میں نے آج تک پارلیمانی کمیٹیوں کے بہت سے اجلاسوں میں بیٹھ کر ان کی کارروائیاں سنی ہیں لیکن بدھ کے روز جو کچھ میں نے سینیٹ کی فنانس کمیٹی میں بیٹھ کر سنا اور دیکھا ‘مجھے محسوس ہوا یہ شاید کوئی فرضی کہانی تھی ۔
ایک دن میں میری آنکھوں کے سامنے ایک سو ارب روپے کے چار سکینڈلز پیش کیے گئے۔ سب سکینڈلز کی اپنی اپنی کہانی ہے‘ لیکن ایک چیز سب میں مشترک ہے کہ اس ملک اور اس کے عوام کا ایک سو ارب روپیہ دن دہاڑے لوٹ لیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کہاں سے شروع کیا جائے۔
چلیں بنگلہ دیش سے شروع کرتے ہیں جہاں نیشنل بینک کی برانچ سے پاکستانی افسران اور بنگالیوں نے مل کر سترہ ارب روپے لوٹ لیے۔ لوٹنے کا طریقہ کار دلچسپ تھا۔ پہلے ضمانت لی گئی ۔ جائیداد گروی رکھوائی گئی۔ کئی برس گزر گئے۔ اس دوران قرضہ واپس نہ ہوا تو اس جائیداد کو ضبط کرنے کی بجائے الٹا وہ مقروض کو واپس کر دی گئی۔ یوں بینک کے سترہ ارب روپے ڈوب گئے۔ جب انکوائری شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ پاکستانی بینک افسران نے بنگالی کاروباریوں کے ساتھ مل کر بینک کے ساتھ فراڈ کیا تھا اور سترہ ارب روپے آپس میں بانٹ لیے تھے۔ ایک پاکستانی بینک افسر کے خلاف جب انکوائری شروع ہوئی تو اس افسر نے پاکستانی شہریت چھوڑی اور بنگلہ دیش کی شہریت لے لی اور اب مزے سے ڈھاکہ میں اس سترہ ارب روپے میں سے ملنے والے حصے سے اپنا کاروبار کرتا ہے۔
بنگالی افسران جو بینک کی ڈھاکہ برانچ میں کام کر رہے تھے‘ نے بھی اس سترہ ارب روپے میں اپنا حصہ لیا ۔ سب سے بڑا مذاق اس وقت ہوا جب نیب کے افسر نے اجلاس میں دعویٰ کیا کہ وہ بنگلہ دیش حکومت سے ملزمان مانگیں گے۔ بنگلہ دیشی حکومت اس وقت پاکستان کے حامیوں کو پھانسیوں پر لٹکا رہی ہے اور نیب چلا ہے بنگالی کرپٹ افسران کو ڈھاکہ سے پکڑ کر سزا دلوانے۔
جن 180سکینڈلز میں پاکستانی سیاستدانوں، فوجیوں اور بیوروکریٹس نے ملک اور قوم کو لوٹا ہے‘ ان میں سے تو نیب کسی ایک کو گرفتار نہ کر سکا لیکن بنگالی افسران کو گرفتار کر کے پاکستان لانا چاہتا ہے۔ایسے ایسے لطیفے ہوتے ہیں کہ ہنسی روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔
بنگال میںپاکستانیوں اور بنگالیوں کی مل جل کر قومی بینک کو لوٹنے کی داستان یہیں چھوڑ کر آگے چلتے ہیں۔
اسی اجلاس میں نیب نے بتایا کہ کیسے مضاربہ سکینڈلز کے ملزمان قاری احسان اور دیگر نے مل کر 33 ہزار لوگوں سے 24 ارب روپے لوٹے اور آج کل اڈیالہ جیل میں ان کے شاگرد ان کے لیے کڑاھیاں اور چرغے روسٹ کر کے لے جاتے ہیں ۔ بقول نیب کے پنڈی جیل میں قاری صاحب عیاشی فرما رہے ہیں۔ پتہ نہیں آئی جی جیل پنجاب فاروق نذیر کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا ۔ یقینا پنڈی کے جیلرز خاصے نوٹ کما رہے ہوں گے ورنہ کون روزانہ کڑاھیاں اندر جانے دیتا ہے۔
نیب نے جو خوفناک انکشاف کیے ہیں وہ سننے کے لائق ہیں ۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ایک امام مسجد کو دوران تبلیغ خیال آیا کہ اپنے تبلیغی بھائیوں سے اچھا خاصا مال بٹورا جاسکتا ہے۔ اس پر اس نے ہر تبلیغ پر کہنا شروع کر دیا کہ بینکوں میں پیسہ رکھنا حرام ہے۔ اسے پیسہ دیں تو وہ اسے اسلامی پیسہ بنا سکتا ہے۔ یوں کام شروع ہوگیا ۔ جمعہ کے اجتماع میں خطبے اور تبلیغ کے دوران اعلانات ہونا شروع ہوگئے۔ زیادہ تر لٹنے والے تبلیغی تھے۔ اب پتہ چلا ہے کہ33 ہزار تبلیغی لوگ لٹ گئے اور کُل چوبیس ارب روپے کھا لیے گئے۔ اب تک صرف ستر کروڑ روپے وصول ہوئے ہیں۔ جب نیب نے قاری احسان کے گھر پر چھاپہ مارا تو گیراج سے 45 کروڑ روپے کے نقد نوٹ برآمد ہوئے تھے۔
باقی کے 23 ارب اور تیس کروڑ روپے ہضم.... یقینا کچھ نیب کے افسران نے بھی لیے ہوں گے کیونکہ پرانے ڈی جی نیب‘ جو کرنل تھے‘ پر بڑے سنگین الزامات لگے کہ انہوں نے اس سکینڈل میں بڑال مال بنایا اور آج کل ایک پرائیویٹ کمپنی جس کی کبھی وہ
تفتیش کر رہے تھے، کے ایڈوائزر لگ کر زندگی کے مزے لے رہے ہیں۔ اس کرنل صاحب نے تو چند کروڑ روپے لے کر قاری احسان کو چھوڑ دیا تھا جبکہ بعد میں پتہ چلا کہ سکینڈل توچوبیس ارب روپے کا تھا۔ اس دوران پتہ چلا کہ ان مولویوں اور قاریوں نے مل کر مہنگے دفاتر خریدے، قیمتی گاڑیاں خریدیں، ہانگ کانگ اور ملائیشیا کے دورے کیے۔ قاری صاحب کو ایک افغانی اور ایک غیرملکی سفارت خانے میں پاکستانی ملازم ڈرائیور نے بیوقوف بنایا اور کہا کہ چلتے ہیں اور سونے اور ہیرے جواہرت کی کانیں خریدتے ہیں۔ یوں یہ اربوں روپے ایک افغانی اور ڈرائیور نے ہتھیا لیا اور قاری احسان آج کل اڈیالہ جیل میں شاگردوں کی لائی ہوئی کڑاھیاں کھارہے ہیں۔
اب تیسری کہانی سن لیں جو اس اجلاس میں سنائی گئی ۔
پاکستان کے فارن ریزوز اس وقت ساڑھے اٹھارہ ارب ڈالرز تھے۔ اچانک اسحاق ڈار نیویارک پہنچ گئے۔ اپنی دکان کھولی لی اور فرمایا انہیں یوروبانڈ چاہئیں۔ سب نے سمجھایا ‘ جناب مارکیٹ بہت مہنگی ہے۔ مت خریدیں۔ بولے‘ وزیراعظم کا حکم ہے کہ ہر صورت پاکستان کی ساکھ چیک کرنی ہے کیونکہ ہم نے معیشت اور لاء اینڈ آرڈر کو درست کر دیا ہے۔ بتایا گیا کہ دنیا کے دیگر ممالک نے لینے سے انکار کردیا ہے جس میں ترکی بھی شامل تھا۔ اسحاق ڈار نہ مانے اور انہوں نے سرمایہ کاروں سے یہ ڈیل کی کہ اگر انہیں پانچ سو ملین ڈالرز دیے جائیں تو دس برس بعد چار سو دس ملین ڈالر سود سمیت واپس کریں گے۔ سود دیا جائے گا۔ یعنی50کروڑ پر41کروڑ سود!!
دنیا آج تک حیران ہے کہ یہ کیسے ہوا۔ بھارتی کمپنی ریلائنس نے سات سو ملین ڈالرز کے بانڈز فلوٹ کیے اور اس پر 2.6فیصد مارک اپ دینے کا وعدہ کیا۔ اسحاق ڈار نے 8.25 فیصد پر یہ بانڈز خریدے۔ اجلاس میں ایک سینیٹر نے انکشاف کیا کہ ان کی اطلاع کے مطابق پاکستان سے 75 ملین ڈالرز بھیجے گئے تاکہ یہ بانڈز خریدے جا سکیں ۔ اب کون پتہ چلائے گا یہ آٹھ ارب روپے کے قریب نوٹ کس کے تھے اور کیسے پاکستان سے باہر بھیجے گئے۔ یقینا یہ کام اکیلی ایان علی کا تو نہیں ہوسکتا ۔ اس کا مطلب ہے کہ کئی ایان علی اس کام پر لگی ہوئی ہیں۔ خوبصورتی اب منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود ہنستے مسکراتے اجلاس سے نکل گئے کہ کر لو جو کرنا ہے۔ ہم نے دنیا کے مہنگے ترین بانڈز خریدنے تھے، خرید لیے۔۔ہم نے کون سے اپنی جیب سے اکتالیس ارب روپے کا سود ادا کرنا ہے۔ دس سال بعد جب وقار مسعود سیکرٹری نہیں ہوں گے کوئی اور ہوگا جو اور بانڈ خرید کر یہ قرضہ واپس کرے گا۔
ویسے یہ اہم بات ہے۔ ہمیں بیوقوف بنانے کے لیے یہ یورو بانڈز خریدنے کی کئی کہانیاں ہمیں سنائی گئی ہیں۔
مثلاًجب یہ سکینڈل سامنے آیا تو شروع میں اعتراض ہوا تو اسحاق ڈار نے ہمیں بتایا کہ دراصل یہ وزیراعظم کا حکم تھا کہ پاکستان کی ساکھ کو عالمی مارکیٹ میں چیک کیا جائے لہٰذا ان کے حکم کی تعمیل کی گئی اور یہ حکم پاکستان کو چالیس ارب روپے سود میں پڑا ۔ پھر اسحاق ڈار نے بتایا دراصل وہ پہلے یہ اعلان کر چکے تھے کہ پاکستان یوروبانڈر فلوٹ کرے گا لہٰذا جب پتہ چلا مارکیٹ بہت مہنگی ہے تو پھر فیصلہ ہوا کہ اچھا نہیں لگتا کہ اب انکار کیا جائے۔
اب بدھ کے روز اجلاس میں تیسری کہانی سنائی گئی۔
بتایا گیا کہ دراصل 2006ء میں شوکت عزیز دور میں دس سال کے لیے اس طرح یورو بانڈز لیے گئے تھے۔ اب دس سال ان یورو بانڈز کے میچور ہونے پر غیرملکی سرمایہ کاروں کو ادائیگی ہونی تھی اور پاکستان کے پاس فارن ریزوز نہیں تھے لہٰذا فیصلہ ہوا کہ دنیا کا مہنگا ترین قرضہ لے کر 2006ء کا قرضہ واپس کیا جائے۔
اب 2025ء میں کہاں سے یہ مہنگا قرضہ اترے گا‘ یہ اس وقت دیکھیں گے کیونکہ جیسے آج شوکت عزیز بیرون ملک موجیں لوٹ رہے ہیں‘ ویسے موجودہ حکمران بھی لوٹ رہے ہوں گے۔ شوکت عزیز کا لیا ہوا قرضہ بھی پاکستانیوں کی جیب سے ادا ہوا اور اب لیا گیا قرضہ بھی انہی کی جیب سے ادا ہو گا ۔
چوتھی کہانی مریم نواز شریف کے ٹویٹ میں بیان کی گئی تھی۔
جب اسحاق ڈار دنیا کی تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ لائے تو انہوں نے قوم کو مبارکباد دی تھی کہ پاکستان کے فارن ریزوز تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ اس پر انہوں نے پاکستانی قوم اور اسحاق ڈار کو بھی مبارکبا د دی تھی۔ اب کمیٹی اجلاس میں بدھ کے روز انکشاف ہوا کہ دراصل وہ پانچ سو ملین ڈالرز کا قرضہ تو ہم نے 2006ء کا قرضہ واپس کرنے کے لیے لیا تھا ۔
جب یہ پانچ سو ملین ڈالرز قرضہ تھا اور قرض اتارنے کے لیے امریکہ میں سرمایہ کاروں کو واپس کر دیا گیا تھا اور وہ پاکستان کے اسٹیٹ بینک میں آیا ہی نہیں تو پھر فارن ریزوز کیسے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے جس پر مریم نواز نے قوم اور اسحاق ڈار کو مبارکباد دی تھی؟
میرا خیال ہے آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ابھی لاہور کا انیس ارب روپے کے سکینڈل کی تفصیلات یا پھر آئی پی پی ایز کو کیسے تین سو اکتالیس ارب روپے کی چند گھنٹوں کے اندر اندر کی گئی ادائیگی کی نئی اور حیران کن داستان سامنے آئی ہے وہ پھر کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں!