"RKC" (space) message & send to 7575

لاہور، لندن، نیویارک اور سسلی

1992 ء میں لندن کی ایک صبح قاضی فیملی کے گھر بینک ڈاک کو کھول کر پڑھا گیا تو پتہ چلا کئی افراد کے نام پر بینک میں پچاس لاکھ پائونڈز کی رقم موجود تھی۔ لاٹری نکل آئی تھی یا پھر خدا نے چھت پھاڑ کر دولت ان کے پاس بھیج دی تھی؟ آنے والے دنوں میں انہیں اپنے بینک سے پتہ چلا ان کے بینک اکائونٹس سے کل چوالیس کروڑ کی ٹرانزیکشن ہوئی تھیں ۔ 
اب جب برسوں بعد تحقیقات شروع ہوئیں تو پتہ چلا یہ منی لانڈرنگ کی کہانی لاہور میں ڈیوس روڈ پر واقع بینک برانچ سے جاوید کیانی نے شروع کی تھی جس نے تین بینک اکائونٹس کھولے جو کاشف مسعود قاضی، سکندرہ مسعود قاضی اور نزہت گوہر قاضی کے نام پر کھولے گئے۔ جاوید کیانی کو اسحاق ڈار نے اس فیملی کے پاسپورٹس کی کاپیاں دی تھیں جنہیں استعمال کرتے ہوئے وہ بینک اکائونٹس کھولے گئے اور ان اکائونٹس پر دستخط بھی جاوید کیانی نے خود کر کے کارروائی پوری کی گئی تھی۔ 
بعد میں راز کھلتے چلے گئے تو پتہ چلا سلمان ضیاء کے ایک اور جعلی اکائونٹ سے ان تینوں اکائونٹس میں ڈالرز بیرو سرٹیفکیٹس کی شکل میں کاشف قاضی کے اکائونٹ میں ٹرانسفر ہوئے۔ بعد میں یہی اکائونٹس اور ان میں موجود پیسہ شریف فیملی نے حدیبیہ انجینئرنگ لمیٹڈ کے لیے قرضے کے لیے استعمال کیا ۔ اس مل کے ڈائریکٹر حسین نواز، کلثوم نواز، نواز شریف اور میاں شریف تھے اور شہباز شریف ۔ 
اب لندن کی قاضی فیملی کہتی ہے اسے پاکستان آتے ڈر لگتا ہے لہٰذا وہ سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوسکتی جس نے انہیں بھی سمن کیا تھا ۔ 
قاضی فیملی کے انکار سے یاد آیا کہ سپریم کورٹ میں جو مختلف دستاویزات پیش کی گئیں ان میں کیسی کیسی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں ۔ قاضی فیملی کا وہ خط کیسے بھلایا جاسکتا ہے جو انہوں نے برسوں پہلے وزیراعظم نواز شریف کے نام لکھا تھا کہ جناب اب تو ان کی قربانیوں کو کوئی یاد ہی نہیں کرتا، کوئی بھولے سے انہیں پہچانتا تک نہیں ۔ وہ اپنی قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں کیسے ان کے خاندان کے پاسپورٹس نواز شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیے گئے تھے جن سے بعد میں لندن کی جائیدادیں خریدی گئیں۔ کیسے کیسے طعنے قاضی فیملی نے لندن کے لوگوں سے سنے کہ جناب آپ تو چھپے رستم نکلے۔ آپ کے بینک اکائونٹس میں تو کروڑوں کا مال نکلا۔ قاضی فیملی کے سربراہ کا وہ جملہ کون بھول سکتا ہے کہ جناب اب تو لوگ ہم سے پیسے ادھار مانگتے ہیں ، آتے جاتے ہمیں دیکھ کر ذومعنی جملے کستے ہیں۔مطلب ان کا یہ تھا کہ میاں نواز شریف صاحب اب تو آپ بڑے عہدے پر جا پہنچے ہیں۔ وزیراعظم بن گئے ہیں۔ کچھ نظرکرم ہمارے اوپر بھی کی جائے۔ شاید وہ چاہتے ہوں گے اس خدمت کے عوض ان کو بھی کوئی'' ٹپ‘‘ دی جائے۔ 
اب برسوں بعد جب سپریم کورٹ میں پاناما سکینڈل کی سماعت شروع ہوئی تو نومبر دو ہزار سولہ میں قاضی فیملی کے برخودار کاشف قاضی نے لندن سے خط لکھا کہ ان کے خاندان کے ساتھ دھوکا ہوا تھا۔ انہیں استعمال کیا گیا تھا۔ وہ معصوم لوگ تھے جنہیں چالاک لوگوں نے پھنسایا اور ایک صبح ان پر قسمت کی دیوی مہربان ہوگئی جب انہیں امریکن بینک سے ایک پیغام ملا مبارک ہو، آپ سب کے نام لاٹری نکل آئی تھی۔ اب وہ لاکھوں ڈالرز کے مالک تھے۔ پچاس لاکھ ڈالرز ان کے اکائونٹس میں پہنچ چکے تھے۔ یہ پیسے ان کے والد مسعود قاضی، بیٹے کاشف ، ماں سکندرہ قاضی اور بہو کے اکائونٹس میں بھیجے گئے تھے۔ مسعود قاضی لندن اسٹاک ایکس چینج میں کام کرتے تھے۔ ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا تھا ۔ بلف کھیلا گیا تھا۔ انہوں نے پاسپورٹس پاکستانی کارڈز بنوانے کے لیے دیے تھے انہیں علم نہ تھا کہ وہ منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہورہے تھے۔ 
حیرانی کی بات یہ ہے کہ نومبر میں مسعود قاضی سپریم کورٹ میں پیش ہو کر یہ سب گواہی دینے کو تیار تھے لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ انہیں ڈر لگتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس تمام دستاویزی ثبوت موجود ہیں اور جب بھی عدالت انہیں بلائے گی وہ حاضر ہوں گے اور وہ بتائیں گے لندن کے فلیٹس اس غیرقانونی رقم سے خریدے گئے تھے ۔ 
چوہتر صفحات پر مشتمل ان دستاویزات میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ان کا خاندان اسحاق ڈار کو کئی دہائیوں سے جانتا تھا اور ان کے اعتبار کا خون کیا گیا تھا اور انہیں منی لانڈرنگ جیسے کیس میں پھنسا دیا گیا تھا ۔ ویسے یہ عجیب بات ہے انہی دنوں ہی نواز شریف نے اپنے ایک اور وفادار امریکی شہری شیخ سعیدکو منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا ۔ شیخ سعیدکی بیٹی سارہ شیخ کے نام پر اس طرح بینک اکائونٹس کھول کر پیسے ٹرانسفر کیے گئے۔ ویسے شیخ سعید کو میاں نواز شریف نے بعد میں بہت نوازا کیونکہ وہ ان کے فرنٹ مین بن چکے تھے۔ نواز شریف کے دور حکومت میں انہیں گندم کی پاکستان ٹرانسپورٹ کا ٹھیکہ دیا گیا جس پر بعد میں سکینڈل بھی سامنے آیا۔ کسی کو اس وقت پتہ نہ تھا کہ شیخ سعید پر اتنی مہربانیاں کیوں ہورہی تھیں ۔ کیوں انہیں گندم امریکہ سے پاکستان ٹرانسپورٹ کرنے کے ٹھیکے دیے جارہے تھے اور وہ بھی مہنگے داموں ۔ اب پتہ چلتا ہے کہ شیخ سعید فرنٹ مین تھے جو امریکہ میں شریف خاندان کے معاملات کو دیکھتے تھے۔ بات یہاں تک نہیں رکی بلکہ شیخ سعید کو امریکہ میں اعلی عہدے بھی پاکستانی سفارت خانے میں دیے گئے اور جب بھی نواز شریف اسلام آباد میں وزیراعظم بنے تو شیخ سعید فورا پاکستانی سفارت خانے میں عہدہ سنبھال لیتے۔ اس طرح نواز شریف واشنگٹن جائیں یا پھرنیویارک شیخ سعید کو ہر جگہ دیکھا جاسکتا تھا ۔ شاید یہ وہ امتیازی سلوک ہوگا جس سے قاضی فیملی نے محسوس کیا ہوگا کہ ان کی خدمات کا انہیں مناسب معاوضہ نہیں ملا تھا جیسے شیخ سعیدپر مہربانیاں کی گئی تھیں ۔ نواز شریف ہر دوسرے ہفتے لندن جاتے ہیں لیکن کبھی قاضی فیملی کے کسی فرد کو ان کے ساتھ اس طرح نہیں دیکھا گیا جیسے امریکہ میں شیخ سعیدکو دیکھا جاتا ہے۔ دیکھا جائے توقاضی فیملی کی بھی شریف خاندان کے لیے خدمات کم نہیں تھیں پھر انہیں کیوں پیچھے رکھا گیا اور شیخ سعید ان سے آگے بڑھ گئے؟ شیخ سعید نے ایسا کون سا کرتب کیا تھا جو لندن کی قاضی فیملی نہ کرسکی تھی؟ 
شاید لندن کی قاضی فیملی نے مافیا کے اس صدیوں پرانے کوڈ کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس کوڈ کے مطابق دوست تو چھوڑیں آپ اپنے دشمن کے خلاف بھی کبھی پولیس کو نہ شکایت لگاتے تھے اور نہ ہی زبان کھولتے تھے۔ ڈان یا گاڈ فادر کے لیے جان دی جاسکتی تھی لیکن اس کے خلاف گواہی نہیں دی جاتی تھی۔ اس مافیا کوڈکو گاڈ فادر کی سرزمین سسلی میں Omerta کا نام دیا گیا تھا ۔ شاید قاضی فیملی نے بہت جلد اپنی زبان کھول دی تھی جب بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں نواز شریف کے ایک کزن نے اس وقت کی وزیراعظم کو خط لکھا تھا کہ کیسے نواز شریف خاندان منی لانڈرنگ میں ملوث تھا۔ اس خط کی روشنی میں تحقیقات شروع کی گئیں تو لندن کی قاضی فیملی سے ایف آئی اے نے رابطہ کیا تو وہ اس پرانے کوڈ کے مطابق نہ چل سکے اور ایف آئی اے کو سب کچھ بتا دیا کیسے شریف خاندان نے ان کے پاسپورٹس اوربینک اکائونٹس منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیے تھے۔
شاید یہ وہ مرحلہ تھا جب لندن کی قاضی فیملی کو مافیا انداز میں زبان بندی کے اس پرانے کوڈ کی خلاف ورزی پر سزا دینے کا فیصلہ ہوا اور انہیں مکمل نظرانداز کر دیا گیا ۔ برسوں بعد ایک خط قاضی فیملی کے سربراہ نے نواز شریف کے نام لکھا تھا جس میں اپنے خاندان کی خدمات گنواتے ہوئے گلہ گیا تھا کہ خلعتیں انہیں ملیں جو ہم سفر بھی نہ تھے۔لندن کی قاضی فیملی بھی نیویارک کے شیخ سعید کی طرح سسلی کے کوڈ omerta کی پابندی کرتی تو سب کچھ ملتا ۔ زبان کھول کر جب کوڈ کی خلاف ورزی کی گئی تھی تو پھر سزا ملنی تھی انعام نہیں۔ نیویارک میں رہنے کا شیخ سعید کو یہ فائدہ ہوا تھا کہ اسے پتہ تھا اس طرح کے دھندے میں سب سے اہم چیز وفاداری اور قبرستان جیسی خاموشی ہوتی ہے۔ 
شیخ سعیدکا شہر... نیویارک... جو کبھی گاڈ فادر ویٹو کارلیون کی سلطنت تھا... جہاں وفاداری کا انعام تو دھوکے کا انجام موت تھا ۔ 
نیویارک کی طرح اگر لندن میں بھی مافیا فیملیز کا راج ہوتا اور وہاں بھی ویٹو کارلیون کی طرح ڈان پائے جاتے تو شاید قاضی فیملی کو بھی شیخ سعید خاندان کی طرح صدیوں پرانے اس راز کا علم ہوتا کہ سسلی کے گرم چٹیل میدانوں سے لے کر نیویارک کی مافیا فیملیزکے اس دھندے میں Omerta کی کیا اہمیت ہوا کرتی تھی!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں