"RKC" (space) message & send to 7575

پارلیمنٹ کو کس سے خطرہ ہے؟

جمعرات کی دوپہر قومی اسمبلی اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاسوں سے ہو کر ابھی ابھی لوٹا ہوں اور بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ پارلیمنٹ کو اس وقت کس سے خطرہ ہے؟ 
کیا میڈیا سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھال رہا ہے‘ لہٰذا پارلیمنٹ کو میڈیا سے خطرہ ہے کہ لوگ اب ہر دوسرے سیاستدان کو کرپٹ اور بے ایمان سمجھتے ہیں اور لوگوں کا ایمان جمہوریت پر کمزور ہوتا جا رہا ہے؟ یا پھر فوج سے خطرہ ہے جو بقول ہمارے دانشوروں کے ملک میں سیاستدانوں کو مضبوط نہیں ہونے دیتی اور جب بھی وہ حکومت کی باگ سنبھالتے ہیں تو فوج پیچھے بیٹھ کر ڈوریاں ہلا کر‘ اپوزیشن پر ہاتھ رکھ کر حکومتِ وقت کو مسائل میں مبتلا رکھتی ہے۔ ماضی میں اگر نواز شریف پر یہ الزام لگا کہ انہوں نے آئی ایس آئی سے لاکھوں روپے لے کر بینظیر بھٹو کو ہرانے کے لیے کام کیا تھا تو دو ہزار چودہ میں نواز شریف کے وزرا نے سارا الزام انٹیلی جنس اداروں اور چند جرنیلوں پر ڈال دیا تھا کہ انہوں نے عمران خان اور طاہرالقادری کو نواز شریف کے خلاف استعمال کیا تھا‘ جس کا مطلب تھا کہ نواز شریف کو مضبوط نہ ہونے دیا‘ ورنہ وہ سب کو کھا جاتے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ جب بھی وہ مضبوط ہوتے ہیں تو پہلے میڈیا، پھر عدالتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور آخر میں فوج کا جنرل ان کا نشانہ بنتا ہے‘ لہٰذا سب کی کوشش ہوتی ہے کہ نواز شریف کو اتنی طاقت نہ پکڑنے دی جائے کہ وہ پھر سنبھالے نہ جائیں۔ 
تاہم مجھے اب لگ رہا ہے پارلیمنٹ کو فوج، عدلیہ یا میڈیا سے زیادہ خطرہ اس میں بیٹھے ہوئے سیاستدانوں سے ہے۔ ان کے غیرسنجیدہ رویّوں نے جمہوریت کو کمزور تو کیا ہی ہے‘ کرپشن کو مضبوط بھی کر دیا ہے۔ بدقستمی یہ ہے کہ سب پارٹیاں بے نقاب ہو گئی ہیں۔ کوئی کسی کو طعنے دینے کے قابل نہیں رہا۔ سب کمپرومائز ہو چکے ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں دو گھنٹے تک سی پیک کے بارے میں بریفنگ میں ممبران کے غیر سنجیدہ رویے دیکھ کر سوچتا رہا کہ واقعی ہمارے بچوں کا مستقبل ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے‘ جو وہاں اپنا اپنا ایک پائو گوشت لینے کے لیے اپنے لیڈروں کے پورے اونٹ کو ذبح کرنے کا مسلسل دفاع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ اگر تم نے میرے لیڈر کے بارے میں کچھ کہا تو میں تمہارے لیڈر کا کچا چٹھا کھول دوں گا۔ چین کے ساتھ ہونے والے سولر اور کول پلانٹس کو دیے گئے مہنگے ریٹس سن کر بھی پارلیمنٹیرینز خوش ہیں۔ انہیں پروا نہیں کہ کوئلے سے مہنگی ترین بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ کوئی وزارت پانی و بجلی سے نہیں پوچھا رہا کہ جب چین خود کوئلے کے پلانٹ بند کرکے متبادل انرجی کی طرف جا رہا ہے اور اکانومسٹ کی دسمبر دو ہزار چودہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال چین میں کوئلے کے پلانٹس کی آلودگی سے پانچ لاکھ مر رہے ہیں‘ تو پھر پاکستان کیوں وہ بوگس پلانٹ لگا رہا ہے۔ چین کی اگر کوئلے پلانٹس کی ٹیکنالوجی اتنی اچھی ہے تو پھر وہ اپنے ہاں کیوں بند کر رہا ہے؟ کوئی پوچھنے کو تیار نہیں کہ پاکستان میں جو چین سے پلانٹ لائے جا رہے ہیں‘ وہ کہیں وہی تو نہیں جو چین نے بند کیے‘ اور وہ اب پاکستان کو بیچ رہا ہے۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ ممبران افسران سے یہ پوچھنے کو تیار نہیں کہ ان کوئلے کے پلانٹس لگانے سے پہلے ماحولیاتی سروے بھی کرایا گیا ہے یا نہیں؟ ایک مرحوم ماحولیاتی ایجنسی ہوا کرتی تھی جس کا کام یہی تھا کہ وہ تمام منصوبوں کا جائزہ لے اور حکومت کو بتائے کہ کون سا ماحول فرینڈلی ہے اور کون سا نہیں۔ شیخ رشید نے قطر کمپنیوں کو پاکستان میں دیے گئے ٹھیکوں پر بات کرنے کی کوشش کی تو نواز لیگ کے ایک ایم این اے بھڑک اٹھے۔ انہوں نے فوراً جنرل باجوہ کے دورہ قطر کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سب کچھ اپنے ہاتھ میں ہے۔ جنرل باجوہ کے دورہ قطر نے اس موقع پر نواز لیگ کے ارکان کو نیا اعتماد بخشا ہے‘ چاہے جنرل صاحب وہاں پر دفاعی معاملات پر بات کرنے گئے تھے‘ کیونکہ وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ دراصل اب نواز شریف کا کلّہ مضبوط ہو گیا ہے۔ جب اس بات کا ذکر ہوتا ہے کہ نواز شریف کا کلّہ مضبوط ہو گیا ہے تو سب کے کان کھڑے
ہو جاتے ہیں کہ اس کے بعد ان کی ایک ایک کرکے باری آئے گی۔ لہٰذا نواز شریف صاحب کے حامی تسلی رکھیں وہ اتنے بھی مضبوط نہیں ہوں گے یا ہونے دیے جائیں کہ وہ ماضی کی طرح ریاستی اداروں کو اپنے تابع کرنے کی کوشش کر سکیں۔ اگرچہ ڈان لیکس کا معاملہ ٹھپ ہو چکا ہے‘ لیکن یقیناً فوج کی نچلے سطح پر اس بارے میں دبائو موجود ہے اور یہ معاملہ کسی نہ کسی وقت دوبارہ سر اٹھائے گا‘ یا ایک طرح سے حکومت کے سر پر یہ تلوار لٹکتی رہے گی‘ جیسے اس وقت زرداری کے سر پر ڈاکٹر عاصم حسین اور عزیر بلوچ کی لٹکا کر رکھی گئی ہے۔ موصوف نے اسلام آباد میں اپنی پرانی دکان دوبارہ کھولنے کی کوشش کی جب انہوں نے فوجی عدالتوں کے قیام پر اپنے نو نکات پیش کیے‘ جن کو سب نے مسترد کر دیا۔ اب پتہ چلا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی راضی ہو گئی ہے۔ وہ پرانی تنخواہ پر ہی کام کرے گی۔ ایک ذرائع نے قومی اسمبلی میں مجھے بتایا کہ آپ لوگ غلط ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ زرداری صاحب کے نزدیک اس وقت سب سے بڑا خطرہ عاصم حسین سے زیادہ عزیر بلوچ ہے۔ جس طرح عاصم حسین کی ویڈیو ریکارڈنگ میں سب کچھ محفوظ کر لیا گیا ہے ایسے ہی عزیر بلوچ بھی کچا چٹھا کھول چکے ہیں؛ تاہم ان کے لیے عاصم حسین سے زیادہ خطرناک عزیر بلوچ ہے۔ عاصم حسین نے تو زرداری کے فرنٹ مینوں کی تفصیلات بتائی ہیں کہ انہوں نے کہاں کہاں لوٹ مار کی۔ لندن‘ نیویارک اور دبئی میں کون کون اس کا فرنٹ مین ہے۔ ایسی ویڈیو سے زرداری کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ کرپشن اس ملک میں اب ایک اچھائی بن چکی ہے؛ تاہم زرداری کو خطرہ ان انکشافات سے ہے‘ جو عزیر بلوچ نے کیے ہیں‘ کیونکہ ان کی نوعیت سنگین ہے‘ لہٰذا عاصم حسین سے کوئی فکر نہیں رہی۔ دوسرے ذرائع کہتے ہیں کہ عاصم حسین ویسے بھی اپنی مرضی کے ہسپتال میں رہ رہا ہے۔ اسے اس کے یار دوست ملنے آتے ہیں۔ وہ سب کو فون کرتا ہے۔ اور سب کو علم ہے کہ جو کبھی دہشت گردوں کا سہولت کار کہلاتا تھا وہ آج ان سب کی ہسپتال کے کمرے میں کھل کر مہمان نوازی کرتا ہے۔ 
میرا خیال تھا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں اگر سینیٹ سے ارکان لائے جائیں تو بڑا فرق پڑے گا کیونکہ سینیٹ کے پاس کافی بہتر اور زیادہ پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں۔ آج وہاں پانچ سینٹرز کو بھی پی اے سی میں بیٹھا دیکھ کر خوشی ہوئی‘ لیکن دو گھنٹے بعد اندازہ ہوا ان کے اس کمیٹی کے ممبر بننے سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑنے والا۔ ہاں اگر سینیٹ سے ڈاکٹر بابر اعوان، اعتزاز احسن، فرحت اللہ بابر، محسن عزیز کو ممبر بنایا جاتا تو یقیناً اس کمیٹی کا معیار بہت بہتر ہوتا اور ہمارے جیسے صحافت کے طالب علم بھی اس اجلاس میں بیٹھ کر بہت کچھ سیکھتے۔ 
دوسری طرف لگتا ہے عروج سے پہلے ہی ہمارے اداروں کا زوال شروع ہو گیا ہے۔ وہ جس شاخ پر بیٹھے ہیں‘ اسے ہی کاٹ رہے ہیں۔ اگر پی اے سی میں ایم این ایز اور سینٹرز کی مایوس کن کارگردگی میں کسر باقی تھی تو قومی اسمبلی کے اندر ہال خالی دیکھ کر پوری ہو گئی۔ مشکل سے ہی اتنے ایم این ایز آتے ہیں کہ ہائوس کی کارروائی چل پڑے۔ ایم این ایز سے زیادہ تو اب میڈیا کے لوگ پریس گیلری میں ملتے ہیں ۔ 
نواز شریف صاحب کو ایک کریڈٹ دیں۔ اس دفعہ انہوں نے پارلیمنٹ کی رہی سہی توقیر بھی ختم کر دی ہے۔ ایک ایک سال تک وہ پارلیمنٹ نہیں گئے۔ وہ خود نہیں آتے اور ان کی دیکھا دیکھی ان کے وزیر بھی نہیں آتے۔ پتہ نہیں کون سے کام ہیں جن سے ان وزرا کو فرصت نہیں ملتی کیونکہ اگر وزرا سے سوال کر لیا جائے تو جواب ملتا ہے اٹھارہویں ترمیم کے بعد ان کے پاس اختیارات نہیں رہے۔ اگر اختیارات نہیں رہے تو پھر اتنی وزارتیں کیوں پال رکھی ہیں ؟ 
پارلیمنٹ کے دشمن میڈیا، فوج یا عدلیہ نہیں‘ بلکہ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہیں۔ قومی اسمبلی، سینیٹ کے اجلاسوں سے لے کر پبلک اکائونٹس کمیٹی تک اپنے اپنے پارٹی لیڈروں کے ہر جرم کا اندھا دھند دفاع کر رہے ہیں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں