سینیٹ میں جس دن کوئٹہ عدالتی کمشن کی رپورٹ پر بحث ہونی تھی، اکثرسینیٹرغائب تھے۔ حکومتی سینیٹر اس تاڑ میں تھے کہ کوئی جرأت کر کے اس پر تنقید تو کرے۔۔۔۔ پھر اس کی وہ کلاس لی جائے گی کہ اس کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ چوہدری اعتزاز احسن سے کچھ توقع تھی لیکن وہ بھی پہلی بار چوہدری نثار سے ڈرے ڈرے نظر آئے اور ان کا نام تک تقریر میں نہیں لیا۔ وہ اپنی تقریر میں ہنسی مذاق اور نواز شریف کے 2007ء میں لندن میں کھلائے گئے کھانے یاد کرتے رہے، جس پر اسحاق ڈار نے انہیں تسلی دی کہ دوبارہ آپ کو ڈیوک اسٹریٹ لے جاتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہیں۔ سانحہ کوئٹہ پر سینیٹ میں ہنسی مذاق ہی چلتا رہا۔ لوگوں کے بچے مارے گئے اور ان لیڈروں کا مذاق ٹھہرا۔
چوہدری اعتزاز احسن کو ویسے بھی لاہور جانا تھا، لہٰذا انہوں نے تقریر جلدی ختم کی اور یہ جا وہ جا۔ چوہدری نثار یقیناً ایسی پُھس پُھسی تقریر سن کر مسکرائے ہوںگے کہ راجپوت چوہدری نے وڑائچ چوہدری کو ڈرا دیا۔ اعتزاز احسن کا توڑ سینیٹ میں مشاہد اللہ خان کی شکل میں نکالا گیا ہے۔ پوری پیپلز پارٹی ایک طرف اور مشاہد اللہ خان ایک طرف۔ وہ پوری پیپلز پارٹی کو قابو کرنے کا فن جانتے ہیں۔ جب پیپلز پارٹی کے سینیٹر آپے سے باہر ہونے لگتے ہیں تو مشاہد اللہ، ایان علی کا ذکر کر کے سب کو' اپنی تھاں‘ لے آتے ہیں۔ اعتزاز احسن جب بھی تقریر کرتے ہیں، مشاہد اللہ ضرور موجود ہوتے ہیں، جو ان کو ایک ہی بات پر لتاڑ دیتے ہیںکہ آپ نے وزیر داخلہ ہوتے ہوئے سکھوںکی فہرستیں بھارتی حکومت کو دی تھیں۔ اعتزاز احسن لاکھ انکار کریں لیکن مشاہد اللہ خان ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔
میں نے ایک دفعہ خود آئی ایس آئی کی تاریخ کے انتہائی ذہین انٹیلی جنس افسر، میجر عامر سے پوچھا تو وہ مسکرا کر بولے، بھلا آئی ایس آئی کیوں اعتزاز یا بینظیر بھٹو کو سکھوں کی فہرست دیتی کہ وہ جا کر راجیو گاندھی کو دے دیں؟ اسی طرح آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر(ر) امتیاز سے پوچھا تو انہوں نے بھی میجر عامر کی طرح کا جواب دیا۔ اگر میجر عامر تردید کر رہے ہیں تو پھر میرا خیال ہے کہ مشاہد اللہ کو بھی نظر ثانی کرلینی چاہیے۔
رہی سہی کسر پچھلے ہفتے سینیٹر انور بیگ کے گھرکھانے پر اس وقت پوری ہوگئی جب وہاں ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی سے میں نے یہی سوال پوچھ لیا۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ یہ ممکن ہی نہ تھا۔ پیپلز پارٹی پر الزام اس لیے لگتا ہے کہ انہوں نے ایک ریٹائرڈ جنرل کلوکو ڈی جی لگایا تھا؛ تاہم ان کا کہنا تھا کہ باقی چھوڑیں، خود آئی ایس آئی کے پاس اس طرح کی کوئی فہرست نہیں تھی کہ کون سا سکھ گوریلا بھارت کے کس شہر یا گائوں میں چھپا ہوا ہے۔ جب آئی ایس آئی کو علم ہی نہ تھا تو فہرست دے بھی دے جاتی، تو بھارتی افواج یا سکیورٹی ادارے کیسے ان سکھوںکو ڈھونڈ پاتے؟
جب ان سے پوچھا کہ پھر سکھ لیڈروں کوکیسے چن چن کر قتل کیا گیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ دراصل سکھوںکے کچھ جتھوں نے لوگوں کے ساتھ خود ہی زیادتیاں شروع کردی تھیں۔کچھ ایسے واقعات ہوئے جن کے بعد خود سکھ ہی ان کے دشمن ہوگئے۔ انہوں نے سکیورٹی اداروںکو مخبری کی تھی کہ کون سا سکھ کہاں چھپا ہے۔ اس پر سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے جو اس پوری گفتگوکو بڑے غور سے سن رہے تھے، بولے کہ جنرل صاحب آپ کے لیے ممکن ہے کہ آپ اس بات کو سرکاری بیان کی شکل دے دیں۔ شاید رضا ربانی سوچ رہے ہوںکہ اگر سابق ڈی جی آئی ایس آئی بیان دے دیں تو ہو سکتا ہے بینظیر بھٹو اور اعتزاز احسن پر برسوں پرانا یہ الزام دھل جائے کہ انہوں نے سکھوں کی فہرستیں بھارتی حکومت کو دی تھیںکیونکہ یہ بات کوئی اور نہیں بلکہ خود ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی کہہ رہے ہوںگے۔ تاہم سابق ڈی جی آئی ایس آئی اس بات کو ٹال گئے۔
اگرچہ پیپلز پارٹی مسلسل اس الزام کو بھگت رہی ہے، لیکن بھارتی ایجنسی 'را‘ کے ایک ریٹائرڈ افسر نے جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، ایک اہم کتاب لکھی تھی۔ اس نے جہاں آئی ایس آئی اور 'را‘ کے طریق کار پر روشنی ڈالی، وہیں اس نے سکھوں کے معاملے پر بھی بات کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء اور راجیو گاندھی کے دور میں دونوں ملکوں میں پراکسی وار بہت بڑھ گئی تھی۔ دونوں ملکوں کی سیکرٹ ایجنسیاں ایک دوسرے کے ملک میںکارروائیاںکر رہی تھیں۔ اس کے بقول جب پاکستان نے بھارتی پنجاب میں بغاوت کو ہوا دی اور وہاں سکھ اپنا ملک بنانے کے لیے سرگرم ہوئے تو اس کے ڈانڈے پاکستان سے جا ملے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ پاکستان کوکیسے جواب دیا جائے؟ اس کا حل انہوں نے سندھ میں نکالا اور بھارتی وزیر اعظم کی اجازت سے 'را‘ نے باقاعدہ سندھ میں آپریشن شروع کر دیے۔ مقصد پاکستان کو یہ بتانا تھا کہ اگر آپ لوگوں نے بھارتی پنجاب میں تشدد کو ہوا دی تو پھر سندھ میں بھی یہی کچھ ہوگا۔ اس کتاب میں تفصیل سے لکھا گیا کہ سندھ میں کن عناصر سے ملاقاتیں ہوئیں جس کے بعد وہاں کارروائیاں شروع کر دی گئیں۔ آئی ایس آئی اور 'را‘ کی کارروائی سے کیا فرق پڑنا تھا، دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوئے اور معصوم لوگ مارے جانے لگے۔ اب اس کا کیا حل تھا کہ دونوں ملک اس طرح ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگ نہ لڑتے رہیں؟
اردن کے ایک شہزادے نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش شروع کی۔ جنرل ضیاء وہاں بریگیڈیئر کے طور پر کام کر چکے تھے، لہٰذا اردن کا حکمران خاندان ان کی عزت کرتا تھا جبکہ اردنی شہزادہ راجیو گاندھی کا ساتھ برطانیہ میں پڑھ چکا تھا اور دونوں گہرے دوست تھے۔ چنانچہ شہزادے نے دونوں سے رابط کیا اور زور دیا کہ آئی ایس آئی اور 'را‘ ایک دوسرے کے ملک میںکارروائیاں بند کر دیں۔ طے ہوا کہ دونوں ملکوں کی ایجنسیوں کے سربراہ براہ راست رابطے میں رہیں اور ملاقات بھی کریں۔ راجیو گاندھی اور جنرل ضیاء اس پر تیار ہوگئے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل اور بھارتی ایجنسی کے سربراہ کی پہلی ملاقات جنیوا میں ہوئی۔ اس کے بعد کئی خفیہ ملاقاتیں یورپی ملکوں میں بھی ہوتی رہیں جن میں طے پایا کہ اچھے تعلقات کی طرف پہلے قدم کے طور پر پاکستان کو کچھ ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے لگے کہ آئی ایس آئی واقعتاً بھارت میں کارروائیاں بند کرنے میں سنجیدہ ہے۔ اس طرح دونوں ملک نئے سرے سے تعلقات پر غورکریںگے۔ اس مفاہمت کے بعد بھارتی ایجنسی کے سربراہ نے جنرل حمید گل کو ان سکھ فوجیوںکی فہرست دی جو بھارتی پنجاب میں جاری بغاوت کے بعد بھارتی فوج چھوڑکر پاکستان آگئے تھے۔ گویا وہ بھارتی فوج کے بھگوڑے تھے۔ جنرل حمیدگل اس پر تیار ہوگئے، یقیناً انہوں نے جنرل ضیاء سے اجازت لی ہوگی۔
اب سوال یہ تھا کہ سکھ فوجیوںکو کیسے واپس کیا جائے کہ کسی کو پتا نہ چلے اور سب سے بڑھ کر پاکستان پر یہ الزام بھی نہ لگے کہ انہوں نے سکھوںکو دھوکہ دیا۔ سب کو علم تھا کہ سکھ فوجیوںکا بھارت واپسی پرکیا حشر ہوگا۔ طے پایا کہ پاکستان، سکھ فوجیوںکو بارڈرکے قریب ایک مخصوص علاقے میں لے جا کر چھوڑ دے گا اور بھارت یہ ظاہر کرے گا کہ انہوں نے چھاپہ مارکر انہیں گرفتار کر لیا ہے۔ بعد میں اسی پلان پر عملدرآمد کیا گیا۔
یہ بہت اہم واقعہ تھا۔ یہ کتاب میں نے ان دنوں نئی نئی پڑھی تھی۔ انہی دنوں سابق آئی جی پولیس شعیب سڈل کے بیٹے کا ولیمہ تھا۔ وہاں میری ملاقات جنرل حمید گل سے ہوگئی۔ میرا ان سے ذاتی احترام کا تعلق تھا۔ میں نے اس کتاب میں چھپا ہوا پورا واقعہ انہیں سنایا۔ وہ خاموشی سے سنتے رہے۔ پھر بولے، ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ پھر کہا،کسی وقت مل کر اس پر بات کرتے ہیں۔ تاہم بعد میں مَیں نے کہیں پڑھا کہ جنرل حمید گل نے اس واقعے سے انکارکیا تھا، جس پر بھارتی ایجنسی کے اسی افسر نے دوبارہ ایک آرٹیکل لکھا جس میں اس نے کہاکہ حیرت ہے، جنرل حمید گل اس سے انکاری ہیں؛ حالانکہ بقول اس کے وہ (جنرل گل) اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سب کیسے ہوا تھا، کس طرح سکھوںکو بارڈرکے قریب بھارتی فوج کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ انہیں پکڑ لیں۔
اگر جنرل حمید گل انکار کر رہے تھے تو ہم مان لیتے ہیںکہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہوگا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بھارتی ایجنسی کا سینئر افسر جنرل حمید گل کے حوالے سے یہ واقعہ لکھ سکتا ہے تو پھر اگر اعتزاز احسن یا بینظیر بھٹو نے سکھوں کی فہرست راجیو گاندھی کو دی تھی تواس کا ذکرکتاب میں کیوں نہیں ملتا؟
اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر یہ بات چھپائی ہوگی تاکہ پیپلز پارٹی پرکوئی دبائو نہ آئے۔ لیکن پھر ہم سابق ڈی جی آئی ایس آئی، میجر عامر اور بریگیڈیئر امتیاز کا کیا کریں جو اُسی دور میں آئی ایس آئی میں اہم عہدوں پر فائز تھے اور ان کا کہنا یہ ہے کہ اس طرح کی کوئی فہرست پیپلز پارٹی کے کسی وزیر اعظم یا وزیرکو نہیں دی گئی تھی۔
اعتزاز احسن اب کچھ کہتے رہیں، لگتا ہے انہیں بقیہ عمر یہ طعنہ سننا پڑے گا کہ انہوں نے سکھوں کی فہرست بھارت کو دی تھی، چاہے 'را‘ کے سابق افسران خود اپنی کتابوں میں لکھتے رہیں کہ کیسے سکھ فوجی، جنرل ضیاء کے دور میں بھارت کے حوالے کیے گئے تھے اور باقاعدہ ایک پلان تیارکر کے انہیں سرحد پر لے جاکر یہ تاثر دے کر حوالے کیا گیا جیسے اتفاقاً بھارتی فوج نے انہیں پکڑ لیا ہو۔