طے یہ ہوا تھا کہ ہر پچیس میل بعد گاڑی رکے گی تاکہ قائداعظم تھوڑا آرام کر سکیں۔ تاہم گاڑی چلتی رہی جس سے پتہ چلتاتھا طبیعت زیادہ خراب نہیں تھی۔ گاڑی ایک ریسٹ ہائوس میں رکی۔ وہاں درجن سے زائد لوگ کھڑے تھے۔ تاہم گاڑی رکنے کے بعد چل پڑی۔ کرنل حیران ہوا کیونکہ یہ قائد کی چائے کا وقت تھا ۔ قائد کی طبیعت کا اندازہ کرتے ہوئے کرنل نے سوچا شاید اس لیے وہاں چائے نہیں پی کہ انہیں ایک درجن لوگ چائے پیتے دیکھ رہے ہوتے۔ تاہم قائد نے یہ بھی مناسب نہیں سمجھا کہ ان کا سٹاف ان کو چائے پلانے کے لیے ان لوگوں کو وہاں سے ہٹا دے اور لوگوں کے جذبات مجروح ہوں۔ اس لیے بہتر سمجھا گیا کہ وہ سفر کرتے رہیں۔
آخر قائد شام سے پہلے کوئٹہ پہنچ گئے۔ قائد نے سفر کی تکلیف جھیل لی تھی۔ قائد کی طبیعت بھی اچھی لگ رہی تھی۔ قائد کو اسٹریچر سے ان کے بیڈ روم لے جایا گیا۔
اگلی صبح پاکستان کی آزادی کا پہلا سال تھا۔ کرنل اور دیگر قائد سے ملنے گئے۔ وہ تازہ دم لگ رہے تھے۔ کرنل نے قائد کو بتایا کہ ان کا زیارت سے کوئٹہ آنے کا فیصلہ درست تھا ورنہ ان کی طبیعت مزید بگڑ سکتی تھی ۔ قائد مسکرائے اور بولے، آپ نے درست فیصلہ کیا ۔ میں بھی زیارت میں ٹریپ ہو کر رہ گیا تھا۔ قائد کی بات درست تھی۔ وہ ایک اچھے پرفضا مقام پر آرام کرنے گئے تھے لیکن بیمار ہوگئے۔
جب کرنل واپس آنے لگے تو قائد اعظم نے فرمایا،اب آپ جائو اور آزادی منائو۔ کرنل نے بڑے دنوں بعد سکون کی سانس لی کیونکہ ایک بہتر سالہ انسان جسے پھیپھڑوں کا مرض ہو، پائوں سوج رہا ہو اور وہ پچاسی سو فیٹ کی بلندی پر رہ رہا ہو، اس کا خیال رکھنا بہت مشکل کام تھا ۔ کرنل کو یوں لگتا جیسے وہ آتش فشاں پر بیٹھا ہو۔ کسی وقت بھی کچھ ہوسکتا تھا۔ اب کوئٹہ پہنچ کر کرنل اور ڈاکٹر ریاض علی شاہ کا خیال تھا کہ بہت جلد قائد کو کراچی لے جانا پڑے گا۔
ایکسرے رزلٹ بہت اچھا آیا تھا ۔ جب شام کو قائد کو بتایا گیا کہ ان کی حالت پہلے سے چالیس فیصد بہتر تھی تو وہ فوراً بولے، لیکن سو فیصد کب ہوگی؟
یہ اب مشکل سوال تھا کیونکہ کرنل اور ڈاکٹر شاہ کو علم تھا کہ اب ان کا سو فیصد علاج نہیں ہوسکتا تھا ۔ پہلے پتہ چل جاتا تو بیماری کو قابو میں رکھا جاسکتا تھا اور وہ مزید چند سال زندہ رہ سکتے تھے لیکن پھر بھی وہ سو فیصد تندرست نہ ہوتے اور زیادہ تر وقت بستر پر ہی گزارتے؛تاہم ان کا دل رکھنے کے لیے قائد کو بتایا گیا کہ ان کی جس طرح حالت بہتر ہورہی تھی خدا سے امید تھی کہ وہ چند ماہ میں تندرست ہوجائیں گے۔ کرنل کو پتہ تھا کہ وہ قائد سے جھوٹ بول رہے تھے، لیکن کرنل کو بھی امید تھی کہ شاید کوئی معجزہ ہوجائے۔
جب کرنل الٰہی بخش زیارت گئے تھے تو انہوں نے قائد کے بستر کے قریب فائلوں کا انبار دیکھا تھا اور انہیں کام کرنے سے منع کیا تھا۔ تاہم اب دس دن بعد جب ان کی طبیعت بہتر تھی تو انہیں ذہنی طور پر مصروف رکھنے اور بوریت سے بچانے کے لیے کچھ سوچنا پڑے گا کیونکہ وہ ذہین انسان تھے اور ساری عمر مسلسل کام کیا تھا۔ بوریت ان کے لیے اچھی چیز نہ تھی۔ اس لیے کرنل نے کہا کہ وہ تمام معاملات انہیں بتائے جائیں جو ضروری نوعیت کے ہوں اور وہ اخبار وغیرہ بھی پڑھا کریں ۔ تاہم کوئی پریشانی والی چیز ان تک نہ پہنچے۔ اب کوئٹہ پہنچ کر قائد نے روزانہ ایک گھنٹہ کام شروع کردیا تھا ۔ تاہم ملاقاتیوں کوابھی بھی اجازت نہ تھی۔ اگرچہ چند لوگوں کو اجازت دی گئی تھی جن میں اصفہانی، لیاقت علی خان اور غضفرعلی خان شامل تھے۔ محمد علی نے دوبار قائد سے ملاقات کی۔ دوسری ملاقات کے موقع پر اگست کے تیسرے ہفتے اس نے کرنل کو قائد کی طبیعت میں بڑی تبدیلی کی نشاندہی کی۔ زیارت میں قائد سے ایک لفظ نہیں بولا جاتا تھا اور ان کی سانس اکھڑ جاتی تھی لیکن اب کوئٹہ میں ان کی آواز بہت بہتر ہوگئی تھی۔ پرانے قائداعظم لوٹ آئے تھے۔ چند روز بعد غلام محمد نے بھی کرنل کو بتایا کہ افواہوں کے برعکس قائد کی طبیعت تو بہت بہتر تھی۔
ایک دن فاطمہ جناح نے کرنل کو بتایا کہ قائداعظم سوجی کا حلوہ کھانا چاہتے ہیں۔ کرنل کچھ ہچکچاہٹ کا شکار ہوگئے لیکن کیونکہ قائد کھانا چاہتے تھے لہٰذا تھوڑا سا کھانے کی اجازت دے دی لیکن کہا کہ اس میں مکھن استعمال کیا جائے۔ فاطمہ نے بعد میں کرنل کو بتایا کہ ان کے بھائی نے سوجی کا حلوہ پوریوں کے ساتھ انجوائے کیا تھا اور پوچھا تھا کہ آیا وہ مزید بھی کھا سکتے تھے۔ کرنل نے بتایا کہ حلوہ کی حد تک تو ٹھیک تھا لیکن پوری کو وہ ہضم نہیں کر سکیں گے۔ بعد میں کرنل نے یہ بات قائد کو بھی بتائی تو وہ بولے کہ ڈاکٹر آپ نہیں سمجھ رہے میں کون سی پوری کی بات کر رہا ہوں۔
وہ ایسی نہیں ہیں جو آپ بازار میں دیکھتے ہو۔جن کی بات میں کر رہاہوں وہ بہت لائٹ ہوتی ہیں۔ قائد نے اس پر بس نہیں کی بلکہ کرنل کو بتانے لگے، ایسی پوری کیسے بنتی ہے۔ کرنل سمجھ گیا کہ قائد کو حلوہ پوری کتنا پسند تھا ۔ ایک لمحے کے لیے تو کرنل کا دل بھی پسیج گیا کہ اجازت دے دیں ؛تاہم کرنل نے اپنے اوپر قابو پایا اور کہا کہ پھر کسی وقت ۔
قائد اعظم چپ رہے۔ کوئی جواب نہیں دیا۔ تاہم حلوہ کے بارے میں قائد نے بتایا کہ وہ مسز اے آر خان نے پکایا تھا ۔
شام کو قائد سے ملنے گئے تو فاطمہ نے بتایا، انہوں نے جی بھر کر حلوہ کھایا تھا۔ کرنل پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ پوری بھی حلوہ کے ساتھ کھائی تھی؟ جواب میں فاطمہ جناح مسکرائیں جس سے کرنل کو اندازہ ہوا قائداعظم حلوہ کے ساتھ پوری کھائے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔
جب کرنل ان کے کمرے میں گیا تو قائد کو غیرمعمولی طور پر خوش اور مسکراتے ہوئے دیکھا ۔ کرنل نے پوچھا، سر پھر حلوہ کیسا رہا؟ انجوائے کیا؟
پوچھا، سر آپ نے پوری بھی کھائی تھی؟ قائد مسکرائے اور بولے: جی،ایک کھائی تھی۔
اگست کے تیسرے ہفتے کرنل اور دیگر ڈاکٹرز کی کوشش تھی کہ اب انہیں قدموں پر کھڑا کیا جائے۔ ساٹھ برس سے اوپر کا مریض اگر بستر میں رہے تو اس کی طبیعت درست ہونے کی بجائے بگڑنے لگتی ہے۔ اس لیے طے ہوا انہیں روزانہ چند قدم چلایا جائے۔ قائد اگلی صبح کے لیے تیار ہوگئے کہ آٹھ بجے یہ کوشش کریں گے۔
اس رات کرنل اچھی طرح نہ سو سکا کیونکہ ان کی فیملی کوئٹہ آچکی تھی اور ان کے بیٹے کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے وہ قائد کے پاس پینتیس منٹ لیٹ پہنچے۔ کرنل کو خیال نہ تھا کہ قائداس پر ناراض ہوں گے کیونکہ اکثر انہیں بھی قائد کا معائنہ کرنے کے لیے کچھ انتظار کرنا پڑتا تھا اور وہ اس بات کا نوٹس نہ لیتے کہ ہم وقت پر پہنچے تھے یا لیٹ تھے۔ تاہم اس صبح جب ان کا معائنہ ہوچکا اور ان سے کرنل نے پوچھا کہ وہ واک کے لیے تیار تھے تو قائد اعظم نے کہا لیکن ڈاکٹر میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ آٹھ بجے پہنچ جائیں۔ میں اپنے ڈاکٹر سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ وقت کی پابندی کرے۔
کرنل الٰہی بخش کو ایک جھٹکا لگا کہ قائد نے انہیں ڈانٹ دیا تھا ۔ کرنل نے فوراً معذرت کی اور بتایا کہ ان کے بیٹے کی رات طبیعت خراب تھی؛ تاہم کرنل بولے: ان کی ڈانٹ ڈپٹ اچھی بات تھی کیونکہ اس سے پتہ چلتا تھا کہ پرانے قائد لوٹ آئے تھے اور اب ان کی طبیعت ٹھیک تھی۔ اس پر قائد اعظم مسکرائے لیکن بولے کچھ نہیں۔
کرنل نے ان سے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ وقت کی پابندی کریں گے۔ تاہم اس وقت طے ہوا کہ اب لیٹ ہوگیا تھا لہٰذا شام کو واک کی کوشش کرائے جائے گی۔
باہر نکلے تو فاطمہ جناح نے پوچھا، کیا ہوا تھا ؟ بتایا کہ آج آدھا گھنٹہ لیٹ ہوگئے تھے۔ فاطمہ بولیں یہ تو ہے۔ ان کے بھائی وقت کی سختی سے پابندی کرتے ہیں اور وہ ساری عمر وقت کی پابندی کرتے رہے ہیں۔
شام کو واک کے لیے اٹھانے سے پہلے نبض چیک کی تو رفتار 72فی سکینڈ تھی۔ تھوڑی مدد سے قائد کھڑے ہوئے اور چھ قدم چل کر اپنی کرسی تک گئے۔ ڈاکٹر شاہ ان کے دائیں اور کرنل بائیں جانب تھے اور ان کے بازو پکڑے ہوئے تھے۔ کرسی تک پہنچ کر وہ بیٹھ گئے اور ان کی نبض دوبارہ چیک کی۔ نبض کی رفتار نوے تک پہنچ گئی تھی۔ ان کا سانس بھی تیز ہوگیا تھا۔
اگلے دن وہ دس قدم چلے اور اس سے اگلے دن بارہ قدم؛تاہم ان کا سانس چڑھنا جاری رہا۔ ڈاکٹر کا خیال تھا کہ سانس کا مسئلہ کراچی پہنچ کر حل ہوسکتا تھا جہاں آکسیجن کا وہ مسئلہ نہ تھا جو اونچائی پر واقع کوئٹہ میں تھا۔ قائد کو بتایا گیا کہ جلد انہیں کراچی لے جانا پڑے گا ۔
کرنل کی بات سن کر قائد بولے۔ڈاکٹر اتنی جلدی نہ کرو۔مجھے تھکائو مت۔میں بھی اٹھ کر واک کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے اندر ابھی وہ طاقت نہیں ہے۔ یہ مت سوچو کہ میں بستر سے نہیں نکلنا چاہتا۔ میرے ساتھ وہ حربہ مت کرو جو ایک ڈاکٹر نے ایک ایسی بہانے خور خاتون کے ساتھ کیا تھا جو بار بار یہی کہتی رہتی تھی وہ نہیں چل سکتی۔حالانکہ وہ تندرست ہوچکی تھی۔
کرنل الٰہی بخش اور ڈاکٹر شاہ کو تجسس ہوا کہ وہ کون سا ایسا واقعہ ہے۔
قائد اعظم نے جونہی اس بہانے خور بیمار خاتون اور اس کے ڈاکٹر کا مزاح سے بھرپور وہ قصہ سنایا تو کمرے میں سب کے قہقہے گونج اٹھے...(جاری)