اگرچہ یہ جملہ مشہور ہے۔۔۔۔ تاریخ کا یہ سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا۔ لیکن آج کل ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتابوںکے مطالعے سے میں سوچتا ہوں انسانوںکو وہی بادشاہ اچھے لگتے ہیں جو ان پر سختی کریں، مسلسل خوف میں مبتلا رکھیں۔کہتے ہیں خوفزدہ انسان کچھ کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے، خوف نہ ہو توکچھ بھی کر سکتا ہے۔
دلی کے بادشاہ محمد تغلق نے ایک دفعہ کہا تھا، میرے پاس اپنے مخالفین اور ناراض عوام کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے تلوار! کیونکہ سب تلوار کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔
تغلق سے پہلے سلطان علائو الدین خلجی کا خیال تھا، ہندوستان میں ہندو اکثریت میں ہیں، لہٰذا ان کو غریب رکھو تاکہ وہ اس کے خلاف بغاوت کا سوچ بھی نہ سکیں۔ یورپ اور ہندوستان کی تاریخ میں دو ایسے بادشاہ گزرے ہیں جنہوں نے اپنے لوگوں پر ظلم کی انتہا کی اور رعایا کو خوفزدہ کر کے رکھا؛ اگرچہ یورپ سے ہندوستان تک ان ادوار میں ہر بادشاہ ہی ظالم تھا۔
سولہویں صدی کے یورپ میں ہنری ہشتم کا دور دہشت و بربریت سے پُر تھا۔ بادشاہ ہی خدا تھا۔ جس طرح کی چاہے سزا دے، چاہے تو جان بھی لے لے۔ ہر شخص ہمہ وقت خوفزدہ رہتا تھا۔ اس نے اپنی ملکائوں تک پر جھوٹے الزامات لگا کر ان کے سر قلم کروا دیے۔اس کے بعد اس کی بیٹی الزبتھ نے پچاس سال باپ کی پالیسیوں سے ہٹ کر حکومت کی۔ ہندوستان کی تاریخ میں اس طرح کی مثال آپ کو علائو الدین خلجی کی ملتی ہے۔ اس نے عوام کو اتنا خوفزدہ کر دیا کہ اگر بازار میں کسی کا جھمکا بھی گر جاتا تو ڈرکے مارے کوئی نہ اٹھاتا کہ اگر خلجی کو پتا چل گیا توکھال میں بھوسا بھروا دے گا۔ اس کے ظلم و ستم کی داستان بہت طویل ہے، خصوصاً جب اس نے باپ کی طرح کے شفیق چچا جلال الدین خلجی کو دھوکا دے کر قتل کر دیا؛حالانکہ اسی نے اسے پالا پوسا تھا۔ اس نے ان تمام امراء کو بھی مروا دیا جنہوں نے اس کے چچا کا ساتھ دیا تھا۔ علائو الدین خلجی کے بارے میں مورخ لکھتے ہیںکہ اس نے اپنے دس بارہ سالہ دور میں جتنے انسانوں کو مارا اتنے مصرکے تمام فرعونوں کے ادوار میں بھی نہیں مارے گئے تھے۔
اس کے باوجود علائو الدین خلجی کے عہد کو سنہری دور کہا جاتا ہے کہ اس نے مختصر وقت میں ہندوستان میں امن قائم کر دیا تھا۔ مارکیٹوں میں قیمتیں کم کر دیں۔کسانوں کے لیے بہت کام کیا۔ غلے کی فراونی یقینی بنائی۔ ہندوستان کو منگولوں سے محفوظ رکھا۔ ٹیکس کی وصولی بہترکی۔کرپٹ بیوروکریسی کو لگام ڈالی۔ لوٹ مار ختم کی۔ جاسوسی کا نظام بہترکیا۔ ہر دل میں خوف ڈال دیا کہ جلال الدین خلجی ان کی باتیں سن رہا ہے۔ اگر کوئی سو بھی رہا ہے تو اس کے جاسوس اسے دیکھ رہے ہیں۔ گویا علائو الدین خلجی ظالم تو تھا لیکن اس کی عوامی اصلاحات زبردست تھیں۔ آپ پوچھیں گے آٹھ سو برس پرانی علائو الدین خلجی کی یہ رام لیلا سنانے سے میںکیا ثابت کرنا چاہتا ہوں؟
میں بتانا یہ چاہتا ہوںکہ علائو الدین خلجی کا اقتدار ختم ہوا، جو انتظامی طور پر بہترین سمجھا جاتا تھا تو پھر کیا ہوا؟ اس کی دس سالہ حکومت میں تو کرپشن کرنے والا دس بار سوچتا تھا کہ خلجی کو پتا چل گیا تو خیر نہیں، لیکن اس کی وفات کے بعد کیا ہوا؟ کیا آپ یقین کریںگے کہ علائو الدین خلجی کے دفن ہوتے ہی ہندوستان میں وہ سب کام شروع ہوگئے جو پہلے ہوتے تھے۔ ریاست کے اہم عہدے دار، افسر،کاروباری لوگ اور عام دکاندار وہ سب کچھ کرنے لگے جو خلجی کے ڈر سے نہیں کرتے تھے۔ ہندوستان پھر وہیں جا کھڑا ہوا جہاں علائو الدین خلجی سے پہلے تھا۔۔۔۔ وہی خانہ جنگی، اقتدار کی لڑائی۔ اس کا بیٹا مبارک تخت پر بیٹھا اور بدترین حکومت کی۔ آخر زوال اس خاندان کا مقدر بنا۔ مبارک خلجی باپ کی روایات کو جاری نہ رکھ پایا اور محمد تغلق دلی کا سلطان بن گیا؛ حالانکہ مبارک نے باپ سے بھی دو ہاتھ آگے جا کر قتل عام کیا تھا۔ مورخ برنی لکھتا ہے کہ علائوالدین خلجی کی موت کے ساتھ ہی اس کی تمام اصلاحات بھی دم توڑگئیں۔ مبارک خلجی اپنے باپ کی ہزاروں اصلاحات سے بیزار ہوا تو سب کچھ ہوا میں اڑگیا۔ پھر اسی لوٹ مار،کرپشن اور رشوت کا بازار گرم ہو گیا۔ عوام بازاروں اور افسروں کے ہاتھوں خوار ہو گئے۔ مبارک خلجی کے دور میں کوئی علا ئو الدین خلجی کے دورکی یہ باتیں نہیں سنتا تھا کہ تم یہ کر سکتے ہو، وہ نہیں کرسکتے۔ سب چیزیں دوباہ مہنگی ہوگئیں۔ تاجروں سے خوف ختم ہوگیا۔ تاجروں اور اہلکاروں نے علائو الدین خلجی کی موت پر جشن منایا کیونکہ وہ اب وہ من مانی کر سکتے تھے۔ انہیںکوئی خوف نہ رہا۔ ریونیو افسران کی بھی چاندی ہوگئی۔ انہوں نے عوام کو لوٹنا شروع کر دیا۔ چار سال چاہ ماہ کے اقتدار میں مبارک نے عیاشی کے علاوہ کچھ نہ کیا۔ عوام لٹ گئے، تباہ ہوگئے، لیکن بادشاہ کو کوئی فکر نہ تھی۔مبارک خلجی نے گجرات سے اپنے ایک قریبی شخص کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ بھرے دربار میں امراء کی بے عزتی کرے، انہیں سر عام ذلیل کرے۔ مبارک خوش قسمت تھا کہ اس کے دور میں منگول ہندوستان پر حملہ آور نہیں ہوئے، فصلیں بھی اچھی ہوتی رہیں، قدرتی آفت نہیں آئی، لہٰذا ریاست کا کام تمام تر خرابیوں کے باوجود چلتا رہا۔ لیکن اس دوران کرپٹ مافیا پھر ہندوستان پر قابض ہوگیا۔ مورخ فرشتہ لکھتا ہے کہ مبارک خلجی انسان کے روپ میں درندہ تھا۔ ایک دفعہ جب اسے اپنے باپ علائوالدین کے کزن اسد الدین کی سازش کا پتا چلا تو نہ صرف اس نے اپنے عزیزوںکو قتل کیا بلکہ ان کے چھوٹے بچوںکو بھی بھیڑ بکریوںکی طرح قتل کرا دیا اور ان کی بیویوں اور لڑکیوں سے دلی کی گلیوں میں بھیک منگوائی گئی۔ یہاں تک کہ اپنے سسر ظفرخان کا سر قلم کرا دیا جو گجرات کے گورنر تھے۔ ابن بطوطہ لکھتا ہے، ایک دفعہ یہ افواہ اس کے کانوں تک پہنچی کہ چند امراء اس کے بھائی خضر خان کے بیٹے کو اقتدار میں لانا چاہتے ہیں۔ مبارک نے اپنے بھتیجے کو پائوں سے پکڑ کے گھما کر اتنی دفعہ پتھرکی دیوار پر مارا کہ اس کا بھیجا نکل گیا۔ پھر اس نے اپنے تین بھائیوں کا بھی سر قلم کرا دیا جن کو وہ پہلے ہی اندھا کرا چکا تھا۔ دلی پر مسلمان حکمرانوں کی عیاشیوں اور ظلم و بربریت کی داستانیں ایس ہیں کہ آج آٹھ سو سال بعد بھی پڑھتے ہوئے انسان کانپ جاتا ہے۔ مبارک کے ساتھ کیا ہوا اور کیسے خلجیوں کے بعد تغلقوں نے دلی پر قبضہ کیا، اسے یہیں چھوڑکر واپس لوٹتے ہیں۔
یہ سیاستدان ہی تھے جنہوں نے ایسے حالات پیدا کیے کہ فوج مارشل لاء لگا کر اندر آئی۔ جنرل ایوب خان نے کرپشن کے خلاف کارروائیاں کیں اور راتوں رات ایبڈو قانون کے تحت سیاستدانوں کو نااہل قرار دیا اور کہا اب پاکستان سدھر جائے گا۔ بعد میں اسی ایوب خان کے بچوں پرکرپشن کے الزامات لگے جن کی بنیاد پر اس نے سیاستدانوں کو نااہل قرار دیا تھا۔ بھٹو نے تین سو سے زیادہ کرپٹ بیوروکریٹس کو نوکریوں سے نکالا کہ اب پاکستان سدھر جائے گا۔ جنرل ضیاء نے علائو الدین خلجی کی طرز پر اپنے ہاتھ میں ڈنڈا پکڑا اور جو ہاتھ لگا اسے جیل میں ڈال دیا، پھانسیوں پر چڑھایا، کوڑے لگوائے کہ اب معاشرہ سدھر جائے گا۔ سیاستدانوں، عوام اور بیوروکریسی کو ہاتھ میں ڈنڈا پکڑکر نماز پر لگایا کہ اب پاکستان سدھر جائے گا۔ سب نے ان دنوں میں داڑھیاں رکھ لیں اور ہاتھ میں تسبیحیں پکڑ لیں کہ جنرل ضیاء خوش ہوگا۔ جنرل مشرف کا خیال تھا کہ اس کے محفلوں میں رقص اورگانے سے پاکستان سدھرے گا۔ لیکن جنرل ایوب کے خلاف نعرے لگے۔ اس میں حیا تھی کہ استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ گیا۔جنرل ضیاء کی قبر پر آج کوئی نہیں جاتا۔ جنرل مشرف کو اپنے دور میں نوٹیفکیشن جاری کرنا پڑا کہ فوجی وردی میں مارکیٹوں میں نہ جائیں کیونکہ لوگ تشدد پر اتر آئے تھے اور عوامی تحریک چل رہی تھی۔
اب پھر نعرے لگ رہے ہیںکہ جنرل راحیل شریف اب آجائو۔ سوال یہ ہے کہ حل کیا ہے؟ یہ طے ہے کہ نواز شریف، زرداری اور ان کے کرپٹ ساتھی سیکھنے کو ہرگز تیار نہیں۔ان کے نزدیک بے تحاشا کمائی گئی دولت ہی میں عزت ہے۔ لوٹ مار میں ہی عظمت ہے۔ اگر کوئی امید رہ گئی تھی تو نواز شریف نے بادشاہوں کے انداز میں لندن سے پی آئی اے کا خصوصی جہاز لے ختم کر دی۔ کہتے ہیں ان کے دل میں پاکستان اور اس کے لوگوں کا درد ہے؛ حالانکہ وہ سلطنتِ دہلی کے بے رحم بادشاہوں کی طرح حکومت کر رہے ہیں۔ زرداری کی کرپشن کا دور ختم ہوا، اب نواز شریف کی باری ہے۔ لوگ کہتے ہیں فوج کی طرف نہ دیکھیں تو کہاں جائیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے چار دفعہ فوج نے براہ راست اقتدار میں آکرکیاکر لیا جو اب کرے گی؟ نئے کرپٹ سیاستدان پیدا کرے گی۔ وہی علائو الدین خلجی والا ماڈل کہ جب تک آپ کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے لوگ ڈرے رہیں گے، جب آپ واپس جائیں گے پھر وہی کام شروع ہو جائیں گے۔
سیاستدان جیسے ہیں ویسے ہی رہیںگے اس لئے کہ ہم عوام ہی ایسے ہیں۔ انہوں نے ایوب خان کا ایبڈو قانون بھگتا، جنرل مشرف کا نیب بھی، لیکن سیاستدان اور بیوروکریٹس کرپشن کرنے سے بازنہیں آئے اور نہ آئیںگے۔ بادشاہوں کا دور گزرگیا۔ جدید دور میں سیاستدانوںکو فوجی حکمران نہیں بلکہ ایکٹو عدالتیں، نیوٹرل اور بے رحم نیب، ایف آئی اے اورمیڈیا ہی ٹھیک کر سکتے ہیں۔ اگر فوج ملک پر احسان کرنا چاہتی ہے تو سرکاری اداروںکے سربراہان اچھے لگوائے جو احتساب اور انصاف کرائیں۔ عدالتیں ایکٹو ہوں۔ طارق کھوسہ یا شعیب سڈل جیسے افسروںکو چیئرمین نیب لگوائیں۔ میڈٖیا عوام میں شعور بیدار کر رہا ہے۔ ہوسکتا ہے اگلے الیکشن میں کچھ بہتری ہو۔ وقت لگے گا، یورپ میں بھی وقت لگا تھا۔ فی الحال آپ آنے کی باتیں رہنے دیں۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی طرح آپ بھی کچھ نہیں کر سکیںگے۔ علا ئوالدین خلجی ماڈل کچھ ہی دن چلے گا۔ گویا چند دن کی چاندنی اور پھر وہی اندھیری رات! بقول شخصے کرنی تو آپ نے اپنی مرضی ہے، ہم نیک و بد حضورکو سمجھائے دیتے ہیں!