"RKC" (space) message & send to 7575

ساڈے نال رہو گے تے عیش کرو گے۔۔۔۔(4)

اختر بلند رانا پر بہت دبائو تھا کہ وہ آئی پی پیزکو 3.5 ارب ڈالر کی ادائیگی پر انکوائری نہیں کریں گے، میٹرو منصوبوں کا آڈٹ بھی نہیں ہوگا۔ رانا کو اندازہ تھا کہ خاصا لمبا مال بنایا گیا ہے۔ ایک اصلی اور نسلی آڈٹ ہی یہ راز کھول سکتا ہے کہ فراڈ کس نے اور کیسے کیا۔ رانا خاموشی سے لگا رہا۔ ڈرافٹ رپورٹ تیار ہوکر سامنے آئی تو وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں کی گئی تھیں۔ آڈٹ کو جو سب سے بڑا جھٹکا لگا وہ آئی پی پیزکو 32 ارب روپے جرمانے کی ادائیگی تھی۔ دنیا بھر میں یہ ہوتا ہے کہ آپ بڑی ادائیگی کرتے وقت کم از کم جرمانہ معاف کرا لیتے ہیں۔ آپ نے کیسے آئی پی پیزکو جرمانہ معاف کرائے بغیر3.5 ارب ڈالر کی ادائیگی کر دی خصوصاً جب قمر زمان کائرہ کہہ چکے تھے کہ ان کے دور حکومت میں آئی پی پیز ان کی پارٹی کو الٹا 30 فیصد کمشن دینے کو تیار تھیں بشرطیکہ انہیں گردشی قرضے یکمشت ادا کر دیے جائیں۔ لیکن اسحاق ڈار کی گنگا الٹی بہہ رہی تھی، جرمانہ معاف کرانے کی بجائے 32 ارب روپے ادا کر دیے گئے۔ آڈٹ حیران ہوا کہ یہ ڈیل کس نے کی تھی۔ 
چلیں آپ نے جرمانہ دے دیا، کون سا اپنی جیب سے دے رہے تھے، عوام کے ٹیکسوں سے ادا کر دیا۔ اس کے علاوہ ایک آڈٹ پیرا ایسا تھا جس پر پورا آڈٹ آفس کانپ اٹھا۔ انکشاف ہوا کہ حکومت پاکستان نے بھی آئی پی پیزکو کنٹریکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر 22 ارب روپے جرمانہ کیا ہوا تھا، لیکن ادائیگی کرتے وقت وہ منہا کرنے کے بجائے معاف کر دیا گیا۔ واردات ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔ آپ نے تو 32 ارب روپے کا جرمانہ ادا کر دیا، لیکن اُس پارٹی کو جو آپ نے 22 ارب روپے کا جرمانہ کیا تھا وہ بھی معاف کر دیا۔ اگر آپ یہ رقم منہا کر لیتے تو باقی دس ارب روپے کی ادائیگی کرتے، لیکن آپ نے 54 ارب روپے کا ٹیکہ لگا دیا۔۔۔۔32 ارب روپے جرمانہ اور 22 ارب روپے جرمانہ معاف کر کے۔کیا یہ سب کام مفت میں کیا گیا؟ آپ خود سوچیں کہ اس کھیل میںکیا کھیل کھیلا گیا ہوگا! 
اس آڈٹ رپورٹ کے مطابق 341 ارب روپے کی ادائیگی میں 190 ارب روپے آئی پی پیز کو غلط طور پر زیادہ ادا کیے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر اسحاق ڈار آئی پی پیزکو براہ راست اسٹیٹ بینک سے راتوں رات ادائیگی نہ کراتے اور قانون کے مطابق پہلے تمام بل اکائونٹنٹ جنرل کو بھیجتے تو 190ارب روپے بچائے جاسکتے تھے۔ 
جب اسحاق ڈار کو پتا چلا کہ ڈرافٹ رپورٹ تیار ہوچکی ہے تو انہوں نے اسد امین سے کہ وہ اس رپورٹ کو غائب کردیں۔ لیکن یہ رپورٹ میرے ہاتھ لگ گئی تھی اور میں نے اسے بریک کر دیا تھا۔ اس پر پی ٹی آئی کے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ممبران شفقت محمود اور عارف علوی نے اس کے چیئرمین خورشید شاہ کو خط لکھا کہ یہ رپورٹ منگوائی جائے، اسے ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ 
نئے آڈیٹر جنرل رانا اسد امین نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئی تھیں۔ اب جبکہ بلی تھیلے سے باہر نکل چکی تھی،اس نے فیصلہ کیا کہ رپورٹ کو ڈیپارٹمنٹ اکائونٹس کمیٹی میں ہی سیٹل کر دیا جائے۔ چنانچہ وزارت پانی و بجلی میں اجلاس ہوا جس کی صدارت ایڈیشنل سیکرٹری ناصر جامی نے کی۔ قانون کے تحت صرف سیکرٹری اس اجلاس کی صدارت کر سکتا تھا، لیکن یہ کام ایک ایڈینشل سیکرٹری نے نجام دیا۔ ناصر جامی نے فیصلہ سنایا کہ 3.5 ارب ڈالر کے تمام آڈٹ پیرے خصوصی رپورٹ سے ختم کر دیے جائیں کیونکہ اس سے ملتا جلتا آڈٹ پیرا پچھلے سال کی آڈٹ رپورٹ میں چھپ چکا ہے۔ اگر خصوصی رپورٹ باقی رہنے دیی جاتی تو اس پر پی اے سی میں بڑی لے دے ہوتی اور اسے کلیئر کرانا مشکل ہو جاتا۔ لیکن اگر ان ساٹھ صفحات کو ایک چھوٹے سے آڈٹ پیرے میں تبدیل کر دیا جائے تو کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔ یوں بیوروکریسی کے زکوٹا جن نے اس اجلاس میں رانا اسد امین کے آڈیٹروں کے ساتھ مل کر یہ کھیل کھیلا اور مذکورہ ڈرافٹ آڈٹ رپورٹ کا گلا گھونٹ دیا۔ 
جب اس فیصلے کی کاپی کسی ذریعے سے مجھ تک پہنچی تو میں حیران ہوا کہ کیسے آڈٹ رپورٹ ختم کر کے ایک آڈٹ پیرے پر کام چلایا جا سکتا ہے۔ احتیاطاً میں نے پچھلے سال کی وہ آڈٹ رپورٹ نکالی جس کا حوالہ دے کر ناصر جامی نے ساٹھ صفحات کی خصوصی رپورٹ ختم کی تھی۔ میں حیران رہ گیاکہ وہاں تین سطروں کا ایک آڈٹ پیرا تھا جس میں صرف اتنا لکھا ہوا تھا کہ اسٹیٹ بنک نے consolidated fund سے گردشی قرضوں کی ادائیگی کی تھی جو غلط تھی۔ اس میں باقی کوئی تفصیل نہیں تھی۔کہاں لوٹ مار ہوئی،کیسے ہوئی اور کتنی زائد ادائیگیاں کی گئیں، اس میں کچھ نہیں تھا۔ کوئی نہیں سمجھ سکتا تھاکہ غلط کیا ہوا۔ یوں زکوٹا جنوں نے ایک اجلاس میں گردشی قرضوں کی خصوصی آڈٹ رپورٹ کو ختم کر دیا۔ میں نے یہ سٹوری بریک کہ کیسے ناصرجامی نے ایک اور ہاتھ کر دیا۔ اس پر عارف علوی نے شور مچایا اور فیصلہ ہوا کہ اس پوری رپورٹ کو پی اے سی میں پیش کیا جائے۔ جب رپورٹ پی اے سی میں گئی تو وہاں خورشید شاہ پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔ فوراً ایک ذیلی کمیٹی بنائی گئی اور پھر پتا نہ چل سکا کہ کمیٹی نے اس پرکیا فیصلہ کیا۔ اس دوران جب میری بریک کی ہوئی خبر ہر طرف پھیلنے لگی کہ گردشی قرضوں کی ادائیگی میں 190 ارب روپے کی زائد ادائیگی کی گئی ہے تو سینیٹ کی فنانس کمیٹی نے جس کے سربراہ سلیم مانڈوی والا ہیں، نوٹس لیا اور وزارت پانی و بجلی کو بلالیا کہ کیسے ایک گھنٹے میں طاقتور پارٹیوں کو 3.5ارب ڈالر کی ادائیگی کی گئی۔ 
میں بھی ان اجلاسوں میں شریک ہوتا رہا۔ سلیم مانڈوی والا اور دوسرے سینیٹرز نے شروع میں زیرو ٹالرنس سے کام لیا۔ اسٹیٹ بنک کو بھی بلایا گیا۔ سلیم مانڈوی والا کے پاس پوری اطلاعات تھیں، انہوں نے اچھے سوالات کیے جس سے فنانس اور اسٹیٹ بنک کو خوب رگڑا لگا۔ وہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔ آخر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اسٹیٹ بینک کے ایک افسر نے سلیم مانڈوی والا سے کہا: سر آپ 341 ارب روپے کی براہ راست ادائیگی کو رو رہے ہیں، خود پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں ایک کھرب روپے سے زیادہ آئی پی پیز کو براہ راست ادائیگیاں کی گئی تھیں۔کوئی حساب کتاب ہوا نہ بلوں کی پڑتال ہوئی، پیپلز پارٹی کے وزیر خزانہ حکم جاری کرتے تو فوراً آئی پی پیز کو ادائیگی ہو جاتی۔ یہ سن کر اجلاس میں سب پر بم گرا اور سب سے بڑا بم خود سلیم مانڈوی والا پر گرا کیونکہ وہ خود بھی پیپلز پارٹی دورکے آخری دنوں میں وزیرخزانہ تھے۔ ان کے منہ سے صرف اتنا نکل سکاکہ لیکن یہ سب ادائیگیاں ان سے پہلے کی گئی ہوں گی۔ یوں ہمیں پتا چل گیا کہ اب یہ کہانی مزید آگے نہیں چلے گی۔ نواز شریف اور اسحاق ڈار کی طرف سے 3.5 ارب ڈالر کی براہ راست ادائیگی پیچھے رہ جائے گی اور سکینڈل کا رخ پیپلز پارٹی کی طرف ہوجائے گا۔
جب وزارت پانی و بجلی کے ناصر جامی، چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت اجلاس میں پیش ہوئے تو کسی کو سوال و جواب کرنے میں دلچسپی نہ تھی۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز ویسے ہی سیکرٹری خزانہ وقار مسعود سے متاثر لگ رہے تھے، ہر نکتے پر ہاں میں ہاں ملا رہے تھے جبکہ سلیم مانڈوی والا ڈرے ہوئے تھے کہ کہیں پیپلز پارٹی دورکا کھاتہ نہ کھل جائے۔ مانڈوی والا نے ناصر جامی سے مروتاً پوچھ لیا کہ اس ایجنڈے کو ختم نہ کر دیں؟ ناصر جامی نے مختصر جواب دیا کہ سر! ہم نے وہ آڈٹ رپورٹ پبلک اکائونٹس کمیٹی سے کلیر کرالی ہے، سب ٹھیک ہوگیا ہے۔ یہ وہ بم شیل تھا جو میرے سر پرگرا کہ بھلا کیسے خورشید شاہ 3.5 ارب ڈالرکی آڈٹ رپورٹ کو ایک ہی جھٹکے میں کلیر کرکے اسحاق ڈار اور نواز شریف کو کلین چٹ دے سکتے ہیں۔
مجھے یاد آیا کہ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان ایسے ہی نہیں کہتے کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کرپٹ ہوچکے ہیں اور وہ حکومت سے ذاتی فیورز لیتے ہیں۔ توکیا اپوزیشن لیڈر جو پی اے سی چلاتے ہیں، بلیک میل ہو رہے ہیں اور حکومت کے پاس ان کے خلاف ایسے ثبوت ہیں جنہیں دکھا کر وہ ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرا رہی ہے؟ ناصر جامی کمرے سے جبکہ 3.5 ارب ڈالر قوم کی جیب سے نکل گئے۔
انکشافات کا سلسلہ جاری تھا کہ مجھے یاد آیا، اُس سکینڈل کا کیا بنے گا کہ ایوان صدر میں ایک ڈی ایم جی افسر اور دوسرے پولیس گروپ کے افسران نے عیدی کے نام پر یتیموں اور بیوائوں کے فنڈ سے چودہ کروڑ روپے وصول کر لیے تھے۔ یہ بھی یاد آیا کہ ایک بڑا زکوٹا رات کے اندھیرے میں آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا کے ایف سکس تھری کے گھر کے باہر بیل بجارہا تھا تاکہ وہ چودہ کروڑ روپے کے سکینڈل کو آڈٹ رپورٹ سے نکلوا دے اور وہ رپورٹ پی اے سی یا میڈیا تک نہ پہنچے۔
میں نے نام یاد کرنے کی کوشش کی کہ وہ بیوروکریٹ کون تھا جو اختر بلند رانا کے گھر کے باہر کیک لے کر کھڑا تھا۔ تھوڑا سا ذہن پر زور ڈالا تو نام ذہن کی سکرین پر نمودار ہوا اور میں مسکرا دیا۔ اونچی دوکان، پھیکا پکوان۔۔۔۔نام بڑے، درشن چھوٹے۔ اب وہی بڑے صاحب رات کے اندھیرے میں یتیموں کے فنڈ سے چودہ کروڑ روپے کھانے کے بعد ہاتھ میں کیک لیے آڈیٹر جنرل کے گھر کا دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں