سنا ہے کرپشن کم ہوگئی ہے اور شادیانے بجائے جارہے ہیں۔
پیپلز پارٹی اس لحاظ سے پس ماندہ تھی اسے یہ بھی پتہ نہیں تھا کرپشن کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات کرنے بھی ضروری ہیں کہ لوگوں کو لگے کرپشن کم ہورہی تھی ۔ ایک دفعہ سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے کہا یہ خبر غلط ہے کہ ان کے خاندان نے قرضہ معاف کرایا تھا۔ میں نے کہا تو تردید جاری کرنی چاہیے تھی۔ کندھے اچکا کر بولے ضرورت نہیں سمجھی ۔ میں بولا یہ رویہ غلط ہے۔ وہی ہوا اور اب وہ انکار کرتے ہیں، کوئی نہیں مانتا ۔نواز لیگ نے مختلف طریقہ اختیار کیا ۔ چوہدری نثار علی خان نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ بن کر دنیا بھر کے سکینڈلز پر پی پی پی کا احتساب کیا لیکن اپنے ایم این اے انجم عقیل خان کے چار ارب روپے کے سکینڈل کو ٹچ کرنے کی جرأت نہ کرسکے جس میں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے ایک عزیز اور سابق ایم ڈی پولیس فاونڈیشن بھی ملوث تھے۔
پیپلز پارٹی کی باری لگی تو خورشید شاہ نے پی اے سی فورم سے نواز شریف حکومت کو کلین چٹیں دینا شروع کردیں۔ سب سے بڑی کلین چٹ آئی پی آئی ایز کو کی گئی ادئیگیوں کے بارے میں دی گئی۔ مزے کی بات کہ خورشید شاہ کی کمیٹی ایک سال ہوا گردشی قرضوں میں ایک سو نوے ارب روپے کی بے ضابطیگوں اور کرپشن میں کلین چٹ دے چکی جب کہ سینیٹ میں سلیم مانڈوی والا کی کمیٹی ابھی تک تحقیقات میں مصروف ہے۔ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میںتو مطمئن جب کہ سینیٹ میں وہ سمجھتی ہے کرپشن ہوئی ہے۔ کیسی خوبصورت واردات ہے۔
گردشی قرضوں کی ادائیگی کی کہانی بتاتی ہے پاکستان میں کیسے ''کرپشن ‘‘کم دکھانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ اسحاق ڈار کو وزیرخزانہ بنے دو ہفتے ہوئے تھے انہوں نے اسٹیٹ بنک کو حکم دیا کہ وہ فوراً پانچ ارب ڈالرز کے قریب ادائیگیاں آئی پی پی ایز کو کردیں اور آڈیٹر جنرل آفس سے بلوں کو چیک کرانے کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں خبر تک نہ ہونے دیں۔ جو کچھ آئی پی پی ایز نے بل کے نام پرہاتھ میں تھما دیا اس پر ادائیگی کر دی گئی ۔ ایک گھنٹے کے اندر یہ سب کام مکمل ہوا اور پیسے لاہور میں ان کے اکاونٹس میں ٹرانسفر کردیے گئے۔ اتنا بڑا چھکا تو زرداری اور گیلانی بھی مارنے کا حوصلہ نہ کر سکے تھے جنہیں بقول پیپلز پارٹی انہی آئی پی پی ایز نے ایک وزیر کوتیس فیصد کمشن تک کی پیشکش کی تھی ۔
آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا کو پتہ چلا تو انہوں نے انکوائری شروع کردی کہ پری آڈٹ اور بلوں کی تصدیق اور ان کی اجازت کے بغیر اتنی بڑی رقم کیسے ادا کی گئی؟ انکوائری شروع کی تو اسحاق ڈار نے خورشید شاہ کی پی اے سی کو استعمال کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل کے خلاف انکوائری شروع کرادی کہ انہوں نے کیسے اپنی تنخواہ میںتیس ہزار روپے اضافہ کیا تھا۔ رانا پھر بھی ڈٹے رہے۔ آڈٹ کرایا تو پتہ چلا 190 ارب روپے کی زائد ادائیگیاں کی گئی تھیں اور تو اور فوٹوکاپی والے بلوں پر اربوں روپوں کی ادائیگی کی گئی۔ 30 ارب روپے سے زیادہ جرمانہ ادا کیا گیا جب کہ22 ارب روپے کا سود ۔ جو جرمانہ آئی پی پی ایز پر حکومت نے عائد کیا تھا اسے بھی معاف کردیا گیا۔ اس آڈٹ رپورٹ کو خورشید شاہ کی مدد سے سیٹل کرایا گیا ۔ اسحاق ڈار ایک نیا قانون لائے جس کے تحت آڈیٹر جنرل سے اب بلوں کی تصدیق کرانا ضروری نہیں تھا ۔ اسحاق ڈار جب چاہیں وہ کسی کو بھی اربوں روپوں کی ادائیگی بغیر بلوں کی تصدیق کے کرسکتے ہیں ۔ اس کے لیے وہ پارلیمنٹ میں نیا قانون لائے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی‘ جو چیز پیپلز پارٹی کے دور میں جرم تھی وہ اب نواز شریف دور میں قانون بن گئی۔ جس طرح سے ایک ہی دن میں چار ارب ڈالرز کی ادائیگیاں آئی پی پی ایز کو کی گئیں وہ اپنی جگہ ایسا سکینڈل ہے جو پاکستان میں شاید پہلے نہ ہوا ہو ۔کرپشن فری امیج ابھارنے کے لیے ضروری تھا اختر بلند رانا کو آڈیٹر جنرل کی پوسٹ سے ہٹایا جائے اور اپنا بندہ لایا جائے جو سب اچھا ہے کی رپورٹ دے۔ اختر بلند رانا اس وقت سے آنکھوں میں کھٹک رہے تھے جب انہوں نے سستی روٹی سکیم میں تیس ارب روپے کے سکینڈل کا انکشاف کیا کیسے بنکوں سے قرضہ لے کر اربوں روپے سود بھی ادا کیے گئے۔دانش سکولز کا سکینڈل اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا‘ اس پر سب ہوشیار ہوگئے اور فیصلہ ہوا کہ میٹرو بس کی دستاویزات آڈٹ کو نہیں دینیں۔ ساتھ ہی ہر جگہ دفتروں میں آگ لگنا شروع ہوگئی جہاں دستاویزات موجود تھیں اور آڈٹ ہوسکتا تھا ۔
سب سے بڑی نالائقی تحریک انصاف کی طرف سے دکھائی گئی جب پنجاب میں پبلک اکاونٹس کمیٹی کے سربراہ نے اس کمیٹی کے معیار اور اختیارات کو برباد کر دیا جب وہ ان اہم کرپشن رپورٹس پر کوئی بھی کاروائی نہ کرسکے یوں جو کام چوہدری نثاری علی خان نے پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ اسلام آباد میں کیا تھا وہ تحریک انصاف کے پنجاب میں سربراہ نہ کرسکے یا شاید شہباز شریف کے ساتھ مک مکا کر لیا اور یوں پنجاب کرپشن فری ہوگیا۔اختر بلند رانا کو ہٹا کر اس کام کے لیے رانا اسد امین کو چنا گیا جنہیں ڈار نے وزارت فنانس میں ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر نوکری دی ہوئی تھی ۔ یوں رانا اسد کو آڈیٹر جنرل لایا گیا جو کبھی اسحاق ڈار کی وزارت میں ان کے ملازم تھے۔ مزے کی بات ہے جس دن رانا اسد امین نے نئے آڈیٹر جنرل کا حلف لیا اسی دن ہی ان کے خلاف کرپشن کے آڈٹ پیرے اسی آڈٹیر جنرل کے ایڈیٹرز بنا چکے تھے جس کے اب وہ سربراہ بنا دیے گئے تھے۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود پربھی آڈٹ پیرے بنے کہ کیسے انہوں نے لاکھوں روپے غیرقانونی طور پر اپنی جیب میں ڈال دیے۔ امیج پھر بھی کلین رہا کہ کوئی کرپشن نہیں ہورہی۔ امریکہ میں دنیا کی تاریخ کے مہنگے ترین یورو بانڈ لیے گئے۔ پانچ سو ملین ڈالرز کے عوض چار سو دس ملین ڈالرز کا سود۔ پتہ چلا پچھتر ملین ڈالرز پاکستان سے اہم لوگوں نے بھیجے۔ سلیم مانڈوی والا نے نام مانگے تو اسحاق ڈار کی وزارت نے وہ نام دینے سے انکار کردیا کہ کس نے کتنا مال بنایا تھا ۔
2013 میں نندی پور پلانٹ کا منصوبہ پیپلز پارٹی دور میں بائیس ارب روپے کا تھا وہ شہباز شریف نے ستاون ارب روپے پر چین سے طے کیا‘ اب اسی ارب روپے عبور کر گیا ۔ ایک دن نندی پور پراجیکٹ ڈائریکٹرمحمود کو الزامات لگا کر برطرف کردیا گیا اور شہباز شریف نے نیب سے مطالبہ کیا کہ اس پراجیکٹ میں کرپشن ہوئی تھی انکوائری کریں۔ اب شہباز شریف فرماتے ہیں کوئی کرپشن ہوئی تو بتائیں۔
ایک دن میں نے اپنے پروگرام میں کہا کہ سی ڈی اے زیروپوائنٹ سے روات تک چھبیس کلومیٹر پر چوبیس ارب روپے خرچ کر رہا ہے۔ اس پر افسر بولا سی ڈی اے تو ایک ارب روپے فی کلومیٹر پر خرچ کررہا ہے جب کہ پنڈی اسلام آباد میٹرو دو ارب روپے فی کلومیٹر میں مکمل ہوئی۔ مطلب ایک کلومیٹر میں ایک ارب روپے کمایا گیا۔ ملتان میں بھی یہ کرتب کیا گیا ہے جہاں سولہ کلومیٹر میٹرو پر اٹھائیس ارب روپے خرچ دکھایا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی دور میں ٹرانسپیرنسی کے سربراہ بہت شور مچاتے تھے۔ نواز شریف نے انہیں وزیراعظم سیکرٹریٹ میں نوکری دے کر اپنا ہی ملازم رکھ لیا ۔ جب ٹرانسپیرنسی کے سابق سربراہ کو سفیر لگانے کی سمری وزیراعظم کو بھجوائی جاچکی ہو اور وزارت خزانہ کے ایک ریٹائر افسر کو آڈیٹر جنرل آف پاکستان لگایا جاچکا ہو جس پر عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی کرپشن پیرے بن چکے ہوں پھر اس کے بعد پاکستان میں کرپشن کیسے کم نہ ہوگی...؟