نہرو، جوش اور بیدی پر ابھی لکھنا ہے۔ یہ وضع دار لوگوں کی داستان ہے۔ ایسے لوگ جو اب شاذ ہی ملتے ہیں۔ کہاں گئیں وہ روایات، کہاں گئے ایسے کردار! نہرو، جوش اور بیدی پر کالموں کو پسند کیا گیا خصوصاً نوجوانوں کو نہرو اور جوش کی ذات کے بارے میں جو پتا چلا وہ ان کے لیے نئی بات تھی۔ خود میرے لیے بھی نئی باتیں تھیں۔ تاہم لاہور سے میرے دوست میاں محمد خالد خوش نہ تھے۔ کہا، جوش کو گلوری فائی کر دیا ہے، وہ اتنا اچھا انسان نہیں تھا۔ وہ جوش کی زندگی کے تضادات بتانے لگے۔ میں خالد بھائی کی بہت عزت کرتا ہوں۔ بس اتنا کہا، ہر انسان میں تضادات ہوتے ہیں۔ جوش نے تو خود اپنی ذات 'یادوں کی بارات‘ میںکھول کر رکھ دی، اپنا سینہ چاک کر دیا۔ باقی بچ ہی کیا گیا۔ میں نے کہا، میرے اپنے اندر بہت تضادات ہیں۔ جوش جیسا بھی تھا لیکن کتنے ہوں گے جو وزیر اعظم نہروکے منہ پر ایسی باتیں کریں جو وہ کر جاتے تھے۔ نظام دکن جوش کی ایک نظم پر ناراض ہو گئے۔ سب نے کہا: معافی مانگ لو، لیکن جوش انکارکر کے ریاست سے بچوں سمیت نکل گئے۔ کتنے ایسے ہوں گے؟
میجر عامر کا فون تھا۔ اسلام آباد میں ان کا ڈیرہ سب سے بڑا ہے۔ دستر خوان بھی وسیع ہے۔ مہمانوں کی آمد جاری رہتی ہے۔ میجر عامر سے میری سخت بحثیں ہو چکی ہیں۔ ان کی خوبی ہے کہ تعلق خراب نہیں ہونے دیتے؛ اگرچہ میری پوری کوشش یہی ہوتی ہے۔ میجرنے کہا، یار کہاں پھنس گئے ہو۔ ملک میں طوفان بپا ہے، کچھ اس پر لکھو۔ لاہور کا سفر درپیش تھا۔ نیویارک سے مشتاق احمد جاوید آئے ہوئے تھے۔ مجیب الرحمن شامی نے ان کے لیے ایک شام بپا کر رکھی تھی۔ حکم ملا حاضر ہوں۔ طارق پیرزادہ جو اب ریٹائرڈ زندگی گزارتے ہیں، انہیں ساتھ لے لیا۔ ان سے درخواست کی کہ ماں پر لکھی اپنی تحریر سنائیں۔ طارق پیرزادہ تحریر پڑھتے رہے۔ ایک شاندار تحریر، دل کو چھو لینے والی! ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا، طارق پیرزادہ جیسا سابق بیوروکریٹ اتنی خوبصورت نثر لکھ سکتا ہے۔ میں نے تعریف کی تو شرما گئے۔
لاہور پہنچا تو شامی صاحب کے گھر محفل گرم تھی۔ پچھلی دفعہ میں نے کالم میں اس طرح کی محفل کا ذکر کیا‘ تو اگلے دن فون آیا۔ کہنے لگے، حضرت آپ کی مجھ سے کیا دشمنی تھی جو کالم لکھ کر نکال لی۔ آپ نے کالم میں ان سب کے نام لکھ دیے‘ جو مدعو تھے۔ صبح سے اب تک درجنوں دوستوں کے فون آ چکے ہیں جو اس محفل میں نہ بلائے گئے تھے۔ اب بیٹھا سب کو وضاحتیں دے رہا ہوں اور بعض کے لیے دوبارہ دعوت کا اہتمام ہو رہا ہے۔
اس بار سینیٹر طارق چوہدری خاموش تھے۔ وہ بہت کم مگر بہت اچھا بولتے ہیں، کھل کر بات کرتے ہیں۔ محفل میں حفیظ اللہ نیازی، محسن نقوی، رئوف طاہر، لیاقت بلوچ، چوہدری شفیق، ڈاکٹر امجد ثاقب، صوفی احمر بلال، اجمل جامی، وحید صاحب، حبیب اکرم، منیر احمد خان کے علاوہ نیویارک سے آئے ہوئے سیالکوٹ کے دوست عارف سونی بھی شریک تھے۔ محسن نقوی بھی خاموش رہے۔ اس نوجوان نے تیزی سے میڈیا میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وہ سرائیکی ٹی وی چینل 'روہی‘ دوبارہ شروع کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ اس چینل نے سرائیکی وسیب کی تہذیب و ثقافت کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ سرائیکی تہذیب، کلچر، ادب، شاعری اورگلوکاروں کی دکھ بھری آوازوں نے پورے پاکستان کو متاثر کیا تھا۔ پھر جہانگیر ترین‘ جنہوں نے پہلے یہ چینل شروع کیا، سیاست میں چلے گئے۔ جو پیسہ چینل پر لگا رہے تھے وہ سیاست کی نذر ہو گیا۔ گویا سرائیکی چینل تحریک انصاف کی بھینٹ چڑھ گیا۔ محسن نقوی اس کا احیا کر رہے ہیں۔ شکریہ نقوی صاحب!
شامی صاحب نے آرکیٹیکٹ امجد مختارکی جانب توجہ مبذول کرائی‘ جنہوں نے باب پاکستان کا ڈیزائن تیارکیا تھا۔ پچاس کروڑ روپے لگ چکے ہیں۔ ڈھانچہ تیار ہوا تو کام رک گیا۔ اب اخبار میں اشتہار دیا گیا ہے کہ مزید پیسہ لگے گا۔ شاید باب پاکستان پر کام اس لیے رکا کہ جنرل مشرف دور میں شروع ہوا تھا۔ شامی صاحب نے مجھ سے کہا‘ اس پر بات کریں، حکومت غلط کر رہی ہے۔ میں نے کہا‘ شامی صاحب! آپ چاہتے ہیں کہ جمہوریت پھر خطرے میں ڈال دی جائے تو ڈال دیتے ہیں۔ جب بھی حکمرانوں کے کرتوتوں سے پردہ اٹھنے لگتا ہے تو آپ جیسے دوست ہر طرف سے شور بپا کر دیتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔ شامی صاحب بولے، جو کچھ باب پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے، آپ بے شک جمہوریت کو خطرے میں ڈال دیں، اجازت ہے۔ چلیں اب شامی صاحب بھی اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ سب اچھا نہیں ہے۔ آرکیٹیکٹ امجد مختار نے جو کہانی سنائی، وہ سن کر آپ کے رونگٹے بھی کھڑے ہو جائیں گے۔ اس ملک میں جہاں اربوں ڈالر کے قرضے لیے جا رہے ہیں وہاں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے محفل میں چپ رہا جائے۔ زیادہ لوگ ہوں تو بہت سیانہ بننے کی ضرورت نہیں ہوتی؛ چنانچہ ایک کونے میں مشتاق جاوید اور طارق چودھری سے گپ شپ میں لگا رہا؛ تاہم اصرار ہوا کہ جنرل مشرف کیسے چلے گئے، حکومت سپریم کورٹ میں چپ کیوں رہی۔ میں نے چپ رہنے کی کوشش کی تو دبائو بڑھ گیا۔ کسی نے کہا‘ فوج سے کون پنگا لے سکتا ہے۔ سیاستدان یہ نہیںکر سکتے، وہ نہیں کر سکتے۔۔۔۔ مسائل ہیں۔۔۔۔ جمہوریت ابھی اوائل میں ہے۔۔۔۔ وقت دیں۔ میں نے کہا، یہ نعرہ کس نے لگایا تھا کہ ہم جنرل مشرف کا ٹرائل کرائیں گے؟ یہ کس نے کہا تھا کہ جس نے جنرل مشرف سے ہاتھ تک ملایا اسے اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیں گے؟ کیا ہم میں سے کسی نے نواز شریف یا شہباز شریف کو مشورے دیے تھے کہ وہ زرداری کی لوٹ مار کی کہانیاں عوام کو سنائیں؟ اسے لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنیکی باتیں کریں؟ کیا سوئٹزرلینڈ میں بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات ہم نے درج کرائے تھے؟ یہ سب کام انہوں
نے خود کیے اور شاید درست کیے تھے۔ اس وقت ان کے پاس جواز تھا کہ وہ کیوں جنرل مشرف کو سزا دلوانا‘ اور زرداری کو گھسیٹنا چاہتے تھے۔ اب وہ جنرل مشرف کے درجن سے زائد وزیروں کو کابینہ میں لے کر بیٹھے ہیں، آدھی سے زیادہ پارلیمنٹ وہی ہے‘ جس نے جنرل مشرف کو وردی کے ساتھ ووٹ دیا تھا۔ اس پر وہ کہتے ہیں‘ مجھے میرا ماضی مت یاد دلائو، مجبوریاں ہوتی ہیں۔ تو کیا نواز شریف صاحب کو پتا نہیں تھا کیا مجبوریاں ہو سکتی ہیں۔ وہ تیس برس سے زیادہ عرصے سے سیاست کر رہے ہیں۔ وہ سب سمجھتے ہیں۔ سیاستدان بہت سمجھدار ہیں۔ اقتدار سے باہر ہوں تو اصول پرست، جمہوریت پسند، نہ جھکنے والے، نہ بکنے والے۔ ماضی کے کرتوتوں پر معافی مانگ لیتے ہیں۔ لوگوں اور میڈیا کو بتاتے ہیں کہ اقتدار میں آکر یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے۔ اقتدار میں آتے ہیں اور عوام ان سے کہتے ہیں کہ وعدے کے مطابق کرو تو فرماتے ہیں آپ زمینی حقائق دیکھیں۔ دیکھیں ناں، فوج سے کون پنگا لے۔ کیا نواز شریف کو علم نہ تھا، بغاوت کے مقدمے کا انجام کیا ہو گا؟ نواز شریف یہ مقدمہ جیت سکتے تھے اگر وہ مقدمے میں زاہد حامد، خسرو بختیار، ماروی میمن، امیر مقام، سکندر بوسن، ریاض پیرزادہ، شجاعت عظیم، ہارون اختر کے علاوہ پارلیمنٹ کے نصف سے زیادہ ان ممبران کے نام بھی ڈال دیتے جو اس وقت نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ یہی لیڈر باوردی جنرل مشرف کو ووٹ دیتے رہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جنرل مشرف کے وزیر تو بہت اچھے تھے جو اس کے ایمرجنسی آرڈر ڈرافٹ کرتے تھے، اس کے ایم این ایز بھی اچھے تھے جو اسے وردی کے ساتھ ووٹ دیتے تھے، لیکن خود جنرل مشرف بُرے ہیں، لہٰذا انہیں لٹکا دو۔ یہ اتنا بڑا تضاد ہے جس کو دور کیے بغیر جنرل مشرف کا ٹرائل ممکن نہیں تھا۔
نواز شریف کو معلوم تھا یہ کام وہ نہیں کر سکیںگے۔ ان کے اندر بدلہ لینے کی شدید خواہش تھی، لیکن ذاتی انتقام لینے کے لئے جو لوازمات درکار تھے وہ ان کے پاس نہیں تھے۔ میں نے کہا، آپ مہربانی فرمائیں، انہیں معصوم بنانے کی کوشش نہ کریں کہ کچھ زمینی حقائق ہوتے ہیں۔ اسی شہباز شریف اور چوہدری نثار نے جنرل کیانی کے ساتھ رات کے اندھیرے میں بارہ خفیہ ملاقاتیں کی تھیں‘ حالانکہ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے کہ اپوزیشن کے رہنما کسی سرونگ جنرل سے نہیں ملیں گے۔ پھر یہ سب ملتے رہے۔ نواز شریف سے ایک بار پوچھا گیا تو کہا: واقعی، ان کا بھائی اور اپوزیشن لیڈر جنرل کیانی سے خفیہ ملتے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ نواز شریف کو علم نہ ہو؟ دونوںگڈ کاپ بیڈ کاپ کھیلتے رہے۔ اگر نواز شریف کو علم نہ تھا کہ ان کا بھائی جنرل کیانی سے خفیہ ملتا ہے تو اسے برطرف کر دیتے‘ اور اگر پارٹی پر ان کی گرفت کمزور ہو گئی تھی تو خود استعفیٰ دے دیتے، کہتے جناب پارٹی کو تو چھوڑیں میرا اپنا بھائی میری نہیں مانتا۔ میں نے کہا: حضور، یہ سب بچے نہیں ہیں۔ ہم میڈیا کے لوگوں کو کھلاتے رہتے ہیں۔ میرے جیسے دیہاتی خوش ہو جاتے ہیں کہ وزیر اعظم نے مجھ سے مشورہ مانگا تھا، ایک وزیر اعلیٰ نے بھی مجھے مشورے کے قابل سمجھا۔ جناب یہ لوگ کرتے وہی ہیں جس کا منصوبہ صبح ناشتے کی میز پر بنتا ہے۔۔۔۔ آج کس نے بیڈ اور کس نے گڈ کاپ کھیلنا ہے۔ ہم بیگانے کی شادی میں عبداللہ کی طرح جھومریں مار مار کر دیوانے ہوئے جاتے ہیں اور ان سے اپنے ذاتی تعلقات قائم رکھنے کے لیے قوم کو زمینی حقائق سمجھانے پر لگے رہتے ہیں۔ یہ سب سمجھتے ہیں، سب جانتے ہیں۔ اگر یہ جنرل مشرف کا ٹرائل چاہتے تو گڈ گورننس رکھتے۔ اربوں ڈالر کے قرضے نہ لیتے۔ مشرف کے مقدمات میں وزیروں کے نام دیتے، مشرف کے ان ایم این ایز سے ووٹ نہ لیتے جنہوں نے اسے وردی کے ساتھ ووٹ دیا تھا۔ یہ سب کچھ ممکن تھا لیکن اس کے لیے قربانی دینی پڑتی تھی۔ یہ قربانی نہیں دیتے لیکن میرے جیسے طبلچیوںکو اس کام پر لگا دیتے ہیں کہ قوم کو سمجھائیں، زمینی حقائق کیا ہوتے ہیں اور کیوں ایک جنرل پر آرٹیکل سکس پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔
گڈ کاپ اور بیڈ کاپ پر لیاقت بلوچ نے عبدالستار نیازی کا نواز شریف اور شہباز شریف کے بارے میں جو واقعہ سنایا وہ کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں جسے سن کر شامی صاحب کے ڈرائنگ روم میں بے ساختہ طویل قہقہہ بلند ہوا تھا!