نواز شریف کو آج ڈان لیکس کے آہنی پنجرے میں پھڑپھراتے دیکھ کر میمو گیٹ کے دن یاد آ گئے‘ جب نواز شریف اور شہباز شریف کالے کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں رولا ڈال رہے تھے کہ مائی لارڈ! ملکی سلامتی کا سودا کر دیا گیا تھا‘ لہٰذا فوراً پیپلز پارٹی کے غداروں کو سزا دی جائے۔ بقول وزیرِ قانون ڈاکٹر بابر اعوان‘ بغیر وفاقی حکومت کو نوٹس دیے اور اس کا موقف سنے فورا ہی کمشن بنا دیا گیا۔ نواز شریف فاتح کی طرح سپریم کورٹ کے احاطے سے برآمد ہوئے تھے۔
اب نواز شریف صاحب کس بنیاد پر سول سوسائٹی، میڈیا، عدالت اور فوجیوں سے رعایت مانگتے ہیں اور ان کو کون رعایت دے گا؟ نواز شریف نے خود کب اپوزیشن لیڈر کے طور پر کسی کو رعایت دی تھی؟ میں اس دن چونک گیا تھا جب پنجاب ہائوس میں ان سے سوال پوچھا گیا: آپ نے تو چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت بینظیر بھٹو کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ جو بھی پارٹی اپوزیشن میں ہو گی وہ سرونگ آرمی چیف کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں نہیں کرے گی‘ تو پھر چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کیسے جنرل کیانی سے درجنوں خفیہ ملاقاتیں کر چکے ہیں اور رات گئے ہونے والی ان ملاقاتوں کا زرداری یا گیلانی تک کو علم نہیں تھا؟ کتنی معصومیت سے نواز شریف صاحب نے جواب دیا تھا: میرے علم میں نہیں‘ اور بولے: ہاں اگر شہباز شریف اور نثار نے جنرل کیانی سے رات گئے ملاقاتیں کیں تو غلط کیا۔
چوہدری نثار اور شہباز شریف اتنی جرات کر سکتے ہیں کہ وہ جنرل کیانی سے درجن بھر ملاقاتیں کر لیں‘ اور نواز شریف صاحب کو ان خفیہ ملاقاتوں کا علم اعزاز سید کی خبر سے لگے۔ کیا آپ یہ بات مان سکتے ہیں؟ شہباز شریف اور نواز شریف ہمیشہ گُڈ کاپ اور بیڈ کاپ کا ڈرامہ کھیلتے رہے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ یہ صرف میری رائے ہے لیکن پچھلے سال مجیب الرحمن شامی کے گھر‘ نیویارک سے آئے مشتاق بھائی کے اعزاز میں ڈنر میں لیاقت بلوچ نے ایک واقعہ سنایا کہ عبدالستار نیازی نے ان بھائیوں کے گُڈ کاپ بیڈ کاپ کی اصلی تے نسلی تشریح کیسے کی تھی۔ کسی روز لیاقت بلوچ صاحب کسی ٹی وی پروگرام میں براہ راست وہ تشریح خود ہی قوم کو سنا دیں تو میرا خیال ہے سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جائیں گے کہ کیسے دونوں بھائیوں لوگوں کو نچاتے ہیں۔
نواز شریف صاحب اگر بارہ اکتوبر کی فوجی بغاوت کے بعد تبدیل ہو چکے ہوتے تو وہ کبھی گیلانی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ نہ جاتے کہ انہیں غدار قرار دیا جائے۔ عاصمہ جہانگیر‘ جو اس وقت فرماتی ہیں: نواز شریف نے اگر لندن فلیٹس کے بارے میں جھوٹ بولا ہے تو کون سی برائی کی ہے، تب حسین حقانی کی وکیل تھیں‘ جسے نواز شریف صاحب غدار قرار دلوانے سپریم کورٹ گئے تھے۔ کوئی بتائے گا کہ دونوں بھائی کس کے کہنے پر سپریم کورٹ گئے اور ان کی ڈوریاں کون ہلا رہا تھا؟ اگر ان کے مطابق میمو گیٹ، نیشنل سکیورٹی کو تھریٹ تھا تو پھر ڈان لیکس بھی تھریٹ ہونا چاہیے۔ میمو گیٹ کا تو ثبوت عدالت میں پیش نہ کیا جا سکا‘ جبکہ ڈان لیکسں میں تو باقاعدہ شواہد موجود ہیں‘ اور سزا تک کا تعین بھی ہو چکا ہے۔ اگر وزیر اعظم نواز شریف کے بقول میمو گیٹ جس کی بنیاد موبائل فون کے سنے سنائے میسجز کو بنایا گیا تھا‘ کے کرداروں کو غدار کہنا چاہیے تو ڈان لیکس پر بھی وہی فارمولہ اپلائی ہونا چاہیے۔
کچھ بھی کہیں یوسف رضا گیلانی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے میمو گیٹ پر اس وقت کی فوجی قیادت کا بہتر مقابلہ کیا تھا۔ ان کی دو تقریریں کسی وقت نکال کر دیکھ لیں‘ جو انہوں نے پی این سی اے اسلام آباد اور قومی اسمبلی میں کی تھیں۔ ان میں انہوں نے فوجی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا اور جھکنے کی بجائے الٹا انہیں چارج شیٹ کیا تھا۔ کتنے لوگوں کو یاد ہو گا کہ جب گیلانی نے قومی اسمبلی میں کہا تھا: ہم نے انکوائری کمشن بنایا تھا کہ پتہ چلائیں اسامہ بن لادن کیسے پاکستان پانچ سال سے رہ رہا تھا‘ اور الٹا ہم سے پوچھا جا رہا ہے امریکیوں کو ویزہ کیسے ملا۔ کیا اسامہ ویزہ لے کر پاکستان میں رہ رہا تھا؟
اسی طرح گیلانی صاحب نے ایک چینی اخبار کو انٹرویو میں کہا تھا: جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے سپریم کورٹ میں براہ راست جوابات داخل کرکے غیر آئینی کام کیا ہے‘ کیونکہ وہ وفاقی حکومت کے ماتحت تھے اور انہیں اپنے جوابات وزارتِ دفاع کو بھیجنے چاہئیں تھے۔ اس وقت نواز شریف جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے ساتھ کھڑے تھے۔ جب جنرل پاشا پاکستان آرمی کے شدید ناقد منصور اعجاز سے خفیہ طور پر ملنے لندن گئے اور اس کا وزیر اعظم سمیت کسی کو علم نہ تھا‘ تو بھی نواز شریف نے صاحب اس وقت کی فوجی قیادت کا ساتھ دیا تھا۔ ان کی توپوں کا رخ گیلانی اور زرداری حکومت کی طرف تھا۔ لندن جدہ جلا وطنی کے دنوں میں سویلین بالادستی کا راگ الاپنے والے نواز شریف صاحب اس وقت دل و جان سے فوجی قیادت کا کھیل کھیل رہے تھے اور اپنے تئیں وہ خود کو دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے لیے فوجی قیادت کے لیے قابل قبول بنا رہے تھے۔ یہ ظاہر کر رہے تھے کہ وہ گیلانی اور
زرداری سے زیادہ محبِ وطن ہیں۔ انہیں علم تھا ماضی میں آرمی پر شدید تنقید کی وجہ سے فوج ان پر ابھی بھروسہ نہیں کر رہی‘ لہٰذا انہیں میمو گیٹ کی شکل میں ایک موقع ملا کہ وہ فوج کو اپنی وفاداری کا یقین دلا کر فرشتہ بن جائیں۔ میرے خیال میں نواز شریف اور شہباز شریف کا چوہدری نثار کے ساتھ مل کر کھیلا گیا یہ کھیل خاصا جاندار تھا‘ اور پھر جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتوں کا طویل سلسلہ شروع ہوا جس کا نتیجہ دو ہزار تیرہ میں نواز شریف کی جیت کی شکل میں نکلا۔ وہی جنرل کیانی‘ جو گیلانی سے ایوانِ صدر میں زرداری کو گیلانی کے چینی اخبار کو دیے گئے انٹرویو پر شکوے شکایتیں کر رہے تھے، وہی ایک دن وزیر اعظم نواز شریف کے ڈرائیور کے طور پر گاڑی ڈرائیور کر رہے تھے۔ جس وزیر اعظم گیلانی سے جنرل کیانی نے مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع لی تھی‘ اس وزیر اعظم کا ڈرائیور بننا پسند نہیں کیا‘ لیکن انہیں نواز شریف کے وزیر اعظم بنتے ہی پیار آ گیا تھا۔ پوری دنیا نے ڈرائیونگ کا منظر دیکھا۔ بعد میں جنرل راحیل شریف نے سوچا میں پیچھے کیوں رہوں۔ انہوں نے بھی نواز شریف کی ڈرائیونگ کی۔ لیکن ایسی ڈرائیونگ پیپلز پارٹی کے کسی وزیر اعظم کے لیے نہ کی گئی۔ فوج کے سپہ سالار کو اعتبار آ گیا تھا کہ نواز شریف اب اپنا بندہ ہے اور ماضی میں جو کچھ کہا تھا‘ وہ اس فوج کے بارے میں تھا جس کی سربراہی جنرل مشرف کر رہے تھے اور اس کے بارے میں نہیں‘ جس کی قیادت جنرل کیانی کے ہاتھ میں تھی۔
وزیر اعظم گیلانی کے بارے میں میری ہمیشہ رائے یہ رہی کہ اگر وہ کرپشن سکینڈلز سے بچ کر رہتے تو شاید انہیں پاکستان میں اسی طرح عزت اور احترام کے ساتھ یاد رکھا جاتا‘ جیسے محمد خان جونیجو کو یاد رکھا جاتا ہے؛ تاہم وہ بھی اس دلدل میں دھنستے گئے جس میں سب سیاستدان بالآخر دھنس جاتے ہیں۔ نواز شریف مان لیں کہ وہ سویلین بالادستی قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ گیلانی صاحب میں اتنی طاقت ضرور تھی کہ انہوں نے ایک انٹرویو میں جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو تنقید کا نشانہ اس وقت بنایا جب وہ سرونگ جنرل تھے۔ اسامہ بن لادن آپریشن پر پیپلز پارٹی انہی جرنیلوں کو پارلیمنٹ میں لے کر آئی کہ منتخب نمائندے ان سے ان کی ناکامیوں پر سوال و جواب کریں‘ اور تین دن تک جنرل پاشا اور دیگر جنرل پارلیمنٹ میں بند اجلاس میں تلخ سوالات کا سامنا کرتے رہے۔
نواز شریف جو سویلین بالادستی کا جھنڈا اٹھائے پھرتے تھے‘ انہوں نے کیا کیا؟ وہ ایک فیصلہ کرتے ہیں اور چند منٹ کے اندر اندر ان کا فیصلہ ایک میجر جنرل اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے اور موصوف کو چوں تک کرنے کی جرات نہیں ہوتی۔ ان کے حواری الٹا ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھیں ناں جی جمہوریت ابھی نئی نئی ہے... زمینی حقائق کو دیکھیں۔ سمجھا کریں سیاستدانوں کو جھک کر چلنا پڑتا ہے۔ دیکھیں جی ہم کوئی امریکہ تھوڑی ہیں کہ اوباما افغانستان میں پالیسی کے خلاف بیان دینے پر اپنے جنرل کو برطرف کر دے۔ نواز شریف صاحب کے طبلچی اور حواری یہ ہمیں بتانے کو تیار نہیں کہ اوباما کو یہ جرات کس نے دی کہ وہ امریکی فوج کے جنرل کو برطرف کر دے؟ مجھے یہ مت سنائیے گا کہ امریکی نظام نے دی۔ نظام کچھ نہیں ہوتا‘ بلکہ جو لوگ اس نظام کو چلا رہے ہوتے ہیں وہ سب کچھ ہوتے ہیں۔ اوباما کے کردار نے اسے جرات دی‘ جو وائٹ ہائوس میں بھی کچن کا خرچہ اپنی جیب سے ادا کرتا تھا۔ اپنا ٹوتھ پیسٹ بھی جیب سے خرید کر آٹھ سال وہاں رہا۔ بل کلنٹن جب وائٹ ہائوس سے نکلا تو وہ دس ملین ڈالرز یا ایک ارب روپے کا مقروض تھا۔ اس کی پاناما، لندن یا دوبئی میں جائیدادیں نہیں نکلی تھیں۔
سویلین بالادستی اس دن ہو گی‘ جب سویلین کردار دکھائیں گے۔ حرام کے پیسے کی بجائے عزت کو ترجیح دیں گے۔ پاناما سے لندن اور دوبئی تک اربوں ڈالرز کی جائیدادوں کے مالک بچوں کے والدین کبھی کسی جنرل کے سامنے آنکھ نہیں اٹھا سکیں گے‘ اور اسی طرح ایک میجر جنرل کے ٹویٹ پر سویلین اداروں کی بالادستی کے ٹھیکداروں کی حکومت کانپتی رہے گی!