جہاز کے باہر پنجاب پولیس کے کمانڈوز دیکھے جاسکتے تھے۔ سب سوچ رہے تھے پولیس کا رویہ کیسا ہوگا، ایئرپورٹ پر آصف زرداری کا کیسا استقبال کیا جائے گا؟ جہازکے اندر خوف کی کیفیت تھی کیونکہ سب کو اچانک محسوس ہوا کہ زرداری صاحب اب تک جو دعوے کرتے آئے تھے وہ سب جھوٹے تھے۔کہیں نہ کہیں کچھ غلط ہو چکا تھا اور اب پولیس اندرگھس کر سب کی ٹھکائی کرے گی۔
پولیس کا ایک افسر جہاز کے اندر داخل ہوا تو اچانک پیپلز پارٹی کے نعرے لگاتے کارکنوںکوکرنٹ لگ گیا۔ سب کے منہ کو تالے لگ گئے۔ جہاز میں قبرستان جیسی خاموشی چھا گئی۔ سب آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے، اب کیا ہوگا؟ مداری کی پٹاری سے اب کس نسل کا سانپ نکلے گا؟ کھیل الٹ گیا تھا۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ زرداری نیا پلٹا کیا کھاتے ہیں؟ صحافیوں اور ورکرز کو کونسا نیا منجن بیچتے ہیں؟ ان جیالوں سے کیا کہیں گے جو سندھ اور پنجاب سے آئے تھے اور جنہوں نے ایئرپورٹ سے زرداری کو کندھوں پر اٹھا کر تخت لاہور پر جا کر بٹھانا تھا؟ ان سب سوالوںکے جواب کا ہم سب کو انتظار تھا۔
ایس پی مبین نے سرگوشی کی اور آصف زرداری تیزی سے امین فہیم کے ساتھ جہاز سے اترے اور قریب کھڑی ایک مرسڈیز میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔ سب صحافی کھلے منہ کے ساتھ جہازکی کھڑکیوں سے پیپلز پارٹی کے چی گویرا کو مرسڈیزمیں جاتے دیکھ رہے تھے۔ سب حیران پریشان کہ یہ سب کیا ہوا؟ پیپلز پارٹی کا چی گویرا کہاں غائب ہوگیا؟ ہم توقع کر رہے تھے کہ ایئرپورٹ پر لاکھوں کا مجمع ہوگا اور نعرے ہوںگے۔ چوہدری پرویز الٰہی بھاگ گئے ہوںگے اور اب راج کرے گی خلق خدا۔۔۔!
کسی کو علم نہ تھا کہ یہ سب کیا ہوا؟ زرداری کہاں غائب ہوگئے؟ زرداری کے یوں چلے جانے کے بعد اندازہ تو ہوگیا کہ ان کی کہانی ختم ہوگئی۔ ان کے ساتھ دھوکا ہوا۔ خفیہ ایجنسی کے کسی افسر نے ان کوگولی دی تھی کہ اگر وہ لاہور میں لاکھوں ورکرز لے آئیں تو پاکستان میں انقلاب آ جائے گا اور اقتدار پیپلز پارٹی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ در اصل اس نے زرداری اور پوری پیپلز پارٹی کو خوب چونا لگایا تھا۔ بینظیر بھٹو تک اس وجہ سے چپ ہوگئی تھیں کہ زرداری نے جیل بھگتی تھی، اس لیے اس کی مرضی تمام فیصلوں میں شامل ہوگی۔ جیل بھگتنے کے عوض زرداری نے پوری پارٹی ہائی جیک کرلی تھی۔ بینظیر بھٹو تک کوکارنر ہونے پر مجبورکر دیا تھا۔ مگر کئی برسوں کے خفیہ مذاکرات کا نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ زرداری اپنے تئیں سمجھدار تھے، لیکن ان کا واسطہ زیادہ سمجھداروں سے پڑ گیا تھا۔ انہیں جہاز میں ہی اطلاع دے دی گئی تھی کہ بہتری اسی میں ہے کہ جہاز سے اترکر سیدھے گھر جائیں ورنہ وہی درگت بنے گی جو اُس وقت ان کے ورکرز کی پنجاب پولیس کے ذریعے پورے پنجاب میں بنائی جارہی تھی۔ ہر جگہ گرفتاریاں، تشدد اور تھانے بھرے جارہے تھے۔ لہٰذا زرداری نے سمجھدار بچے کی طرح مرسڈیز میں بیٹھ کر گھر جانا مناسب سمجھا۔
زرداری کے جانے کے بعد صحافیوں سے کہا گیا کہ اب تشریف لائیں۔ کچھ صحافی ایسے بھی تھے جوکچھ عرصہ پہلے شہباز شریف کے ساتھ لندن سے لاہور اسی طرح کی ایک فلائٹ میں آئے تھے، جب موصوف نے وطن لوٹنے کی کوشش کی تھی اور لاہور ایئرپورٹ پر انہیں کوئی لینے نہ گیا تھا اور انہیں دوبارہ جدہ بھیج دیا گیا تھا۔ اسی طرح صحافیوں کا ایک جتھہ لندن بلایاگیا تھا۔شہبازشریف ان صحافیوں کے ساتھ لاہور لوٹے تھے اور ان کا بھی یہی خیال تھا کہ ایئرپورٹ پر مسلم لیگ نوازکے لاکھوں کارکن موجود ہوںگے جو انہیں کندھوں پر اٹھاکر سیدھا کلب روڈ پر پرویز الٰہی کی جگہ وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیںگے، جہاں سے انہیں بارہ اکتوبرکوگرفتارکرکے پہلے جیل اور پھر جدہ بھیج دیا گیا تھا۔
جب صحافی جہاز سے باہر نکلے تو انہیں دنیا ہی بدلی نظرآئی۔ جہاز میں لاہور، اسلام آباد اورکراچی کے صحافیوںکی بڑی تعداد شامل تھی۔ جونہی صحافی امیگریشن لائونج کی طرف بڑھے،اچانک پولیس کمانڈوز نے انہیں روک لیا۔ حکم دیا گیا کہ سب صحافی اپنے کیمرے اور موبائل فون فوراً پولیس کے حوالے کر دیں۔ پتا چلا پرویز الٰہی کا حکم تھا کہ کسی صحافی کو اس وقت تک اس کا موبائل فون اورکیمرہ واپس نہ کیا جائے جب تک ان کی تلاشی نہ لے لی جائے۔ پرویز الہی کا یہ حکم پڑھ کر سنایا گیا۔ اگرکیمروں میں زرداری اور ان کے ساتھیوں کی تصویریں ہوںگی تو پہلے انہیں ڈیلیٹ کیا جائے گا۔ مقصد یہ تھا کہ اگلے روزکسی اخبار میں زرداری کی دبئی سے لاہور آنے تک کی کوئی تصویر یا ویڈیو اخبار میں چھپ سکے نہ ٹی وی چینل پر دکھائی جا سکے۔ حکم دیا گیا کہ پرویز الٰہی کے حکم کی تعمیل کریں ورنہ سب کی دھلائی کی جائے گی، کیمرے اور فون چھین لیے جائیںگے۔ داد دینی پڑے گی کہ لاہورکے اس بہادر صحافی کو جو پرویز الٰہی کے اس بادشاہی حکم کے خلاف ڈٹ گیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ صحافی کسی صورت میں اپنے کیمرے اور موبائل فون پولیس کے حوالے نہیں کریں گے۔ اس پر پولیس نے کہا، تو پھر کسی کو یہاں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ملے گی۔ اس پر وہ صحافی اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہیں فرش پر بیٹھ گیا اور کہا ایسی بات ہے تو پھر ایسے ہی سہی۔ اس پر صحافیوں اور پولیس کمانڈوزکے درمیان شدیدکشیدگی شروع ہوئی۔ اس کی قیادت میں سب صحافی وہیں فرش پر بیٹھے تھے۔ کافی دیر کے بعد کچھ صحافیوں اور پولیس افسر آفتاب چیمہ کی وجہ سے ڈیڈ لاک ختم ہونے کی صورت پیدا
ہوئی، لیکن اس دوران ہمارے صحافی دوست مظہر طفیل کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اس پر صحافی بھڑک اٹھے؛ تاہم آفتاب چیمہ نے صورت حال کو سنبھال لیا۔ وہ صحافیوںکو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں اپنے ہاتھ سے انہیں پانی، چائے اور بسکٹ پیش کر رہے تھے۔ گھنٹوں گزر گئے،کسی کو پتا نہ چل سکا کہ اس انقلاب کا کیا بنا جو زرداری لاہور میں لانا چاہتے تھے۔ کہاں تھے پیپلز پارٹی کے وہ لاکھوں ورکر جنہوں نے لاہور ایئرپورٹ سے زرداری کو کندھوں پر بٹھا کر گورنر ہائوس میں اقتدارکی گدی پر بٹھانا تھا۔
پولیس کے ساتھ جاری اس کشمکش کے دوران کچھ صحافی زرداری پر ناراض ہونے لگے کہ کیسے بہادر لیڈر ہیں جو صحافیوں کو یہاں پولیس کے رحم وکرم پر چھوڑ کر خود امین فہیم کے ساتھ مرسڈیزگاڑی میں ایس پی مبین کے ساتھ نکل گئے۔ وہ اپنے فونز اور کیمرے پولیس کے حوالے کرنے کے بعد فرش پر بیٹھے اپنی قسمت کا انتظارکر رہے تھے کہ یہاں سے کدھر جائیںگے۔ کراچی اور اسلام آباد سے گئے ہوئے صحافیوںکا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کہاں جائیں۔ ساری رات کے جاگے ہوئے کہاں جا کر کچھ دیر سو لیں اور پھر سوچیںکہ زرداری کے اس انقلاب کے بعد وہ کیسے اپنے شہروں واپس جائیں۔ اسی دوران صحافیوں نے ٹی وی پر دیکھاکہ پیپلز پارٹی کے چی گویرا زرداری نے لاہور کے بلاول ہائوس پہنچ کرپریس کانفرنس کی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ جتنا انقلاب لانا تھا وہ آچکا۔ جو ورکر جہاں ہے وہیں دھرنا دے، لاہور آنے کی ضرورت نہیں۔ پیپلز پارٹی کے لیڈروںکی پنجاب پولیس درگت بنا رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کا ایک بھی ورکر لاہور ایئرپورٹ نہ پہنچ سکا۔ سب صحافی لاہور ایئرپورٹ پر بیٹھے حیرانی سے یہ پریس کانفرس سن رہے تھے۔ ہمارے دوست نذیر لغاری نے ایک ٹی وی فون پر بیپر دیا کہ صحافیوںکے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔
زرداری کی کہانی لاہور اترتے ہی ختم ہو گئی۔ سب جاہ و جلال ہوا میں اڑگیا۔ پنجاب پولیس نے پیپلز پارٹی کے ورکرزکو پنجاب بھر میں تشدد کا نشانہ بنایا۔ زرداری بہت پُرامید تھے۔ وہ تو بینظیر بھٹو جیسی سمجھدار خاتون کو یہ گولی دے کر لاہور آئے تھے کہ آپ میری کرامات دیکھتے جائیں۔ بس آپ چند دنوں کے لیے پیچھے بیٹھ جائیں اور دیکھیں کہ وہ کیسے جنرل مشرف اور ان کے فوجی کولیگزکو تگنی کا ناچ نچاتے ہیں۔ وہ چند دنوں میں پاکستان کا سب نقشہ بدل دیں گے۔ لیکن راتوں رات کیسے سب کچھ بدل گیا۔ دبئی اور لاہورکے چند گھنٹوں کے سفر کے دوران ایسا کیا نیا ہوگیا کہ زرداری بلاول ہائوس میں بیٹھے ورکرزکو تلقین کر رہے تھے کہ انقلاب رہنے دیں اور اپنے گھروںکو لوٹ جائیں۔
مجھے تجسس تھا کہ ایسا کیوں ہوا،کس نے کس کو استعمال کیا؟ زرداری خود تو گھر میں بیٹھے سفرکی تکان اتار رہے تھے جبکہ کارکنوں کو تلقین کی جا رہی تھی کہ وہ پنجاب پولیس کا تشدد بھگتنے کے بعدگھروں کو لوٹ جائیں جبکہ صحافی لاہور ایئرپورٹ پر پولیس کی غیر اعلانیہ قید میں بھوکے پیاسے اپنے موبائل فونز اورکیمروں کی واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ غیریقینی حالت میں بیٹھے بیٹھے سوکھ گئے تھے۔ آخر گڑبڑ کہاں ہوئی تھی؟ سیاست کے رنگ عجیب ہوتے ہیں۔ چند لمحے تقدیر بدل دیتے ہیں۔ زرداری کی تقدیر بھی بدلتے بدلتے رہ گئی تھی۔ یقیناً انہیں استعمال کیا گیا تھا۔ زرداری جو سب پر بھاری تھے وہ اچانک خود اپنے سے زیادہ بھاری پتھر تلے آگئے تھے۔ ان کے ناکام انقلاب کی اندرونی کہانی کچھ دنوں بعدکھلی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
اس کھیل کی کہانی سن کر سوال پیدا ہوا کہ کیا جنرل مشرف نے زرداری کو وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے خلاف استعمال کرکے اسی طرح بیوقوف بنایا تھا جیسے 1986ء میں یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعلیٰ نواز شریف کے خلاف جنرل ضیا نے استعمال کیا تھا؟
سیاسی چالیں اور مہرے وہی تھے، بیس برس بعد صرف کردار اور نام بدل گئے تھے۔ (جاری)