امریکہ آنے کا پروگرام نہیں تھا لیکن کچھ مجبوری تھی کہ آنا پڑا۔ بعض چیزوں پر انسان کا بس نہیں چلتا۔ مجھے یاد ہے، دو سال پہلے تک میں ساری دنیا میں جانے کو تیار تھا لیکن امریکہ کا نام سنتے ہی بدک جاتا تھا۔ پھر امریکہ میں نئی دوستیاں بنیں اورکچھ دوستوں سے دل لگ گیا۔
مجھے یاد ہے، 2014 ء میں جن حالات میں یہاں آیا تھا۔ جب امریکہ پہنچ کر پہلا کالم لکھا تو سب سے پہلی ای میل امریکہ سے صائمہ پاشا صاحبہ کی تھی جس میں انہوں نے جس طرح میری کونسلنگ کی اور ہمت بندھائی وہ شاید کبھی نہ بھول سکوں۔
خیر، پہلا پڑائو ورجینا میں اکبر چوہدری کے گھر ہی ہوتا ہے۔ تاہم اس بار شاہین صہبائی کے گھر بھی طویل محفل جمی۔ انہوں نے اپنے نئے گھرکے بیسمنٹ میں جس طرح کا جدید اسٹوڈیو بنایا ہے اس سے متاثر ہوا۔ وہ بھی مستتقل طور پر پاکستان لَوٹنے کا سوچ رہے ہیں۔
سب سے بڑی محفل مشہور کالم نگار اور دانشور منظور اعجاز کے قریبی عزیز شعیب حسن کے گھر جمی، جہاں مشہور زمانہ مزاح نگار انور مقصود کراچی سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ میرے علاوہ وہاں شاہین صہبائی، اکبر چوہدری اور نور نغمی بھی موجود تھے۔ میری انور مقصود سے پہلی ملاقات تھی۔ یقین کریں دو گھنٹے ہم سب ان کے جملوں پر لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔ مجھے اس عظیم مزاح نگار کی عظمت کا احساس پہلی بار ہوا۔ یہ رات شاید نہ بھلائی جا سکے۔ زندگی میں اتنا کبھی نہیں ہنسا ہوں گا ۔ خوبصورت شخصیت کے مالک نور نغمی کے والد ابوالحسن نغمی نے آپ بیتی لکھی ہے۔۔۔''داستان جاری ہے‘‘۔ اس کی 21 اگست کو ورجینا میں رونمائی ہے، جہاں جانے کا وعدہ کر بیٹھا ہوں۔ نغمی صاحب کی کتاب ''امریکہ میں بتیس سال‘‘ 2014ء میں پڑھی تھی اور ان کی تحریرکا مداح ہوگیا تھا۔ نغمی صاحب کیا نثر لکھتے ہیں! کمال ہے!!
ڈلیور ریاست کے لیوس شہر، جہاں سے میں نے اپنی بیوی کا علاج کرایا تھا، وہاں نشتر ہسپتال ملتان کے گریجوایٹ ڈاکٹر احتشام قریشی کے گھر بیٹھے پاکستانی صحافت پر بات چل نکلی۔ انہوں نے وہاڑی شہر کے قریب لڈن روڈ پر واقع گائوں سے آئے مقصود عالم سے فون پر بات کرائی جو وہاں حلال گوشت کی دکان چلاتے ہیں۔ ڈاکٹر احتشام نے ان کی بہت تعریف کی۔ پتا چلا وہ کالم نگاروں کے عاشق ہیں۔ مقصود عالم بتانے لگے، وہ نذیر ناجی، ہارون الرشید، مجیب الرحمن شامی، حسن نثار، اظہار الحق، سلیم صافی، ارشاد بھٹی وغیرہ سب کو پڑھتے ہیں؛ تاہم حسن نثار کی بہت تعریف کی۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا آپ ان بڑے بڑے کالم نگاروں کی تحریروں کے عاشق ہیں جن کے مزاج اور تحریریں ایک دوسرے سے نہیں ملتیں۔ مقصود عالم ہنس کر بولے، مجھے اس سے کیا لینا، میں تو ان سب کی تحریوں سے مزے لیتا ہوں، سب کے کالموں کا اتنظار کرتا ہوں۔ سیاستدانوں میں اسحاق خاکوانی کی تعریف کی ۔ بولے، وہ بھی کمال کے سیاستدان ہیں اور ان کے علاقے وہاڑی کے نواب ہیں۔ بڑے زمیندار ہیں لیکن ان میں بڑے زمینداروں والی کوئی بری بات نہیں ہے، اچھی باتیں ساری ہیں۔ مقصود عالم سے اسحاق خاکوانی کی تعریف سن کر خوشی ہوئی، چلیں کوئی تو ہے جسے دیار غیر میں کوئی اچھا سمجھتا ہے۔
امریکہ میں آج کل سب کے ذہنوں پر امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سوار ہے۔ ڈاکٹر احتشام بھی یہی سوچ رہے تھے کہ اگر ٹرمپ جیت گیا تو مسلمانوں کا کیا بنے گا؟ بولے، جب جاپان کے ساتھ امریکہ کی جنگ ہوئی تھی تو تمام جاپانیوں کو ایک جگہ کیمپ میں اکٹھا کر کے رجسٹرکیا گیا تھا۔ ان سب کی امریکہ سے محبت اور وفاداری پر سوال اٹھ گئے تھے۔ توکیا اب ٹرمپ بھی یہی کچھ کرے گا؟ وہ سب مسلمانوں کی رجسٹریشن کرائے گا؟ میں نے کہا احتشام بھائی! آپ میں سے کوئی اس بات پر غور کرنے کو تیار ہے کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں امریکیوں نے ٹرمپ کو ہی کیوں صدر چننے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ ہار جیت بعد کا مسئلہ ہے، پہلی اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ کو اتنی پاپولیریٹی کیوں مل رہی ہے؟ کیا اس پر کوئی مسلمان غورکرنے کو تیار ہے؟ کیا کسی نے اس پر بحث کی ہے کہ امریکیوں کی اتنی بڑی تعداد مسلمانوں کوکیوں ناپسند کرتی ہے؟ جب ٹرمپ مسلمانوں کے خلاف گفتگو کرتا ہے تو سب تالیاں کیوں بجاتے ہیں؟ کیا مسلمانوں کے خلاف یہ ناپسندیدگی اتنے زیادہ امریکیوں میں ایک دو سال میں ابھری ہے یا یہ لاوا کافی دیر سے اندر ہی اندر پک رہا تھا اور جونہی ٹرمپ نے کھل کر بات کی تو امریکیوں کی بڑی تعداد نے اس کے نعرے کا ساتھ دیا کہ ''مسلمان امریکہ میں رہنا چاہتے ہیں تو امریکی بن کر رہیں اور اسلام کا نام نہ لیں؟‘‘
ڈاکٹر احتشام قریشی کے پاس کہنے کو بہت کچھ تھا۔ وہ بہت پڑھتے ہیں، بہت کم ڈاکٹروں کی حالات حاضرہ پر اتنی گرفت ہوگی۔ میں نے انہیں بتایا کہ 2007ء میں جب میں لندن میں تھا تو سب دوستوں نے کہا تھا کہ پاکستان مت لوٹ کر جائو، برطانوی شہریت لے لو، بچوں کا مستقبل بن جائے گا۔ میں نے انہیںکہا تھا کہ ایک تو میرا مستقبل پاکستان میں ہے، اس لیے میں لوٹ جائوں گا۔ میں اندر سے شدید نسٹیلجیا کا مریض ہوں۔۔۔۔ اپنے گھر، بہن بھائیوں، دوستوں اور دھرتی سے دور نہیں رہ سکوںگا۔ میں ساری زندگی محض اپنے بچوں کے مستقبل کے نام پر بلیک میل ہوکر اور دیار غیر میں بوڑھا ہو کر ایک دن اکیلے کسی بنچ پر تنہائی میں نہیں مرنا چاہتا۔ دوسرے میں نے ایک سروے پڑھا تھا جس میں یورپین سے پوچھا گیا تھا، کیا مسلمانوں کو امیگریشن دینی چاہیے؟ 63 فیصد کا جواب تھا: مسلمانوں کو یورپ میں مستقل سیٹل نہ ہونے دیں، انہیں امیگریشن مت دیں، یہ یورپی قوموں اور ان کے معاشروں کے لیے بڑا تھریٹ ہیں۔ مسلمان جن معاشروں میں رہتے ہیں وہ چاہتے ہیں مقامی لوگ ان کی زندگیوں اور مذہب کے تابع ہوکر زندگی گزاریں۔ جن چیزوں کو وہ حرام سمجھتے ہیں اسے یورپین یا امریکن بھی حرام سمجھیں۔ بعض جگہوں پر تو شرعی اسلام نافذ کرنے کے مطالبات بھی سامنے آئے۔
اہل یورپ کو اسلام اور مسلمانوں سے کوئی مسئلہ نہیں اس لیے سینکڑوں کی تعداد میں نئی مساجد کھولنے کی اجازت دی گئی۔ پاکستان سے امام مسجد منگوائے گئے، انہیں ویزے دیے گئے، شہریت دی گئی۔ بہت سارے چرچ بک گئے تو انہیں مسلمانوں نے خرید کر وہاں مسجدیں تعمیر کر لیں۔ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے، لیکن جب مسلمان مقامی گوروں کی زندگیوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے منصوبے بناتے ہیں تو پھر ٹکرائوکی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ میں خود برطانیہ اور امریکہ میں بہت سے پاکستانیوں سے ملا ہوں جو امریکہ کی برائیاں کرتے ہیں، اسے گالیاں دیتے ہیں۔ ان کے پاس ہزاروں سازشی تھیوریاں ہیں۔ ان کی ہمدردیاں امریکی فوجیوں کے بجائے ان مسلم گروپوں کے ساتھ ہیں جو ان سے لڑ رہے ہیں ۔ یہ باتیں پوشیدہ نہیں رہتیں۔ امریکہ میں ہندو، چینی، یہودی اور دیگر قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں، لیکن سب سے زیادہ ٹکرائو کی کیفیت مسلمانوں کے ساتھ پیش آ رہی ہے۔ مسلمان بڑی حد تک درست سمجھتے ہوں گے کہ امریکہ مسلمان ممالک میں تباہی کا ذمہ دار ہے۔ لاکھوں مسلمان مارے گئے۔ افغانستان سے لے کر لیبیا اور عراق تک سب کی تباہی میں ان کا ہاتھ ہوگا؛ تاہم امریکی یہ بات ہضم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ اب جب یہ سب مسلمان امریکی ہیں تو وہ ان پر تنقیدکیوں کریں۔ ان سب نے امریکی آئین پر حلف اٹھایا ہے۔ انہوں نے امریکی شہریت لے رکھی ہے۔ وہ پہلے امریکی ہیں اور بعد میں مسلمان ۔ لیکن مسلمان یہ بات سمجھنے کو ہرگز تیار نہیں ۔ وہ نہ صرف اپنے آپ کو پہلے مسلمان سمجھتے ہیں بلکہ امریکیوں کے خلاف مزاحمت میں مصروف مسلمان گروپوں کے ساتھ ہمدردی بھی رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہمیں پسند ہو یا نہ ہو لیکن وہ ٹرمپ کی شکل میں نکلا ہے۔ لیکن کوئی یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ کہیں نہ کہیں امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں سے بھی غلطی ہوئی۔ امریکیوں کی اتنی بڑی تعداد سجھتی ہے کہ اگر مسلمانوں سے کوئی ان کی جان چھڑا سکتا ہے تو وہ ٹرمپ ہے۔ ٹرمپ کھلے عام مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتا ہے اور لوگ اس کی باتوں پر تالیاں بجاتے ہیں۔
مان لیتے ہیں، ٹرمپ الیکشن ہار جائے گا۔ بہت سے ری پبلکن اس سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ ٹرمپ کے الیکشن ہارنے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف ایک عام امریکی کے اندر موجود نفرت کو ٹرمپ نے جو آواز دی ہے کیا وہ بھی دب جائے گی؟ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چار برس بعد الیکشن میں مسلمانوں کے خلاف ٹرمپ کی نفرت بھری تقریریں رنگ دکھا جائیں۔
ہوسکتا ہے پاکستانی مسلمانوں کومیری یہ بات اچھی نہ لگے لیکن اچھے برے نتائج کا سامنا انہوں نے کرنا ہے، لہٰذا میری تجویز یہ ہوگی کہ وہ مظلومیت کا رونا دھونا چھوڑ کر اس بات پر غور کریں کہ اچانک اتنی بڑی تعداد میں لوگ ٹرمپ کوکیوں ووٹ دینا چاہتے ہیں؟ ان کی انتخابی مہم کا سارا فوکس مسلمانوں کے خلاف کیوں ہے؟ کہیں نہ کہیں تو مسلمانوں سے غلطی ہو رہی ہے۔ مان لیتے ہیں ٹرمپ غلط ہے، لیکن پھر بھی کچھ گڑبڑ ضرور ہے اور یہ گڑ بڑ امریکیوں کی ایک بڑی تعداد کے مطابق مسلمانوں کے ساتھ ہے!
احتشام قریشی نے کہا، وہ سب خوفزدہ ہیں۔ امریکی الیکشن کے نزدیک یورپ میںکوئی بھی دہشت گردی کا واقعہ ٹرمپ کو وائٹ ہائوس لانے میں مدد دے سکتا ہے۔ ایک تھیوری یہ بھی چل رہی ہے کہ ٹرمپ کو فلم کے ٹریلر کے طور پر مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر مسلمانوں نے اب بھی اپنے آپ کو امریکیوں کی خواہشات کے مطابق نہ ڈھالا تو مستقبل میں ادھورے کی بجائے پورے کا پورا ٹرمپ کارڈاستعمال ہوگا اورپھر ٹرمپ جانے اور مسلمان جانیں!