"RKC" (space) message & send to 7575

ساڈے نال رہو گے، تے عیش کرو گے…(5)

آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا کے لیے یہ بہت حیران کن بات تھی کہ صدر زرداری کا سب سے قریبی اور ملک کا سب سے طاقتور بیوروکریٹ کیک اٹھائے اس کے دروازے پر کھڑا تھا ۔اختر بلند رانا کو سمجھ آگئی تھی رات کے اندھیرے میں صدر زرداری کے ایوان صدر میں سیکرٹری جنرل سلمان فاروقی اچانک کیوں اتنے مہربان ہوگئے تھے۔ رام بھگوان ایک تیلی کے گھر کیسے تشریف لائے تھے۔ 
کہانی کچھ یوں شروع ہوئی تھی ۔ سلمان فاروقی پر نیب کے مقدمات درج تھے اور وہ نیب سے بچنے کے لیے پاکستان سے باہر بھاگ گئے تھے۔ جنرل مشرف دور میں وہ سارا عرصہ پاکستان سے باہر رہے۔ اس دوران بینظیر بھٹو نے امریکہ میں حسین حقانی کے ساتھ مل کر امریکیوں سے ملاقاتیں شروع کر دی تھیں کہ اگر انہیں موقع دیا جائے تو وہ پاکستان کو بہتر چلا سکتے ہیں اور طالبان کے خلاف ایک نیا محاذ بنا سکتے ہیں۔ یہی بینظیر بھٹو اپنے دوسرے اقتدار میں طالبان کو افغانستان میں لانے میں اہم کردار ادا کر چکی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ جرنیل درست کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان پاکستان کی اسٹریجک ڈیپتھ کے لیے بہت ضروری ہیں۔ اب وہ اس بات پر امریکیوں کو قائل کر رہی تھیں کہ اگر طالبان کو پاکستان میں شکست دینی ہے تو وہ لڑنے کو تیار تھیں لیکن اس کے لیے انہیں پاکستان کی وزیراعظم بنانا ہوگا۔
اس دوران امریکہ بھی اس خطے میں تبدیلیاں کرنا چاہتا تھا۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد بہت ساپانی پلوں کے نیچے سے بہہ گیا تھا۔ اس لیے کچھ نئے فیصلے کرنے کے لیے صدر بش نے ایک دن 2006ء میں جنرل مشرف کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک اجلاس وائٹ ہاوس میں طلب کیا ۔ سب کا خیال تھا کہ اب وقت آگیا تھا کہ جنرل مشرف سے جان چھڑائی جائے۔ تاہم وزیردفاع رمز فیلڈ کا خیال تھا یہ امریکیوں کی غلطی ہوگی۔ وہ جنرل مشرف کو پاکستان میں رہنے دیں۔ سیاستدانوں میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ امریکیوں کے مفادات پورے کر سکیں ۔ اپنی آٹوبائیوگرافی Known and Unknown میں رمز فیلڈ 
لکھتے ہیں کہ وہ اس اجلاس میں اکیلے تھے جنہوں نے بش کو مشورہ دیا تھا کہ جنرل مشرف کو نہ چھیڑا جائے۔ تاہم وزیرخارجہ کونڈو لیزا رائس کا خیال تھا اب وقت آگیا تھا کہ بینظیر بھٹو کو آگے لایا جائے۔ بش بھی اس بات کے قائل ہوگئے تھے اور جنرل مشرف کو پیغام مل گیا تھا کہ وہ وردی اتار دیں۔ تاہم جنرل مشرف کو اتنی فیوردی گئی کہ بینظیر بھٹو کو راضی کیا گیا کہ وہ جنرل مشرف کو سویلین صدر کے طور پر تسلیم کر کے ان کے ساتھ کام کریں۔ کونڈالیزا رائس نے بڑی تفصیل سے یہ سب کہانی اپنی آپ بیتی No Higher Honor میں لکھی ہے کہ کیسے اس نے جنرل مشرف اور بینظیر بھٹو کے درمیان ڈیل کرائی اور طے ہوا اب بینظیر بھٹو کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیے جائیں گے۔ 
اس ڈیل کے بعد این آر او آیا اور جن بڑے لوگوں نے پاکستان لوٹ کر اس قانون سے فائدہ اٹھایا ان میں سلمان فاروقی بھی شامل تھے۔ فاروقی نواز شریف کے بھی بہت قریبی تھے۔ ان کے بارے میں میرے دوست ڈاکٹر ظفر الطاف کہا کرتے تھے اگر بیوروکریسی میں کوئی قابل افسر تھا جس کے پاس ہرمسئلے کا حل موجود تھا وہ سلمان فاروقی تھے۔ وہ سلمان فاروقی کی ذہانت سے بہت متاثر تھے اور ہمیشہ ان کی تعریف کرتے لیکن مذاقاً کہتے کہ سلمان فاروقی کی سب خوبیاں حکمرانوں کے فائدے کے لیے استعمال ہوتی تھیں ۔
سلمان فاروقی اس وقت لوٹے جب 2008ء میں پیپلز پارٹی حکومت بن چکی تھی ۔اس دوران زرداری نے فورا انہیں پلاننگ ڈویژن کا چیئرمین لگا دیا۔ سلمان فاروقی کا مقام یہ نہ تھا۔ایک دن سلمان فاروقی کو پلاننگ ڈویژن سے ہٹا کر ایوان صدر میں سیکرٹری جنرل لگا دیا گیا۔ اب پورے پاکستان کی بیوروکریسی ان کے نیچے تھی۔ سلمان فاروقی وہ افسر تھے جن سے زرداری ہر مشورہ کرتے کیونکہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا تھا ۔ پہلے نواز شریف نے ان کی ذہانت سے اپنی ذات کے لیے فائدہ اٹھایا تھا تو اب زرداری ان کا فائدہ لے رہے تھے۔ سب کو اپنے اپنے ذاتی فائدے کے لیے سلمان فاروقی کی ضرورت تھی۔ 
اس دوران سلمان فاروقی کی بیگم کے بارے پتہ چلا کہ وہ بیمار ہیں۔ اس پر وزیراعظم گیلانی کو حکم ملا کہ ان کے امریکہ علاج کے لیے پچاس لاکھ روپے فوراً انہیں ادا کیے جائیں۔ ایک دن سلمان فاروقی نے کہا انہیں مزید پیسوں کی ضرورت ہے۔ کوئی قانونی طریقہ نکالو اور کسی کو شک بھی نہ ہو اور نہ ہی پتہ چلے۔ اس پر ایوان صدر کے سیکرٹری ملک آصف حیات نے کہا سر جو حکم کریں۔ پتہ چلا ایوان صدر میں زرداری کے لیے ایک فنڈ ہے جس میں سے ہر سال عید پر یتیموں، غریبوں اور بیوائوں کو عیدی دی جاتی ہے۔ اس فنڈ میں دس لاکھ روپے پڑے تھے۔ اس پر ایک سمری تیار کی گئی کہ ایوان صدر میں سلمان فاروقی کی کارگردگی بہت اعلیٰ رہی ہے لہٰذا انہیں بونس دیا جائے۔ بونس کے لیے بیوائوں اور یتیموںکے فنڈز کو چنا گیا ۔ سلمان فاروقی کے لیے دس لاکھ روپے تھوڑے پڑ رہے تھے۔ اس پر وزارت خزانہ کو ایک سمری بھیجی گئی کہ جناب صدر زرداری نے غریبوں اور بیوائوں کو عیدی دینی ہے لہذا مہربانی فرما کر مزید پیسے دیے جائیں۔ وہاں سے ایک سپلیمنٹری گرانٹ بھجی گئی۔ بیس لاکھ روپے عیدی کے وصول کرنے کے بعد بھی سلمان فاروقی نے کہا کہ تھوڑے ہیں۔ اس پر کہا گیا کہ انہیں اگلی عیدی ایڈوانس دے دی جائے۔ پھر بھی پیسے کم پڑ رہے تھے۔ اس پر کہا گیا کہ پچھلے دنوں اسلام آباد میں ڈی کانفرنس کرائی گئی۔ اس کو اچھے طریقے سے منعقد کرانے کے انعام کے طور پر انہیں مزید لاکھوں روپے دیے جائیں جو کہ دے دیے گئے۔ یوں سلمان فاروقی نے پچاس لاکھ روپے عیدی کے نام پر وصول کئے۔ 
جب سیکرٹری ایوان صدر آصف حیات نے دیکھا کہ سیکرٹری جنرل سلمان فاروقی نے بیٹھے بٹھائے پچاس لاکھ روپے کی عیدی لے لی ہے تو انہوں نے کہا صاحب! کچھ نظر کرم ادھر بھی ہوجائے تو دنیا بدل جائے گی۔ اس پر سلمان فاروقی نے کہا ‘بھائی آپ کو کس نے روکا ہے‘ آپ بھی لو۔ پتہ چلا کہ مزید پیسے غریبوں اور یتیموں کے فنڈز میں موجود نہیں ہیں۔ اس پر دوبارہ وزارت فنانس کو لکھا گیا اور نئی سپلمینٹری گرانٹ جاری کر دی گئی۔ عیدی کے نام پر آصف حیات نے چالیس لاکھ روپے وصول کیے۔ 
اس دوران ایوان صدر میں بات پھیل گئی کہ جناب سیکرٹری جنرل اور سیکرٹری نے ایک دوسرے کو تقریبا ایک کروڑ روپے کی عیدی دی ہے۔ ایک دن گریڈ بائیس، اکیس اور بیس کے افسران جو ایوان صدر میں کام کر رہے تھے حاضر ہوئے اور انہوں نے سلمان فاروقی سے بھی عیدی مانگی۔ اس کے اگلے دن گریڈ انیس، اٹھارہ، سترہ، سولہ کے افسران حاضر ہوئے اور عیدی مانگی۔ اس سے اگلے روز گریڈ سولہ سے نیچے تو ایک دن گریڈ ون کے ملازمیں نے بھی عیدی مانگ لی۔ اب سلمان فاروقی اور آصف حیات کے لیے مسئلہ پیدا ہوگیا کہ اگر وہ ان سب کو اس لوٹ مار میں سے حصہ نہیں دیتے تو ہنگامہ ہوجائے گا۔ کہیں ایوان صدر میں ہڑتال ہی نہ ہوجائے۔ یوں ایک اور سمری وزرات خزانہ کو بھیجی گئی کہ ایوان صدر میں یتیموں، غریبوں اور بیوائوں کی تعداد بڑھ گئی تھی اور عیدی کم پڑ گئی تھی لہذا مزید گرانٹ دی جائے۔ کل چودہ کروڑ روپے کی عیدی گریڈ بائیس سے لے کر گریڈ ون تک ایوان صدر میں بانٹی گئی۔ 
سلمان فاروقی اور ملک آصف حیات کا خیال تھا کہ بات ختم ہوگئی تھی۔ انہیں پتہ نہ تھا کہ ایک دن یہ راز کھل کر رہے گا جب آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے آڈیٹر نے صدر زرداری کے دفتر کے اکاونٹس کا آڈٹ کرنا شروع کیا۔ چودہ کروڑ رپے کی عیدی پکڑی گئی۔ پوچھا گیا یہ تو یتیموںاور غریبوں کا فنڈ تھا آپ نے کیسے آپس میں بانٹ لیا ۔آڈٹ کے لوگ مسکرائے اور انہوں نے پوری تفصیل ایک رپورٹ میں لکھ دی اور اس کا جواب ایوان صدر سے مانگ لیا ۔ جب وہ ڈرافٹ رپورٹ ایوان صدر پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ چوری پکڑی گئی تھی‘ بیوائوں، یتیموں اور غریبوں کی بددعائیں لگ گئی تھیں۔ سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے اب کیا کیا جائے۔طے ہوا کہ سلمان فاروقی فوراً جا کر آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا سے ملیں اور انہیں سمجھائیں کہ یہ کوئی اتنی بات نہیں ہے۔ جس ملک میں اربوں روپے روزانہ کھا لیے جاتے ہوں وہاں چودہ کروڑ روپے کی عیدی کے کیا معنی ہیں۔
سلمان فاروقی کیک پکڑے اختر بلند رانا کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ان کا منہ تک رہے تھے ۔ اختر بلند رانا کی ایک ہاں ان کونئے سکینڈل سے بچا سکتی تھی۔ اختر بلند رانا ایک کشمکش کا شکار۔۔ان کے سامنے بیٹھا بندہ کوئی عام انسان نہیں تھا ۔ وہ صدر زرداری کا سب سے قریبی اور ملک کا بہت بڑا افسر تھا۔۔رانا کو علم تھا کہ ان کی ہاں اور ناں دونوں کے اثرات ہوں گے۔۔ رانا کو یہ بھی بتایا گیا کہ وہ یہ نہ بھولیں‘ انہیں آڈیٹر جنرل وزیراعظم یوسف رضا نے مقرر کیا تھا، یوسف رضا کو وزیراعظم زرداری نے لگایا تھا اور یہ بھی نہ بھولا جائے کہ وہ سلمان فاروقی اسی صدر زرداری کے سیکرٹری جنرل تھے۔ 
اختر بلند رانا کے پاس فیصلے کا وقت کم تھا ۔ انہوں نے سلمان فاروقی کی طرف دیکھا جو رات گئے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ترس بھری آنکھوں سے ہندوستان کی قدیم جنگجو قوم راجپوت کے ایک سپوت سے رحم اور معافی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔(جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں