جاوید ہاشمی کا موسم پھر شروع ہوچکا ہے۔ امریکن فلم چینل نیٹ فلیکس پر جیسے ہر سال مختلف زبردست شوز کے سیزن چلتے ہیں جن کا بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے، ایسے ہی کچھ سیاستدانوں اور ریٹائرڈ جرنیلوں کے بھی ٹی وی پر سیزن چلتے ہیں ۔ ہم انہیں بھولنا بھی چاہیں تو وہ نہیں بھولنے دیتے۔ نیٹ فلیکس کی طرح ان کے بھی نوٹیفکیشن آجاتے ہیں ۔ میرے دوست جاوید ہاشمی کی خصوصیت یہ ہے کہ گھنٹوں گفتگو کرسکتے ہیں‘آپ کو بولنے نہیں دیں گے‘ آپ انہیں سن سکتے ہیں سنا نہیں سکتے۔برسوں قبل ان سے ملنے اڈیالہ جیل گیا تو ان سے رشتے داری کا دعویدار ایک نوجوان ان کے لیے پڑھنے کے لیے کچھ کتابیں لایا تھا۔ اس کے گالوں کو تھپ تھپا کر کہا بیٹا مجھے اب پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ وہ حیران اور مایوس ہو کر کتابیں اٹھا لے گیا ۔ شاید وہ کہنا چاہتے تھے کہ بہت پڑھ لیا‘ اب بولنے کا وقت تھا ۔ چار سال قبل دنیا اخبار میں ہی لکھا ہوا کالم یاد آیا جاوید ہاشمی کو کسی پر بھروسہ نہیں تھا۔ یہ وہ دن تھے جب جاوید ہاشمی نواز لیگ کو چھوڑ رہے تھے۔ ہر چینل پر وہ نواز شریف پر دنیا جہاں کے الزامات لگا رہے تھے۔ کلثوم نواز کو خواجہ سعد رفیق کے گھر بھیجا گیا کہ وہ انہیں منائیں‘ نہ مانے۔ ایک ٹی وی چینل پر وہ خواجہ سعد رفیق سے لڑ رہے تھے۔ خواجہ سعد رفیق کو داد دیں کہ انہوں نے جاوید ہاشمی کا پھر بھی لحاظ کیا۔ لیکن کیا کریں ہاشمی صاحب لحاظ کرنے کے قائل نہیں ۔ وہ شو دیکھ کر میں نے کالم لکھا تھا اور حیران ہوا تھا کہ جاوید ہاشمی کو کتنی عزت چاہیے؟ ہاشمی صاحب کہاں سے شروع ہوئے اور کہاں انجام ہوگا؟ میں نے لکھا تھا پہلے تو جاوید ہاشمی کو نواز لیگ چھوڑنی ہی نہیں چاہیے تھی‘ کلثوم نواز کے گھر آنے کے بعد مان جاتے۔ اگر بہت زیادہ ناراضی تھی تو پھر سیاست پر دو حرف بھیج کر گھر چلے جاتے‘ ریٹائر ہوجاتے‘ ایک اعلیٰ مقام پاتے۔ سب انہیں اچھا سمجھتے تھے کہ اس اکیلے نے جنرل مشرف دور میں یوسف گیلانی کے ساتھ جیل بھگتی تھی‘ جب سب ڈیل کر کے جدہ نکل گئے تھے۔
اس کالم کے کچھ دنوں بعد جاوید ہاشمی سے اسلام آباد کلب میں کالم نگار توفیق بٹ اور سیالکوٹ کے نوجوان سیاستدان عثمان ڈار کے ساتھ ملاقات ہوئی ۔ گھنٹوں وہ مجھے میرے کالم کا جواب دیتے رہے۔ میں چپ چاپ سنتا رہا اور اپنے آپ کو کوستا رہا کہ کیوں ان پر اپنا پورا کالم ضائع کیا تھا‘ کچھ اور لکھ لیتا ۔ توفیق بٹ اور عثمان ڈار سے بھی دعا سلام کے علاوہ کوئی بات کرنے کا موقع نہ ملا‘سارا وقت ہاشمی صاحب اپنے آپ کو سچا ثابت کرتے رہے۔ نواز شریف پر تبرے بھیجتے رہے کہ کیسے ان کی موجودگی میں ان کی بے عزتی کی جاتی تھی اور وہ خاموشی سے انجوائے کرتے تھے۔ اب چار برس بعد تحریک انصاف پر تبرہ فرما رہے تھے۔فرمایا: نواز شریف ان کے کل بھی لیڈر تھے، آج بھی ہیں اور رہیں گے۔ چار سال پہلے یہی مشورہ اپنے کالم میں لکھ کر دیا تھا کہ حالات کچھ بھی ہوں وہ نواز لیگ نہ چھوڑیں۔ اگر چھوڑنی ہے تو سیاست چھوڑ دیں تو ناراض ہوگئے تھے۔ چار سال قبل وہ سعد رفیق سے ٹی وی چینلز پر لڑ رہے تھے تو اب پی ٹی آئی کے ان لڑکوں سے لڑ رہے تھے جن کی عمر بھی شاید ان کی جیل میں گزارے گئے سالوں سے کم ہوگی۔ سعد رفیق سے اس دن متاثر ہوا تھا کہ جاوید ہاشمی کی سخت گفتگو کے باوجود اس لاہوری نوجوان نے صبر کا دامن نہ چھوڑا اور ٹی وی پر چیخنے چلانے سے گریز کیا تھا لیکن ہاشمی صاحب نے کوئی رعایت نہ کی تھی۔ لیکن کیا کریں ہمارا جاوید ہاشمی ہر وقت سچا ہوتا ہے‘ چاہے جب وہ نواز شریف کو چھوڑ رہا ہو یا پھر وہ عمران خان کے ڈوپ ٹیسٹ کرانے کا مطالبہ کررہا ہو۔
مان لیتے ہیں کہ عمران خان فوجی کمانڈروں کے ساتھ مل کر سازش کررہے تھے اور نواز شریف کی حکومت گرانا چاہتے تھے تو اپنے کل اور آج کے لیڈر نواز شریف کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے لیے دل میں پھر محبت جاگ اُٹھی ہے؟ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی بارہ خفیہ ملاقاتیں جنرل کیانی سے را ت کے اندھیرے میں ہوئی تھیں ۔ ان ملاقاتوں میں ان کے خیال میں کیا گفتگو ہوتی ہوگی؟ ان ملاقاتوں کا صدر زرداری یا وزیراعظم گیلانی کو علم تک نہ ہوتا ؟ ان خفیہ ملاقاتوں کا نتیجہ اس وقت سامنے آیا جب میموگیٹ کمشن بنانے کے لیے دونوں بھائی کالے کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے تھے۔ سب کو پتہ تھا پیچھے سے کون کنٹرول کررہا تھا اوراتنی تکلیف نواز شریف اور ان کے چھوٹے بھائی کیوں کررہے تھے...یہ سب سیاستدان بے چارے کسی ریٹائر یا سرونگ فوجی کے بغیر سیاست نہیں کرسکتے۔ ہمارے فوجی ویسے بھی ان سیاستدانوں سے بہتر سیاستدان ہیں یا آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بھی جان بوجھ کرنالائق سیاستدانوں کو پروموٹ کرتے ہیں کہ انہیں استعمال کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
خیر اب کیا کریں جس کو کیمرے کا چسکا لگ جائے وہ بھی کسی کام کا نہیں رہتا۔ روزانہ آپ کا بیان نہ چھپے، روز آپ کا چہرہ مبارک ٹی وی پر نظر نہ آئے تو شاید کھانا ہضم نہ ہوتا ہو یا پھر نیند نہ آئے ۔
ایسے ہی ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل کو ہر روز چار دفعہ مختلف ٹی وی پروگراموں میں دیکھتا ہوں۔ ایک دن نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے پوچھ لیا کہ آپ کیسے کر لیتے ہیں؟ لگتا ہے آپ صبح چھ بجے ناشتہ کر کے گھر سے نکلتے ہیں اور رات گئے گیارہ بجے کا آخری پروگرام کر کے بارہ بجے گھر لوٹتے ہوں گے۔بار بار ایک ہی بات ہر جگہ دہرا رہے ہوتے ہیں۔ میں نے کہا ناراض نہ ہوں تو ایک بات کہوں لوگ بار بار ایک چہرہ دیکھ کر اکتا جاتے ہیں۔ لوگوں کے لیے نہیں اپنے لیے ضروری ہے کہ خود کو زیادہ ایکسپوز نہ کیا جائے۔ لوگوں کے اندر آپ کو دیکھنے کی تھوڑی سی حسرت رہنے دیں۔ ٹی وی کا یہ فائدہ یا نقصان ہوا ہے کہ بہت سارے دانشوروں کو جو کبھی ٹی وی کی شان ہوتے تھے‘ انہیں دیکھتے ہی لوگ اب چینل بدل لیتے ہیں۔ نئی بات ان کے پاس ہے نہیں لہٰذا جب ایک ہی بات بار بار دہرائی جائے گی تو کوئی کتنی دیر تک سنے گا؟
شروع میں اچھا لگتا ہے کہ ہر ٹی وی اینکر آپ کو اپنے پروگرام میں لینا چاہتا ہے۔ آپ کو خود فون کرے گا کیونکہ اسے ریٹنگ مل رہی ہے۔ آپ کو بانس پر چڑھائے گا‘ آپ بھی چڑھتے جائیں گے اور ایک دن پتہ چلے گا آپ کی بات کا اثر ختم ہوگیا ہے۔ آپ بول تو رہے ہیں لیکن کوئی انگریزی محاورے کے مطابق اپنے کان آپ کو ادھار پر دینے کو تیار نہیں‘آپ بے تکان بول رہے ہیں‘ ایک دن سب تھک جاتے ہیں‘ لیکن آپ نہیں تھکتے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو بھی وقت کا وزیراطلاعات ہوتا ہے وہ اکثر الیکشن ہارتا ہے کیونکہ وہ ٹی وی اور اخبارات پر اپنی شکل دکھاتا ہے کہ لوگ اکتا جاتے ہیں۔ فرنٹ پیج چار کالمی تصویر کے ساتھ ہر وزیراطلاعات کا پیدائشی حق سمجھا جاتا ہے۔ کچھ بھی ہو وہ فرنٹ پیج پر ہوگا۔ تو پھر کیا ہوتا ہے؟ راجہ ظفرالحق بھی جنرل ضیاء کے وزیراطلااعات تھے۔ ہر روز چار کالم ہر اخبار کے فرنٹ پیج پر۔ پھر کیا ہوا؟ موصوف انیس سو پچاسی کا الیکشن ہار گئے۔ بہت سارے نام گنوائے جاسکتے ہیں لیکن بہتر ہوگا ابھی ماضی قریب کے وزیراطلاعات کو دیکھ لیتے ہیں۔ قمرالزماں کائرہ الیکشن ہارے، فردوس عاشق اعوان الیکشن ہار گئیں‘ دونوں پیپلز پارٹی کے وزیر اطلاعات رہے۔ پرویز رشید کو بھی ہر وقت ٹی وی کا شوق لے بیٹھا ‘ مریم اورنگزیب مختلف لگ رہی ہیں۔ سلجھی ہوئی لگتی ہیں‘ سمجھدار لگتی ہیں‘ نپی تلی بات کرتی ہیں۔ مختصر بات کرتی ہیں ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن ذہین انسان کی طرح بات اچھی کرتی ہیں۔
جاوید ہاشمی زیادہ دن کیمرے سے دور نہیں رہ سکتے۔ بچے سے لے کر بوڑھے تک سب کو توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرندے اور جانور بھی توجہ مانگتے ہیں۔ حیران ہوتا ہوں میرے دوست یوسف رضا گیلانی کیسے اپنے دن کیمرے اور اخباری خبر کی لیڈ کے بغیر گزارتے ہوں گے۔ جنرل مشرف اپنا ٹھرک پورا کر لیتے ہیں۔ ان کو ایک ایڈوانٹیج ہے کہ ٹی وی پروگرام کے ہوسٹ کے ساتھ پہلے سے طے کر لیتے ہیں لہٰذا مجال ہے ان سے کوئی مشکل سوال کیا جائے۔ ہنستے مسکراتے، گپیں لگاتے لگاتے شو کا وقت گزر جاتا ہے۔ دوسری طرف ذہین لوگ کیسے اپنی ذہانت کا سودا کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے سینیٹ کی ایک کمیٹی اجلاس میں بیٹھا لاء منسٹر زاہد حامد کو سن رہا تھا جو اعتزاز احسن پر چڑھائی کر رہے تھے کہ انہوں نے اجلاس میں حسین نواز کا نام لینے کی جرأت کیوں کی؟
اعتزاز احسن جیسا بندہ جو کبھی جنرل مشرف کے خلاف کھڑا ہوگیا تھا وہ زاہد حامد جیسے کمزور وزیر کے سامنے بولنے کی جرأت نہ کرسکا اور وضاحتیں دیتا رہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں تھا اور وہ نہیں تھا ۔ زاہد حامد کا لہجہ بتا رہا تھا کہ اگر اعتزاز احسن نے تھوڑی سی چوں چراں کی تو وہ اس کی پارٹی کے لیڈروں کی منی لانڈرنگ اور بیرون ملک رکھی گئی دولت کا کچا چٹھا کھول دے گا۔یوں زرداری کی عزت بچانے کے لیے یا اپنی ایک سینیٹ سیٹ بچانے کے لیے اعتزاز نے چپ رہنے کو ترجیح دی ۔
انسان کی خواہشات بھی اس سے کیا کیا کام کراتی ہیں....کیسے کیسے عزت دار لوگوں کو عزت پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔
جاوید ہاشمی کے لیے میرا مشورہ وہی ہے جو چار سال پہلے دیا تھا کہ بہتر ہے مخدوم رشید میں تعویذ گنڈے کا کام شروع کریں۔لیکن میرے کہنے سے کیا ہوتا ہے کیونکہ وہ تو ایک ٹی وی شو میں فرما رہے تھے نواز شریف ان کے کل بھی لیڈر تھے، آج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے اور وہ آئندہ الیکشن ملتان سے لڑیں گے۔ انہیں ایک دفعہ پھر بے تکان سنتے ہوئے مجھے عثمان ڈار اور توفیق بٹ یاد آرہے تھے جن کی موجودگی میں چار سال قبل اسلام آباد کلب میں مجھے جھوٹا ثابت کرنے پر تُلے ہوئے تھے کہ کیوں لکھا تھا کہ نواز شریف کو نہ چھوڑتے، سیاست چھوڑ دیتے۔
اور اپنی ذات سے محبت‘ہائے یہ ٹی وی کا کیمرہ‘پتہ نہیں ہم سب کو کیسے کیسے کب تک ایکسپوز کرتا رہے گا ....!