"RKC" (space) message & send to 7575

سارا قصور ہمارا ہی ہے؟

لندن ایک برس بعد آیا ہوں تو سب پوچھتے ہیں کہ کیا بنے گا؟ بیرون ملک رہنے والی پاکستانی ہم پاکستانیوں سے زیادہ پریشان رہتے ہیں۔
ایک صاحب راستے میں مل گئے۔ روک لیا۔ مجھے کہنے لگے ان کا کچھ کریں۔ میں ہنس پڑا اور بولا، میں کیا کرسکتا ہوں؟ کچھ بولتا یا لکھتا ہوں تو جمہوریت دشمن کہلاتا ہوں۔ میں نے کہا، صبر کریں۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جمہوریت میں تو یہ سب چلتا ہے۔ ابھی تو شروعات ہوئی ہیں۔ ابھی تو اللہ انہیں زندگی دے، اگلے بیس تیس برس یہ خود حکومت کریں گے اور پھر اگلی نسلوں کی حکومت شروع ہوگی۔ مغلوں نے چار سو برس سے زائد راج کیا۔ دلی سلطنت پر ترکوں اور افغانوں نے دو تین صدیاں حکومت کی۔ پاکستان اور ہندوستان تو وہ سرزمین ہے جہاں ایبک، التمش اور بلبن جیسے مارکیٹ سے خریدے گئے غلام بھی چوراسی برس دلی پر سلطان بن کر حکومت کر لیتے ہیں۔
اکیلے شہنشاہ اکبر نے پچاس برس حکومت کی تھی۔ ان بے چاروں کو تو ابھی مل ملا کر تیس برس ہوئے ہیں۔ اتنی جلدی کیا ہے۔ جب کہ زرداری خاندان نے تو ابھی اپنا کھاتہ کھولا ہی ہے۔ بھلا پانچ برس کی کیا اوقات ہوتی ہے۔ یہ اور کہانی ہے اس طرز حکومت کے بعد آخری مغل بادشاہ اور اس کی نسلوں کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔ آج کل پاکستان میں ایک نیا رجحان چل نکلا ہے۔ جو حکمرانوں میں کیڑے نکالے یا ان کی کرپشن بے نقاب کرے، اسے جمہوریت دشمن کا لقب دے دو۔ اسے فوج کا گماشتہ قرار دے دو۔ یہ سب ہمیں جمہوریت کے فوائد گنواتے ہیں۔ ویسے مزے کی بات ہے، ان میں سے اکثریت وہ ہے جو جنرل مشرف کی آرمی ہاوس میں ہونے والی ضیافتوں میں نہ صرف شریک ہوتی تھی، بلکہ کئی تو باقاعدہ لڑ پڑتے تھے کہ اگلی نشست پر کون بیٹھے گا۔ سفارشیں ہوتی تھیں، جناب مجھے بلانا نہ بھولیے گا۔ اسلام آباد سے باہر حضرات کو باقاعدہ جہاز کا ٹکٹ اور شہر میں فائیو اسٹار ہوٹل کا قیام ملتا تھا۔ ایک بڑی گاڑی ائیرپورٹ سے لیتی اور واپس چھوڑتی۔ واپسی پر جنرل مشرف کے حق میں طویل کالموں کا مقابلہ شروع ہوجاتا۔ اس وقت جنرل مشرف کا موازنہ جنرل ڈیگال سے کم کسی سے نہ ہوتا تھا۔ اس وقت نواز شریف کے خلاف یہ جواز دیے جاتے تھے، جناب ان کی تو کسی سے بن ہی نہیں سکتی، چاہے جنرل اسلم بیگ ہوں، جنرل آصف نواز جنجوعہ، کاکڑ، جنرل جہانگیر کرامت ہوں یا پھر مشرف...ویسے میں ان قلمی دانشوروں کو داد دیتا ہوں، جب کوئی فوجی حکمران بن جائے تو بھی ان کے پاس دلیلوں کے انبار ہوتے ہیں اور جب نواز شریف وزیراعظم بن جائیں تو بھی یہ ڈھول بجانے میں ثانی نہیں رکھتے۔ 
آج کل ان دانشوروں کا سارا وقت نواز شریف اور زرداری کے ناقدین کو سمجھانے پر خرچ ہوتا ہے۔ حیران ہوتا ہوں، اگر کبھی جرأت کر کے اتنی محنت یہ نواز شریف اور زرداری پر بھی کر لیں تو ملک سنور جائے گا۔ اب سندھ میں پچھلے برسوں میں لٹریسی ریٹ چار فیصد کم ہوا ہے۔ سندھ کی پچھتر فیصد آبادی غریب ہے۔ پنجاب میں بہاولپور جو تقسیم کے وقت سب سے امیر ریاست ہوا کرتی تھی، وہ اب غریب ہوچکی ہے۔ لاہور سے روزانہ درجنوں کے حساب سے بچے اغوا ہورہے ہیں، یہ سب کس کے کھاتے میں ڈالا جائے؟ آٹھ ماہ ہوگئے ہیں، آپ نے بلدیاتی اداروں کا اجلاس تک نہیں بلایا، آپ نے چیئرمینوں اور میئرز کا انتخاب تک نہیں ہونے دیا۔ لاہور کا میئر ابھی بنا نہیں، لیکن سنی سنائی پر بنائے گئے خواجہ حسان ترکی کا دورہ کر بھی چکے ہیں اور اس پر پچاس لاکھ روپے خرچ بھی ہوگئے ہیں۔ اسلام آباد کے میئر کا یہ حال ہے، آپ میں سے کوئی گوگل کیے بغیر مجھے اس کا نام بتا سکتا ہے کہ وہ کون ہے؟ جو کبھی سی ڈی اے کا ٹھیکیدار تھا، وہ آج شہر کا میر ہے۔ اس کی ایک ہی خوبی بتائی گئی ہے کہ اس نے ایف الیون اور مری میں شاہی محلات تعمیر کر کے دیے ہیں۔
اگر نواز شریف کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ آپ نے آئی پی پی ایز کو بغیر بلوں کی تصدیق کیے چار سو اسی ارب روپے کیسے دے دیے تو آڈیٹر جنرل رانا بلند اختر کو برطرف کرادیا جاتا ہے۔ اسحاق ڈار نیا بل منظور کرالیتے ہیں کہ اب بلوں کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہے۔ جب ان کا جی چاہے، وہ کسی کو بھی براہ راست ادائیگی کراسکتے ہیں۔ خود آپ کسی دوکان پر جائیں تو کتنے آپ میں سے ہوں گے جو بغیر بل کو پڑھے اور دیکھے کہ آپ نے کیا خریدا تھا اور کتنے پیسے ادا کرنے ہیں، ادائیگی کردیںگے؟ خود آپ ایک ایک بل میں رعایت چاہتے ہیں۔ بل کم کراتے ہیں، لیکن ہمیں نصیحت فرماتے ہیں کہ چار سو ارب روپے کسی کو بغیر بلوں کی تصدیق کیے ادا کر دیے گئے ہیں تو آپ نے کوئی سوال نہیں کرنا، ورنہ آپ جمہوریت دشمن ہیں اور فوج کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔
گورنر ہائوس مری جہاں ہر وقت شاہی خاندان کی آمدورفت رہتی ہے اور دیگیں پک کر اسلام اباد سے ہیلی کاپٹر پر وہاں پہنچائی جاتی ہیں، کی آرائش پر پچاس کروڑ روپے خرچ کردیے ہیں۔ پاناما لیکس پر پوچھا جائے تو بھی جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے۔ ایک ہی جواز سامنے آتا ہے کہ جناب نواز شریف کا نام اس میں شامل نہیں ہے۔ تو پھر ان بچوں کے پاس انیس سو چوارنوے میں دولت کہاں سے آئی تھی؟ کیا وہ باپ کی کمائی نہیںتھی؟ انیس سو بانوے کا ریفارمز ایکٹ سے کس نے کیا کمایا اور باہر بھیجا؟یہ بات ان کے قلمی مداحوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت وقت پر تنقید ہوا کرتی ہے۔ یہ میڈیا کا کام ہے۔ میڈیا کی تنقید جمہوریت کو مضبوط کرتی ہے، نہ کہ کمزور۔ 
اگر یہ سوال اٹھ جائے کہ جناب ستر ارب ڈالرز کے مقروض ملک کا وزیراعظم ایک پورا طیارہ بک کر لیتا ہے اور اس پر پیسے خرچ ہوتے ہیں تو بھی آسمان گرنے لگتا ہے۔ گاڑیوں کے قافلے چلتے ہیں۔ کیمپ آفس کے نام پر شہباز شریف چار گھر سرکاری خزانے سے چلاتے ہیں۔ شاہی خاندان کے بچے کو درجنوں سکیورٹی گارڈز اور اسکارٹ ملے ہوئے ہیں اور اسی لاہور میں یہ حالت ہے کہ سینکڑوں بچے اغوا ہوگئے ہیں اور کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب اس تخت لاہور کے شہنشاہ شہباز شریف نے چین سے ایک ٹوئٹ کیا ہے کہ جب وہ بلٹ ٹرین سے اترے تو انہیں کتنا سکون ملا۔ یہ اس وزیراعلیٰ کا ٹوئٹ ہے جس کے شہرمیں سینکڑوں والدین رات کو سو نہیں سکتے کہ ان کے بچے اغواء ہوگئے ہیں۔
جس جمہوریت اور اس کے وزیراعظم کے لیے جن کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے، وہ وزیراعظم ایک سال تک سینیٹ نہیں جاتا۔ رضا ربانی ایک قانون لاتے ہیں، جس کے تحت ہر پندرہ روز بعد وزیراعظم ہائوس تشریف لایا کریں گے۔ اس بل کو بھی پاس ہوئے ایک برس ہوگیا ہے اور نواز شریف اس قانون کے باوجود سینیٹ نہیں جاتے۔
نواز شریف سات ماہ قومی اسمبلی نہیں جاتے اور پانچ ماہ تک کابینہ کا اجلاس تک نہیں ہوتا۔ اگر قومی اسمبلی میں بل لایا جاتا ہے، پندرہ دن بعد ایک دن وزیراعظم وقفہ سوالات میں ارکان کے سوالات کے جوابات دے گا تو حکومت اس بل کو مسترد کرادیتی ہے۔ کیا جمہوریت اسے کہتے ہیں یا جمہوری وزیراعظم ایسے ہوتے ہیں؟
ابھی انکشاف ہوا ہے جو ملک خود قرضوں پر چل رہا ہے، اس میں پچھلے تیس برسوں میں چار سو تیس ارب روپے قرضے معاف ہوئے ہیں۔ ایک طرف ڈالرز میں قرضے لو اور بڑے لوگوں کے پاکستان میں معاف کردو۔ اس پر بات کرنا بھی یقیناً جمہوریت سے دشمنی ہوگی۔
ویسے کسی دن اس بات پر بھی غور کریں کہ سارا قصور میڈیا کا ہے یا کچھ قصور ان بادشاہوں کا بھی ہے جو مغل بادشاہوں کے طرز حکومت کو جمہوریت کا لبادہ اوڑھا کر مزے کر رہے ہیں...؟ پوچھا جاسکتا ہے جب نواز شریف 1993ء میں وزارت عظمیٰ سے برطرف ہوئے تھے تو اس وقت بھی ٹی وی چینلز اور اینکرز نے ان کی حکومت گرائی تھی یا پھر بارہ اکتوبر 1999ء کے روز پاکستان کے درجنوں چینلز اور اینکرز جنرل مشرف کو دعوت دے رہے تھے، جناب قدم بڑھائو؟
سب کچھ میڈیا کے کھاتے میں نہ ڈالیں، کچھ کریڈیٹ جناب عزت ماب وزیراعظم کو بھی عطا فرمائیں۔ وہ خود اس کام میںمہارت رکھتے ہیں، جس کا الزام آج کل میڈیا پر دھر دینے کا رواج بن گیا ہے۔
میرے قلمی دوستو... آپ نے تو اگلے دن نئے رومن جنرل سیزر کے ہاتھ بیعت کرلینی ہے اور انہیں ان کی نئی ذمہ داریاں سمجھانی ہیں، بھگتنا پھر بھی عوام اور ہم جیسے سرپھروں نے ہی ہے...!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں