آخر میں پاکستان ٹیلی ویژن کی اسلام آباد، لاہور، کراچی اورکوئٹہ کی عمارتیں بچ گئی تھیں جنہیں گروی رکھ کر اب اسحاق ڈار سکوک بانڈزکے نام پر قرضہ لے رہے ہیں۔ وزارت خزانہ کو پتا چلا کہ پی ٹی وی کی ان عمارتوں سے بھی کام نہیں چلے گا کیونکہ قرضہ بڑی مقدار میں لینا مقصود ہے، لہٰذا فیصلہ ہوا کہ ریڈیو پاکستان کے ملک بھر میں پھیلے نیٹ ورک کی تمام عمارتوںکو بھی گروی رکھا جائے۔ سروے کرایا گیا تو پتا چلا پاکستان میں ریڈیو پاکستان کی اکسٹھ عمارتیں ہیں۔ حکم ہوا کہ ان سب کی قیمت لگائی جائے اور پتا کیا جائے کہ ان پرکتنا قرضہ مل سکتا ہے۔ جس نے قیمت لگائی اسے داد دیں، اس نے ان تمام عمارتوں کی مجموعی قیمت بہترکروڑ روپے لگائی۔ آپ یقیناً حیران ہوںگے کہ سپریم کورٹ کے سامنے واقع ریڈیو پاکستان کے ہیڈکوارٹر کی عمارت کی قیمت پانچ سے دس ارب روپے ہونی چاہیے جو ایک پنج ستارہ ہوٹل کے قریب واقع ہے۔ اس ہوٹل کی قیمت یقیناً اربوں روپے ہوگی، لیکن ریڈیو پاکستان کی اس عمارت کی قیمت صرف چند کروڑ روپے لگائی گئی۔
میرے پاس موجود دستاویزات کے مطابق ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کو وزارت خزانہ کی طرف سے حکم ملا کہ سکوک بانڈز خریدنے کے لیے ان کی عمارتوںکوگروی رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ یہ قرضہ ملک چلانے کے لیے ضروری ہے۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کی انتظامیہ کو مطمئن کرنے کے لیے کہا گیا کہ وہ پریشان نہ ہوں،اس سے پہلے اسحاق ڈار موٹروے اور کراچی ایئرپورٹ کو بھی گروی رکھ کر قرضے لے چکے ہیں۔ اب باری پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی عمارتوں کی ہے۔ اس پر ان اداروں کے سربراہوںکو حکم ہوا کہ وہ فوری طور پر اپنے اپنے بورڈزکے اجلاس بلائیں اوروزارت خزانہ کے اس حکم کی تعمیل کی جائے۔ ایک قرارداد بھی تیارکی گئی تاکہ اس کو منظور کرنے کے فوراً بعد ان سرکاری عمارتوںکی کاغذی کارروائی پوری کرکے دستاویزات ان سرمایہ کاروں کے حوالے کی جائیں جو ان عمارتوں پر قرضہ دیںگے۔ اگر سود سمیت انہیں قرضہ واپس نہ کیا گیا تو انہیں یہ حق ہوگا کہ وہ ان عمارتوںکا کنٹرول سنبھال لیں۔
میں نے جس دن یہ خبر اپنے ٹی وی شو میں بریک کی، اگلے روز ریڈیو پاکستان کے بورڈ کا اجلاس ہونا تھا اوران عمارتوں کو قرضہ لینے کے لیے استعمال کرنے کی منظوری دی جانی تھی۔ اجلاس میں یہ سوال اٹھایاگیا کہ کس نے اکسٹھ عمارتوںکی قیمت صرف بہترکروڑ روپے لگائی گئی؟ کس نے ان عمارتوں کی مارکیٹ ویلیو (قیمت) پتاکرائی کہ اگر انہیں بیچا جائے تو یہ صرف بہترکروڑ روپے کی بکیں گی؟ اب نئے سرے سے ان کا سروے ہوگا، شاید چند ڈالر زیادہ مل جائیں۔ اگرچہ اس اجلاس میں فیصلہ نہ ہو سکا لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی کیونکہ اسحاق ڈارکو اس وقت ڈالرز چاہئیں تاکہ وہ فخریہ کہہ سکیں کہ انہوں نے ملکی خزانہ بھر دیا ہے اور ریزرو تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
تاریخ کی بلند ترین سطح پر ریزرو پہنچانے کا جنون ہمیں اس حالت میں لے آیا ہے کہ اب عالمی ادارے ہماری ساورن گارنٹی پراعتبار کرنے کو تیار نہیں رہے اور وہ چاہتے ہیںکہ پاکستان پہلے اپنی سرکاری عمارتیںگروی رکھے۔ مجھے یاد ہے،کبھی ساورن گارنٹی دینا بہت بڑی خبر ہوتی تھی کہ حکومت پاکستان نے قرضہ لینے کے لیے ساورن گارنٹی دے دی ہے کہ اگر فلاں محکمے نے قرضہ واپس نہ کیا تو حکومت واپس کرے گی، مدت پوری ہونے پر اگر قرضہ واپس نہ ہوا تو وہ پارٹی عالمی فورم پر جا کر سود سمیت اپنا قرضہ واپس لے سکتی ہے۔ پہلے ایک آدھ قرضے کے لیے ساورن گارنٹی دی جانے لگی، پھر قرضہ دینے والوںکو پتا چل گیاکہ ان تلوں میںتیل نہیں رہا، کب یہ دکان بند ہوجائے اور وہ قرضہ واپس نہ لے سکیں، لہٰذا ہر ایک نے ساورن گارنٹی مانگنا شروع کردی۔ ڈالرز لینے کے چکر میں ہمارے سب وزیرخزانہ یہ گارنٹیاں دیتے رہے اور ایک دن ساورن گارنٹیاں بھی ٹکے ٹوکری ہوکر رہ گئیں۔
اب بات سارون گارنٹی سے آگے نکل گئی ہے۔ اب ساہوکار حکومت پاکستان کی گارنٹی پر یقین بھی نہیں کرتا۔ اب وہ کہتا ہے آپ کا کیا بھروسہ، کل کو دلوالیہ ہوجائو تو ہم کہاں سے گارنٹیاں کیش کراتے پھریںگے۔ سیدھی بات کرو اور اپنے اثاثے ہمارے حوالے کرو اور ڈالر لو۔ یوں پہلی دفعہ پاکستان نے ایک فیصلہ کیا اور موٹرویزکوگارنٹی کے طور پرگروی رکھ کر قرضہ لیا۔ اس کے بعد دوسرے موٹر وے کی باری آئی اور پھر تیسرے کی۔ جب سب موٹروے ختم ہوگئے تو خیال آیا کہ اب ملک کے ایئر پورٹس کوگارنٹی
کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سب سے پہلے کراچی ایئرپورٹ کو گروی رکھ کر قرضہ لیا گیا۔ یقیناً جن عالمی بینکوں یا ساہوکاروں سے قرضہ لیا گیا ہوگا وہ اپنی نسلوں کو فخر سے بتاتے ہوںگے کہ بیٹا میں پاکستان میں ایک ایئرپورٹ کا مالک ہوں، پاکستان کے موٹروے میری ملکیت ہیں۔ دعا کرو پاکستانی حکومت کرپشن پر لگی رہے، ایکسپورٹس گرتی رہے، بیرون ملک پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقومات میں کمی آتی رہے، اس ملک کے حکمرانوںکی شاہی خرچیاں چلتی رہیں، بیوروکریسی اسی طرح اپنے ہی ملک کو لوٹتی رہے، شاہی خاندان کی حفاظت پر سات ارب روپے خرچ ہوتے رہیں، لندن سے لاہور پی آئی اے کے خصوصی طیارے وزیراعظم کو لاتے رہیں، وزیراعظم پاکستان دنیا بھر کے سو ممالک کے دورے قرض کی رقم سے چند ماہ میں پورے کر کے ریکارڈ قائم کرلیں تو بیٹا یہ سب کچھ ہمارا ہوگا،کیونکہ پاکستانی ہمارے قرضے واپس نہیں کرسکیںگے۔ جس ملک کا بجٹ کا بڑا حصہ بیرونی قرضوں کی واپسی میں جاتا ہے وہ بھلا کب اور کیسے قرضے واپس کرے گا۔ خصوصاً جب ماہرین معیشت یہ پیش گوئی کر رہے ہوںکہ موجودہ دور حکومت کے اگلے دو برس میں بیرونی قرضوں کا حجم نوے ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ بہتر ارب ڈالرکا قرضہ ہوچکا اور واپس کرنے کے لیے نئے قرضے لیے جاتے ہیں تو اندازہ کرو جب یہ قرضے دو برس بعد نوے ارب تک پہنچیں گے تو پھر گنجی کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی!
سابق سیکرٹری خزانہ واجد رانا کا اخبار میںبیان پڑھا کہ اب تک اسحاق ڈار تین برسوں میں چوبیس ارب ڈالرقرضہ لے چکے ہیں۔ سابق وزیرخزانہ حفیظ پاشا پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ 2018ء تک پاکستان کے قرضے نوے ارب ڈالر ہوجائیں گے اور پاکستان واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ سینیٹر انور بیگ کہتے ہیںکہ انہیں ایک مغربی سفارتکار نے بتایا تھا کہ پاکستان کو قرضوں کے جال میں پھنسانے کا پورا پلان ہے۔ جب نوے ارب ڈالر تک قرضے پہنچیںگے اور پاکستان واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا تو پھر اسے اپنے ایٹم بم پر کمپرومائزکرنا پڑے گا ورنہ دنیا بھر میں تنہائی کا شکار ہوگا اور چند دنوں میں ہی دلوالیہ ہوجائے گا۔
دوبرس قبل دھرنے کے دنوں میں جب پاکستان عوامی تحریک کے ورکرز پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہوگئے تھے تو اسے پاکستان پر حملہ قرار دیا گیا تھا اور مقدمے درج کر کے گرفتاریاں شروع ہوگئی تھیں۔ اب جبکہ اسی پی ٹی وی کی عمارت کو گروی رکھ کر ڈالر لینے کا پلان ہے تو اسے کیا تصور کیا جائے؟پارلیمنٹ ہائوس، ایوان صدر ، وزیراعظم ہائوس اور وزیراعظم سیکرٹریٹ کو بھی گروی رکھا جاسکتا ہے۔ امید ہے یہ تمام عمارتیں بھی اسحاق ڈار کی فہرست میں شامل ہوںگی۔
ہاں، میں یہ تو بھول ہی گیا کہ ایک منسٹرانکلیو بھی موجود ہے جہاں سب وزراء کی سرکاری رہائش گاہیں ہیں۔ اگر اسے بھی گروی رکھا جائے تواسحاق ڈار بہت ڈالر ساہوکاروں اور عالمی بینکوں سے ہتھیا سکتے ہیں۔ ویسے تو ججوں کی کالونی بھی منسٹرز اینکلیو کے قریب ہی واقع ہے، اسے گروی رکھ کر بھی خاصہ قرضہ لیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈپلومیٹک انکلیوکو بھی گروی رکھنے پر غور ہو سکتا ہے۔ تمام بڑے ممالک جو ہمیں قرضے دیتے ہیںان سب کے سفارت خانے وہیں ہیں، لہٰذا نئے قرضوں کی ڈیل جلدی اور اچھی مل سکتی ہے۔