قائد اعظم کے آخری دنوںکی داستان جاری ہے لیکن درمیان میں ایران پاکستان تعلقات اچانک اس نہج پر پہنچ گئے کہ سب کچھ چھوڑ کر دل چاہا اس پر لکھا جائے۔ پڑھنا شروع کیا تو حیرت ہوئی کہ اچانک پرانے دوست دشمن کیسے بن جاتے ہیں۔
کتنے لوگوں کو یاد ہو گا کہ ایران پہلا ملک تھا‘ جس نے پاکستان کو تسلیم کیا۔ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی دنیا کے پہلے لیڈر تھے‘ جنہوں نے 18 مئی 1950ء کو پاکستان کا سرکاری دورہ کیا، دونوں ملکوںکے درمیان تعاون اور دوستی کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ شاید ہمیں یاد نہ ہو کہ پاکستان کا قومی ترانہ اس وقت راتوں رات لکھوایا اور کمپوز کرایا گیا جب شاہ ایران نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔ لفظ 'کا‘ کے سوا پورا ترانہ فارسی میں ہے۔ آج اسی ایران کی سرزمین مبینہ طور پر پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔
پاکستان کی آزادی کے بعد سفارتی خط و کتابت کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ اس دور میں پاکستان زیادہ تر رہمنائی ایران ہی سے لیتا تھا۔ 13ستمبر 1947ء کو ایران سے درخواست کی گئی کہ اپنے آئین اور قانون کی کاپی فراہم کرے۔ ایرانی آئین کی کاپی اسے ایک ماڈل سمجھتے ہوئے مانگی گئی۔ پاکستان ایران تعلقات اس وقت زیادہ بہتر ہوئے جب سکندرا مرزا حکمران بنے۔ وہ بنگال کے ایک فیوڈل خاندان سے تھے اور ان کے ایران کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات تھے۔ سکندر مرزا شیعہ تھے، لہٰذا ایران پاکستان کے زیادہ قریب آیا؛ تاہم ان دنوں شیعہ سنی تقسیم اتنی نہیں تھی جتنی ہمارے ہاں آج نظر آتی ہے۔
سکندر مرزا کے ایران کے ساتھ اس وقت ذاتی تعلقات مزید استوار ہو گئے جب انہوں نے دوسری شادی ایرانی خاتون ناہید سے کی۔ ناہید ایک ایرانی دفاعی اتاشی کی بیوی تھیں‘ جو کراچی میں تعینات تھا۔ سکندر مرزا کی ناہید سے ملاقات ہوئی تو دونوں ایک دوسرے کے عاشق ہو گئے۔ ناہید نے پہلے خاوند سے طلاق کے بعد دو برس بعد 1954ء میں سکندر مرزا سے شادی کر لی۔ ناہید ایران کے مشہور سیاستدان اور پرانے رکن پارلیمنٹ تیمور کلائی کی بیٹی تھیں۔ ناہید مرزا کی ایک اور کزن نصرت اصفہانی نے بعد میں ذوالفقار علی بھٹو سے شادی کی۔ دونوں خوبصورت کزنز ایران کی اعلیٰ سوسائٹی اور تجارتی خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں، جو بعد میں پاکستانی معاشرے میں اہم مقام حاصل کر گئے۔ نصرت اصفہانی کے والدین کرد ایرانی النسل تھے۔ انہوں نے ایران سے بمبئی ہجرت کی۔ نصرت 23 مارچ 1929ء کو بمبئی میں پیدا ہوئیں۔ ان کا بچپن بمبئی میں شیعہ خاندانوں کے بچوں کے ساتھ گزرا، جو وہاں کاروبار کرتے تھے۔ ان میں شیرازی، نمازئی، شوستری، یازید اور اصفہانی شامل تھے۔ تقسیم کے وقت ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے تو نصرت اصفہانی کے والد انہی فسادات میں اپنے ایک دوست کی اچانک موت سے افسردہ ہو کر کراچی آ گئے۔ نصرت کے والدکی بمبئی میں سوپ فیکڑی تھی، کاروبار خوب جما ہوا تھا۔ کراچی پہنچ کر بھی اصفہانی کراچی اور پاکستان کے اہم خاندان بن کر ابھرے۔
میں نے یہ کالم لکھنے کے لیے کچھ کتابوں کا مطالعہ کیا تو احساس ہوا کہ ایران ہندوستان کے تعلقات بہت قدیم ہیں۔ محمد شاہ رضا پہلوی کا Peacock تخت بھی دراصل ہندوستان سے لُوٹ کر ایران لے جایا گیا تھا۔ 1739ء میں ایرانی نادر شاہ نے دلی کو تباہ و برباد کر دیا‘ اور مغلوں کے خزانے لوٹ کر لے گیا، جس میں یہ تخت اور کوہ نور ہیرا بھی شامل تھے۔ مغل حکمران محمد شاہ کی شکست پر ایرانی آج بھی فخر کرتے ہیں، جبکہ ہندوستان کی نفسیات میں یہ شکست ایسے داخل ہوئی کہ وہ آج تک اسے اپنی بدترین توہین سمجھتے ہیں۔ رضا پہلوی کے اقتدار سے دو سو سال قبل بھی ایران، انڈیا کے ساتھ معاشی یونین کا خواب دیکھا کرتا تھا۔ نادر شاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے زبردستی اپنے بیٹے کی شادی شکست خوردہ حکمران محمد شاہ کی بیٹی سے کی تھی جو دراصل اس معاہدے کا حصہ تھی جو نادر شاہ نے مغل انڈیا پر مسلط کیا تھا اور اس خواب کی طرف ایک قدم تھا جو ایران، انڈیا کے ساتھ معاشی یونین بنانے کے بارے میں دیکھتا تھا؛ تاہم نادر شاہ کے دلی پر کیے گئے ظلم و ستم نے ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوئوںکو بہت بددل کر دیا۔ نادر شاہ واپس لوٹ گیا تو معاشی اتحادکا خواب بھی دھرا رہ گیا۔ وہ دروازہ جہاں نادر شاہ کے فوجیوں نے دلی کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی داستان رقم کی، اسے آج بھی خونی دروازہ کہا جاتا ہے اور ہندوستان میں نادر شاہ کا نام قاتل، خونی اور بربریت کے علمبردارکے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اگرچہ ایرانی تلواروں سے ہندوستانیوں کو ہمیشہ گلہ رہا لیکن پھر بھی دونوں کے مابین تعلقات فروغ پذیر رہے۔
مورخ Juan Cole لکھتا ہے کہ ایک دور وہ بھی آیا کہ ہندوستان میں ایران سے سات گنا زیادہ لوگ فارسی پڑھنے والے پائے جاتے تھے۔ مغلوں نے فارسی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا ہوا تھا۔ انگریزوں کے آنے کے بعد فارسی کا زوال شروع ہوا۔ ایک اور پہلو بڑا دلچسپ ہے، ایرانی مہاجروں نے ہندوستان کی سیاست اور معیشت میں اہم کردار ادا کیا۔ پچھلی پانچ صدیوں میں ایران سے لوگ ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوتے رہے۔ کچھ ایرانی مہاجروں کو اگر ہندوستان میں معاشی خوشحالی درکار تھی تو بعض کو مذہبی طور پر ہندوستان زیادہ آزاد ملک لگتا تھا، جہاں وہ اپنے مذہب یا فقہ پر عمل کر سکتے تھے۔
سولہویں صدی کے شروع میں جب ایران میں صفوی خاندان حکمران بنا تو وہاں شیعہ اسلام نافذ کیا‘ جس پر بہت سے ایرانی سنی ہندوستان چلے آئے؛ تاہم اس دور میں آنے والے تمام ایرانی سنی نہیں تھے۔ ان میں آغا خان بھی تھے‘ جو اسماعیلیوں کے روحانی پیشوا تھے۔ وہ 1843ء میں ایران کے ایک حکمران کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد ہندوستان آ گئے تھے۔ بعد میں انہی کے پوتے سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم 1908ء میں مسلم لیگ کے بانی رکن بنے اور تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ سولہویں اور سترہویں صدی
تک ایران سے ہجرت کرکے آنے والے ایرانیوںکو دربار میں اکثر ایڈوائزر (مشیر) کا عہدہ ملتا تھا۔ دربار میں اہم عہدوں پر فائز ایرانی شیعوں نے اس خطے میں مقامی حکمرانوںکو شیعہ مسلک کی طرف مائل کیا‘ اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ بنگال سے لے کر کشمیر اور پنجاب تک کئی چھوٹے نواب اور جاگیرداروں کو شیعہ مسلک کی طرف لایا گیا اور بعد میں ان کے مزارعوں کو بھی شیعہ اسلام کی ترغیب دی گئی۔ سندھ کے بڑے جاگیردار خاندان‘ جنہوں نے بعد میں پاکستان پر حکومت کی‘ ان میں آصف علی زرداری اور بینظیر بھٹو شامل تھے۔ شیعہ مسلک کی طرف رجحان بڑھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھارت میں دو کروڑ چوبیس لاکھ جبکہ پاکستان میں تین کروڑ پچاس لاکھ شیعہ آبادی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے بعد زیادہ شیعہ صرف ایران میں ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں شیعوں کی ہندوستان اور پاکستان میں موجودگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران اور ہندوستان صدیوں سے کس قدر ایک دوسرے کے قریب رہے اور کیسے ایرانی تجارت، تعلیم، فلسفہ اور صوفیانہ رنگ کا ہندوستان پر اثر پڑا۔
1979ء میں ایران میں انقلاب آیا تو نئے حکمرانوں نے یہ پالیسی بدلی۔ ہندوستان اور پاکستان میں موجود شیعوںکی وجہ سے نئی سیاسی دلچسپی پیدا ہوئی تاکہ ایران اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا دائرہ بڑھائے۔ رضا شاہ پہلوی نے پاکستان کے ساتھ کچھ اور نوعیت کے تعلقات رکھے تھے لیکن انقلاب کے بعد ایران کی طرف سے پاکستان میں سیاسی کردار اہمیت اختیار کرتا گیا۔ ویسے 1979ء تک رضا شاہ کے دور میں یہ کردار ایک بڑے بھائی کا رہا‘ جس نے ہر مشکل میں پاکستان کی مدد کی۔ رضا شاہ کو پاکستان کا اصلی دوست کہا جا سکتا ہے جس نے ایران پر 1941ء سے 1979ء تک حکومت کی۔ شاہ ایران کا ایک مضبوط پاکستان میں یہ مفاد تھا کہ اس طرح وہ روس کے جنوبی ایشیا میں اثر و رسوخ کو قابو میں رکھے گا۔ اس لیے پاکستان کی بقا کے لیے شاہ ایران کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھا‘ لہٰذا جب بھی پاکستان مسائل میں گھرا، شاہ ایران مدد کو دوڑا؛ تاہم شاہ ایران اپنے اقتدار کے آخری عشرے میں پاکستان سے مایوس ہونا شروع ہو گیا تھا۔1971ء میں پاکستان کو بھارت سے شکست ہوئی تو شاہ ایران کو شدید مایوسی ہوئی۔ شاہ پر یہ سوچ کر مایوسی کے دورے پڑتے کہ شاید پاکستان زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکے۔
ایک نئی کتاب
Iran and Pakistan: Security, Diplomacy and American Influence میں Alex Vantanka لکھتا ہے کہ رضا شاہ پاکستان کے بارے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ ایک کمزور دوست‘ جس سے آپ مدد کی توقع رکھے بیٹھے ہوتے ہیں، وہ الٹا آپ پر بوجھ بن جاتا ہے۔ برطانیہ بھی شاہ کی سوچ سے متفق تھا؛ تاہم شاہ ایران نے مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو بچانے کی کوششیں شروع کر دیں اور پاکستان کو ایران کی فارن پالیسی کا اہم ستون بنایا تاکہ یہ ایک دفعہ پھر نہ ٹوٹ جائے۔ الیکس لکھتا ہے کہ 1973ء میں بلیئر ہائوس واشنگٹن میں شاہ ایران اور ہنری کسنجر کی ملاقات ہوئی‘ جس میں شاہ نے واضح کیا کہ انہوں نے روس کو بتا دیا تھا کہ وہ پاکستان کا تحفظ ہر صورت کریں گے۔ کسنجر کو شاہ ایران نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے انڈیا کو بھی واضح پیغام بھیج دیا ہے کہ اب مغربی پاکستان پر حملہ ہوا تو ایران پاکستان کی ہر طرح مدد کرے گا‘ ایران اب پاکستان کے مزید ٹکڑے ہوتے نہیں دیکھ سکے گا۔
پاکستان کی سکیورٹی اور دفاع کے لیے امریکیوں نے بھی رضا شاہ کی حمایت کی۔ شاہ ایران نے کسنجر کو بتایا کہ یہ پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے، اسے امریکہ اور ایران کی اخلاقی حمایت ملنی چاہیے، جس کا مطلب تھا پاکستان کو فوجی امداد دی جائے۔ شاہ ایران کا پاکستان کی طرف ہمیشہ پدرانہ انداز رہا۔ شاہ اپنے آپ کو پاکستان کا محسن گردانتا تھا، جس نے اپنے کمزور ہمسائے کا ہر حال میں خیال رکھنا ہے کیونکہ ایران کے اپنے مفادات بھی پاکستان کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔
تاہم انقلاب ایران کے بعد حالات بدل گئے۔ یہ ایک اور طویل کہانی ہے۔ اب تو حالات اس حد تک بدل گئے ہیں کہ پاکستان الزام لگا رہا ہے کہ ایرانی سرزمین پاکستان کے اندر دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ وہ ہندوستان جس کو شاہ ایران رضا پہلوی نے دھمکی دی تھی کہ اگر مشرقی کے بعد مغربی پاکستان توڑنے کی کوشش کی گئی تو وہ جنگ میں کود پڑے گا، آج اسی ایران پر الزام لگ رہا ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ مل کر پاکستان کو توڑنے کے منصو بے پر کام کر رہا ہے۔گویا کل کے دوست دشمن اور کل کے دشمن دوست ہوئے۔ مفادات بدلنے کے ساتھ ہی دوستیاں اور دشمنیاں بدل گئیں۔
یہ ہے انسانی تاریخ کا سبق۔ قوموں کے تعلقات میں مفادات اہم ہوتے ہیں۔ دوستی تو محض ایک بہانہ ہوتی ہے ان مفادات کو حاصل کرنے کا!