سنا ہے وزیراعظم آخرکار پارلیمنٹ میں آج(جمعہ) اپوزیشن کی پانامہ لیکس کے حوالے سے جاری کی گئی چارج شیٹ کا جواب دینے پر تیار ہوگئے ہیں۔
وقت بدلتا ہے لیکن انسان نہیں بدلتے۔ جب نواز شریف ایوان میں کھڑے ہوکر سنگین کرپشن کی چارج شیٹ کا جواب دے رہے ہوں گے تو کتنے لوگوں کو یاد ہوگا کہ اسی اسمبلی میں آج سے بیس سال قبل نواز شریف نے بینظیر بھٹواور ان کے خاوند آصف زرداری کوکرپشن پر چارج شیٹ کیا تھا۔بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں، اور نواز شریف اپوزیشن لیڈر تھے۔صدرفاروق لغاری کی قومی اسمبلی میں نئے پارلیمانی سال پر کی گئی تقریر پر بحث جاری تھی ۔ نواز شریف کھڑے ہوئے اور صدر لغاری کی تقریر پر بحث کا آغاز کیا۔ بینظیر بھٹو حکومت پر کرپشن اور نااہلی کے الزامات لگانا شروع کیے تو ہاوس میں سناٹا چھا گیا تھا ۔ نواز شریف گرج اور برس رہے تھے اور پیپلز پارٹی کے ارکان بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے کہ ان کی وزیراعظم کی کرپشن کی کہانیاں سرعام بیان کی جارہی تھیں۔نواز شریف نے بولنا شروع کیا:
''ہم نے وزیراعظم بینظیر بھٹو کو ایک احتسابی کمشن بنانے کی تجویز دی تھی۔ ہم نے سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا تھا اور حکومت سے بھی مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھی اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرے تاکہ حکومت اور اپوزیشن احتساب کے ذریعے اپنی بے گناہی ثابت کریں۔ میں سمجھتا ہوں اگر حکمرانوں کا دامن صاف ہوتا تو وہ احتساب سے فرار نہ ہوتے۔ ہم محاذ آرائی پر یقین نہیں رکھتے‘ اگر رکھتے تو تعاون کی پیشکش نہ کرتے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہماری حکومت کو سازش کے ذریعے ختم کیا گیاپھر انتخابی مہم کے دوران ہماری کردار کشی کی گئی‘ جب کہ بینظیر حکومت نے ہمارے طرز عمل کے جواب میں پہلے صوبہ سرحد میں حکومت کو گرایا اور پھر اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی انتہا کر دی۔ حکومت کی طاقت اپوزیشن کو دبانے پر لگا دی گئی ۔ ہمارے اراکین اسمبلی کو بلاجواز جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ کسی کو ناکردہ گناہ میں برخاست تو کسی کو بدنام زمانہ جج کے ذریعے سات سال سزا دلائی گئی۔ کسی کو چلنے پھرنے سے معذور کیا گیا۔ خاتون رکن کا سر پھاڑ دیا گیا۔ حکومتی پریس اور ٹیلی ویژن کو ہماری کردار کشی کے لیے وقف کر دیا گیا۔ پارلیمنٹ کے اندر ہمارے اراکین اسمبلی کو آہنی مکوں سے سے بدمعاشوں سے پٹوایا گیا کہ انہیں سال بھر ہسپتال میں رہنا پڑا۔ ان کی بصارت جواب دے گئی۔ ایک رکن اسمبلی کو نشست سے محروم کر دیا گیا۔ہم پر پارلیمنٹ کے دروازے بند کر دیے گئے جب کہ عدالتوں کے دروازے پر جیالا گردی کے تالے ڈال دیے گئے۔ اگر کسی جج نے ضمیر کے تقاضوں پر اپوزیشن کو انصاف فراہم کرنے کی کوشش کی تو اس کے لکھے گئے فیصلے کی روشنی خشک ہونے سے قبل ہی اسے رخصت پر بھیج دیا گیا۔ قاتلانہ حملے کرائے گئے‘ بغاوت کے کیس بنائے گئے۔ باپ بھتیجوں اور بھائیوں کو ناکردہ گناہوں کے الزام میں جیل ڈال دیا گیا۔ جی بھر کر ذلیل کیا گیا۔
پیپلز پارٹی حکومت نے 1971ء کے سانحہ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ملکی معیشت پر آنکھ ڈالیں تو آپ کو تاریکی نظرآئے گی‘ چار ہزار کے قریب کارخانے بند ہوچکے ہیں۔ آلو ہندوستان سے منگوائے جارہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ ہم کل سے بہت بہتر ہیں۔ جب کہ ملک پیچھے چلا گیا ہے‘ غیرترقیاتی اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے۔ مرکز اور صوبوں میں پیپلز پارٹی نے بڑی بڑی کابینائیں بنارکھی ہیں۔ بینظیر بھٹو اپنے بے شمار اور بے کار غیرملکی دورں اور سیر سپاٹوںپر کروڑوں روپے لٹا رہی ہیں۔ قرض میں اضافہ ریونیو سے کہیں زیادہ ہے۔ کاروبار میں مندی کی وجہ سے قومی آمدنی میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہو گی۔ حکومت نے آمدن کے نام پر ٹیکسوں میں بہت اضافہ کر دیا ہے۔ ابھی تو مالی سال کا آدھا حصہ بھی پورا نہیں ہوا اور کہا جارہا ہے کہ جناب پچاس بلین کے قریب لگ بھگ خسارہ ہوچکا ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایک سال میں یہ ایک سو بلین کا خسارہ ہوجائے گا ۔ جب کہ بینظیر بھٹو رٹ لگا رہی ہیں کہ سب اچھا ہے۔ بینکوں کی پوزیشن بہت خراب ہورہی ہے۔ ملکی سرمایہ بڑی تیزی سے باہر شفٹ ہورہا ہے۔ ایکسپورٹ آٹھ فیصد گرچکی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی ہوچکی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں ڈیڑھ ارب ڈالرز کی کمی ہوچکی ہے۔ سٹاک ایکسچینج گر چکی ہے۔ بیروزگار مارے مارے پھر رہے ہیں۔ عوام بچوں کو تعلیم دلوانے سے معذور ہوچکے ہیں۔ دوائوں کی قیمتیں لوگوں کی پہنچ سے باہر نکل چکی ہیں۔ بہت سارے لوگ علاج کی سکت نہ رکھتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ بینظیر بھٹو چھبیس ماہ سے ملک کی وزیراعظم ہیں وہ بتائیں کہ انہوں نے خواتین کے تھانے قائم کرنے کے علاوہ اور کیا کام کیا ہے۔ وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا کہ الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے پارلیمانی کنٹرول کے تحت خودمختار کارپوریشن بنائی جائے گی ۔ کیا وعدہ پورا کیا؟ ہمارے لوگوں پر تشدد کیا جارہا ہے‘ جس بااصول جج نے ان افسران کو طلب کیا انہیں راتوں رات بہاولپور تبدیل کر دیا گیا۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو مکمل ناکام ہوچکی ہیں۔ جو حکومت اپنے پہلے ایک سو دنوں میں لوگوں کو کچھ نہ دے سکے، اسے لوگ ناکام سمجھتے ہیں ۔
ان حقائق کی روشنی میں ایوان کے اندر اور ایوان کے باہر اپنے بھائیوں، بہنوںِ ، تجزیہ نگاروں، کالم نویسوں، دانشوروں اور رائے عامہ کے لیڈٖروں سے گزارش ہے کہ براہ کرم وہ واقعات کا بے لاگ تجزیہ کریں۔ حقائق کا سامنا کریں تو پتہ چلے گا کہ محاذ آرائی کا کون ذمہ دار ہے۔ محاذ آرئی حکومت نے شروع کی ہے۔ اس وقت ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اس ملک سے ہمارا مستقبل اس ملک سے ہے۔ ہمیں تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ اگر حکمرانوں سے پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے آج ہم کل سے بہت بہتر ہیں ۔
وہ سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں اور قومی خزانے سے کروڑوں روپے اپنی مشہوری اور اشتہارات پر خرچ کیے جارہے ہیں۔قومی خزانے سے پیسے خرچ کر کے پروپیگنڈہ کیا
جارہا کہ سب اچھا ہے۔ اگر عوام سے پوچھیں تو وہ انگاروں پر لوٹ رہے ہیں۔ ان ایک ایک گھڑی قیامت بن کر گزر رہی ہے۔ اس حکومت نے قومی خزانے سے پیسے نکال کر دو ماہ تک اخبارات میں اپنی مشہوری کرائی ہے۔اس پر پتہ نہیں اس قوم کا خون پسینے کے کتنے کروڑوں روپے خرچ کیے ہیں اور یہ کہتے حکومت نہیں تھکتی کہ ہم کل سے بہتر ہیں۔ اگلے مہینے ہی روپے کی قدر میں کمی کی گئی اور ساتھ ہی نئے بجٹ کا اعلان کر دیا گیا۔ بیرون ملک کے اخبارات بینظیر بھٹو حکومت کے خلاف لکھ رہے ہیں۔ وہ لکھ رہے ہیں کہ پاکستان ٹائم بم پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں آپ کو ایک غیر ملکی اخبار کا پیرا پڑھ کر سناتا ہوں۔ اخبار کے مطابق پاکستان اس سال ایک سو ستاون ارب روپے قرضہ واپس کرنے پر خرچ کرے گا جو کہ بجٹ کا باسٹھ فیصد بنتا ہے جب کہ حکومت کا بجٹ دو سو پچاس ارب روپے بتایا جارہا ہے۔ سب سے زیادہ پیسے بینظیر بھٹو حکومت قرض واپس کرنے پر خرچ کر رہی ہے۔بینظیر حکومت بڑے پیمانے پر قرضے حاصل کر رہی ہے اور یہ سوچے بغیر کہ یہ قرضہ واپس کیسے کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کہہ رہی ہے کہ بینظیر بھٹو اگر اس طرح قرضہ لیتی رہے گی تو پھر واپس کہاں سے کرے گی۔
یہ ملک کا حال ہوچکا ہے۔ قرضے اتنے زیادہ لیے جارہے ہیں تو اگلے سال قرضہ کیسے واپس ہوگا جو کہ بجٹ کا ستر فیصد ہوگا۔ باقی ملک کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔ اس کا کچھ پتہ نہیں۔ ملک کی معیشت تباہ ہورہی ہے۔ ہر طرف مایوسی نظرآتی ہے۔ عوام کے چہروں سے خوشی چھن چکی ہے۔ بچوں کے پھول جیسے چہرے مرجھا چکے ہیں۔ ہر طرف بدامنی کا دور دورہ ہے۔ کسی ماں کو یقین نہیں کہ اس کا بیٹا کراچی میں گھر زندہ لوٹے گا۔ اس قوم سے خواب چھین کر سمندر میں دھکیل دیا گیا ہے۔ قوم کو اعتماد سے کس نے محروم کیا۔ جائیے قوم سے جا کر پوچھیے۔ آپ کو قوم چیخ چیخ کر بتائے گی کہ اسے اعتماد کی دولت سے‘ موجودہ حکومت نے اپنے منفی اقدامات ، ناقص ، انتقامی ذہنیت اور مسلسل ناکامیوں سے محروم کیا ہے۔
ہمیں محاذآرئی کا طعنہ دیا جارہا ہے۔ وزیراعظم بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری کی کرپشن پر سے پردہ ہٹانا محاذ آرائی نہیں ہے۔ اگر ایک سرکاری بنک کسی کے کہنے پر ضمانت کے بغیر تین تین ارب روپے کے قرضے منظور کرے اور ہم اسے ایکسپوز کریں اور اگر دو سال کے دوران من پسند لوگوں کے اربوں روپے کے قرضے معاف کر دیے جائیں اور ہم آواز اٹھائیں ۔ اگر آزاد اخبارات کا گلا گھونٹ دیا جائے اور ہم احتجاج کریں اور شور مچائیں کہ آئین توڑا جارہا ہے اور قوم کے سامنے بیس ارب ڈالرز ایم او یو کے دعووں کے پول کھولیں، پاکستان میں ڈالرز کا سیلاب لانے کے جھوٹے دعووں پر سے پردہ اٹھائیں تو یہ محاذ آرائی نہیں ہے۔ حکومت ان تمام لوگوں کے نام پیش کرے جنہوں نے اپنے قرضے بینظیر حکومت سے26 ماہ میں معاف کرائے ہیں۔ میرٹ پر قرضہ لینا جرم نہیں لیکن قرضہ معاف کرانا جرم ہے۔ قوم کا اربوں روپے ہڑپ کرنے والوں کے نام سامنے لائے جائیں تاکہ پتہ چلے اس لوٹ مار میں کون کون شریک ہے۔
جناب سپیکر! بینظیر بھٹو بڑے دعوئوںکے ساتھ وزیراعظم بنی تھیں۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ وہ بری طرح ناکام ہوگئی ہیں ۔ وزیراعظم بھٹو کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ صورتحال کی اس سنگینی اور اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے عوام کی عدالت سے فیصلہ حاصل کرنے کی جمہوری روایت پر عمل کرتی لیکن وزیراعظم بینظیربھٹو میں اتنی اخلاقی جرأت کہاں...‘‘
وقت نے کیا حسیں ستم کیا ہے ۔وہی سابق اپوزیشن لیڈر اور آج کے وزیراعظم نواز شریف وزیراعظم کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں اسی جگہ کھڑے ہوکرچارج شیٹ کا جواب دیں گے جیسے کبھی انہوں نے اسی سیٹ پر بیٹھی وزیراعظم بھٹو کے خلاف اپنی تقریر میں جاری کی تھی ۔ بیس سال قبل جو الزامات نواز شریف اس وقت کی وزیراعظم بھٹو پر لگا رہے تھے اس سے زیادہ سنگین الزامات کا سامنا آج وہ قومی اسمبلی میں سامنا کر رہے ہیں۔کیا بینظیر بھٹو کو اخلاقی جرأت کی کمی کا طعنہ دینے والے نواز شریف خود اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کر کے عوام کی عدالت سے رجوع کریں گے؟
شاید اسے ہی مکافات عمل کہتے ہیں...!