ویسے اگر مجھ سے پوچھیں تو میرے لیے بابر اعوان کا پیپلز پارٹی کو چھوڑ جانا کچھ حیرانی کا باعث ہے کیونکہ زرداری اگر اپنے بعد کسی کو ذہین اور سیاسی طور پر سمجھدار سمجھتے تھے تو وہ بابر اعوان ہی ہیں۔ مجھے جن دوستوں نے گھٹیا انداز میں بدنام کرنے کی کوشش کی، ان کے خلاف اپنے ایک مقدمہ کی تیاری کی سلسلے میں‘ جو عید کے بعد عدالت میں فائل کرنا ہے، میری بابر اعوان سے تحریک انصاف میں شمولیت سے ایک دن پہلے، ان کے دفتر میں طویل ملاقات رہی۔ سائبر کرائمز کے تحت بھی اپنے ان پرانے دوستوں کے خلاف ایک درخواست تیار کی ہے‘ جو اب قانون سے بچنے کے لیے دھڑا دھڑ اپنے پرانے ٹویٹ اور فیس بک سٹیٹس ڈیلیٹ کر رہے ہیں‘ اگرچہ پوری فائل ان کے سکرین شاٹس کی پہلے ہی تیار کر لی گئی تھی۔ لہٰذا دو مقدمے تیار کرائے، ایک سائبر کرائمز کا اور دوسرا عدالتی۔ میں نے بابر اعوان کو سب دستاویزات دیں۔ دیکھ کر مطمئن ہوئے، سب ریکارڈ موجود تھا جو عدالت میں میری بے گناہی ثابت کرنے کے لیے کافی ہو گا۔ اسلام آباد کے صحافیوں کا ایک ہی گروہ سے تعلق رکھنے والا جتھا ہے‘ جو حسد کی آگ میں جلتا رہتا ہے اور جنہوں نے جتھے بنا کر سوشل میڈیا پر گرد اڑائی ہوئی تھی اور سنبھالے نہیں جا رہے تھے۔ انہیں انشاء اللہ منہ کی کھانی پڑے گی اور سائبر کرائمز کے تحت لاکھوں روپے کے جرمانے کے علاوہ چند برس جیل بھی۔ تاہم بابر اعوان نے کہیں ہلکا سا اشارہ تک نہ کیا کہ وہ کل تحریک انصاف جوائن کر رہے ہیں۔
بابر اعوان پر بہت تنقید ہوتی رہتی ہے۔ کچھ جائز اور کچھ ناجائز۔ سب سے بڑا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے نندی پور پاور پلانٹ کی فائل کلیئر نہیں کی تھی‘ جب وہ وزیر قانون تھے اور ملک کو بہت نقصان ہوا۔ مجھے کچھ پتہ ہے کہ ان دنوں میں کیا ہو رہا تھا۔ یہ تنقید جائز نہیں ہے۔ انہی دنوں میرے ایک ارب ڈالرز ایل این جی سکینڈل پر سپریم کورٹ نے حکم سنایا تھا اور وہ کنٹریکٹ دوبارہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ ہر روز سوو موٹو لے رہی تھی۔ بابر اعوان کے پاس فائل لائی گئی تھی۔ آپ نے چین کے ساتھ ہونے والے اس منصوبے میں جو پروسیجرل خامیاں اور بے ضابطگیاں تھیں، انہیں وزیر قانون کی حیثیت سے بہ یک جنبش قلم ختم کر دیا۔ بابر اعوان ذہین انسان ہیں۔ جتنا میں انہیں جانتا ہوں وہ کبھی ایسا کام کم از کم لکھ کر نہیں کریں گے کہ اگلے برسوں میں وہ عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے پھریں۔ انہوں نے انکار کیا کیونکہ افتخار چوہدری سے ان کا پھڈا چلتا رہتا تھا اور انہیں خطرہ تھا کسی دن وہ کوئی کمزوری پا کر ان پر وار کرنے کی کوشش کریں گے‘ اس لیے انہوں نے نندی پور کی فائل میں ہونے والی بے ضابطگیوں کو بھی کلیئر کرنے سے انکار کیا اور بعد میں زرداری صاحب کے دبائو کے باوجود ایک ارب سکینڈل پر بھی رائے دینے سے انکار کیا‘ جس سے وہ کنٹریکٹ اسی پارٹی کو ملتا جسے عدالت نے میرے فائل کردہ سکینڈل کے بعد مسترد کر دیا تھا۔ بعد میں جب وزیر اعظم گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی عدالتی کارروائی شروع ہوئی اور اعتزاز احسن کو وکیل بنایا گیا اور اعتزاز نے فرمائش کر دی کہ پہلے انہیں بابر اعوان سے ایک بیان حلفی لے کر دیا جائے کہ وزیر اعظم سوئس حکام کو خط نہیں لکھ رہے تھے تو وہ ان کا مشورہ تھا، وزیر اعظم کا کوئی قصور نہیں تھا۔ مطلب تھا سارا ملبہ اعوان پر ڈال کر گیلانی کو بچایا جائے۔ اعتزاز ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے۔ گیلانی بچے نہ بچے، اعتزاز احسن کا پرانا حریف بابر اعوان تو نہیں بچے گا۔ ایک بیان حلفی ڈرافٹ کرکے بابر اعوان کے گھر بھجوایا گیا کہ دستخط کر دو کہ یہ سب میرا کیا دھرا تھا‘ گیلانی کا کوئی قصور نہیں۔ بابر اعوان گیم سمجھ گئے تھے کہ گیلانی
بچیں یا نہ انہیں سپریم کورٹ کے کٹہرے میں لا کر ان کا سیاسی اور وکالت کا کیریئر ختم کرنے کا پلان بن چکا تھا۔ انہیں دکھ تھا‘ جب یہ فیصلہ ہوا تھا کہ عدالت سے لڑائی لڑنی ہے تو اس میں تینوں زرداری گیلانی اور وہ شامل تھے‘ لیکن اب گیلانی کو بچانے کے لیے صرف ان کی قربانی دینے کا فیصلہ ہو رہا تھا تاکہ اعتزاز احسن عدالت سے سرخرو ہوں‘ چاہے وہ (بابر اعوان) مارے جائیں۔ یوں وہ پیپلز پارٹی سے دور ہوئے۔ ان سے ہر عہدہ واپس لے لیا گیا۔ ان کے بھائی فاروق اعوان کو مشیر کے عہدے سے ہٹنا پڑا۔ گاڑیاں اور عہدے تک واپس لے لیے گئے۔ ان کے خلاف پیپلز پارٹی نے میڈیا میں تحریک چلائی اور ہر جگہ انہیں گالیاں دی گئیں۔ احسان فراموش کا لقب تک دیا گیا۔ خیر
بڑے عرصے بعد جب پی پی پی اقتدار سے باہر ہوئی تو زرداری کو دوبارہ ان کے مشوروں کی ضرورت پڑ گئی۔ دوبئی لندن میں دونوں کی ملاقاتیں ہوئیں۔ دوستی دوبارہ لگ گئی۔ لیکن سیانے درست کہتے ہیں‘ جب ایک دفعہ دوستی میں درڑار پڑ جائے تو پھر مشکل سے ہی جاتی ہے۔ نتیجہ سامنے ہے۔
عمران خان سے ان کی دعا سلام بہت پرانی شروع ہو چکی تھی۔ عمران کی ٹیم میں شاید ہی اب بابر اعوان جیسا ذہین، اور پاور پالیٹکس کو سمجھنے والا ہو‘ جو پیپلز پارٹی کو جانتا ہو اور نواز لیگ کا بھی سب سے بڑا مخالف ہو۔ عمران خان اور بابر اعوان میں سب سے بڑی مشترک قدر نواز لیگ کی دشمنی ہے۔ عمران کے پاس اگر سٹریٹ پاور اور طاقت ہے تو بابر اعوان کے پاس میکائولی جیسا سیاسی ذہن۔عمران اور اعوان کو بھی یہی بات قریب لے آئی ہے۔ بابر اعوان کی تقریریں یقینا تحریک انصاف کے جلسوں میں نیا رنگ لائیں گی۔ اگرچہ ان کے مخالفین یقینا بابر اعوان پر تبرے پڑھیں گے۔ ان کے سیاسی ماضی پر ابھی سے تنقید شروع ہو چکی ہے۔ ان پر الزام لگتے رہتے ہیں، کبھی وہ جواب نہیں دیتے لیکن وہ سیاست کو سمجھتے ہیں، پاور پالیٹکس ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
اب لوگ پوچھیں گے اچانک پیپلز پارٹی کے لوگ کیوں تحریک انصاف جانا شروع ہو گئے ہیں؟ کچھ عرصے سے عامر متین کہہ رہے تھے اب پیپلز پارٹی کو پنجاب کی حد تک اس کے بڑے لیڈرز چھوڑنا شروع کر دیں گے۔ پیپلز پارٹی اب سندھ کی سیاست تک محدود ہو جائے گی۔ میں نے اپنے تئیں سیانا بن کر کہا: زرداری کی سیاست کی وجہ سے؟ بولے: نہیں ان سب کو اب پنجاب کی سیاست میں پیپلز پارٹی میں رہتے ہوئے سیاسی مستقبل نظر نہیں آئے گا۔ اگلے سال مارچ میں پنجاب سے سب پیپلز پارٹی کے سب سینٹیرز فارغ ہو جائیں گے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی اس پوزیشن میں نہیں رہی کہ وہ دوبارہ وہاں سے اسمبلی میں سینیٹرز منتخب کرا سکے‘ لہٰذا ان سینیٹرز اور دیگر کے پاس ایک ہی آپشن ہو گا کہ وہ پیپلز پارٹی چھوڑ جائیں اور اپنا سیاسی مستقبل بچائیں۔ وہی ہو رہا ہے، اعتزاز احسن بھی شاید یہی کریں کوئی اور راستہ ڈھونڈیں یا پھر چپ کرکے وہ ریٹائرمنٹ لے لیں۔ کیونکہ تحریک انصاف میں بابر اعوان کے جانے کے بعد ان کا راستہ وہاں بند ہو چکا اور نواز شریف حکومت کی مخالفت میں وہ اتنا آگے جا چکے ہیں کہ وہاں بھی چانس نہیں رہا۔ آخری راستہ یہی ہوگا کہ اسی تنخواہ پر پیپلز پارٹی میں سینیٹرشپ ختم ہونے کے بعد کام کرتے رہیں یا پھر ریٹائر ہوکر گھر چلے جائیں۔ لیکن سیاستدانوں اور صحافیوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ قدرت انہیں ریٹائر کرے تو کرے‘ خود نہیں ہوتے۔
پیپلز پارٹی پڑھے لکھے، اچھے اور لبرل لوگوں کی جماعت تھی۔ میں ہمیشہ کہتا تھا کہ اگر یہ پارٹی مال بنانے کے چکر میں نہ پڑ جاتی تو یہ ملک کو بہت آگے لے جا سکتی تھی۔ اس میں وہ بات موجود تھی جو کسی بھی ملک اور معاشرے کے سیاسی طبقات میں ہونی چاہیے تھی۔ سب نام ایک ایک کرکے پارٹی سے نکلتے گئے۔ جو کرپشن کے ساتھ ایڈجسٹ کر سکتا تھا وہ پارٹی میں اوپر چلتا گیا‘ باقی سائیڈ پر ہوتے گئے۔
زرداری ڈاکٹرائن کے تحت سب کو یہ بات سمجھا دی گئی تھی کہ پاکستانی سیاست مال بنائے بغیر نہیں ہو سکتی‘ پھر اس پوری پیپلز پارٹی کو ایان علی، عاصم حسین، شرجیل میمن، عاصمہ ارباب عالمگیر جیسے لوگوں کے دفاع پر لگا دیا گیا۔ ان سب کو پتہ تھا کہ یہ ان کا کام نہیں لیکن ان سب کو کرنا تھا کیونکہ زرداری کا حکم تھا۔ وہی جالب کی پرانی نظم یاد آتی ہے۔ "لاڑکانہ چلو ورنہ تھانے چلو"۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا ہے یا سیٹ لینی ہے تو پھر ایان علی زندہ باد کے نعرے لگانا پڑیں گے۔
بلاول بھٹو کی پنجاب میں آمد سے کچھ امید جاگی تھی۔ نوجوان بلاول نے پرانے جیالوں کو جگانے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے کہ دشمن حملہ کرتے، زرداری نے خود ہی آگے بڑھ کر بلاول پر کامیاب سیاسی حملہ کیا۔ یہ آخری امید ختم ہوتے ہی اب بوری سے گندم کے دانوں کی طرح لوگ گرنا شروع ہو گئے ہیں۔ جن کا خیال تھا پہلے ہم کھل کر پیسہ بنائیں گے اور پھر سب کچھ خرید لیں گے‘ اب ان کے لیے امتحان ہے۔ اسی لوٹ مار کے پیسے سے کوئی نئی پارٹی خرید لیں‘ کیونکہ پنجاب کی حد تک پارٹی میں کچھ نہیں بچا۔ ہمارا نیلسن مینڈیلا، ایک زرداری، پوری پیپلز پارٹی پر بھاری ثابت ہوا ہے!