وزیر اعظم نواز شریف ایک دفعہ پھر پھنس چکے ہیں۔
میں دلچسپی سے دیکھ رہا ہوں کہ اس بار وہ اپنے گرنے کا الزام کس کے سر دھریں گے۔ بارہ اکتوبر کی بغاوت کا نزلہ انہوں نے چوہدری نثار علی خان پرگرایا تھا کیونکہ جنرل پرویز مشرف کی سفارش کرنے والوں میں چوہدری صاحب بھی شامل تھے۔
اب تک پتہ نہیں چلا‘ جنرل راحیل کس کی سفارش تھے‘ لہٰذا واضح نہیں کہ ان کا نزلہ کس پر گرائیں گے۔
مجھے یاد ہے جولائی دو ہزار تیرہ میں وزیر اعظم بنے ابھی نواز شریف صاحب کو ایک ماہ ہوا تھا کہ وہ چین کے دورے پر تشریف لے گئے۔ دنیا ٹی وی نے اپنے خرچے پر مجھے چین بھیجا کہ ان کے دورے کی کوریج کروں۔ وہیں ایک جگہ صحافی‘ جو کوریج کے لیے موجود تھے‘ میاں صاحب کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے۔ جنرل کیانی کی مدت ملازمت نومبر میں ختم ہو رہی تھی اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے بارے میں سرگوشیاں شروع ہو چکی تھیں۔ نواز شریف صاحب سے سوال کیا گیا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی قریب آ رہی ہے‘ آپ نے اس بارے میں کیا سوچا ہے؟ وہ ماضی میں کہتے تھے کہ سب سے سینئر کو ہی آرمی چیف بنا دیں گے۔ صحافی جاننا چاہتے تھے کہ اس بار کیا فارمولہ ہو گا کیونکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ جنرل ضیا کو ساتویں نمبر سے اٹھا کر آرمی چیف بنا دیں۔ پھر بھی اس نے بھٹو کو پھانسی دلا دی‘ یا آپ جنرل علی قلی خان کو آرمی چیف اس لیے نہ بنائیں کہ وہ سیاسی طور پر طاقتور آرمی چیف ہو گا لہٰذا ایک کمزور اردو سپیکنگ جنرل مشرف کا انتخاب کیا گیا۔ پھر بھی نواز شریف صاحب کو جیل جانا پڑا اور جلا وطن ہونا پڑے گا۔ نواز شریف لندن میں بھی یہی ترانہ گاتے رہتے تھے کہ جناب چھوڑیں! بہت کھیل ہو چکے‘ اس بار انہیں موقعہ ملا تو وہ سب سے سینئر کو ہی آرمی چیف بنائیں گے۔ اللہ نے انہیں موقع دے دیا تھا۔
پہلے تو جنرل کیانی کو حسب عادت شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے ساتھ مصروف رکھا گیا۔ درجنوں خفیہ ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ کہہ کر جنرل کیانی کو بھی خوش رکھا گیا کہ بتائیں کس کو آرمی چیف لگانا ہے‘ حالانکہ نواز شریف کیمپ میں سب کو علم تھا کہ جنرل کیانی نے جس کا بھی نام دیا‘ اسے نہیں بنایا جائے گا۔ وجہ بڑی واضح تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اگر سرونگ آرمی چیف کی مرضی کا نیا چیف لگایا تو پھر سابق آرمی چیف اپنی پالیسیاں چلائے گا اور پیچھے بیٹھ کر تاریں ہلائے گا۔
اس سیاست کی وجہ مجھے اس وقت سجھ آئی‘ جب میں نے اپنی کتاب 'ایک سیاست کئی کہانیاں‘ کے لیے چوہدری نثار علی خان کا انٹرویو کیا۔ سوال تھا: جنرل علی قلی کو آرمی چیف کیوں نہیں بنایا گیا؟ جنرل مشرف کیوں حالانکہ جنرل علی قلی، جنرل مشرف سے سینئر اور بہت بہتر جنرل مانے اور سمجھے جاتے تھے؟ چوہدری نثار کا جواب تھا: اس لیے کہ جنرل قلی دراصل جنرل جہانگیر کرامت کے بہت قریب تھے‘ اور جنرل کرامت نیا آرمی چیف بنانے کے لیے انہیں گروم کر رہے تھے۔ دوسرے ان کے بارے میں یہ رپورٹ وزیر اعظم نواز شریف تک پہنچی تھی کہ جب جنرل جہانگیر کرامت نواز شریف کو استعفیٰ کی پیشکش کرکے واپس جی ایچ کیو گئے تھے تو جنرل قلی نے ان کے فیصلے کی مخالفت کی تھی اور یہ تک کہا کہ وہ چاہیں تو نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا سکتے تھے۔ چوہدری نثار کا خیال تھا کہ اگر جنرل جہانگیر کرامت کو ہٹا کر ان کی مرضی کا آرمی چیف ہی لگانا تھا تو پھر جنرل کرامت میں کیا برائی تھی، انہیں ہی آرمی چیف رہنے دیتے۔
جب یہی بات میں نے جنرل علی قلی خان سے پوچھی تو ان کا جواب مختلف تھا۔ ان کا کہنا تھا: چوہدری نثار کو مجھ سے ذاتی دشمنی ہو چکی تھی کیونکہ ان کے بھائی جنرل افتخار علی خان کی جگہ جنرل کرامت نے مجھے ایک اعلیٰ عہدہ دیا تھا‘ جس پر جنرل افتخار پہلے سے موجود تھے اور نواز شریف سے توسیع کے خواہاں تھے۔ اس پر چوہدری نثار اور افتخار‘ دونوں جنرل کرامت اور جنرل قلی سے ناخوش تھے‘ لہٰذا ان کا آرمی چیف نہ بننا طے تھا۔
جنرل قلی نے ایک بات یہ بھی بتائی تھی کہ ان سے وزیر اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری زاہد انور نے بھی خفیہ رابط کیا تھا۔ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ سادہ کپڑوں میں وزیر اعظم سے خفیہ طور پر مل لیں۔ جنرل قلی نے خفیہ ملاقات سے انکار کر دیا۔ اس پر انہیں بتایا گیا تھا کہ یہ ایک روایت ہے‘ جنرل مشرف بھی سادہ کپڑوں میں نواز شریف سے خفیہ ملاقات کر چکے ہیں۔ اس پر جنرل علی قلی نے جواب دیا کہ وہ جنرل مشرف کا اپنا فیصلہ تھا‘ لیکن ان کے نزدیک ایک فوجی کو سادہ کپڑوں میں وزیر اعظم سے رات کے اندھیرے میں خفیہ طور پر نہیں ملنا چاہیے۔
شاید جنرل علی قلی کو علم نہ تھا کہ جب تک شریف حکمران آرمی افسران سے خفیہ ملاقاتیں نہ کر لیں‘ تب تک وہ ان کی وفاداری کو مشکوک سمجھتے ہیں۔ کسی روز میجر عامر نے کتاب لکھنے کا ارادہ کر لیا تو پتہ نہیں کیا کچھ نکلے گا۔ شاید یہ پتا چل جائے کہ کون کون سا جنرل نے سادہ کپڑوں میں کس کس سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور جنرل اسلم بیگ کی جگہ نئے آرمی چیف کی تقرری سے پہلے کس کور کمانڈر راولپنڈی کی خفیہ ملاقات ہوئی تھی اور کون سی سوزوکی گاڑی میں اسے بٹھا کر لے جایا گیا تھا۔ یہ بھی کہ وہ کور کمانڈر ٹرپل ون بریگیڈ کا سربراہ تھا اور اس نے کیسے اور کس کو یہ گارنٹی دی تھی کہ وہ جنرل اسلم بیگ کو مارشل لا نہیں لگانے دے گا۔
ویسے تاریخ میں سب سے زیادہ خفیہ ملاقاتوں کا ریکارڈ جنرل کیانی کا ہے۔ یہ ملاقاتیں انہوں نے شہباز شریف اور چوہدری نثار سے کی تھیں‘ تب جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے۔ جب یہ خبر باہر نکلی تو بارہ خفیہ ملاقاتوں کا اعتراف تو چوہدری نثار علی خان نے خود قومی اسمبلی میں کیا تھا۔ ان خفیہ ملاقاتوں سے شریف حکمرانوں کو یقیناً فائدہ ہوا تھا‘ لیکن جنرل کیانی کے ساتھ ان کے بھائیوں کے نام پر جو کچھ ہوا‘ وہ ایک الگ کہانی ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بعد میں جنرل راحیل کو بھی یہ بات بتائی گئی تھی۔ اس کے بعد جنرل راحیل اور جنرل کیانی کے مابین پہلے جیسی گرمجوشی نہ رہی جو سمجھ میں آنے والی بات ہے۔
چوہدری نثار کی اس بات کے بعد مجھے احساس ہوا کہ سیاستدان کس طرح سوچتے ہیں۔ یہی کھیل جنرل کیانی کے ساتھ کھیلا گیا۔ ان سے بھی آرمی چیف کا نام لیا گیا۔ انہیں بھی سکیورٹی کے معاملات پر کوئی اہم پوسٹ دینے کی پیشکش آخری لمحے تک کی جاتی رہی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بے چارے جنرل کیانی‘ جنہوں نے چھ سال تک کسی اور وزیر اعظم کو اپنی گاڑی پر سیر نہیں کرائی تھی‘ وہ نواز شریف کے ڈرائیور بن کر انہیں ایک فوجی تقریب میں لے گئے تھے۔ یہ اور بات کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ان کی مرضی کے جنرل کو آرمی چیف نہ بنایا۔ اگر نواز شریف نے جنرل کیانی کی وراثت ہی جاری رکھنا ہوتی تو پیپلز پارٹی کی طرح انہیں مزید تین سال دیتے۔ ان کے نامزد کردہ آرمی چیف کا مطلب تھا کہ نواز شریف کی حکومت کو جنرل کیانی پیچھے سے بیٹھ کر ہینڈل کرتے۔
نواز شریف صاحب نے پھر وہی کام کیا‘ جو وہ پہلے کرتے آئے تھے کہ موسٹ سینئر کے بجائے نیچے سے ایک جنرل کو اٹھا کر آرمی چیف بنایا۔ وہ لندن اور چین میں کی گئی اپنی باتوں سے پھر منحرف ہو گئے۔ وقت آنے پر انہوں نے پھر اپنا وفادار تلاش کرنے کی کوشش کی‘ اور وہ اپنا ہی بنایا ہوا اصول بھول گئے کہ فوج کا سربراہ کبھی سیاسی قیادت کا ذاتی وفادار نہیں ہو سکتا۔ لوگ کہتے ہیں‘ اگر جنرل خواجہ ضیاء الدین بٹ ہی آرمی چیف رہتے‘ تو بھی انہوں نے وہی کام کرنا تھا‘ جو جنرل ضیاء نے بھٹو اور جنرل مشرف نے نواز شریف کے ساتھ کیا۔ ماضی کا سبق یہی تھا لیکن ہمارے حکمران کب اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔
اب ایک دفعہ پھر نئے آرمی چیف کی تعیناتی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ وہ پرانا کھیل پھر دہرایا گیا۔ خود ہی توسیع کی بات شروع کرائی گئی۔ جنرل راحیل مجبور ہوئے کہ خود کہہ دیں کہ وہ توسیع نہیں لیں گے۔ پھر وہی خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا‘ جن میں چوہدری نثار اور شہباز شریف نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے رکھی ہے‘ کہ کیسے کس کس کے ساتھ گڈ کاپ کھیلنا ہے۔ نواز شریف اس معاملے میں بیڈ کاپ کھیلتے ہیں۔ جبکہ شہباز شریف اچھے بننے کی اداکاری کرتے رہتے ہیں۔ یوں پرانے آرمی چیف کو آخری دم تک شہباز شریف اور چوہدری نثار الجھائے رکھتے ہیں جبکہ اس دوران اور بھی خفیہ ملاقاتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی لابی استعمال کر رہا ہوتا ہے اور اچانک ایک دن ٹوپی میں سے ایک ایسا کبوتر نکالا جاتا ہے‘ جس کا کسی کو خیال بھی نہیں ہوتا۔ یہ اور بات ہے حکمران جتنی چاہے خفیہ ملاقاتیں کر لیں، جتنی وفاداریوں کی قسمیں لے لیں، جتنا اپنا بندہ ڈھونڈ لیں، ہونا وہی کچھ ہے جو ہوتا آیا ہے۔ یقیناً نیا آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مرضی کا نہیں بنے گا‘ اگرچہ نام ان سے یقیناً لیا جائے گا۔ آخری دم تک تسلی دی جاتی رہے گی کہ جو نام آپ نے دیا ہے وہی آرمی چیف ہو گا۔
اب تک یہی ہوتا آیا ہے۔ اس کے نتائج بھی وہی نکلیں گے جو جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے نکالے تھے۔ لگتا ہے پرانا کھیل شروع ہے اور کہیں نواز شریف تیسری دفعہ پھر نہ گر جائیں۔
مجھے وزیر اعظم کی حالت دیکھ کر وہ سردار یاد آ رہا ہے‘ جو ایک دن گھر کے باہر پڑے کیلے سے پھسل کر گرا۔ اگلے دن پھر گرا۔ جب تیسرے دن دروازے سے نکلا تو پھر کیلے کا چھلکا سامنے دیکھ کر بولا: ہائے او میرے ربّا اَج فیر گرنا پائو گا!