چند برس پہلے دیوان سنگھ مفتوں کی ناقابل فراموش پڑھی تو لگا شاید اس سے بہتر کتاب نہ پڑھ سکوں ۔ مجھے لگا جس نے بھی صحافت کرنی ہے اسے دیوان سنگھ کی یہ خودنوشت ضرور پڑھنی چاہیے۔ اسے میں تو صحافت کی بائیبل سمجھتا ہوں ۔ چار دفعہ پڑھ چکا ہوں، ہر دفعہ لگتا ہے کہ پہلی دفعہ پڑھ رہا ہوں۔ وسطی پنجاب کی دھرتی حافظ آباد میں جنم لینے والے اس دیوان سنگھ کی داستان بھی کمال ہے۔ میں نے اس پر ایک دو کالم لکھے تو ہندوستان سے فیس بک پر میرے دوست محمد انیس نے ان باکس کیا کہ وہ یہ شاہکار کتاب برسوں سے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہندوستان میں نہیں مل رہی، اگر میں انہیں بھجوا دوں۔ اتفاقاً دو ہفتوں بعد انہی دنوں 2013ء میں بھارت جارہا تھا ۔ دیوان سنگھ کی یہ کتاب ساتھ لے گیا اور نئی دہلی سے ہی محمد انیس کو پوسٹ کر دی ۔ علم دوست محمد انیس صاحب نے اس کے بدلے مجھے قرۃ العین حیدر کے کیے ہوئے روسی اور انگریزی ادب کے بہترین تراجم بھجوائے،جو پاکستان میں نہیں ملتے۔ میں نے پاکستان لوٹ کر بڑی مشکل سے دیوان سنگھ مفتوں کی ناقابل فراموش دوبارہ تلاش کی اور اب اسے الماری میں تالا لگا کر رکھا ہواہے، کبھی کبھار نکال کر کوئی باب پڑھ لیتا ہوں ۔ اب کی دفعہ اس سے ملتی جلتی کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی آپ بیتی ہاتھ لگ گئی۔میں نے ان کا نام تو سن رکھا تھا لیکن اب جب آپ بیتی پڑھنی شروع کی تو دیوان سنگھ مفتوں یاد آگئے۔
جوش ملیح آبادی نے اپنی آپ بیتی کا نام ''یادوں کی برأت‘‘ رکھا تھا تو کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے اپنی یادوں کا نام ''یادوں کا جشن‘‘ رکھا ۔ کنورسنگھ بیدی ساہیوال(منٹگمری) میں 1920ء میں پیدا ہوئے۔ ساہیوال کے ہائی سکول میں پڑھے۔ والد نے بعد میں انہیں ایچی سن کالج لاہور بھیجا جو اس وقت چیفس کالج تھا ۔ ایک طویل داستان ہے جسے کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ اس کتاب نے بھی مجھے اپنی گرفت میں اس طرح لے رکھا ہے جیسے کبھی ناقابل فراموش نے کیا تھا۔ بیدی کی لازوال کتاب پرانی کتابوں کی دُکان سے خریدی ۔ حالت اچھی نہ تھی لہٰذا اسے دوبارہ جلد کرایا ۔ بیدی سحر آزادی کے وقت دلی کے ایک اعلیٰ افسر تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو فسادات سے بچانے کے لیے جو کردار ادا کیا وہ کہانی بھی اہم ہے۔ تاہم سب سے اہم کتاب کا وہ باب ہے جس میں نہرو اور برصغیر کے بڑے شاعر جوش ملیح آبادی کا ٹکرائو ہوا ۔
ایک دن بیدی سحرؔ وزیراعظم نہرو کے پاس گئے اور انہیں کہا اگر آپ اجازت دیں تو وہ ایک جشن منعقد کرانا چاہتے ہیں ۔ نہرو نے کہا لیکن حکومت اس پر پیسے خرچ نہیں کرے گی۔ بیدی نے کہا پیسے لوگ خود دیں گے آپ تشریف لائیے گا ۔ ساحر ہوشیارپوری اس کمیٹی کے سیکرٹری بنے۔ سات دن کا پروگرام بنا۔ جب پروگرام بن گیا تو بیدی نہرو کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پروگرام میں ایک دن کا مشاعرہ بھی تھا ۔ ایک دن ہندی کوی سمیلن، ایک دن پنجابی کوہی دربار، ایک دن ہندوستانی کلاسیکل میوزک، ایک دن فلمی گانے۔ جب پنڈت نہرو نے پروگرام دیکھا تو بولے یہ تو شاندار ہے۔ ہندی کوی سمیلن کے پروگرام پر نظر ڈال کر بولے: آپ کی گویوں کی فہرست میں اگرچہ بھارت کے تمام اچھے اچھے کویوں کے نام موجود ہیں لیکن ان کے سننے کے لیے لوگ کہاں سے لائیں گے؟
بیدی بولے یہ ہندی میں ہوگا، اس لیے لوگ سمجھیں گے، دوسرے آپ تشریف لائیں گے تو لوگ بھی آئیں گے۔ نہرو بولے میں ضرور آئوں گا لیکن صرف آدھے گھنٹے کے لیے۔ پروگرام دیوانِ خاص میں رکھا گیا۔ افتتاح کے بعد رات نو بجے مشاعرہ تھا جس میں بھارت کے مشاہیر استاد شریک ہونے والے تھے۔ خیال تھا سات بجے افتتاحی تقریب ختم ہوجائے گی۔ پنڈت جی ساڑھے چھ بجے تشریف لائے۔ نعروں سے استقبال ہوا۔ پنڈت جی کو تقریر کی دعوت دی گئی۔ بولے جس مقام پر جنگ آزادی کے پہلے مجاہد بہادر شاہ ظفر نے ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھا تھا عین اس جگہ ہم سب اس کی تعبیر دیکھ رہے ہیں۔ یقینا بہادر شاہ ظفر کی روح منظر کو دیکھ کر خوش ہوگی۔ پنڈت جی کی تقریر کے بعد رفیع اور مکیش نے گانے سنائے۔ آخر میں جوش ملیح آبادی سے کلام سنانے کی فرمائش کی گئی۔
سورج غروب ہوچکا تھا۔ جوش طلوع جام سے فیض یاب ہوچکے تھے۔ بڑے موڈ میں مائیک پر آئے۔ نہرو نے شراب نوشی پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ جوش صاحب نے نشہ بندی کے خلاف بڑی سخت رباعیاں سنائیں بلکہ وزیراعظم پنڈت نہرو کو مخاطب کر کے سنائیں ۔ بیدی کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ لیکن بیدی اب کر بھی کیا سکتے تھے۔ خدا خدا کر کے جوش نے اپنا کلام اور نہرو کو رگڑنا ختم کیا تو نہرو جانے کے لیے اٹھے۔ بیدی کی بری حالت تھی کہ پنڈت نہرو ان کی درخواست پر تشریف لائے تھے اور پورے مجمع کے سامنے جوش صاحب نے ان کی ایسی تیسی کر دی تھی کہ شراب پر پابندی کیوں لگائی تھی۔ نہرو کو دیکھ کر جوش ملیح آبادی رباعیاں کہتے رہے۔ ؎
آتے نہیں جن کو اور دھندے ساقی
اوہام کے وہ بنتے ہیں پھندے ساقی
جس مئے کو چھڑا نہ سکا اللہ اب تک
اس مئے کو چھڑا رہے ہیں بندے ساقی
خم کو توڑیں گے یہ کھلونے دیکھو
چہرے جیسے پھٹے بچھونے دیکھو
جس کوہ سے گرچکے ہیں لنکا والے
اس کوہ پر چڑھ رہے ہیں بونے دیکھو
پروگرام ختم ہونے پر وزیراعظم نہرو تو چلے گئے لیکن بیدی کی حالت بہت خراب۔ جوش صاحب بیدی کے پاس رخصت لینے کے لیے آئے ۔ بیدی نے جوش سے کہا آپ کو میں کیا رخصت کر سکتا ہوں، البتہ آپ نے میری چھٹی کرادی۔ اس کے بعد تو میرا ملازمت میں رہنا ناممکن ہوگا۔ جوش بولے ہم نے جو محسوس کیا وہ کہہ دیا، ہم نے جو مناسب سمجھا وہ بول دیا۔ سمجھا دیا ، سنا دیا۔ ہم پر تو کوئی پابندی نہ تھی نہ ہوسکتی ہے۔ بیدی چپ، قہر درویش برجان درویش۔ اس کے بعد رات کے نوبجے مشاعرہ تھا ۔ ہندوستان کے تمام استاد موجود تھے۔ ابھی پہلا یا دوسرا شاعر پڑھ رہا تھا کہ دور سے چیف کمشنر شنکر پرشاد تیزرفتاری سے آتے ہوئے دکھائی دیے، آتے ہی فرمانے لگے، پنڈت جی کا فون آیا ہے ہم مشاعرہ سننے آرہے ہیں۔ بیدی خوش ہوگئے کہ اس کا مطلب ہے انہوں نے شام کے واقعہ سے کوئی غلط تاثر نہیں لیا ورنہ وعدہ نہ کرنے کے باوجود وہ کیوں تشریف لاتے؟
بیدی نے مائیک پر فوراً اس کا اعلان کر دیا۔ لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پنڈت جی پونے نو بجے تشریف لائے۔ مشاعرہ رات ڈھائی بجے تک چلتا رہا۔ آل انڈیا ریڈیو بھی یہ مشاعرہ نشر کر رہا تھا۔ درمیان میں ریڈیو والے بیدی کے پاس آئے اور کہا کہ ان کے پاس اور کوئی ٹرانسمشن لائن نہیں ہے۔ بیدی وزیراعظم نہرو کے پاس گئے اور بولے کہ ریڈیو مزید نشر نہیں کر سکے گا۔ نہرو بولے تو پھر کیا ہوا، مشاعرہ جاری رہنا چاہیے۔ وزیراعظم نہرو پوری رات بیٹھے شعرا کا کلام سنتے رہے۔ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد بیدی نے سب کا شکریہ ادا کیا ۔ اگلی صبح کسی نے بیدی کے گھر کے دروازے پردستک دی، دروازہ کھولا تو سامنے جوش کھڑے تھے، فرمانے لگے کنور صاحب! اس وقت شراب کے نشے میں پتہ نہیں۔ میں نے بھارتی وزیراعظم کو کیا کیا کہہ دیا۔ اب محسوس کرتا ہوں کہ مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اب کیا کیا
جائے؟بیدی بولے جو آپ کا جی چاہے کریں، میں تو اپنا بوریا بستر باندھ رہا ہوں۔ جوش صاحب کہنے لگے میری وجہ سے آپ کو نقصان نہیں ہونا چاہیے، بتائیں اس کی تلافی کیسے ہو؟ بیدی بولے بہتر تو ہوگا آپ پنڈت نہرو کے پاس جائیں اور جو گستاخی آپ سے ہوئی ہے اس کی معافی مانگیں۔جوش صاحب فرمانے لگے میں تیار ہوں۔کنور بیدی تیار ہوگئے اور آٹھ بجے جوش صاحب کے ساتھ پنڈت نہرو کی کوٹھی پر پہنچ گئے۔ دونوں معمول سے پہلے ہی نہرو کی کوٹھی پر پہنچ گئے تھے۔چپڑاسی نے پنڈت جی کو اطلاع کر دی۔ پنڈت نہرو نے اوپر ہی بلالیا۔ جوش صاحب بولے اب ہماری شامت آئی لیکن پنڈت جی نے اتنا لحاظ کیا کہ سب کے سامنے ذلیل نہیں کیا لہٰذا اوپر ہی بلا لیا ورنہ دفتر بلا کر ذلیل بھی کر سکتے تھے۔ جب بیدی اور جوش اوپر پہنچے تو پنڈت جی اپنے دفتر والے کمرے میں ایک فائل دیکھ رہے تھے اورا نہوں نے جوش اور بیدی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ دونوں کمرے میں داخل ہوکر ایک جانب کھڑے ہوگئے۔ کچھ دیر پنڈت نہرو نے سر اوپر اٹھا کر چپراسی کو آواز دی اور کہا جائو وجے لکشمی پنڈت، اندرا جی اور سب کو بلا کر لائو۔ نہرو بولے ہاں میرے سارے عملے کو بھی بلا لو۔ بیدی اور جوش کھڑے سب یہ کچھ دیکھ رہے تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ اب پنڈت نہرو اپنی بہن، بیٹی اور دیگر عملے کے سامنے انہیں ذلیل کریں گے۔ پنڈت نہرو دوبارہ فائل میں کھو گئے۔بیدی اور جوش وہیں کونے میں کھڑے اپنی قسمت کا انتظار کر رہے تھے۔ نہرو نے دونوں کو بیٹھنے تک کا نہیں کہا۔ جوش اور بیدی پر منوں پانی پڑچکا تھا۔ انہیں کچھ علم نہ تھاکہ ہندوستان کا وزیراعظم اب ان کے ساتھ کیا سلوک کرنے والا تھا۔ رات مجمع میں جوش صاحب کی طرف سے کی گئی سرعام بے عزتی کا وہ کیا بدلہ لینے والے تھے۔ کچھ تو انہوں نے ایسا سوچ رکھا تھا کہ انہیں بیٹھنے تک کا بھی نہیں کہا اور سب سے بڑھ کر اب اپنی بہن ، اور بیٹی اندرا کو بھی بلوا لیا تھا ۔ جوش اور بیدی کی یہ حالت تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ انہیں کچھ علم نہ تھا کہ آئندہ چند لمحوں بعد بھارت کا وزیراعظم ان کے ساتھ کیا سلوک کرنے والا تھا۔ (جاری)