دو سال قبل بچوں نے کہا: ہمیں گھر میں پالتو جانور چاہیے۔ میں ٹال جاتا تھا۔ انہیں ڈاگ چاہیے تھا۔
کچھ وجوہ نفسیاتی تھیں اور کچھ نسٹلجیا تھا۔ بچپن میں گائوں میں مجھے بھی ڈاگ کا شوق تھا۔ بھائی کہیں سے روسی کتوں کی جوڑی لے آئے۔ بہت خوبصورت جوڑی۔ سفید رنگ کی یہ چھوٹے قد کی جوڑی رونق بن گئی۔ پورا گائوں دیکھنے آتا۔ ان سے کھیلنے کا اپنا مزہ تھا۔ جب بھی گھر آتے وہ دونوں بھاگ کر آتے، گلے ملتے اور آپ پر چڑھ جاتے۔ آپ انہیں لاکھ دور ہٹاتے رہیں‘ وہ جب تک پیار نہ کر لیتے‘ دور نہ جاتے۔ اگر آپ کا موڈ زیادہ خراب ہوتا تو وہ پیروں کو لپٹ جاتے۔ منہ میں پائوں لے کر ایسے ظاہر کرتے جیسے وہ کاٹنا چاہ رہے ہوں لیکن مجال ہے وہ کہیں ایک خراش تک بھی آنے دیں۔ آہستہ آہستہ دانت پائوں پر پھیرتے جیسے کہہ رہ ہوں اجازت ہو تو کاٹ لوں!
بابا کی وفات کے بعد اماں نے زمینیں سنبھال کر کاشت کاری شروع کر دی تھی۔ وہ صبح سویرے ہمیں سکول بھیج کر خود زمینوں پر نکل جاتیں‘ اور سارا دن وہ کھیتوں پر کام کرتیں۔ یہ دونوں رشین ڈاگ اماں کے ساتھ ہوتے۔ کئی برس ساتھ رہا۔ ایک دن اماں بیمار ہو کر نشتر ہسپتال ملتان جا پہنچیں۔ پیچھے ایک رشین ڈاگ اداس ہو کر بیمار ہو گیا۔ کھا پی بھی نہیں رہا تھا۔ سوچا کتنے دن بھوکا رہے گا؟ ایک رشین ڈاگ اماں کی اداسی میں مر گیا تھا۔ مجھے اور نعیم بھائی کو یقین نہ آیا‘ یہ جانور انسانوں سے اتنے بھی مانوس ہو سکتے ہیں۔ اماں کو نہ بتایا۔ ان پر برا اثر پڑنا تھا‘ کیونکہ وہ بھی اکثر ان کو مس کرتیں اور ان کی شرارتوں اور اٹکھیلیوں کے واقعات سناتی تھیں۔ کچھ ماہ بعد جب میں اور نعیم بھائی اماں کی وفات کے بعد ان کی میت ملتان سے گائوں لائے تو جو رشین ڈاگ بچ گیا تھا‘ وہ دور اداس بیٹھا ہم سب کو روتے دیکھتا رہا۔ شام کو اماں کو دفنا کر لوٹے تو وہ بھی مر چکا تھا۔ آٹھ ماہ اپنی مالکن کا انتظار کیا تھا اس نے۔ اب اس کے پاس بھی زندہ رہنے کا جواز شاید ختم ہو گیا تھا۔
وہ میرا ایسا تجربہ تھا کہ ساری عمر دوبارہ اس تکلیف سے نہ گزرنے کا فیصلہ کر لیا تھا؛ تاہم بچوں کا اصرار بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ دوستوں کے گھر ڈاگ دیکھتے تو لوٹ کر اصرار کرتے وہ گھر میں اپنا پیٹ (PET) کیوں نہیں رکھ سکتے۔ میں ٹالتا رہا۔ ماضی کے دکھ سامنے آن کھڑے ہوتے۔
ایک دن 'دنیا‘ اخبار لاہور میں ایم ڈی نوید کاشف اور پروگرام ڈائریکٹر عرفان اصغر کے پاس بیٹھا تھا کہ اینکر دوست عمران خان سے ملاقات ہو گئی۔ بات کتوں پر ہونے لگی۔ عمران کی کتوں پر ماہرانہ رائے اور تبصرے سے بہت متاثر ہوا۔ میں نے باتوں باتوں میں اپنے بچوں کے کریز کے بارے میں بتایا تو بولے رئوف بھائی! یہ بھی کوئی بات ہے۔ اگلے روز عمران خان لاہور سے اپنے بھائی سے ایک پیارا ڈاگ لے کر اسلام آباد میرے گھر چھوڑ گئے۔ ایک پیارا خوبصورت بلیک چھوٹے قد کا ڈاگ۔ بچے تو اس سے جیسے چمٹ گئے تھے اور وہ بچوں سے چمٹ گیا۔
نام کا مسئلہ پیدا ہوا۔ یہ کیا کھائے گا؟ کہاں سوئے گا؟ ڈاگ ہائوس بنانا پڑے گا۔ چھوٹے بیٹے نے ایک قدیم بادشاہ کی کہانی پڑھ رکھی تھی۔ بادشاہ کا نام کُزکو Kuzko تھا۔ یوں اس کا نام اس بادشاہ کے نام پر رکھ دیا گیا اور پھر ہمیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب وہ ہمارا فیملی ممبر بن گیا۔ گھر میں جو بھی مہمان آتا وہ پہلے کُزکو سے لاڈ پیار کرا کے ہی اندر آ سکتا تھا۔ میں را ت گئے گھر سے لوٹتا تو وہ دروازے پر مجھے روک لیتا‘ کدھر جناب! پہلے مجھ سے کھیلو۔ اگر میرا موڈ نہ ہوتا تو وہ گھر کے اندورنی داخلی دروازے کے آگے لیٹ جاتا۔ وہ اتنا پیار دیتا کہ بندہ بس بندھ جائے۔ اس کی حرکتیں دیکھ کر لگتا‘ جتنا وہ سمجھدار ہے‘ شاید کسی بھولے بھٹکے قدیم دور کے شہزادے کی روح اس میں قید ہے۔ ڈانٹا جاتا تو ناراض ہو کر ایک طرف جا کر بیٹھ جاتا۔ وہ جان دے سکتا تھا لیکن اپنی فُٹ بال نہ دیتا۔ اسے پتہ چل جاتا کہ اب بندھنے کا وقت ہے تو بھاگ جاتا۔ ایک دن بڑے بیٹے نے اس پر ریسرچ کی تو پتہ چلا اس نسل کے کتے اتنے انسان دوست ہوتے ہیں کہ گھر میں چور آ جائے تو یہ انہیں گھر کے اندر ڈرائنگ روم میں لے آتے ہیں اور پوچھتے ہیں چائے لائوں یا ٹھنڈا؟
چھوٹا بیٹا اکثر رات کو سونے سے پہلے مجھے پروگرام کے دوران ٹیکسٹ کرکے سوتا واپسی پر کُزکو کو کھانا دیجیے گا‘ یا پانی رکھ دیجیے گا۔ میں کہتا: یار لایا تم لوگوں کے لیے تھا‘ اور اب سارا خیال مجھے رکھنا پڑتا ہے۔
شروع میں میری بیوی بھی چڑتی کہ کہاں سے لے آئے ہو۔ گھر میں برکت نہیں ہوتی۔ کپڑے خراب ہو جاتے ہیں۔ نماز کے قابل نہیں رہتے۔ میں کہتا: کیسا انصاف ہے۔ جو جانور آپ کے لیے جان دینے کو تیار ہو جاتا ہے۔ جو انسان سے وفا کے لیے جانا پہچانا جاتا ہے۔ آپ سے بچوں کی طرح پیار کرتا ہے۔ اسے ہم کتنی حقارت سے دیکھتے ہیں۔ کسی کو گالی دینی ہو تو بھی اس کا نام استعمال کرتے ہیں حالانکہ میں نے کم ہی دیکھا ہو گا کہ کتوں نے انسان سے دوستی نہ نبھائی ہو۔ کتنی ویڈیوز یُو ٹیوب پر کتوں کی انسان دوستی پر پڑی ہیں۔
ہمیں یہ فکر ضرور رہتی تھی کہیں یہ اغوا نہ ہو جائے، یا خود سے بھاگ نہ جائے کیونکہ جب بھی دروازہ کھلنے لگتا تو وہ باہر جانے کی کوشش کرتا۔
اور پھر چند روز قبل شام کو کُزکو اچانک دروازہ کھلا دیکھ کر باہر نکل گیا اور واپس نہ لوٹا۔ یوں لگا جیسے گھر کا کوئی فرد کہیں چلا گیا ہو۔ پورا گھر چھان مارا‘ کہیں نہ ملا۔ میری بیوی‘ جسے وہ شروع میں اچھا نہ لگتا تھا‘ سب سے زیادہ پریشان تھی اور بچے بے حد اداس۔ جیسے کوئی قمیتی چیز گم ہو گئی ہو۔
وہی ہوا‘ جس کا ڈر تھا۔ بچپن سے ہی خوف تھا۔ نسلٹجیا تھا۔ رشین کتوں کی جوڑی یاد آتی تھی‘ جو ہر وقت اماں کے ساتھ ہوتی تھی۔ وہ جہاں جاتیں وہ ان کے پیچھے پیچھے ہوتے۔
بچوں کو شکایت ہے‘ میں نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔
میں خاموش بیٹھا کچھ اور سوچ رہا ہوں۔ اس کے پاس کس چیز کی کمی تھی؟ کھانا پینا، بچوں کا اس کو نہلانا، بیمار ہو تو جانوروں کے ڈاکٹر کو چیک کرانا، اس کے بال کٹوانا، اس کے نخرے اٹھانا... سب کچھ ہوتا تھا۔
کُزکو کی زندگی میں کس چیز کی کمی تھی؟ شاید آزادی کی... بعض دفعہ اچھی زندگی اگر چاردیواری یا زنجیروں میں گزر رہی ہو پھر شاید آزادی اہم ہو جاتی ہے۔ شاید وہ اب کہیں آزاد ہو اور بھوکا ہو۔ شاید وہ بھی ہمیں مس کر رہا ہو‘ جیسے ہم اسے کر رہے ہیں۔ بچوں کو فکر پڑ گئی کہ آوارہ پھرتے کتے کو ادارے پکڑ کر لے جاتے ہیں‘ اور گولی مار دیتے ہیں۔ بڑے بیٹے کو فکر تھی کہ پتہ نہیں اسے کچھ کھانے کو مل ہو گا یا وہ بھوکا ہو گا!
میں خاموش بیٹھا گائوں کے رشین ڈاگ سے جڑے نسٹیلجیا کا شکار ہو رہا ہوں۔ ایک فلم یاد آئی۔ جاپان میں ایک کتا برسوں ریلوے سٹیشن پر اپنے مالک کو چھوڑنے جاتا اور واپس ٹرین سے لے کر گھر جاتا۔ ایک دن مالک مرگیا اور نہ لوٹا۔ وہ پھر بھی روزانہ ریلوے سٹیشن جاتا اور برسوں انتظار کرتے کرتے مر گیا اور اب اس کتے کا وہیں مجسمہ بنا ہوا ہے۔
ایک اور فلم کا ڈائیلاگ یاد آیا۔ جس چیز کے ساتھ زیادہ دیر کا ساتھ نہ ہو اس کا نام نہیں رکھنا چاہیے۔
شاید کُزکو کا نام رکھ کر غلطی کی تھی۔ کُزکو کو میسر تمام تر عیاشیوں، محبت لاڈ پیار کے باوجود نام نہیں، آزادی چاہیے تھی۔ میری بیوی کا خیال ہے کُزکو کو پتہ نہیں ہو گا کہ وہ کیا قدم اٹھا رہا تھا‘ ورنہ وہ کبھی باہر نہ جاتا۔
ویسے بھی جن سے آپ محبت کرتے ہیں، وہ ایک دن بچھڑ ہی جاتے ہیں۔
اب یہ بات میں اپنے اداس بچوں کو کیسے سمجھائوں؟