پاکستانی صحافت کے چند بڑے ناموں میں سے ایک ،نصرت جاوید کی تحریری وارننگ پڑھ کر کہ پاکستانی صحافت کو زنجیروں میں جکڑنے کی تیاری ہورہی ہے اور کسی کو خطرے کا احساس تک نہیں، مجھے بیس برس قبل کا اسلام آباد یاد آیا جب میںملتان سے ٹرانسفر ہوکر آیا تھا ۔نصرت جاوید لکھتے ہیں: پاکستانی صحافت کو قابو میں کرنے کے لیے پروگرام تیار ہے۔ انہوں نے مجھے اور عامر متین کو پیغام بھیجا ہے کہ شاید اور کوئی تیار نہیں تو ہم تینوں کوپرانے دنوں کی صحافت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہم تینوں قومی اسمبلی کا بجٹ سیشن کور کریں اور روزانہ اپنے ٹی وی شوز میں اسے رپورٹ کریں اور حکومت پر اپنی رپورٹنگ سے دبائو قائم رکھیں ۔
نصرت جاوید کے اس پیغام کو سمجھنے کے لیے مجھے آپ کو بیس برس پیچھے لے جانا پڑے گا جب پرنٹ جرنلزم کا طوطی بولتا تھا ۔ میں اسلام آباد ڈان بیورو آفس میں نیا نیا آیا تھا جو شہر کی سیاسی اور صحافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا ۔ محمد ضیاء الدین بیوروچیف تھے۔ احمد حسن علوی ، محمد یٰسین، محمد الیاس، اکرام ہوتی، انصار عباسی، احتشام الحق ، فراز ہاشمی، رفاقت علی جیسے بڑے رپورٹرز ڈان میں کام کرتے تھے۔ امریکہ سے شاہین صہبائی تو لندن سے ناصر ملک کی رپورٹس پورے ملک میں ہنگامہ کھڑا کردیتیں۔ ان دنوں انگریزی اردو اخبارات میں پارلیمنٹ ڈائری یا پریس گیلری لکھنا اعزاز تھا ۔ شاہین صہبائی، ضیاء الدین، نصرت جاوید، عامر متین ، محمد مالک اگر انگریزی میں پارلیمنٹ ڈائری کے گرو مانے جاتے تھے تو اردو میں حامد میر، خوشنود علی خان ، جاوید صدیق جیسے صحافی روزانہ کالموں میں پارلیمنٹ کی ڈائری لکھتے اور خوب لکھتے۔ اسلام آباد ڈائری کے نام سے ایاز امیر کا ویکلی انگریزی کالم لاجواب ہوتا جس کا سب انتظار کرتے ۔ پوری پارلیمنٹ انتظار کرتی کہ ان صحافیوں نے اپنے اپنے انگریزی اخبارات کی پریس گیلری میں ان کی گزرے دن کی کارکردگی کو کس نظر سے دیکھا۔ کئی سکینڈلز اور خبریں اردو‘ انگریزی پریس گیلری میں چھپتیں اور حکومتوں کو اڑا کر رکھ دیتیں۔ پارلیمنٹ کی پریس گیلری کے یہ صحافی اپوزیشن سے بھی زیادہ طاقتور سمجھے جاتے۔ سزا کے طور پر عامر متین پر پیپلز پارٹی کے دور میں حملہ ہوا اوروہ پسلیاں تڑوا کر ہسپتال داخل رہے۔ شاہین صہبائی کے گھر پر حملہ ہوا تو پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوگیا ۔ نصرت جاوید نے ریاستی جبر کا سامنا کیا ۔ ان جابرانہ ہتھکنڈوں کے خلاف کئی دن تک پریس گیلری کا بائیکاٹ چلتا رہتا ۔ حکومتوں کو آخرکار گھٹنے ٹیکنے پڑتے تھے۔ پریس گیلری لکھنے والے ان سب صحافیوں سے وزراء اور اپوزیشن لیڈرز تک سب تعلقات رکھنا ضروری سمجھتے تھے‘ چاہے بینظیر بھٹو ہوں یا نواز شریف ۔ پیرپگاڑا ، مصطفیٰ جتوئی، شہباز شریف اور چوہدری نثار تک سب ‘ ویک اینڈ پرصحافیوں کے ساتھ ملاقاتیں ہوتیں جہاں اندر کی خبریں باہر نکلتیں ۔ ڈان کا دفتر زیادہ نمایاں تھا ۔ یہاں سینئر صحافی اے ایچ برکی بیٹھتے اور سب کو ڈانتے ۔ روزانہ کوئی نہ کوئی سیاستدان وہاں بیٹھک کرنے آجاتا۔ ضیاء الدین کا کمرہ سیاسی گفتگو کا گڑھ بنا ہوا ہوتا۔ ڈان میں لگنے والی خبر کسی کا سیاسی کیریئر بنایا بگاڑ سکتی تھی۔ کسی کے خلاف خبر لگ جاتی تو لگتا حکومت پر آسمان گرنے والا ہے۔ حکومتیں اوربیوروکریسی تک ہل کر رہ جاتی۔
اس دوران جنرل مشرف اور نواز شریف کے درمیان جاری کشمکش عروج پر پہنچ چکی تھی ۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیاسی ہنگامہ عروج پر تھا ۔ نواز شریف خلیفہ بننے کے چکر میں تھے اور پھر مارشل لاء لگ گیا ۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ جنرل مشرف امریکہ گئے تو وہاں دعویٰ فرمایا کہ پاکستان میں میڈیا اور عدالتیں آزاد ہیں۔ شاہین صہبائی نے سنا تو انہوں نے امریکہ چھوڑ کر اسلام آباد لوٹنے کا فیصلہ کیا اور لکھا‘ سنا ہے جنرل مشرف نے میڈیا کو بہت آزادی دی ہے‘ میں نے سوچا چل کر چیک کر کے دیکھتے ہیں۔ شاہین صہبائی کے پہلے مضمون نے ہی جنرل مشرف کی بنیادیں تک ہلا دیں۔ جس کا عنوان تھا: All the King's men یہ مضمون ان سیاسی بھگوڑے کرداروں پر تھا جو جنرل مشرف کی ویگن میں سوار ہورہے تھے۔ شاہین صہبائی کو دھمکیاں ملنی شروع ہوگئیں‘ تو وہ امریکہ لوٹ گئے جہاں انہوں نے سائوتھ ایشیا ٹریبیون شروع کیا تو جنرل مشرف نے ان کے خلاف واشنگ مشین چوری کا مقدمہ درج کرا کے ان کے برادر نسبتی اور بھتیجے کو کراچی سے لا کر پنڈی اڈیالہ جیل میں ڈال دیا ۔
ہمارے پیچھے سیکرٹ ایجنسی کے لوگ لگ گئے۔ ایک دفعہ میں نے، ملا عمر اور جنرل معین الدین حیدر کی قندھار میں ملاقات کی خبر شائع کی تو دھمکیاں ملیں‘ سورس بتائو یا پھر نتائج کا سامنا کرو۔ ضیاء الدین اور ناصر ملک نے میرے لیے سٹینڈ لیا ۔ جنرل مشرف دور میں مجھے دھمکی دی گئی‘ جان پیاری ہے تو اسلام آباد چھوڑ کر واپس ملتان چلے جائو۔یہ سب صحافیوں کے ساتھ ہورہا تھا ۔ سب اپنے اپنے حصے کا مارشل لا بھگت رہے تھے۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب نواز شریف بھی خاندان سمیت جنرل مشرف سے ڈیل کر کے جدہ نکل گئے۔ بینظیر بھٹو پہلے ہی پاکستان چھوڑ گئی تھیں۔ باقی سیاستدان نیب کے ہاتھوں ''صاف‘‘ ہو کر جنرل مشرف کو جوائن کرچکے تھے۔ عدالتیں جنرل مشرف کے ہاتھ پر بیعت کرچکی تھیں۔ سیاستدانوں کے فرار کے بعد اب مزاحمت صرف پرنٹ میڈیا کررہا تھا۔ پارلیمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے صحافی بکھر گئے تھے۔ پارلیمنٹ نہ رہی تو کیا لکھتے؟ جو لڑائی سیاستدانوں کو لڑنی چاہیے تھی‘ وہ اب میڈیا لڑ رہا تھا کیونکہ نواز شریف جدہ تو بینظیر بھٹو دوبئی جا کر بیٹھ گئی تھیں اور باقی جنرل مشرف کے وزیر بن گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے تو جنرل مشرف کو آئین میں بھی تبدیلی کی اجازت تک دے دی تھی۔
پھر ٹی وی آیا اور ایسا آیا کہ پرنٹ میڈیا کو بہا کر لے گیا‘ پرنٹ کی اہمیت روز بروز گرتی گئی۔ اخبارات اپنے آپ کو ٹی وی کے ساتھ ایڈجسٹ نہ کرسکے۔اخبار سے پہلے خبر غائب ہوئی‘ پھر نیوز ایڈیٹر اور پھر ایڈیٹر ہی غائب ہوگئے اور سب کچھ ٹی وی مالکان اور ان کی انگلیوں پر ناچنے والے چند اینکرز کے ہاتھ چلا گیا ۔ پیسہ آگیا لیکن آزادی چھن گئی۔جس کے ہاتھ کیمرہ اور مائک لگا‘ وہی سکندر ٹھہرا ۔ پریس گیلری کا دور ختم ہوا ۔ شاہین صہبائی، نصرت جاوید ، عامر متین، ضیاء الدین، محمد مالک جیسے پریس گیلری لکھنے والے ماضی کا قصہ بن گئے اور یوں میڈیا دھیرے دھیرے بٹتا چلا گیا ۔ آج کسی کو پتہ نہیں پریس گیلری کیا تھی اور اس کے لکھنے وا لے کتنے طاقتور تھے جن کے لکھنے سے حکومتیں ہل جاتی تھیں۔
نصرت جاوید کی اس حسرت کو کہ وہ انیس سو نوے کی دہائی کے میڈ یا کو مس کررہے ہیں‘ وہی سمجھ سکتے ہیں‘ جنہوں نے صحافت کا وہ سنہری دور دیکھا ہے۔ نصرت جاوید اسلام آباد ستر کی دہائی میں آئے، سیاسی اور آمروں کی حکومتیں دیکھیں، برج الٹتے دیکھے، وزیراعظم بنتے، جیل جاتے‘ پھانسی لگتے، قتل ہوتے دیکھے۔ نصرت جاوید کے پاس بھی پون صدی کا قصہ ہے۔ وہ پھرخبردار کر رہے ہیں کہ میڈیا کا مکو ٹھپنے کا بندوبست ہورہا ہے۔ ویسے یہ مکو اب کی دفعہ وہی ٹھپ رہے ہیں جو
جنرل مشرف سے ڈیل کر کے ملک چھوڑ گئے تھے اور جن کے پیچھے فوجی آمروں سے اپنی تحریروں کے ذریعے لڑنے والے نصرت جاوید، عامر متین، شاہین صہبائی اور ضیاء الدین جیسے صحافی تھے۔ اور تو اور دوست ہارون الرشید کے کئی کالم گواہ ہیں انہوں نے جنرل مشرف دور میں نواز شریف کے ساتھ ایئرپورٹ پر ناروا سلوک کے خلاف لکھا اور وہی آج نواز شریف کے نزدیک سب سے زیادہ برے ہیں ۔ نواز شریف ہر دور میں ایسا کام ضرور کرتے ہیں جس میں وہ بعد میں خود پھنس جاتے ہیں ۔ ان کے دوسرے دور میں سب منع کرتے رہے ہیں کہ انٹی ٹیررازم عدالتیں مت بنائیں۔ نہ مانے اور اسی عدالت نے انہیں دہشت گرد قرار دے کر سزا دی ۔ اب بھی وہی اسی میڈیا کے خلاف اقدامات کا سوچ رہے ہیں جس میڈیا نے ان کی واپسی کی جنگ لڑی تھی ۔ لندن ، جدہ اور دوبئی بھاگ جانے والے سیاستدان یہ کبھی نہ سمجھ سکے آزاد میڈیا ہی جمہوریت کے ساتھ ساتھ ان کا بھی تحفظ کرسکتا ہے ۔ نواز شریف کو لاکھ سمجھائیں‘ کرنی انہوں نے اپنی مرضی ہے‘ چاہے ماضی کی طرح اپنی مرضی کے نتائج جیل یا جلاوطنی کی شکل میں نکلیں ۔ نصرت جاوید کا کہنا ہے میڈیا مالکان کے ذریعے اب صحافت کا گلا دبانا ہے۔ ویسے میڈیا مالکان اتنے سمجھ دار تو ضرور ہوں گے۔ اگر حکومت کو خوش کرنے کے لیے انہوں نے صحافیوں اور صحافت کا گلا گھونٹ دیا تو پھر ان کا اپنا گلا بھی نہیں رہے گا ۔ حکومتیں ان سے ڈرتی ہیں تو انہی صحافیوں کی وجہ سے۔ اگر حکومت پہلے میڈیا مالکان کے زریعے صحافت اور صحافیوں کا گلا دبوائے گی تو بعد میں مالکان کا گلا خود دبا دے گی ۔ میڈیا مالکان جس شاخ پر بیٹھے ہیں‘ اسے کاٹنا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی۔ خیر‘ نواز شریف ہوں یا زرداری‘ ان سب نے پھر مال بنانے کے بعد ڈیل کر کے نکل جانا ہے۔ بھگتیں گے عوام اور عدالتیں، نصرت جاوید ، عامر متین ، شاہین صہبائی اور ضیاء الدین جیسے صحافی جو مارشل لاء ہو یا جمہوریت ہر دور میں برے ٹھہرتے ہیں‘ کیونکہ یہ سب شہر کے بڑے فسادی جو ٹھہرے !