ایک دفعہ پھر اپنے لیہ گائوں میں ہوں۔
اسلام آباد سے لیہ تک چار سو کلومیٹر سڑک کے ذریعے سفر کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ذلت کسے کہتے ہیں‘ اور اس سے بڑھ کر ذلتوں کے مارے لوگ کیسے ہوتے ہیں‘ اور وہ کیسے اپنی ذلتوں بھری زندگیوں سے کمپرومائز کرنا سیکھ لیتے ہیں۔
ان سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے آپ کا دکھ دو تین اور باتیں سوچ کر مزید بڑھ جاتا ہے۔ یہ کہ بنتا تو یہ اتنا ہی سفر ہے جتنا لاہور سے اسلام آباد‘ لیکن لاہور آپ ساڑھے تین گھنٹوں میں انجوائے کرتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں جبکہ لیہ آپ مسلسل دعائیں کرتے اور کئی حادثوں سے بچتے آٹھ سے دس گھنٹوں میں پہنچتے ہیں۔ اگر اب بھی آپ اپنے دل کو تسلی دے کر بہلانے کے کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ خیر ہے‘ سفر کٹ ہی جائے گا‘ تو حسن رضا کی خبر آپ کو دہلا کر رکھ دے گی کہ جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع‘ جن میں لیہ بھی شامل ہے اور قریبی ٹائون جمن شاہ تک بھی‘ کے ترقیاتی فنڈز لاہور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر کی آرائش پر خرچ کر دیے گئے ہیں‘ جن میں باتھ روم کی ٹائلیں بھی شامل ہیں۔
ہر سال صوبائی بجٹ کے موقع پر ایک ڈرامہ رچایا جاتا ہے کہ اس دفعہ جنوبی پنجاب اور سرائیکی علاقوں کے لیے ریکارڈ بجٹ رکھا گیا ہے‘ اور پھر حسن رضا خبریں دینا شروع کرتا ہے کہ سرائیکی اضلاع کے فنڈز لاہور کی کس سڑک اور کس جی او آر کے بڑے افسر کے گھر پر لگ گئے ہیں۔ پچھلے دنوں ہی اس نے خبر دی تھی کہ سرائیکی علاقوں کے دو ارب روپے کینال روڈ لاہور کی توسیع پر لگا دیے گئے ہیں۔ اب لیہ اور دیگر اضلاع کا پیسہ وزیر اعلیٰ کے باتھ روم پر لگ گیا ہے۔
دورانِ سفر جب تلہ گنگ‘ میانوالی‘ بھکر‘ لیہ‘ مظفرگڑھ تک کے مختلف علاقوں اور قصبوں سے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے گزرتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے ان سرائیکی علاقوں کے ساتھ کیسا بدتر سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ چار سو کلومیٹر کے طویل اور خطرناک سفر میں ہائی وے پولیس کی کوئی گاڑی یا اہلکار نظر نہیں آئے گا۔ کہیں آپ کو ٹراما سینٹر نہیں ملے گا کہ حادثے کی صورت میں ایمرجنسی علاج کا بندوبست ہو سکے۔ فتح پور میں بنے ٹراما سینٹر کو کہیں اور شفٹ کر دیا گیا ہے۔ اب کوئی اس طویل شاہراہ پر مرے یا جیے‘ حکمرانوں کی بلا سے۔
ملتان میانوالی روڈ وہ ہے جو کراچی کو خیبر اور افغانستان سے لنک کرتا ہے۔ اس ٹوٹی پھوٹی سڑک پر ٹرکوں کی لمبی قطاریں آپ کو ڈپریس کرکے رکھ دیتی ہیں کہ کس ذلت سے یہ سب سفر کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سڑکیں اس قابل نہیں رہ گئیں کہ آپ آرام سے ایک کلومیٹر سفر بھی کر سکیں۔ نیٹو کنٹینرز یہیں سے گزرتے رہے اور ان کی وجہ سے رہا سہا انفراسٹرکچر بھی تباہ ہو گیا۔ امریکہ نے جو بتیس ارب ڈالرز دیے‘ جو ان سڑکوں کی تعمیر پر لگنے تھے‘ وہ پتہ نہیں کہاں گئے؟ یہ اہم ترین ملتان میانوالی شاہراہ‘ جو کراچی سے خیبر تک جاتی ہے اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے‘ تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ ان سڑکوں پر جگہ جگہ بڑے بڑے گڑھے بن چکے ہیں اور ان کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل تسلسل سے جاری ہے۔ بارش ہو جائے تو پھر آپ تصور نہیں کر سکتے کہ کیا حالت ہوتی ہے۔
یہ اہم سڑک ون وے نہ ہونے کی وجہ سے سفر مزید جان لیوا ہو چکا ہے۔ اوپر سے تیز رفتار بسوں نے لوگوں کی زندگیوں کے لیے خطرات بڑھا دیے ہیں۔ روزانہ نہیں تو ہر دوسرے تیسرے دن یہاں حادثات ہوتے ہیں۔ آمنے سامنے ٹکر ہوتی ہے اور کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ حال ہی میں کئی بچے فتح پور میں جاں بحق ہوئے۔ چند ماہ پہلے بس حادثے میں درجنوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ایک لہولہان بچے کی تصویر نہیں بھولتی‘ جس کے ماں باپ ایسے ہی ایک حادثے میں اسی سڑک پر دیگر مسافروں کے ساتھ مارے گئے تھے اور وہ اکیلا کھڑا رو رہا ہے۔
حکمران تین ہزار سکیورٹی اہلکاروں کے جھرمٹ میں سفر کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساٹھ ساٹھ گاڑیاں فراٹے بھرتی چلتی ہیں اور اکثر ارد گرد کے روڈز گھنٹوں بند رہتے ہیں۔ جہاں حکمرانوں کی حفاظت پر ہر سال ایک ارب روپے خرچ ہوتے ہیں‘ وہاں ایسے بچوں کے والدین روازنہ اس سڑک پر مر رہے ہوں تو کس کو فرق پڑتا ہے۔ ہمارے بچے محفوظ ہیں باقی مریں یا جیئیں۔ آپ اس سڑک پر واقع قصبوں سے گزریں تو آپ کو لگے گا کہ پس ماندگی کسے کہتے ہیں۔ بربادی کس چیز کا نام ہوتا ہے۔ غربت کیسے آپ کا جینا حرام کر دیتی ہے۔ ذلت کسے کہتے ہیں۔ بے ہنگم زندگی کا مفہوم پہلی دفعہ آپ کو سمجھ میں آئے گا۔ ان ذلتوں کے مارے لوگوں کے چہروں کو غور سے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ انہیں یہ بھی علم نہیں کس جرم کی سزا انہیں ملی ہے۔ ''صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے... زندگی یونہی تمام ہوتی ہے‘‘ کی تصویر بنے یہ لوگ پتا نہیں کیسے جی رہے ہیں۔
عمران خان کی میانوالی کے قریب نمل یونیورسٹی کی پہاڑیوں سے آگے آپ ذرا سڑک ڈھونڈ کر تو دکھائیں۔ لاہور موٹر وے پر اس طرح کی کلرکہار کی پہاڑیاں اپ دس منٹ میں عبور کر جاتے ہیں اور لینڈ سکیپ کو انجوائے بھی کرتے ہیں‘ جبکہ میانوالی کی ان پہاڑیوں پر سے گزرنے کے لیے آپ کو موت کے کنویں جیسی صورت حال سے گزرنا پڑتا ہے۔ میں ان خطرناک پہاڑیوں سے بیس برس سے گزر رہا ہوں‘ اور حالت ویسے کے ویسے ہیں۔ کئی برس پہلے کچھ کام شروع ہوا‘ پھر ٹھیکیدار مال بنا کر بھاگ گیا۔ ایک اور ٹھیکیدار آیا‘ وہ بھی مال بنا کر بھاگ گیا‘ اور کام پھر رک گیا۔ اب پھر رینگ رینگ کر ہو رہا ہے۔ لاہور میں آٹھ ماہ میں اورج لائن بن جائے گی لیکن یہاں دس کلومیٹر دس برس میں نہیں بن سکی۔ آپ خوش قسمت ہیں اگر ان پہاڑیوں سے ایک دو گھنٹے میں نکل جائیں‘ ورنہ تین چار گھنٹے یہاں پھنسے رہنا عام سی بات ہے۔ ٹرک والے تو چارپائیاں ڈال کر سو رہے ہوتے ہیں کہ پہاڑی پر سے ٹریفک کلیئر ہو تو جگا دینا۔ کینٹیرز پھنس جائیں تو علاقے کے مقامی ٹریکٹر ٹرالی لاتے ہیں اور گھیسٹنے میں مدد دیتے ہیں۔ دس سال سے اس سڑک کو بنتے دیکھ رہا ہوں لیکن دس کلومیڑ سڑک بھی نہ بن سکی۔ میلوں ٹریفک پھنسی رہتی ہے‘ جبکہ میرے جیسے خوشامدی اور طبلچی کالم نگار فرماتے ہیں: چینی حکمران پنجاب کی ترقی کے ماڈل سے اتنے متاثر ہیں کہ اسے پنجاب سپیڈ کا نام دے چکے ہیں۔
ملتان میانوالی شاہراہ‘ جو مصروف ترین شاہراہ ہے‘برباد ہو چکی ہے۔ ایک پچھتاوا دل سے نہیں جاتا۔ کئی برس پہلے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک دن مجھ سے پوچھا: آپ بتائیں آپ کے شہر لیہ کے لیے کون سا بڑا کام کریں جو یاد رکھا جائے۔ میں بیوقوف کہہ بیٹھا کہ لیہ میں ایک بڑی یونیورسٹی بنا دیں۔ میرے ذہن میں بھٹو صاحب تھے‘ جنہوں نے سرائیکی علاقوں میں ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں تین یونیورسٹیاں دی تھیں اور ہماری نسلیں اعلیٰ تعلیم لے سکیں۔ اس کے بعد ان چالیس برسوں میں کوئی یونیورسٹی نہیں بنی۔ گیلانی صاحب بولے اچھا کچھ کرتے ہیں۔ آج پچھتاتا ہوں۔ انہیں کہتا کہ تلگہ گنگ میانوالی بھکر لیہ مظفر گڑھ راجن پور موٹر وے بنا دیں۔ گیلانی صاحب کا بھی کچھ بھلا ہو جاتا۔ افسوس ہوا کوئی اچھا مشورہ نہ دے سکا۔
دوسری طرف لاہور اسلام آباد موٹر وے پر پچھلے سال ساٹھ ارب روپے دوبارہ آرائش کے نام پر لگائے گئے اور وہ ابھی سے بیٹھنا شروع ہو گئی ہے۔ کوئی لمبا ہاتھ مارا گیا ہے۔ اسلام آباد زیرو پوائنٹ سے روات تک چوبیس کلومیٹر پر چوبیس ارب روپے سے پرانی شاہراہ‘ جو اچھی حالت میں تھی‘ دوبارہ بن رہی ہے۔ اسلام آباد میٹرو پر چھبیس کلومیٹر پر پچاس ارب لگ گئے۔ سی پیک کا روٹ ڈیرہ اسماعیل خان‘ میانوالی‘ بھکر‘ لیہ‘ مظفر گڑھ‘ راجن پور بنتا تھا۔ میں ٹی وی شوز پر چیختا چلاتا رہا کسی نے نہ سنی۔ الٹا الزام کہ سی پیک کا دشمن ہے۔ سرائیکی علاقوں کی ترقی کا یہ چانس بھی ضائع گیا۔
ایک دفعہ این ایچ اے کے ایک اعلیٰ افسر سے درخواست کی تھی کہ میانوالی ملتان روڈ پر رحم کریں۔ بولے: یہ صوبائی سڑک ہے۔ مطلب تھا سرائیکی علاقوں کی سڑکوں سے ان کا کیا لینا دینا‘ وہ تو جی ٹی روڈ کا خیال رکھیں گے۔ ایک ٹی وی شو میں رانا ثنااللہ سے ملتان میانوالی سڑک پر رحم کی اپیل کی تو بولے: پھر آپ ہی تنقید کرتے ہیں کہ سڑکوں کے علاوہ کام نہیں۔ میں نے کہا: اپ تلہ گنگ مظفرگڑھ سڑک بنا دیں‘ میں بکواس کرنا بند کر دوں گا۔ یہ تین برس پہلے کی بات ہے۔ اپنے سابق ایڈیٹر محمد مالک‘ جو آج کل وزیر اعلیٰ کے مشیر ہیں‘ سے بھی اس سڑک کی بات کی۔ بولے: وہ وزیر اعلیٰ کے نوٹس میں لائیں گے۔ وزیر اعلیٰ کے صاحبزادے سلمان شہباز کبھی کبھار واٹس ایپ پر میسج بھیج دیتے ہیں۔ وہ سمجھدار لگتے ہیں۔ سلمان شہباز سے بھی اس ملتان میانوالی تلہ گنگ سڑک کا رونا رویا۔ فرمایا: رئوف صاحب! یہ بھی کوئی مسئلہ ہے۔ کچھ کرتے ہیں۔ آپ نے کہہ دیا‘ سمجھو ہو گیا۔
آج ہی خبر پڑھی ہے کہ تلہ گنگ میانوالی ملتان روڈ تو خاک بنتی‘ لیہ کا ترقیاتی فنڈ بھی وزیر اعلی کے لاہور دفتر کی آرائش اور باتھ روم ٹائلوں پر لگ گیا ہے۔ ہم بھی کیسے بھولے لوگ ہیں کہ چند ارب روپے کی سڑک کی توقع رکھ کر بیٹھے تھے۔ یہاں تو چند لاکھ روپے تک کا لیہ کا فنڈ بھی نہیں چھوڑا گیا۔
اس ٹوٹی پھوٹی‘ طویل شاہراہ‘ جو برباد ہو چکی ہے‘ پر گھنٹوں ذلیل ہوتے ہوئے یہی سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ذلت کس بلا کا نام ہے اور ذلتوں کے مارے لوگ کیسے ہوتے ہیں۔