سپریم کورٹ میں بدھ کے روز پاناما سکینڈل کی سماعت میں جب تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری قطری شہزادے کے بھیجے گئے عجیب و غریب خط کی دھجیاں اڑا رہے تھے اور عدالت بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور تھی تو مجھے بچپن میں سنی اور پڑھی ہوئی کہاوت یاد آئی کہ ایک جھوٹ چھپانے کے لیے ہزاروں گھڑنے پڑتے ہیں ۔
اپنی لندن کی جائیدادوں کے ذرائع چھپانے کے لیے وہ قطری شہزادے کا خط لائے تھے۔ اب قطری شہزادے کے خط کی ساکھ خطرے میں ہے تو کوئی نیا خط لانا پڑے گا ۔ نواز شریف پہلے ہی چار مختلف بیانات جاری کر چکے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی کو جو دستاویزت دی گئی وہ اس ٹی وی تقریر سے نہیں ملتیں جو نواز شریف نے پاناما سکینڈل کے بعد کی تھی۔ سپریم کورٹ میں جو بیان جمع کرایا گیا ہے وہ پچھلے تینوں بیانات سے نہیں ملتا۔ اس طرح بہن بھائیوں کے بیانات اور انٹرویوز بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔۔
اب عدالت چاہتی ہے کہ نواز شریف کے وکلاء انہیں بتائیں کہ لاکھوں ڈالرز بھلا کیسے دوبئی، پھر سعودی عرب اور پھر قطر اور اب لندن کیسے پہنچے ؟ اب بنکوں کی اسٹیٹمنٹ کی ضرورت پڑے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ اسٹیٹمنٹ کہاں سے لائی جائی گی؟
عدالت کے باہر کھڑے میرے دوست کاشف عباسی عدالتی کاروائی کے بعد حیران ہوکر پوچھ رہے تھے کہ اب یہ لوگ بنکوں کی اسٹیٹمنٹ کہاں سے لائیں گے جس سے ثابت ہو کہ انہوں نے جو بیان حلفی جمع کرائے ہیں وہ درست ہیں کہ کیسے وہ دوبئی، سعودی عرب اور قطر میں کاروبار کے بعدپرافٹ لندن لے گئے جہاں فلیٹس خریدے گئے۔ پتہ چلا جن ملوں کا پرافٹ وہ دکھا رہے ہیں وہ تو قطر میں خسارے میں چل رہی تھیں،انہیں بیچ کر کہاں سے منافع لیتے؟کاشف عباسی کا خیال تھا کہ یہ ناممکن کام تھا۔
میں نے کہا میرے بھولے دوست، آپ نے کبھی انگریزی فلمیں دیکھی ہیں خصوصا جنگ عظیم دوم کے بارے میں جو فلمیں بنائی گئیں۔ایسی فلمی بنی ہیں جیسے جنگ عظیم دوم ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہی تھی۔ ان فلموں کو دیکھ کر ہماری آنکھوں میں آنسو بھی بہہ رہے ہوتے ہیں حالانکہ ہم جانتے ہوتے ہیں کہ یہ جعلی کام ہے،کوئی ایک بندہ بھی نہیں مرا ۔ لیکن ہم پھر بھی ان فلموں میں طیاروں کی بمباری سے ہونے و الی انسانی ٹریجڈی پر رو رہے ہوتے ہیں۔ اگر ستر برس پہلے کی جنگوں کو پردہ سکرین پر زندہ کیا جاسکتا ہے تو دستاویزات بنانا کون سا مشکل کام ہے۔ بھلا سعودی، قطری اور دوبئی کے بادشاہوں کے لیے بنک اسٹیٹمنٹ بنوا کر ہمارے بادشاہوں کے حوالے کرنے میں کون سی بڑی مشکل ہے؟ ۔
میرے خیال میں کوئی بھی عدالت میں موجود شخص ایسا نہ تھا جو یہ نہ سوچ رہا ہو کہ اگر وہ اس صورت حال کا شکار ہوتا تو وہ کیا کرتا؟ جب عدالت میں تل دھرنے کی جگہ نہ ہو۔ بندے پر بندہ۔پائوں بھی اٹھائیں تو کسی دوسرے کے پائوں پر جا پڑے۔ اور اس وقت آپ کے خاندان اور بچوں کے نام اور ان کی جائیدادوں کے حوالے دیے جارہے ہوں۔ آپ ملک کے وزیراعظم ہوں اور عدالت پوچھ رہی ہو کہ وزیراعظم کی صاحبزادی اگر وزیراعظم کے گھر رہتی ہیں تو پھر ان کے داماد کہاں رہتے ہیں؟ اپنے گھر یا پھر وزیراعظم کے گھر؟ اگر وزیراعظم کی صاحبزادی اپنے باپ پر ڈپنڈنٹ ہیں تو پھر پتہ چلتا ہے کہ وزیراعظم تو اپنے بیٹے حسین نواز پر ڈیپنڈنٹ ہیں کیونکہ نواز شریف کے پچھلے تین سالوں کے انکم ٹیکس گوشواروں کے مطابق وہ ہر سال حسین نواز سے لاکھوں ڈالرز لندن سے منگواتے رہے ہیں ۔ حسین نواز ہر سال اپنے باپ کو تگڑی دولت ڈالروں، یوروز کی شکل میں بھیجتے رہے ہیں ۔
اس طرح اب یہ بھی انکشاف ہوا ہے کلثوم نواز کا بھی لندن میں گھر ہے جس کو ایک ٹرسٹ کے ذریعے خریدا گیا ہے اور وہ اس ٹرسٹ کی ٹرسٹی ہیں۔ یوں وہ ایک عدد گھر کی مالک ہیں۔ یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نواز شریف کے بیوی اور تین بچوں کے نام پر لندن میں اپنے اپنے گھر ہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ حسین، حسن اور مریم نواز کو قطری شہزادے کے ساتھ ہونے والی ڈیل کے بعد فلیٹس ملے ہیں تو پھر کلثوم نواز کو لندن میں گھر کیسے مل گیا؟ وہ کون سے کاروبار کی فائنل سٹیٹمنٹ کا نتیجہ تھا؟ اس سے زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ نواز شریف نے اپنے انکم ٹیکس کے گوشواروں میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کیا کہ ان کی بیگم کلثوم نواز کے پاس بھی کوئی بیرون ملک جائیداد ہے یا وہ کسی ایسے ٹرسٹ کی ٹرسٹی ہیں جس کے پاس لندن میں گھر ہے۔یوں نواز شریف نے اپنے گوشواروں میں یہ بات چھپائی ہے کہ ان کی بیگم کے پاس بیرون ملک جائیداد ہے۔ پہلے ہی مریم نواز کے اثاثے بیرون ملک چھپانے کے الزام میں الیکشن کمشن میں ایک ریفرنس چل رہا ہے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ اور الیکشن کمشن ایک درجن کے قریب ایسے ایم این ایز اور این پی ایز کو نااہل قرار دے چکے ہیں جنہوں نے اپنی جائیدادیں اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کی تھیں ۔ تو کیا اب نواز شریف پر ایک نیا مقدمہ بن سکتا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم پاکستان ہوتے ہوئے اپنی بیگم کی بیرون ملک جائیداد کا ذکر اپنے گوشواروں میں کہیں نہیں کیا۔کیا وہ بھی اب آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کا شکار ہوسکتے ہیں کہ انہوں نے جھوٹ بولا اور اب وہ صادق اور امین نہیں رہے؟
کافی عرصے سے امریکی صدر نکسن کی دنیا کے چند لیڈروں پر لکھی ہوئی عالی شان کتاب ڈھونڈ رہا تھا ''دی لیڈرز‘‘ بہت پہلے کچھ باب پڑھے تھے اورتقریبا بھول گیا تھا کہ کس کے بارے میں نکسن نے کیا لکھا تھا۔ اسلام آباد میں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن نہ ملی۔ مسٹر بکس کے یوسف بھائی نے وعدہ کیا کہ وہ گھر میں پڑی ہے وہ دے دیں گے۔ پھر امریکہ میں اعجاز بھائی کو پتہ چلا تو خرید کر بھجوا دی۔ مجھے دیگر لیڈروں کی نسبت فرانس کے لیڈر چارلس ڈیگال کے بارے میں پڑھنے کی زیادہ طلب تھی۔ ڈیگال کے بارے میں ہم سب نے سن تو بہت رکھا ہے لیکن اسے جانتے نہیں کہ وہ کیوں اتنا بڑا نام بن گیا تھا۔ نکسن لکھتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے دوران وہ ایک جزیرے پر بیٹھ کر چارلس ڈیگال کے بارے میں اخباری تراشے پڑھتے تھے لیکن کبھی نہ سوچا تھا کہ ایک دن وہ امریکہ کے صدر اور ڈیگال فرانس کے صدر ہوں گے۔ دونوں کے درمیان تعلقات بہت اچھے تھے۔ ڈیگال پر کسی دن پھر لکھوںگا کہ نکسن نے کیا لکھا اور کس چیز نے ڈیگال کو بڑا لیڈر بنا دیا تھا۔ تاہم اس کتاب میں ایک واقعے نے مجھے متاثر کیا اور مجھے اندازہ ہوا کہ بڑے لیڈر کیسے ہوتے ہیں ۔ ڈیگال جنگ عظیم دوم میں فرانس کی لندن بیٹھ کر قیادت کرنے کے بعد فرانس کے سربراہ تو بن گئے تھے۔ تاہم کچھ عرصے بعد ڈیگال کو اندازہ ہوا کہ ان کے پاس جو طاقت ہے اس سے وہ فرانس کا کوئی بھلا نہیں کرسکتے۔ وہ فرانس کو جدید نہیں بنا سکتے۔ انہوں نے کچھ دیر سوچا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔۔جو تھوڑی بہت طاقت انہیں ملی ہوئی ہے وہ اسے لے کر زندہ رہیں۔ فرانس کے محل میں بیٹھ کر مزے کریں یا پھر فرانس کے لوگوں کے مستقبل کے بارے میں فکر کریں۔یہ سوچ کر ڈیگال نے استعفیٰ دے دیا کہ وہ اتنی کم پاورز کے ساتھ کچھ نہیں کرسکتے، استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ دس برس بعد فرانس کے دوبارہ سربراہ بنے اور وہی کچھ کیا جو کچھ کرنا چاہتے تھے۔ باقی تاریخ ہے جو پھر کسی دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں لیڈرز اپنی ذات کے لیے نہیں ملکوں، معاشروں اور قوموں کے لیے زندہ رہتے ہیں ۔
نواز شریف خاندان کے بارے میں جو سوال و جوابات سپریم کورٹ میں کیے جارہے تھے وہ سن کر مجھے ٹالسٹائی کا ایک افسانہ یاد آیا جس کا عنوان ہے How Much Land Does a Man Need? ۔
ٹالسٹائی کے افسانے کو یاد کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے باہر یہ سوچتے نکل آیا کہ شریف فیملی کو بھی لاکھوں پونڈز کے چار فلیٹس کی خریداری کے ذرائع کے لیے بولے گئے ایک جھوٹ چھپانے کے لیے کتنے اور جھوٹ بولنا ہوں گے، کتنے شہزادوں کے مزید بیان حلفی چاہیے ہوں گے، کتنے مزید کمپرومائز کرنے ہوں گے، برطانیہ، دوبئی، سعودی، قطر سے امریکہ تک کس کس کو خوش رکھنا ہوگا، ان احسانات کی کیا قیمت ادا کرنی ہوگی ۔ امریکی کہاوت ہے دنیا میں کوئی فری لنچ نہیں ہوتا۔ تو پھر یہ سب کچھ کب تک ؟