چار سُو اتنا کچھ ہو رہا ہے۔ کیا لکھا جائے، کیا نیا لکھا جائے جو پہلے نہیں لکھا گیا یا نہ لکھا جارہا ہو۔ لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو شرمندہ سا ہوکر خود سے کہا اور کتنا لکھو گے! بہت لکھ لیا۔ بہتر ہے اب کچھ پڑھ لیا جائے،کچھ گزرے دنوں کی کہانی پڑھی جائے، کچھ عروج و زوال کی کہانی یاد کی جائے۔ خود کو اپنی اوقات یاد دلائی جائے۔ اس عہد کے بادشاہوں کو یاد دلایا جائے کہ تم سے پہلے بھی جنہوں نے یہ روش اختیار کی تھی تاریخ نے ان کا کیا حشرکیا۔ اور یہ زیادہ دور کی بھی بات نہیں، صرف ڈیرہ سو سال پرانی کہانی ہے۔
نیند نہیں آ رہی تھی۔ سائیڈ ٹیبل سے ایک انگریز پادری سی ایف انڈریوزکی سو سال پہلے مولوی ذکااللہ دہلوی پر لکھی گئی کتاب اٹھا لی۔ ضیاء الدین احمد برنی کو اللہ اجر دے گا کہ اتنی اہم کتاب جو ایک سو سال پہلے لکھی گئی تھی اور کب کی وقت کی دھول میں غائب ہو چکی تھی اس کا اردو ترجمہ 1952ء میں کیا اور اسے تعلیمی مرکز کراچی نے شائع کر دیا۔ اس کتاب پر عبدالحلیم صدیقی کا نام لکھا ہے۔ شاید انہوں نے کبھی خریدی ہوگی۔ یقیناً صدیقی صاحب کے بچوں نے اپنے ابّا کی پرانی کتابیں بیچ دی ہوں گی اور یہ نجانے کتنے ہاتھوں میں منتقل ہوتے ہوتے اپنی اشاعت کے 64 برس بعد گزشتہ ہفتے پرانی کتابوں کی دکان سے میرے ہاتھ لگی۔
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔کسی کو اس شاعر بادشاہ پر رحم آیا تو کسی نے اپنا غصہ اتارا کہ تیمورکی سلطنت کیسے اپنی شاعری کی نذرکر دی۔ لیکن نقاد بھول گئے کہ بھلا کوئی ریاست یا سلطنت قیامت تک کب قائم رہتی ہے! مغل آخر کب تک ہندوستان پر حکومت کرتے۔ سنٹرل ایشیا سے بھاگ کر آنے والے بابر کے وارثوں نے چار صدیاں حکومت کرلی۔ زوال تو آنا تھا۔ ان سے پہلے بھی قوموں اور ریاستوں پر آیا۔ چنگیز خان کے ہاتھوں معتصم باللہ کی موت اور عباسیوں کا زوال لکھا تھا اور یہاں ہندوستان میں قدرت نے مغلوں کے زوال کا نظارہ کرانے کے لیے بہادر شاہ ظفر کا انتخاب کیا۔ دونوں اپنی قسمت کے ہاتھوں مجبور تھے۔ ان کے بس میں ہوتا تو وہ ہارون الرشید یا بابر بننا پسند کرتے۔
خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ مولوی ذکااللہ دہلوی نے بہادر شاہ ظفرکا اقتدار اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ برطانیہ سے آئے انگریز پادری سے اس وقت دوستی ہوگئی جب عمر کے آخری حصے میں تھے۔ پادری کو شوق ہوا کہ بہادر شاہ ظفر کے دربار کے آخری چشم دید گواہ کی کہانی محفوظ کر لی جائے۔ یہ تیموری خاندان کے آخری چشم و چراغ کے زوال کی مولوی ذکااللہ کی زبانی طویل اور رلا دینے والی کہانی ہے۔ اسے کسی اور دن پر اٹھا رکھتے ہیں لیکن اس وقت نایاب کتاب میں سے دو تین واقعات شیئرکرنے کو دل چاہ رہا ہے تاکہ پتا چلے کہ معاشرے، ملک اور ریاستیں اس وقت تباہ ہوتے ہیں جب ان کے حکمران کرپٹ ہو جائیں یا عیاشیوں میں گھر جائیں۔
اٹھارویں صدی کے مغل ہندوستان میں بدترین بدامنی نمودار ہوئی۔ مغل اعظم کا اقتدار کمزور ہو رہا تھا۔ سلطنت برائے نام رہ گئی تھی۔ اس بدامنی کا سب سے زیادہ نقصان دہلی نے اٹھایا۔ سلطنت مغلیہ اپنی ماضی کی عظمت کا محض سایہ بن کر رہ گئی۔ ایک زندہ حقیت کی بجائے ایک افسانہ۔ دہلی کو مغل شہنشاہوں کے دارالخلافہ کی حیثیت سے اس وقت تک دولت ملتی رہی جب تک وہ شہنشاہ طاقتور رہے۔ وہ بنگال جیسے دور دراز ملک تک سے خراج وصول کرتے تھے۔ عظیم الشان مغلیہ بادشاہوں کے دور میں دہلی کی دولت اور خوش حالی درحقیقت اس تمام مدت میں طفیلی اور مصنوعی قسم کی تھی۔ دہلی مالدار بن گئی اس لیے کہ باقی سب علاقوں کی دولت کھچ کر دہلی لائی جاتی تھی۔
جب تک ان علاقوں میں امن قائم رہا وہ سونے کی شکل میں خراج ادا کرتے رہے۔ لیکن جب مغلیہ سلطنت انتشار کا شکار ہوئی تو اس کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ صوبوں نے دہلی کو خراج دینے سے انکار کر دیا کیونکہ مغل اب ان کی حفاظت نہیں کر سکتے تھے۔ مرہٹے زور پکڑ رہے تھے۔ سلطنت جنگجو جتھوں کا شکار ہوتی گئی۔ غارت گری، لوٹ مار، سازش، جوڑ توڑ، قتل اور ظالمانہ طاقت ہر طرف پھیل گئی۔ کہتے ہیں، جہاں لاش ہوگی وہاں گدھ ہوںگے۔ یوں ایک دن دہلی ڈوب گئی۔ چند روزہ مرہٹہ حکومت بڑی ظالم تھی۔ دہلی اور اس کے قرب و جوار کے باشندوں کی لوٹ مار اور تاخت و تاراج سے سخت نقصان پہنچا۔
جب فرنگی سرکار نے دہلی پر قبضہ کیا اور بادشاہ کو قلعے کے اندر پورے شاہانہ اختیارات کے ساتھ آزاد چھوڑ دیا تو اس وقت دہلی کے باشندوں کی ہمدردی فرنگیوں کے ساتھ ہوگئی۔ اس کے باوجود دہلی کے لوگ ہندو ہوں یا مسلمان بہادر شاہ ظفر سے عقیدت رکھتے تھے۔ انہیں بہادر شاہ ظفر سے محبت تھی اگرچہ وہ اس کی کمزوریوں پر کڑھتے بھی تھے۔سلطنت کے ہندو وفاداری سے ان کی خدمت کرتے۔ بادشاہ بھی فیاضانہ سلوک کرتا۔ نسل یا مذہب کی بنیاد پر امتیاز کم رکھا جاتا۔ تاہم آخری دنوں میں جو حالت ہوگئی اسے نرم الفاظ میں یاد کرنا ممکن نہیں۔ جس ابتری اور بدنظمی کو انہوں نے جاری رکھنے کی اجازت دی وہی لازمی طور پر انہیں لے ڈوبی۔ دہلی کے مسلمانوں سے لے کر ہندوئوں تک اس بات پر متفق تھے کہ اگر مغل اپنی طاقت قائم رکھتے تو وہ فرنگیوں پر مغلوں کو ترجیح دیتے۔ فرنگیوں نے عقل مندی کی۔ مغل بادشاہ کو کام کرنے دیا جس سے دہلی کے عوام کی ہمدردیاں لینے میں آسانی رہی۔ بہادر شاہ ظفر کو فرنگیوں نے اجازت دے رکھی تھی کہ وہ اپنا شاعرانہ شغل جاری رکھیں لیکن حقیقی طاقت آہستہ آہستہ انگریزوں کو منتقل ہوتی رہی جو دہلی کو اس کے خوفناک دشمنوں سے بچانے کی صلاحیت رکھتے تھے اور شہر کی چاردیواری کے اندر انصاف کر سکتے تھے۔ چونکہ انگریز کم تھے لہٰذا وہ نظم و نسق کے معاملات میں کم مداخلت کرتے تھے۔ شاہی محل انگریزی اختیار اور نگرانی سے آزاد تھا۔ مکمل شہنشاہیت کے آداب میں کوئی فرق نہ پڑا تھا۔ دراصل قلعہ کی حیثیت ایک علیحدہ ریاست کی سی تھی جس کے چاروں طرف غیر ملکی علاقہ تھا۔ ایک مقررہ آمدن پہلے سے موجود تھی۔ اب بھی شہنشاہ اپنے ذاتی خرچ کے لیے آزادانہ روپیہ لے سکتے تھے۔ وہ ہر مذہبی تہوار کے موقع پر انعام و اکرام کی صورت میں فیاضی کے ساتھ تیس تیس چالیس چالیس ہزار روپے تقسیم کرتے لیکن ان کی پنشن دھیرے دھیرے کم ہوتی گئی۔
ان کا اور شہزادوں کا روایتی احترام ملحوظ رکھا جاتا تھا خصوصاً جب وہ عوام میں آتے یا شہر میں داخل ہوتے تھے۔ شاہی گھرانے کے شہزادے بہادر شاہ کی طرح صلح اندیش ہوتے تو شاید نظم و نسق بہتر ہوتا لیکن وہ سب سے زیادہ شرارت کے سرچشمے تھے۔ وہ سرکش تھے اور متشددانہ مزاج رکھتے تھے۔ نہ صرف آپس میں لڑنے جھگڑنے میں مصروف رہتے بلکہ قلعہ کے اندر اور شہر میں بھی وہ پارٹی بازیوں میں مصروف رہتے۔ اپنی جتھا بندیوں پر اور اپنے مخالفین کو دبانے پر روپیہ صرف کر کے اپنے آپ کو مفلس اور قلاش بنائے رہتے۔ کسی اور کے سبب سے زیادہ وہ مغل شہزادے ہی تیمورکے گھرانے پر آخری تباہی و بربادی لانے کے ذمہ دار تھے۔ ایک دفعہ بہادر شاہ ظفر بیمار ہوگئے۔ ایسا لگا جیسے اب نہ بچ سکیں گے۔ برطانوی ایڈمنسٹریٹر نے صرف اس خیال سے کہیں شہنشاہ کا انتقال ہونے سے ہی حصول تخت کے لیے مغل شہزادوں میں جنگ نہ چھڑ جائے قلعہ کے دروازوں پر سپاہیوں کی ایک پلٹن بٹھا دی جنہیں حکم دیا گیا کہ وہ ایک قدم بھی آگے نہ بڑھیں گے اور نہ مداخلت کریں گے۔ قلعہ کے پرانے ملازمین نے شہنشاہ ہند کو خبر کی۔ جب انہوں نے یہ خبر سنی تو برطانوی کمشنر کے نام جو شہر سے باہر رہا کرتا تھا یہ رقعہ لکھ بھیجا: جناب عالی! آپ کا کیا خیال ہے کہ میری لاش اب انگریزوں سے جنگ کرے گی؟ کیا ہندوستان کے بادشاہ کو اطمینان اور سکون سے مرنے کی اجازت بھی نہیں؟
مجھے لگا مجھ پر ڈپریشن طاری ہو رہا ہے۔ فرنگی سرکار کے نام ہندوستان کے بادشاہ کا یہ خط پڑھ کر یہ کتاب پڑھی نہ گئی۔ مغلوں کا سورج ڈوب رہا تھا ۔ تیمور خاندان کے آخری چشم و چراغ کو اب سکون سے مرنے کی اجازت بھی ہزاروں میل دور سے آئے فرنگیوں سے لینی پڑگئی تھی!