کندھے کی تکلیف نے لکھنا مشکل کیا ہوا ہے۔ دفتر سے فون آتے ہیں، معذرت کے لیے مناسب لفظ ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ لکھنے کا موڈ نہیں بنتا۔ آج بھی موڈ نہیں تھا لیکن سرتاج عزیز کے بیان نے مجبور کر دیا کہ کچھ لکھا جائے۔ سولہ سالہ لڑکے کی محبت جیسا جذباتی ڈائیلاگ جس طرح سرتاج عزیز نے نوے برس کی عمر میں جاری کیا اس پر سر ہی دھنا جاسکتا ہے۔ فرماتے ہیں، امریکہ پاکستان کا خود غرض دوست ہے۔ مطلب ہوتا ہے تو گلے سے لگاتا ہے ورنہ نہیں۔ بھارتی وزیراعظم کے امریکہ میں شاندار استقبال نے ہمارے پالیسی میکرزکی نیندیں اڑا دی ہیں، ایسے ایسے بیانات دیے جارہے ہیں کہ ہنسی آتی ہے۔
ہمارے نزدیک دو ملکوںکے درمیان دوستی لڑکے لڑکی کے رومانس جیسا ہوتا ہے، جس میں توقعات آسمان پر پہنچی ہوتی ہیں۔ ہم دو ملکوںکی دوستی کو مفادات کے بجائے مشرقی انداز میں ذاتی دوستی سمجھ کرگلے شکوے شروع کر دیتے ہیں۔ جب ہم گلہ کرتے ہیں تو امریکن پوچھتے ہیں، آپ نے ہمارا کوئی کام دوستوں کی طرح مفت میںکیا ہے یا ایک کاروباری کی طرح ہرکام کی قیمت لی ہے؟ امریکی دعوی کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے قریبی دوست چین کے برعکس پاکستان کو قرضہ نہیں بلکہ مدد دیتے ہیں۔ چین قرضے دیتا ہے جبکہ امریکی ڈالروں میں امداد دیتے ہیں۔ اگر امریکی امداد مہنگی پڑتی ہے تو لینے سے انکارکر دیں جیسے ہلیری کلنٹن نے پاکستان کے دورے میںکہا تھا کہ اگر پاکستان کو ہماری امداد اچھی نہیں لگتی تو مت لے، طعنے نہ دیا کرے۔
اب تک امریکی پاکستان کو 32 ارب ڈالرز دے چکے ہیں جس میں سے بیشتر کرپشن کے ذریعے سوئس بینکوں میں اہم لوگوں کے اکائونٹس میں جمع ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے نام پر ملنے والی امداد اکثر سول ملٹری حکمرانوں اور بیوروکریٹس کے بینک اکائونٹس میں جمع ہوتی رہتی ہے۔
ہم اب تک نہیں سمجھ سکے کہ دنیا میں دوستیاں مفادات کی ہوتی ہیں۔ بھارتی وزیراعظم مودی کے امریکہ میں استقبال سے مجھے پچھلے دنوں بروس ریڈل کی نئی کتاب JF K Forgotten Crisis کا ایک باب یاد آگیا جس میں اس نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کیسے جنرل ایوب خان کو امریکہ بلا کر شاندار استقبالیہ دیا گیا۔ اس استقبال کا منظر ایسا ہے جیسے اب مودی کو ملا یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ اس وقت امریکی مفادات کچھ اور تھے، آج کچھ اور ہیں۔ اگر مودی کا اتنا خیر مقدم کیا گیا ہے تو اس کے پیچھے اسی طرح کی کہانی ہے جیسے جنرل ایوب خان کو واشنگٹن بلانے کے وقت تھی۔ سی آئی اے نے جان ایف کینیڈی کو بتایا تھا کہ جنرل ایوب خان کچھ کاموں میں رکاوٹ بن رہے ہیں، لہٰذا ضروری ہوگیا کہ وہ انہیں بلا کر خود ان سے بات کریں۔ چنانچہ فوری طور پر ایوب خان کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی گئی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کی تفصیلات بڑی مزیدار ہیں۔ جنرل ایوب کو ٹریپ کیا گیا یا وہ خود ٹریب ہوئے کیونکہ کچھ مفادات وہ بھی امریکہ سے چاہتے تھے۔کینیڈی کو وائٹ ہائوس میں رہتے ہوئے چھ ماہ ہوئے تھے، لیکن سی آئی اے کیوبا اور روس کے ساتھ کچھ ایشوز پر ناکامی سے اپنا امیج بری طرح خراب کر چکی تھی۔ اسی دوران جنرل ایوب خان نے ایک خط کینیڈی کو لکھا کہ وہ بہت زیادہ دبائوکا شکار ہیں۔ در اصل کینیڈی کو شروع میں ہی بہت سے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑگیا تھا۔
جنرل ایوب امریکہ میں تھے، منگل11جولائی1961ء کی شب ان کے اعزاز میں اسٹیٹ ڈنر دیا گیا۔ امریکہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی غیر ملکی سربراہ حکومت کے لیے جارج واشنگٹن ہائوس میں ڈنرکا اہتمام کیا گیا۔ عموماً اس طرح کے ڈنر وائٹ ہائوس میں ہوتے تھے۔ جنرل ایوب کو مائونٹ ورنن پر جارج واشنگٹن کے گھر ڈنر دینے کا خیال کینیڈی کی خوبصورت بیوی جیکولین کا تھا جوکچھ عرصہ پہلے ویانا سے ہوکر لوٹی تھیں، جہاں سترہویں صدی کے بادشاہوںکے تعمیر یے گئے محل میں انہیں کھانا دیا گیا تھا۔ مسز کینیڈی اس محل سے بہت متاثر ہوئی تھیں۔ اسی طرح کا ڈنر انہیں فرانس میں بھیایک محل میں بھی دیا گیا تھا۔ امریکہ میںکوئی ایسے محل نہ تھے؛ تاہم امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کی ایک حویلی ضرور تھی جو وائٹ ہائوس سے چندکلومیٹر دور پوٹامک دریا کے اوپر سے جھانکتی محسوس ہوتی تھی۔ اس حویلی کی تاریخی اہمیت اور پوٹوماک دریا کے کنارے پر سجی شام یقنیاً اس ڈنر کو بہت اہم اور خوبصورت بنا سکتی تھی۔
اس سے پہلے 26 جونکو جیکولین نے خود خفیہ طور پر اس حویلی کا دورہ کیا اور وہاں کی ایسوسی ایشن سے بھی بات چیت کی۔ یہ بہت بڑا پلان تھا۔ حویلی کے اندرکیونکہ زیادہ جگہ نہیں تھی، لہٰذا ڈنر کا انتظام لان میں کیا گیا۔ حویلی میں اتنی بجلی بھی نہ تھی اور پرانا طرز تعمیر زیادہ نظر آتا تھا۔ اس وقت وہاں جدید کچن اور ریفریجریٹرکی سہولیات بھی نہ تھیں۔ اس کا ایک ہی طریقہ تھا کہ خوراک وائٹ ہائوس میں تیار کی جائے اور وہاں سے لا کر مہمانوںکو کھلائی جائے۔ اس کام کے لیے امریکہ کی سیکریٹ سروس، میرین کاپ اور امریکی آرمی کی خدمات بھی لی گئیں تاکہ وہ مہمانوں کی سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھالیں۔ آرمی ڈرمزکا بھی بندوبست کیا گیا تاکہ وہ ماحول کو گرما سکیں۔
پاکستانی مہمانوںکو ایک کشتی میں بٹھا کر اس قدیم حویلی میں لایا گیا۔ پہلی کشتی صدر کی تھی، اس کے پیچھے چھوٹی کشتیوں کی قطار تھی جس میں سب مہمان سوار تھے۔ سب دریا میں کشتیوں پر سوار ہوئے اور پندرہ کلو میٹر کے سفر پر روانہ ہوگئے جو سوا گھنٹے میں طے ہوا۔
مہمانوں کی فہرست میں سب سے پہلا نام جنرل ایوب خان کا تھا، دوسرا نام ان کی بیٹی بیگم ناصر اختر اورنگزیب کا تھا۔ وفد میں وزیرخارجہ اور وزیرخزانہ بھی شامل تھے۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر عزیز احمد بھی موجود تھے۔ شروع میں پاکستانی سفیر اس بات پر پریشان تھے کہ ڈنر وائٹ ہائوس میں نہیں ہو رہا تھا۔ ان کو خدشہ تھا کہ امریکیوں نے پاکستانی وفدکو اہمیت نہیں دی؛ تاہم اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے عزیز احمد کو قائل کیا کہ مائونٹ ورنن پر ڈنر میں زیادہ فائدہ ہے، اس سے پاکستانی صدر کے دورے کو زیادہ اہمیت اور کوریج ملے گی۔
اس ڈنر میں جو امریکی مدعو تھے وہ وہ سب نئی امریکی انتظامیہ کے اہم لوگ تھے جو کینیڈی کے ساتھ وائٹ ہائوس میں برابرجمان تھے۔ ان میں صدرکے علاوہ نائب صدر،اٹارنی جنرل، ان کی بیگمات، وزیرخارجہ، وزیردفاع، سیکرٹری نیوی، چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف اور ان کی بیگمات شامل تھیں۔ چھ سینٹر بھی مدعو تھے۔ ہائوس سپیکر کے علاوہ دوسرے اہم لوگ بھی موجود تھے۔ مستبقل کا امریکی صدر جیرالڈ فورڈ ، امریکہ کے پاکستان میں سفیر، امریکہ ایئرفورس کے چیف اپنی بیگم کے ہمراہ اور فوج کے تمام اعلیٰ عہدے دار بھی وہاں دیکھے جاسکتے تھے۔ ان کے علاوہ امریکہ اور پاکستان کے صحافی بھی وہاں موجود تھے۔ کل مہمانوں کی تعداد 130 تھی۔ حویلی میں سب سے اہم شخص سی آئی اے کے چیف تھے جو ری پبلکن کی پچھلی انتظامیہ سے چلے آ رہے تھے۔ ان کے کینیڈی خاندان کے ساتھ پرانے تعلقات بھی تھے۔ اس ڈنر سے کئی برس قبل جیکولین نے سی آئی اے کے اس سربراہ کو جیمزبانڈکا مشہور ناول فرام ریشیا ود لو دیا تھا اور یوں وہ بھی کینیڈی کی طرح جیمزبانڈ کے بہت بڑے فین بن گئے تھے۔ تاہم اس وقت سی آئی اے کے چیف کی پریشانی جنرل ایوب خان بن چکے تھے جو ان کے کچھ منصوبوں میں رکاوٹ بن رہے تھے۔
رات آٹھ بجے ڈنر کے لیے بیٹھنے سے قبل مہمانوں کو امریکہ کے پہلے صدر کی حویلی کا دورہ کرایا گیا جسے سب نے بڑا انجوائے کیا۔ اب وہ وقت آن پہنچا تھا جس کے لیے امریکہ نے اتنا بڑا ایونٹ جنرل ایوب کے لیے سجایا تھا۔ جنرل ایوب کو اب بھی علم نہ تھا کہ انہیں اتنی عزت کیوں دی جارہی ہے۔ وہ اندازہ لگانے میں یقیناً مصروف تھے لیکن وہ خود امریکیوںکے منہ سے سننا چاہتے تھے کہ انہیں یہاں بلا کر اتنی عزت کیوں دی جا رہی ہے کیونکہ امریکی تو خود کہتے ہیںکہ دنیا میں کوئی فری لنچ نہیں ہوتا۔ دیکھنا یہ تھا کہ اب امریکی صدر ایوب کو دیے گئے اس ڈنر کی کیا قیمت چاہتے ہیں۔ (جاری)