پرانی کتابوں سے قرۃ العین حیدر کا شاہکار ناول 'آگ کا دریا‘ خریدا۔ کاتب کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ادیبوں کی تحریریں آج بھی مجھے اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ اب سمجھ میں آتا ہے کہ مغل بادشاہ (شاید اکبر) نے پرنٹنگ پریس لگانے کی اجازت کیوں نہیں دی تھی۔ اس لیے کہ سلطنت کے ہزاروں کاتب بیروزگار نہ ہو جائیں۔ میں کمپیوٹر کے بجائے کاتب کے ہاتھ سے لکھی گئی کتابوں کا قائل ہوں۔ میں نے یہ ناول یونیورسٹی کے دنوں میں پڑھا تھا۔ برسوں پہلے میری یونیورسٹی کی چھٹیوں کے دنوں میں بہاولپور کے عباس منزل ہوسٹل میں جب اپنے بھائی ڈاکٹر نعیم کلاسرا کے پاس ٹھہرا ہوا تھا تو انہوں نے دو ناول پڑھنے کے لیے دیے تھے‘ ایک ٹالسٹائی کا 'وار اینڈ پیس‘ اور دوسرا 'آگ کا دریا‘۔ ان دونوں عظیم ناولوں میں ایک دنیا آباد تھی‘ ایک جہاں تھا‘ ایک رومانس تھا... جس سے آج تک نہیں نکل سکا۔
اب برسوں بعد کاتب کے ہاتھ کا لکھا ہوا 'آگ کا دریا‘ دیکھا تو دوبارہ جی مچل اٹھا۔ برصغیر کی بڑی ناول نگار، کہانی کار قرۃ العین حیدر نے یہ ناول ماری، کراچی میں دسمبر انیس سو ستاون میں لکھا گیا تھا۔ اس وقت ابھی پاکستان کو بنے نو برس ہوئے تھے۔ تاریخ کا حوالہ اس لیے دے رہا ہوں کہ اس کے بغیر مزہ نہیں آئے گا اور نہ ہی آپ سمجھ پائیں گے کہ میں نے اس ناول کے چند صفحات یہاں نقل کرنے کی کوشش کیوں کی ہے۔
کراچی... مملکت خداداد پاکستان، دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت اور دنیا کے پانچویں بڑے ملک کا دارالحکومت، جہاں کے سلمز اور پناہ گزنیوں کے جھونپڑے، عجائبات عالم میں شمار کیے جاتے ہیں۔ خصوصاً وہ غلیظ ترین بھیانک جھگیاں جو قائد اعظم کے مزار کے آس پاس پھیلی ہیں۔ اس شہر میں سفید فام غیرملکیوں بالخصوص امریکیوں کی بہت بڑی نوآبادی ہے۔ ہائوسنگ سوسائٹی میں بے انتہا خوبصورت کوٹھیاں بنی ہیں‘ جن کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ متوسط طبقے نے اپنی ساری تاریخ میں آج تک اس قدر زبردست خوشحالی حاصل نہیں کی تھی۔ یہاں نئے دولت مند متوسط طبقے کی حکومت ہے۔ ان کا نیا سماج۔ ان کے نئے اصول۔ کراچی بے حد ماڈرن شہر ہے۔ یہاں روزانہ رات کو اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں اور کلبوں میں ایک جگمگاتی کائنات آباد ہوتی ہے۔ ماہرین عمرانیات کے لیے یہ مسئلہ انتہائی دلچسپی کا باعث ہونا چاہیے کہ پچھلے نو سال میں کس طرح ایک نئے معاشرے نے اس ملک میں جنم لیا ہے۔ اس معاشرے کی بنیاد ہے روپیہ‘ روپیہ بنائو اور دولت حاصل کرو۔ آج بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگا لو‘ کل جانے گنگا خشک ہو جائے یا اپنا رخ بدل لے۔ تیسرا عنصر شدید ترین فرسٹریشن کا احساس ہے۔ بلیک مارکیٹیے کو فرسٹریشن ہے کہ مزید بلیک مارکیٹ کیوں نہیں کر سکتا۔ بائیں بازو کا انٹلیکچوئل روتا ہے کہ انقلاب کی کوئی امید نہیں رہی۔ جماعت اسلامی والا چلا رہا ہے کہ مسلمان عورتیں بے پردہ گھوم رہی ہیں اور بال روم میں ناچتی ہیں۔ متوسط طبقے والے کی جان کو ہزاروں فکریں کھائی جا رہی ہیں۔ سفارشوں کے بغیر ملازمت نہیں ملتی‘ نہ بچوں کا سکول میں داخلہ ہو سکتا ہے‘ نہ عہدوں میں ترقی ہوتی ہے۔ اوپر سے بنگالی اور پنجابی‘ مہاجر اور مقامی آبادی کی کشمکش اعصاب پر سوار ہے۔ یہ کشمکش اتنی شدید ہے جنتی غیرمنقسم ہندوستان میں ہندو مسلمان کی تھی۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آخری امید اب فوجی انقلاب میں باقی ہے۔ ایک جماعت مہاجروں کی کہلاتی ہے۔ یہ پاکستان کی عجیب ترین مخلوق ہے اور ہندوستان سے آئی ہے اور ملک کے ہر شہر، قصبے اور قریے میں پائی جاتی ہے۔ کراچی اس کا ہیڈکوارٹر ہے۔ اس جماعت کا خاص ریکٹ کلچر ہے۔
تقسیم کے بعد محسوس ہوا‘ اب ہندو کہتا ہے کہ جب تمہارا کلچر اور تمہارے نظریے علیحدہ ہیں تو جائو پاکستان۔ اب ہمارے سر پر کیوں سوار ہو۔ چنانچہ یہ قوم اب مہاجر بن کر پاکستان آئی۔ یہاں انکشاف ہوا کہ ہندو سے تو چھٹکارا ملا مگر ایک اور مصیبت کا سامنا درپیش تھا۔
لاہور میں پنجابی تھا۔ ڈھاکے میں بنگالی۔ دونوں جگہ مہاجریں کو بڑا فرسٹریشن ہوا۔ لہٰذا ہر مہاجر نے کراچی کا رخ کیا۔ اب کراچی گویا مہاجرین کا گڑھ ہے۔ بڑی تعجب خیز چیز یہ ہے کہ اتر پردیشں کی اس آبادی نے کس خوش اسلوبی سے اپنے آپ کو ٹرانسپلانٹ کر لیا۔ اب یہاں جگہ جگہ ان کی کولونیاں قائم ہیں۔ یہاں آگرے والے رہتے ہیں، ادھر رامپوریوں کا جتھا ہے۔ وہ حیدر آباد دکن کے جانبازوں کا محلہ ہے۔ اس طرف علی گڑھ والے، لکھنو والے، دلی والے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے‘ چھوٹے چھوٹے مکان قرضہ لے کر بنائے گئے ہیں۔ یہ زیادہ تر ناظم آباد کا علاقہ ہے۔ لارنس روڈ، الٰہی بخش کالونی، جہانگیر روڈ، مارٹن روڈ کے سرکاری کوارٹروں میں ایک دنیا آباد ہے۔ یہ خالص، ٹھوس مسلمان متوسط اور نچلے طبقات کی دنیا ہے اور مہاجرین کی سماجی زندگی گویا ریڑھ کی ہڈی۔ ان کی لڑکیاں برقعے پہن کر بسوں میں بیٹھ کر سکول اور کالج اور یونیورسٹی جاتی ہیں۔ بند روڑ پر خریداری کرتی ہیں۔ ریڈیو پر عورتوں کے پروگرام میں حصہ لیتی ہیں۔ ویمن نیشنل گارڈز میں پریڈ کرتی ہیں۔ یہ طبقہ اب کراچی میں اس طرح رہتا ہے گویا صدیوں سے یہیں رہتا آیا ہو۔ یہ لوگ جنگ، انجام اور ڈان پڑھتے ہیں۔ کشمیر حاصل کرنے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ سال میں ایک مرتبہ ویزا بنوا کر خاندان کے بچے کھچے افراد سے ملنے ہندوستان جاتے رہتے ہیں۔ جسے اب تک یہ گھر کہتے ہیں۔
یعنی گھر دراصل سندیلہ یا مراد آباد ہے۔ ملک پاکستان ہے۔
انسانیت کا وہ حصہ جو برصغیر ہند و پاکستان کی مسلمان قوم کہلاتا ہے اس کی نفسیات سمجھنا کوئی آسان نہیں ہے۔
دوسرا طبقہ اعلیٰ طبقہ کہلاتا ہے۔ پچھلے نو سال میں بے حد مستحکم ہو چکا ہے اور محتاجِ تعارف نہیں۔ اس طبقے کی زندگی اس قدر الف لیلوی ہے کہ اب قصہ سوتے جاگتے کا، اس کے مقابلے میں بالکل ہیچ سمجھو۔ یعنی کل جو صاحب بالکل گمنام اور ہما شما قسم کے آدمی تھے، آج وہ مرکزی وزیر ہیں یا کروڑ پتی یا بہت مشہور لیڈر۔ پورے ملک کی قسمت کا فیصلہ ان کے ہاتھوں میں ہے۔ نہایت بین الاقوامی سیاسی مسائل پر فراٹے سے اخباروں میں بیان دیتے ہیں کہ طبیعت صاف ہو جاتی ہے۔ انتہائی معمولی قابلیت کے حضرات اقوام متحدہ اور دوسرے بڑے بڑے عالمگیر اداروں میں پاکستان کی نمائندگی فرماتے ہیں اور ہائولرز کرتے ہیں مگر کوئی برا نہیں مانتا۔
ان گنت خواتین و حضرات اندھوں میں کانے راجے بنے بیٹھے ہیں۔ اور خواتین... پاکستان کی بیگمات بھی دنیا کی عجائبات سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی ساریاں۔ ان کے زیوارت۔ ان کے ڈنر اور پارٹیاں۔ بیرون ممالک میں ان کے سفر۔ ان کی زندگی کا عکاس اور گویا ان کا فیشن ماہنامہ مرر ہے جس میں ان دعوتوں کی تصویریں چھپتی ہیں۔ تب اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان دراصل کس قدر ترقی یافتہ اور دولت مند ملک ہے جس کی آدھی آبادی صرف ڈنر اور ایٹ ہوم کھاتی ہے اور سمیبا ناچتی ہے۔
ہندوستان پوری کوشش کرکے یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ تقسیم غلط تھی اور ملک دراصل ایک ہے اور اس کی تہذیب ناقابل تقسیم۔پاکستان... یہ ثابت کرتا ہے کہ تقسیم بالکل جائز اور صحیح تھی اور یہاں کا کلچر بے حد مختلف ہے اور اسی علیحدہ قومیت کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا۔
ادھر ہندوستان کہتا ہے کہ سارے مشرق کی تہذیب کا منبع اس کی کلچر ہے۔ ادھر گپتا پریڈ پر روشنی ڈالی جاتی ہے‘ ادھر خلافتِ راشدہ اور عباسیوں اور مغلوں کے راگ الاپے جاتے ہیں۔ ان دونوں ملکوں میں پروپیگنڈا غرضیکہ بڑے زووں میں چالو ہے اور چاند ماری کا نشانہ مغربی ممالک۔
ایک اور عجیب و غریب چیز یہ ہے کہ اس ملک کے حالات سے لوگ حد سے زیادہ نالاں ہیں۔ اقتصادی مشکلات، گرانی، رشوت ستانی، اقربا پروری، بے ایمانی، چار سو بیسی، سیاسی غنڈہ گردی وغیرہ وغیرہ‘ روزانہ بلاناغہ اخباروں کے ایڈیٹوریل میں ہوتا ہے۔ لوگوں کے پاس سوائے اس کے اور کوئی موضوع نہیں۔
مگر اس کے باوجود کوئی ان حالات کا مداوا کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتا۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ پنسلین اور دوائوں کی بلیک مارکیٹ ہوتی ہے۔ ان کو پتہ ہے کہ ناممکن سے ناممکن کام بھی ذاتی رسوخ یا سفارش کے ذریعے چٹکی بجاتے میں پورا کر لیا جاتا ہے وہ جانتے ہیں کہ شروع سے آخر تک اوپر سے نیچے تک بے ایمانی کا دور دورہ ہے‘ مگر اس کے لیے کوئی کچھ تو نہیں کرتا۔ عوام جانتے ہیں کہ ان کے لیڈرز کتنے پانی میں ہیں لیکن لیڈروں کو بھی چند ایسے گُر یاد ہیں جن کے ذریعے عوام کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر مسلمانوں نے اتنے گرے ہوئے کردار کا ثبوت نہیں دیا تھا۔ میں نے اپنے چند نئے دوستوں سے پوچھا کہ جب آزادی اور اقتدار ملا تو اس نے من حیث القوم اتنے گھٹیا پن کا مظاہرہ کیوں کیا؟ مجھے بتایا گیا کہ شروع کے دو تین سال میں جس قدر جوش و خروش یہاں طاری تھا‘ اب اس سے چوگنی مایوسی کی عملداری ہے۔ یہی احساس کمتری ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔
کراچی میں شام کو لوگوں کو کوئی کام نہیں سوائے پارٹیوں میں جانے یا سینما دیکھنے کے۔ نہ یہاں تھیٹر‘ نہ کانسرٹ، نہ سینما‘ نہ دوسری تہذیبی سرگرمیاں... تھوڑی بہت دلچسپی غیرملکی سفارت خانوں کے دم سے قائم ہے۔ کسی روز برٹش کونسل نے ایلٹ پر ایک لیکچرکر دیا یا تصویروں کی نمائش منعقد کر دی۔ کسی روز امریکن اطلاعات کے دفتر میں کوئی پروگرام ہو گیا۔ کبھی ایران یا فرانس والوں نے کوئی تقریب کر لی، کبھی جرمن سفارت خانے میں فلم شو کر لیا۔
ویسے بس پارٹیوں کا بڑا زور ہے‘ جن میں خم میں خم لنڈھائے جاتے ہیں۔ پارٹیوں کے ذریعے لوگ اپنا اپنا مستقبل بناتے ہیں۔ موٹروں کا لین دین ہوتا ہے۔ اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کی ٹپس لڑائی جاتی ہیں۔ مکانوں اور زمینوں کی الاٹمنٹ کا کاروبار ہوتا ہے۔
اعلیٰ طبقے‘ جو بڑے بڑے تاجروں، لیڈروں اور اعلیٰ حکام پر مشتمل ہے، اس کی اپنی برادری ہے۔ اتوار کو یہ لوگ سمندر کے کنارے وقت گزارتے ہیں۔ چھٹیاں لے کر یورپ اور امریکہ جاتے ہیں۔ ان کی اولاد بھی مغربی ممالک میں جا رہی ہے۔ انہوں نے لاکھوں روپیہ سوئٹرزلینڈ کے بینکوں میں جمع کر لیا ہے۔ بڑے مزے کی بات ہے کہ یہ لوگ‘ جو بات بات پر دوسروں کو غدار اور وطن فروش کے القابات سے نوازتے ہیں اور حب الوطنی کا سارا ٹھیکہ انہوں نے خود لے رکھا ہے، خود انگلستان یا کینیڈا میں سکونت اختیار کرنے کے پروگرام بنا رہے ہیں۔
مسلمان کی تاریخ کا یہ ہولناک ترین دور ہے۔ (جاری)