں۔ سروس سیکٹر میں فلپائنی بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ ایک دور تھا جب دبئی تعمیر ہو رہی تھی، سڑکیں بن رہی تھیں۔ اس وقت پاکستان سے مزدور جاتے تھے۔ اب دبئی کو اس طرح کے لوگوں کی ضرورت نہیں رہی، لہٰذا وہاں پاکستانیوں کی کھپت کم ہوگئی ہے۔ میں نے اختر درانی سے پوچھا، جب پاکستان نے یمن فوج بھیجنے سے انکار کیا توکیا اس کے بعد دبئی والوں کا پاکستانیوں کے ساتھ رویہ بدلا؟ کہا، ہرگز نہیں، کسی کو کچھ نہیں کہا گیا۔
دبئی واقعتاً اب یورپ اور امریکہ سے آگے نکل گیا ہے۔ وہاں اب جس طرح کی عمارتیں اور انفرا سٹرکچر ہے وہ شاید امریکہ اور یورپ میں بھی نہیں ملتا۔ صحرا میں ایک نیا جہان بنا دیا گیا ہے۔ مان لیتے ہیں، وہاں جمہوریت نہیں ہوگی، لیکن یہ بات ماننا ہوگی کہ جمہوریت کے بغیر انہوں نے جو معیار زندگی قائم کر لیا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ دبئی کے موجودہ حکمران کے بارے میں اختر درانی، خالد نواز اورعابد بشیر سبھی نے تعریفیں کیں کہ موجودہ ترقی کے پیچھے انہی کا ذہن اور ہاتھ ہے۔ دبئی کے حکمران کے نوجوان بیٹے کی موت ہوئی تو اس نے اجازت نہیں دی کہ کئی روز تک سوگ منایا جائے۔ اگلے دن سب کچھ نارمل تھا۔ یہ ضرور ہوا کہ ریڈیو پر تین دن سوگ والی موسیقی چلتی رہی۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ صحرا کے باسی اگر ایسی دنیا تخلیق کر سکتے ہیں تو سات دریائوں کی سرزمین کے لوگ ایسا کام کیوں نہ کر سکے۔ ہم نے ہر چیز میں مال بنایا، ملک نہ بنایا۔
وہاں یہ سوال ضرور پوچھا گیا کہ پاکستانی حکمران دبئی میں رہتے ہیں، جائدادیں اور بچے یہیں ہیں لیکن وہ دبئی سے متاثر کیوں نہیں ہوتے، پاکستان کو دبئی بنانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے، وہ پاکستانیوں کو اسی طرح پسماندہ رکھ کر حکومت کر سکتے ہیں، مال بٹور سکتے ہیں جو وہ بٹور رہے ہیں۔ دبئی کو بھی ان کے مال پر اعتراض نہیں ہے۔ پچھلے برس پاکستانیوں نے دبئی میں سب سے زیادہ جائدادیں خریدیں۔ پاکستان سے پیسہ باہر جا رہا ہے اور دھڑا دھڑ جارہا ہے۔ جب حکمران خود پیسہ باہر لے جا رہے ہیں تو پھر کسی دوسرے سے کوئی کیوں پوچھے گا۔
سمندر کے کنارے ایک ہوٹل کے پاس خوبصورت ساحل پر چلتے ہوئے آپ کو گوادر یاد آتا ہے، جہاں کے باسی اس وقت غربت کا شکار ہیں۔ گوادر میں اس سے بھی بہتر دنیا تخلیق ہوسکتی تھی۔ وہاں بھی اس طرح کا نظام لایا جاسکتا تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ عربوں کا اسلام خطرے میں نہیں پڑتا، وہاں ہر ایک کو آزادی ہے کہ کیاکھانا چاہتا ہے، کیا پینا چاہتا ہے یا کس کے ساتھ گھومنا چاہتا ہے۔ آپ کو دبئی میں لندن سے زیادہ گورے نظر آتے ہیں۔
اختر درانی، خالد نواز اور عابد بشیر کے ساتھ پی ایس ایل کے میچ دیکھے۔ ٹکٹ لینا ایک دردِ سر تھا۔ پاکستان میں کسی دوست کو کہا تو اس نے جاوید آفریدی سے بات کی۔ پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی کا شکریہ کہ انہوں نے دو بار میچ کے پاس فراہم کیے اور ماتھے پر شکن بھی نہ آنے دی؛ حالانکہ ان پر سب سے زیادہ دبائو تھا کہ پاس دیے جائیں۔ ایک ٹیم مالک کو چوبیس پاس ملتے ہیں، ان میں سے پانچ انہوں نے ہمیں دیے۔ میں ذاتی طور پر جاوید آفریدی کا شکر گزار ہوں۔
اگر مجھے وہاں کسی کے ساتھ فوٹو کھچوانے کی خواہش تھی تو وہ ویون رچرڈزتھے، لیکن ایسا کوئی بہانہ نہ بن سکا کہ ان سے ملاقات ہوتی۔ زیادہ کوشش میں نے بھی نہیں کی؛ تاہم ایک بحث جو خالد نواز، اختر درانی، عابد بشیر اور میرے درمیان چھڑ گئی وہ یہ تھی کہ کیا ویون رچرڈز کو پاکستان کا بیٹنگ کوچ بنانا چاہیے؟ سب خوش تھے کہ رچرڈز جیسا بڑا کھلاڑی پاکستانی کھلاڑیوں کی کوچنگ کرے گا اور شاید ہمارے کھلاڑی کچھ سیکھ لیں گے۔ اگرچہ یہ آئیڈیا بہت اچھا ہے کیونکہ رچرڈز سے بڑا کھلاڑی کہاں پیدا ہوا ہوگا، لیکن سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی کھلاڑی بھی اپنے علاوہ کسی کو بڑا کھلاڑی سمجھتے ہیں جس سے یہ سیکھ سکیں؟ ہمارے نوجوان زیادہ تر وہ ہیں جنہوں نے رچرڈز کو کھیلتے نہیں دیکھا، لہٰذا بہت کم اس کی عظمت کو سمجھتے ہوںگے۔ مان لیتے ہیں، وہ سب رچرڈز کو جانتے ہیں، تو کیا وہ اس لیجنڈ سے سیکھنے کے لیے تیار بھی ہوںگے؟ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ کئی فارن کوچز نے پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کرنے کی کوشش کی لیکن کیا ہوا؟ سب کو ہم نے ذلیل کر کے پاکستان سے نکالا۔ ہمارے کھلاڑیوں کی اکثریت انگریزی سے آشنا نہیں، لہٰذا کوئی کچھ نہ سیکھ سکا۔ فارن کوچز کوئی بھی اہم کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ جو بھی آیا وہ پاکستان کرکٹ بورڈ یا پھر کھلاڑیوں کی سازشوں کا شکار ہو کر خود چھوڑ کر چلا گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم جذباتی ہے۔ جب بھی کرکٹ میچ ہارتے ہیں، سارا غصہ کوچ پر نکالتے ہیں۔ اخبارات میں پاکستان کے پرانے کھلاڑی جو خود کوچ بننے کے خواہشمند ہوتے ہیں نیگیٹو خبریں لگواتے ہیں کہ اتنے مہنگے فارن کوچ لانے کی کیا ضرورت ہے۔ ان کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے اور میرے جیسے صحافی اس میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے، سب فارن کوچز کو ہم نے ذلیل کر کے نکالا۔
ویون رچرڈز ایک لیجنڈ ہے۔ وہ ایک کلاس کا نام ہے۔ میری نسل نے ویون رچزڈز کو ڈینس للی، عمران خان، وسیم اکرم، تھامسن، ہیڈلی اور بوتھم جیسے بڑے بائولرز کی درگت بناتے دیکھا ہے، خدا را اس پر رحم کریں، اسے پاکستان کے ان پرانے کھلاڑیوں کی سازشوں سے جو خود کوچ بننا چاہتے ہیں، بچائیں۔ انہیں میڈیا اور آج کی ٹیم کے نیم خواندہ اور مغرورکھلاڑیوں سے بھی بچائیں۔۔۔۔ مہربانی فرمائیں۔۔۔۔۔رچرڈز کو بخش دیں۔۔۔۔۔پلیز!