پھر وہی پرانی کہانی، وہی پرانے انکشافات اور پرانے سلگتے ہوئے سوالات اور طعنے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ سوال کہ اب تک کیوں خاموش رہے؟ یعنی خاموش تھے تو خاموش رہتے، کیوں راز کھول کر رکھ دیے؟ دنیا میں کوئی راز افشا کر دے تو قیامت آ جاتی ہے، ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں۔ ہلری کلنٹن کی ای میلز کی کہانی باہر نکلی تو فوراً تحقیقات شروع کر دی گئی۔
ہم ٹائمنگ کی بحث سے باہر نہیں نکل سکے۔ ہمارے ہاں طعنے شروع ہو جاتے ہیں، سازشیں ڈھونڈی جاتی ہیں۔ میرے جیسے دانشور ایسی ایسی دور کی کوڑیاں لاتے ہیں کہ بندہ حیران ہو جاتا ہے۔ یاد پڑتا ہے، جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں جنرل مشرف دور کی اندرونی کہانی لکھی تو میرے جیسے دانشوروں اور صحافیوں نے انہیں یہ طعنے مار مار کے گھر بٹھا دیا کہ اس وقت کیوں نہیں بولے‘ جب یہ سب ہو رہا تھا۔ اس وقت ضمیر کیوں نہیں جاگا؟ ویسے جو یہ کہتے ہیںکہ ضمیر وقت پر کیوں نہیں جاگا، کیا وہ ان جرنیلوں کے نام بتا سکتے ہیں جن کے ضمیر جنرل ضیا کے مارشل لا سے پہلے جاگ گئے تھے؟ انہوں نے کمپرومائز نہ کیا، جنرل ضیا نے انہیں گھر بھیج دیا یا وہ خود ہی چلے گئے۔ انہوں نے تو وقت پر سچ بولا اور اسٹینڈ لیا، ہم نے انہیں کون سے ہار پہنا دیے یا ان کے نام درسی کتب میں شامل کر دیے تاکہ ہماری نسلوں کو پتا چلتا رہے کہ وہ کون بہادر جنرل تھے۔ یا ان ججوں کے نام بھی درسی کتب میں کب شامل کیے جنہوں نے مارشل لا کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا؟
چلیے مان لیتے ہیں مصطفیٰ کمال نے دیر سے خاموشی توڑی۔ اب توڑ دی ہے تو آپ کیا کر لیں گے؟ اور اگر پہلے خاموشی توڑتے تو آپ کیا کر لیتے؟ آپ اس وقت بھی یہی سوالات کرتے جو اب کر رہے ہیں۔ آپ چپ رہیں تو مجرموں کے ساتھی کہلاتے ہیں، بغاوت کریں تو سازشی کہلاتے ہیں۔ بتایا جائے کہ انسان کون سا راستہ چنے کہ ٹی وی پر بیٹھے ہمارے دانشور مطمئن ہو سکیں؟
صولت مرزا کا ضمیر تو وقت پر جاگا تھا۔ پھانسی چڑھتا انسان تو جھوٹ نہیں بولتا۔ اس کے انکشافات پر ہم نے کیا کر لیا؟ جس گورنر کے بارے میں صولت مرزا نے انکشافات کیے، کیسے اس نے وفاقی حکومت کو سمری بھیجی کہ اس کی سزائے موت معاف کر دی جائے۔ اس پر ہم نے کیا کیا؟ ایم کیو ایم کے جن لیڈروں کے نام لیے گئے‘ ان کا ہم نے کیا بگاڑ لیا؟ باقی چھوڑیں، کراچی کے شہریوں پر کیا اثر ہوا؟ تمام تر انکشافات کے باوجود ایم کیو ایم الیکشن جیت گئی۔ ایم کیو ایم بڑے فخر سے کہتی ہے کہ کراچی کے شہریوں نے انہیں مینڈیٹ دیا، وہ جو چاہیں کرتے پھریں۔ کیا کراچی کے شہری ایم کیو ایم کو ووٹ اچھی زندگی بسر کرنے کے لیے دیتے ہیں یا جو کچھ صولت مرزا اور اب مصطفیٰ کمال نے مجرمانہ کارروائیوں کے بارے میں بتایا، اس کے لیے دیتے ہیں؟ ان حالات کی ذمہ دار اکیلی ایم کیو ایم نہیں، اس کے ہمدرد اور ووٹر بھی ہیں۔ وہ بھی کراچی کے حالات اس نہج پر لانے کے ذمہ دار ہیں جن کی نشاندہی صولت مرزا اور مصطفی کمال نے کُھل کر کی۔ تو کیا کراچی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے؟
مصطفیٰ کمال نے جو انکشافات سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کے بارے میں کیے، ان پر ہم کیا کر لیںگے؟ مان لیتے ہیں، ان پر سب الزامات جھوٹے ہیں، تو کیا انٹیلی جنس بیورو سے پچاس کروڑ روپے نکلوانا بھی جھوٹ ہے؟ یوسف رضاگیلانی اور شعیب سڈل گواہ ہیں کہ رحمن ملک کو اس وقت کے ڈی جی آئی بی نے پچاس کروڑ روپے نقد سیکرٹ فنڈ سے ادا کیے تھے۔کیا کر لیا ہم نے؟ ابھی نئی آڈٹ رپورٹ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں پیش ہوئی ہے جس میں یہ ہوش ربا انکشافات کیے گئے ہیں کہ رحمن ملک نے سیکرٹ فنڈز سے دو کروڑ روپے خرچ کرکے سیر سپاٹے کیے۔ اپنے پرسنل سیکرٹری کو بھی اسی فنڈ سے کروڑں روپے کی ادائیگی کرائی۔ زیورات کے تحائف بھی سیکرٹ فنڈ سے راولپنڈی کے جیولر سے خریدے گئے۔ یاد رہے کہ یہ فنڈ دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے کرائسس مینجمنٹ سیل کو دیا گیا تھا۔ یہ صرف ایک کہانی ہے۔ ایسی کئی حیران کن کہانیاں رحمن ملک کے بارے میں موجود ہیں۔
اب رحمن ملک کے خلاف اتنا بڑا سکینڈل سامنے آیا ہے تو کیا کہیں سے کوئی ردعمل نظر آتا ہے؟ ہم سب کے لیے یہ باتیں اب کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مصطفی کمال کے انکشافات کے بعد سینیٹ کی کمیٹی برائے داخلہ میں رحمن ملک کو بلایا جاتا۔ سینیٹ کے ارکان انہیں فوراً کمیٹی کی چیئرمین شپ سے ہٹا دیتے کہ آپ کے خلاف سنگین الزامات ہیں۔ لیکن انہیں سینیٹرکیسے بلائیں، رحمن ملک خود اس کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ ہر جگہ ان لوگوں نے اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ رکھے ہیں۔ انہیں ہٹانا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا آسان نہیں۔
سینیٹ کی فنانس کمیٹی میں سٹیٹ بینک نے انکشاف کیا کہ آصف زرداری کے دور حکومت میں ایک کھرب روپے سے زائد بلوں کی ادائیگی آئی پی پیز کو براہ راست کی گئی۔ آئی پی پیز نے بل بھیجے، بلوں کی تصدیق یا پڑتال نہیں کی گئی، براہ راست ان کے اکائونٹس میں رقوم جمع کرا دی گئیں۔ قانون کے تحت اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کی پڑتال کے بغیر سٹیٹ بینک براہ راست ایک روپیہ بھی کسی کے اکائونٹ میں جمع نہیں کرا سکتا۔ یہ ادائیگی بھی چیک کی صورت میں ہوتی ہے جو جی پی آر جاری کرتا ہے۔ ہم چار سو اسی ارب روپے کا رونا رو رہے تھے کہ نواز شریف اور اسحاق ڈار نے پری آڈٹ کرائے بغیر آئی پی پیز کو ادائیگی کر دی۔ اب انکشاف ہوا ہے نواز شریف نے تو چار سو اسی ارب روپے کی ادائیگی کرائی، آصف زرداری نے ایک کھرب سے زائد کی براہ راست ادائیگی کرائی تھی۔ کوئی حساب کتاب نہیں، کوئی پڑتال نہیں۔ اب بولیں! جس کمیٹی کے سامنے ایک کھرب کی غیر قانونی ادائیگی کا انکشاف کیا گیا‘ اس کے چیئرمین بھی پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا ہیں۔ وہ کس کے خلاف کارروائی کریں؟ رحمن ملک کی سیکرٹ فنڈ میں لوٹ مار کی رپورٹ جس کمیٹی کو پیش کی گئی‘ اس کے چیئرمین خورشید شاہ ہیں۔ اب بولیں!
پیپلز پارٹی کے لیڈروں سے پوچھ لیں، وہ رحمن ملک، شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم حسین سمیت سب کا دفاع کریں گے۔ وہ جانتے ہیں ان سب نے لوٹ مار کی ہے اور بے تحاشا کی ہے، لیکن خوف ہے، اگر بولے تو اگلا ٹکٹ انہیں نہیں ملے گا۔ ان کے لئے اس دھرتی سے ٹکٹ اور سیاست میں رہنا زیادہ ضروری ہے۔ یہی سب کچھ ایم کیو ایم اور دیگر پارٹیوں میں نظر آتا ہے۔ اوپر کے لوگ کچھ کرتے رہیں، یہ ہر حالت میں ان کا دفاع کریں گے۔ ملک تباہ ہو جائے انہیں پروا نہیں۔ یہ ملک ایک چراگاہ ہے۔ یہاں سے لوٹ کر لوگوں نے بیرون ملک جائدادیں بنائیں۔ رحمن ملک نے خود لندن میں مجھے اپنی کہانی فخر سے سنائی تھی کہ وہ کیسے پاکستان سے افغانستان فرار ہوا۔ لندن میں ہم نے اس کا رہن سہن دیکھ رکھا ہے۔ میں نے تو وہ دن بھی دیکھا ہے جب اعتزاز احسن‘ جو کبھی ملک کے وزیر داخلہ تھے‘ ایجوائے روڈ پر رحمن ملک کے فلیٹ کے
باہر دروازہ کھلنے کا انتظارکرتے تھے‘ کیونکہ بینظیر بھٹو وہاں موجود ہوتی تھیں۔ میں نے خود اعتزاز احسن اور پیپلز پارٹی کے دوسرے لیڈروں کو رحمن ملک کے گھر کے باہرگھنٹوں انتظار کرتے دیکھا ہے۔ ان بڑے بڑے ناموں کو طویل انتظار کرتے دیکھ کر مجھے گوتم بدھ یاد آ جاتا کہ انسان کی دشمن اس کی خواہشیں ہیں۔ اپنے جیسے انسانوں پر حکمرانی کی خواہش نے ہمیں اپنی ذات، اپنے ملک، ہم وطنوں اور اپنے ضمیر کے خلاف کمپرومائز کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
مصطفیٰ کمال کے انکشافات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم ہر بات میں کیڑے نکالنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ ہم نے طے کر رکھا ہے کہ چوروں، ڈاکوئوں، قاتلوں کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے، انہیں اپنے مجرم ساتھیوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہیں بننا چاہیے۔ مجھے مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی پر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی تنقید سن کر اٹلی کی صدیوں پرانی روایت یاد آ رہی ہے جس کا نام omerta ہے۔ یہ مافیا کا کوڈ ہے جس کے تحت آپ مرتے مرتے مر جاتے ہیں لیکن اپنی تنظیم کی مجرمانہ کارروائیوں کے بارے میں زبان نہیں کھولتے۔ پولیس کو کچھ نہیں بتاتے، قانون کی مدد نہیں کرتے۔ جو خاموشی کے اس کوڈ کی خلاف ورزی کرتا ہے اسے مافیا مل کر مار دیتا ہے۔ اگر اب بھی نہیں سمجھ پائے تو پھر گاڈ فادر کے مصنف ماریو پزو کا ناول Omerta پڑھ لیں۔ بہت کچھ سمجھ آ جائے گا۔ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی مافیا کوڈ توڑنے کے مرتکب ہوئے ہیں، لہٰذا ایم کیو ایم سے لے کر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کا سیاسی مافیا اسے معاف نہیں کرے گا!
آخر صدیوں پرانی مافیا روایات اور ان کی پاسداری بھی کوئی چیز ہوتی ہے! اگر آج ان سب نے مل کر مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کو مافیا کوڈ کی خلاف ورزی کی سزا نہ دی تو یہ سب اپنے اپنے گاڈ فادرز کو کیا منہ دکھائیں گے؟