سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ کو ایک دفعہ پھر سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے یاد دلایا ہے کہ وہ ان سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ انہوں نے پچھلے دنوں مہنگے بیرونی قرضے لیے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے متعلقہ اصولوں کو فالوکیا ہے یا نہیں۔ کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی یہ خوبی ہے کہ وہ ہر بات پوچھتے ہیں، لیکن جب آگے سے انہیں ڈرایا دھمکایا جائے تو وہ ڈر بھی جاتے ہیں۔ شاید انہیں اپنے دور کے وہ تین ماہ یاد آتے ہیں جب انہیں راتوں رات حفیظ شیخ کی جگہ وزیر خزانہ بنایا گیا تھا کیونکہ شیخ صاحب ڈاکٹر عاصم حسین کے اربوں روپوں کے منصوبوں میں مدد کرنے کی بجائے ان کی وزارت کے خلاف ایل این جی ٹھیکوں کی تحقیقات کے احکامات جاری کر رہے تھے۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
15مارچ 2013ء کو پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر رہی تھی اور سلیم مانڈوی والا نے سات اور آٹھ مارچ کو دو دن اور دو راتیں مسلسل ای سی سی کا اجلاس بلائے رکھا۔ نرگس سیٹھی‘ جو اس وقت کابینہ کی سیکرٹری تھیں، نے اس کام میں پورا پورا تعاون کیا اور دو دنوں میں اٹھائیس کے قریب سمریوں پر مبنی بھاری ایجنڈا بھگتایا گیا، جس میں سب سے زیادہ سمریاں ڈاکٹر عاصم حسین لائے تھے، جنہیں جلدی تھی کہ جو کچھ بچ گیا ہے وہ بھی سمیٹ لیں۔ ایسے ایسے کام کیے گئے کہ بندہ حیران ہوتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے، ان دنوں اسلام آباد میں منڈی کھل گئی تھی اور ہر کوئی بولی لگا رہا تھا۔ میں نے کسی ٹی وی شو میں کہہ دیا تھا: لگتا ہے ان آخری دنوں میں کسی غیر ملکی فوج نے پاکستان پر ایک ہفتے کے لیے قبضہ کر لیا ہے اور ہر سپاہی کو کہا گیا ہے کہ جو لوٹ سکتے ہو لوٹ لو۔ اس لیے جب وزارت خزانہ کے سیکرٹری وقار مسعود سلیم مانڈوی والا کو دباتے ہیں، انہیں حکم سناتے ہیں کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے اور آپ وہ بھی نہیں کہہ سکتے، آپ کو یہ بات پوچھنے کی اجازت نہیں ہے اور اس بات کو پوچھنے کی بھی اجازت نہیں ہے تو دراصل وقار مسعود سب جانتے اور سب سمجھتے ہیں۔ انہیں پتا ہے کہ سلیم مانڈوی والا کبھی جرأت نہیں کر سکیں گے۔ بہت ساری فائلوں میں بہت کچھ پڑا ہے۔ یوں سلیم مانڈوی والا ہر اجلاس میں محض مسکرا کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے تئیں بال ممبران کی کورٹ میں پھینکتے ہیں۔ وہ پہلے ہی بیزار بیٹھے ہوتے ہیں اور یوں بات ختم ہو جاتی ہے۔
حیران ہوتا ہوں کہ اس کمیٹی میں کیا کیا کچھ نہیں سامنے آیا، پھر بھی سب خاموش ہیں، چاہے ہر ممبر الیکشن کمشن کو دس دس کروڑ روپے کی بغیر منظوری کے پانچ سالوں کی تنخواہ ہو یا دوسرے سکینڈلز! ڈاکٹر وقار مسعود جو کسی دور میں زرداری کے قریبی ساتھی ہونے کی وجہ سے جیل میں رہے، اتنے دبنگ بن چکے ہیں کہ ان کی ایک بڑھک سب کو ڈرا دیتی ہے۔ کمیٹی ممبران نے کہا، پاکستانی بینکوں کو بلائو، وہ کمیٹی کو بتائیں کہ پانچ سو ملین ڈالرکے مہنگے یورو بانڈزکے لیے پچھتر ملین ڈالر پاکستان سے کس نے کیسے بھیجے۔ وقار مسعود کا جواب آیا کہ کمیٹی بینکوں کو نہیں بلا سکتی کیونکہ معاملہ بہت حساس ہے۔ جس قوم نے پانچ سو ملین ڈالرکے قرضے پر چار سو دس ملین ڈالر کا سود ادا کرنا ہے اسے بتایا جا رہا ہے کہ انہیں یہ پوچھنے کا حق بھی نہیں ہے کہ یہ بانڈز کس کس نے خریدے اورکون راتوں رات لاٹری جیت گیا۔ کہا گیا کہ آئی پی پیز کو چار سو اسی ارب روپے کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق ایک سو نوے ارب روپے غلط ادا کیے گئے، جواب ملا وہ سب کچھ طے ہو گیا ہے۔ خورشید شاہ نے معاف کر دیا ہے، اس لیے آپ بھی نہیں پوچھ سکتے۔ پوچھا گیا: بارہ سو ملین ڈالر کا قرضہ غلط طریقے سے لیا گیا، قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ ڈاکٹر وقار مسعود کا جواب ملا: ہم نے قرضہ لینا تھا، لے لیا، اب اس پر سوال و جواب نہ کریں۔ سلیم مانڈوی والا پھر مسکرا کر چپ ہوگئے۔
ہر جگہ یہی کچھ ہوا۔ سینیٹر وقار احمد خان وزیر نجکاری تھے اور انہوں نے اپنے ایک دوست کے نجی بینک کو پچاس کروڑ روپے ٹرانسفرکرا دیے۔ کچھ دنوں بعد بینک ڈوب گیا اور ساتھ ہی پچاس کروڑ روپے بھی۔ کچھ دن کیس چلا، سب کچھ ختم ہو گیا۔ پتا چلا کہ وقار نے پاکستان سے لوٹ مار کے بعد لندن اور دبئی میں جائیدادیں خرید لی ہیں۔ لندن میں وقار احمد خان کے چھ فلیٹس ہیں تو دبئی میں دس جائیدادیں نکل آئی ہیں۔ ٹیکس کا پتا کیا تو چند ہزار روپے ہی نکلا۔ کتنے مزے ہیں اس ملک میں رہنے اور حکمرانی کرنے کے۔ دبئی میں ہزاروں پاکستانیوں نے جائیدادیں خرید لی ہیں اور چیئرمین ایف بی آر نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بتایا کہ انہیں اس بارے میں کچھ علم نہیں۔ مزید ٹیکس لگانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں لیکن جنہوں نے اربوں ڈالر کی جائیدادیں دبئی میں لے لی ہیں، ان کے بارے میں نہ علم ہے اور نہ ہی کوئی اس بارے میں جاننے کا خواہشمند ہے۔
جو سکینڈل سامنے آتا ہے اس پر سینیٹ یا قومی اسمبلی کی کمیٹی نوٹس لیتی ہے اور چند دن بعد وہ سکینڈل سیٹل ہو جاتا ہے اور نئے سکینڈل کو زیر بحث لانے کے لیے نیا نوٹس تیار ہوتا ہے۔ ایک آدھ اجلاس میں بڑھکیں ماری جاتی ہیں اور پھر چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔
دراصل اس وقت یہ حالت ہو چکی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو طعنے دینے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ پیپلز پارٹی اس وقت نواز شریف کے خاندان کے لندن فلیٹس کی خریداری پر کمشن کی شرائط پر کام کر رہی ہے۔ وہ الزامات جو نواز شریف پر ہیں وہی کبھی بینظیر بھٹو اور زرداری پر لگے تھے جب انہوں نے 1995ء میں سرے محل خریدا تھا۔ سرے محل کی خریداری کے لیے سوئس اکائونٹس سے پیسہ آف شور کمپنی کے ذریعے برطانیہ بھیجا گیا تھا اور محل پچیس لاکھ پونڈ میں خریدا گیا جو بعد میں چار ملین پونڈ کا بکا تھا۔ زرداری اور بینظیر بھی اس طرح مکر گئے تھے جیسے اب نواز شریف۔ اس وقت نواز شریف نے پارلیمنٹ میں آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کہ زرداری نے سب کچھ لوٹ لیا اور اب پیپلز پارٹی یہی نعرے لگا رہی ہے۔
دونوں کو اندر کھاتے علم ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو بچانا ہے۔ اس لیے اعتراز احسن جب یہ کہتے ہیں کہ وہ نواز شریف کا نام کمشن سے نکالنے کے لیے تیار ہیں تو انہیں پتا ہے کہ زرداری اور بینظیر بھٹوکی دولت اسی طرح بچ سکتی ہے۔ جو کبھی خود لندن اور دبئی میں جائیدادیں آف شور کمپنی کے ذریعے خریدتے رہے ہوں وہ اب بھلا کیسے نواز شریف کی ایک ارب پائونڈ کی جائیدادوں پر سخت کمشن بنوائیں گے!
آپ سوالات اٹھائیں تو جمہوریت دشمن کہلاتے ہیں۔ جو اپنے گھریلو ملازم کو گھریلو سودے میں دس روپے کی ٹکی لگانے پر کٹائی لگاتے ہیں، وہ ہمیں تلقین کرتے ہیں کہ خیر ہے، ملک کے اربوں لٹ رہے ہیں تو لٹنے دیں۔ جمہوریت اسی کا نام ہے!
جہاں تک ملا اختر منصور کی ہلاکت اور اس کے بعد جاری ہمارے ماتم کا تعلق ہے، ان سے اتنا صرف اتنا پوچھنا ہے، کوئی چوہدری نثار علی خان سے پوچھ کر بتائے کہ پچھلے سال مری مذاکرات میں شریک ہونے کے لیے ملا منصورکس ملک کے پاسپورٹ پر سفر کر کے پاکستان میں داخل ہوا تھا؟ جو لوگ اسے مری لے گئے تھے، کیا انہوں نے اس کی سفری دستاویزات چیک کی تھیں؟ اب بلوچستان کے ایک اسسٹنٹ کمشنر اور نائب تھیلدار کو گرفتار کر کے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے شناختی کارڈ کی تصدیق کیوں کی تھی؟ اب چوہدری نثار فرماتے ہیں، ملا منصور کے جعلی شناختی کارڈ کے بعد اب بارہ کروڑ شناختی کارڈزکی دوبارہ تصدیق ہو گی۔
چوہدری نثار کے اس نئے حکم پر مجھے پولیس افسر طارق قریشی کا اپنی فیس بک پر لکھا ہوا یہ واقعہ یاد آ رہا ہے کہ ان کی والدہ کے گائوں میں شفیع آڑھتی تھا۔ ایک بار میلے میں گیا تو اس کی جیب کٹ گئی۔ لوگوں نے پوچھا تو نستعلیق رانگڑی زبان میں بتانے لگا۔۔۔۔ یوں میں میلے ماں گیا، گھنے ٹھیلے دیکھے، جوں میرا ہاتھ کھیسے کو گیا تو بٹوا غائب، میں وہیں چوکس ہو گیا۔۔۔!