"RKC" (space) message & send to 7575

افسردگی کے موسم…

منگل کی دوپہر سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد جب عامر متین اور محمد مالک سے ملاقات ہوئی ،جو کمرہ عدالت میں موجود تھے ،تو دونوں اس بات پر متفق تھے کہ نواز شریف شاید عدالت سے ڈس کوالیفائی ہوجائیں۔ 
مالک اور عامر متین گہرا سانس لے کر بولے کہانی ختم ہوگئی ہے۔
ان دونوں نے وزیراعظم نوا ز شریف کو بہت قریب سے دیکھا ہوا ہے۔ عامر متین سے زیادہ محمد مالک نے دیکھا اور جانچا ہوا ہے۔ عامر متین نے رپورٹر کے طور پر تیس برس تک نواز شریف کو قریب سے دیکھا اور پارلیمنٹ سے کور کیا ہے۔ اس لیے دونوں کی رائے اپنی اپنی جگہ پر بہت اہم تھی۔ تاہم ہمارے دوست خاور گھمن کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ملکوں میں کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کب کیا ہوجائے لہٰذا جب تک فیصلہ نہیں آتا اس وقت تک وہ کوئی بات حتمی طور پرنہیں کہہ سکتے۔ تاہم اس بات پر تینوں متفق تھے کہ منگل کی سماعت کے بعد نواز شریف بڑی محنت سے خود کو ایک ایسی بند گلی تک لے گئے ہیں ٗ جہاں ان کے بچنے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔ کہا جارہا ہے کہ کوئی معجزہ ہی وزیراعظم کو بچا سکتا ہے اور اگر یہ بات ہے تو پھر معجزے نواز شریف کے حق میں بہت ہوتے رہے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ اس مرتبہ نواز شریف اپنی قسمت کا کوٹہ پورا کرچکے ہیں اور قسمت ان پرمزید مہربانیاں کرنے کے موڈ میں نہیں ۔ 
تو کیا نواز شریف نے اپنے ساتھ خود ہاتھ کیا ہے یا پھر یہ سب قسمت کا کھیل ہے جو الٹ گیا ہے؟ 
اتفاقاً آج ہی میں دس برس پرانی ویڈیو دیکھ رہا تھا جو ارشد شریف نے اس وقت اپنے چینل کے لیے بنائی تھی ،جب دس ستمبر2007 کو نواز شریف لندن سے اسلام آباد اترے تھے اور انہیں راول لائونج میں چند گھنٹے خوارکرنے کے بعد جہاز میں بٹھا کر جدہ بھیج دیا گیا تھا۔ اس وقت ہم صحافیوں کا ہجوم ان کے ساتھ لندن سے اسلام آباد ساتھ آیا تھا ۔ اس دن جو سلوک نواز شریف کے ساتھ ایئرپورٹ پر ہوا تھا اس پر میں اور ارشد شریف بار بار افسوس کررہے تھے کہ ملک کے دو دفعہ وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہونا چاہیے تھا۔ 
ہم میں سے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چند ماہ بعد شریف خاندان جس کے سابق وزیراعظم کو پکڑ کر ایئرپورٹ پر باتھ روم میں بند کیا جارہا تھا وہ دوبارہ اقتدار میں ہوگا۔ نواز شریف کی وہ حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی جب ان سے پاسپورٹ لینے کی کوشش ہورہی تھی اور وہ مسلسل کسی کو فون کر کے پوچھ رہے ہیں کہ میں کیا کروں۔ان کی پارٹی کا ایک بھی لیڈر جو آج سپریم کورٹ کے باہر سنبھالے نہیں سنبھلتا ، اس دن ایئرپورٹ پر نہیں گیا تھا اور نواز شریف اکیلے بیٹھے جنرل مشرف کے وزیرداخلہ آفتاب شیرپائو کے بھیجے ہوئے کمانڈوز کے ہاتھوں عزت افزائی کرار ہے تھے۔ 
قسمت نے پلٹا کھایا اور وہی نواز شریف اور شہباز شریف چند ماہ بعد پنجاب کے مالک بن بیٹھے۔ ہماری بھی بہت سی امیدیںاور خواب تھے ۔ ہمیںبتایا گیا تھا اب نواز شریف بدل گئے ہیں۔ اب ماضی کی غلطیاں ایک طرف رکھ کر ایک جمہوری کلچر کو پروموٹ کیا جائے گا۔شہباز شریف نے وزیراعلی پرویز الٰہی کی سینکڑوں گاڑیاں نیلام کرنے کا حکم دیا ۔ وزیراعلیٰ ہاوس کو خواتین کی یونیورسٹی بنانے کے دعوی کیے گئے۔ سرونگ فوجیوں سے دور رہنے کی قسمیں کھائی گئیں۔ ایک نیا پاکستان تعمیر کرنے کا اعلان ہوا... اور پھر کیا ہوا؟
پھر شہباز شریف نے پرویز الٰہی دور کی گاڑیاں چند کروڑ روپے میں بیچ کر دو ارب روپے کا ہیلی کاپٹر خرید لیا ۔ ایک وزیراعلیٰ ہائوس کی بجائے لاہور میں اپنے پانچ ذاتی گھروں کو وزیراعلیٰ ہاوس کا درجہ دے دیا ۔ پنجاب کا سارا بجٹ لاہور پر لگا دیا گیا۔ تین ہزار سکیورٹی اہلکار اپنے خاندان کی حفاظت پر لگا دیے اور حسن رضا کی رپورٹ کے مطابق اب تک آٹھ سے دس ارب روپے صرف اس خاندان کی سکیورٹی پر خرچ ہوچکے ہیں ۔ 
دوسری طرف پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف پہلے دن سے ہی سازشیں شروع ہوگئیں۔ کہاں گیا چارٹر آف ڈیموکریسی؟ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان نے پرانا کام وہیں سے شروع کیا جو بارہ اکتوبرسے پہلے کرتے تھے۔ جرنیلوں کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔ جنرل کیانی سے بارہ خفیہ ملاقاتیں تو چوہدری نثار نے خود پارلیمنٹ میں تسلیم کیں ...آج تک یہ پتہ نہیں چلا کہ ہر آرمی چیف شہباز شریف کا دلدادہ کیوں نکلتا ہے۔ خفیہ ملاقاتوں کے حقدار صرف شہباز شریف اور چوہدری نثار کیوں ٹھہرتے ہیں۔ حب الوطنی کا امتحان پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے لوگ کیوں پاس نہیں کرپاتے؟ شہباز شریف اور چوہدری نثار کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے جسے سنگھاتے ہی سب آرمی چیف ان سے رات کے اندھیروں میں ملاقات پر تیار ہوجاتے ہیں؟ 
پھر نواز شریف کی باری لگی تو کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے اور میمو گیٹ بنوایا ۔ شہباز شریف نے گیلانی کی برطرفی کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہا ان کی پیٹیشن پر سپریم کورٹ نے انہیں برطرف کیا ۔ خواجہ آصف روزانہ وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف پیٹیشن لے کر سپریم کورٹ میں پائے جاتے ۔
قسمت نے ان بھائیوں کاکتنا ساتھ دیا، حیرانی ہوتی ہے۔ لگتا ہے بیس کروڑ عوام کی قسمت کا سارا کوٹہ ان دونوں بھائیوں اور ان کے بچوں کی دیکھ بھال پر ہی پر خرچ ہوگیا ۔ جو کہتے تھے بھٹو اور مشرف نے ان کے کاروبار کو تباہ کردیا ، اقتدار میں آتے ہی ارب پتی ہو گئے ۔ اتفاق فائونڈری کا بیس سال سے رکا پانچ ارب روپے کا قرضہ واپس کردیا گیا۔ کوئی پتہ نہیں کہاں سے وہ پانچ ارب روپیہ آیا۔ ماشاء اللہ بچوں کی لندن، دوبئی پانامہ تک جائیدادیں بن گئیں۔ کسی نے دودھ کسی نے دہی کی دوکان کھول لی تو کوئی انڈے بیچنے لگ گیا اور ایسی برکت اس کام میں پڑی کہ سب بچے سونے چاندی میں کھیلنے لگے۔ اب جب تفصیلات سامنے آئی ہیں تو پتہ چلا ہے کہ شریف خاندان دن رات محنت کررہا تھاحتیٰ کہ نواز شریف وزیراعظم ہونے کے ساتھ ساتھ دوبئی میں نوکری بھی کررہے تھے۔ ڈبل شفٹ ۔ 
پتہ چلا کہ اسحاق ڈار بھی سینیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ دوبئی میں شیخ کی نوکری کررہے تھے جس نے صرف تین سال میں اسحاق ڈار کے بقول انہیں ایک ارب روپے نقد کی تنخواہ دی ۔ اب اس تنخواہ کا ثبوت اسحاق ڈار نے تین خطوط کی شکل میں سپریم کورٹ میں پیش کیا ہے جس میں شیخ مبارک نے ایک طرح کا سرٹیفکیٹ دیا ہے کہ انہوں نے اسحاق ڈار کو ایک ارب روپے دیے ۔ قطریوں کی طرح یہ دوبئی کے تین خط ہیں اور ایک ارب روپے حلال قرار پائے۔ کوئی بینکنگ ٹریل نہیں۔ بس ایک کاغذ کا ٹکڑا اور ایک ارب روپے سیٹل ہوگئے۔ 
اس طرح کے ایک ارب روپے جنرل مشرف نے بھی سعودی عرب کے شہزادہ عبداللہ سے لینے کا دعوی کیا تھا جس سے ان کے بقول انہوں نے لندن میں جائیداد خریدی ۔اب دانشور ہمیں یہ سمجھانے کی کوششیں کررہے ہیںکہ ہمارے وزیراعظم کے خلاف عالمی شازشیں شروع ہیں۔ یہود وہنود ہمارے وزیراعظم کے دشمن ہوگئے ہیں۔ شاید کسی یہودی نے ہی یہ مشورہ اسحاق ڈار کو دیا تھا کہ وہ پاکستان میں سینٹر بھی رہیں اور دوبئی میں تیس کروڑ روپے سالانہ کی نوکری بھی کرتے رہیں۔ شاید یہودیوں نے ہی نواز شریف کو اقامہ لے کر دیا تھا کہ وہ دوبئی میں مارکیٹنگ مینیجر لگ جائیں ۔ 
حیران ہوتا ہوں کہ کیسے کوئی بیٹا اپنے باپ کو، جو پاکستان کا وزیراعظم بھی ہو، اپنی کمپنی کا مارکیٹنگ منیجر بھرتی کرلے۔ داد دیں اس وزیراعظم باپ کو جو یہ آفر قبول بھی کر لے کہ اور کچھ نہیں تو سال میں ایک کروڑ بیس لاکھ درہم تو حلال ہوجائیں گے۔یہ وہ جمہوریت ہے ،جو انڈے بچے دے رہی ہے۔ ایسی جمہوریت جس کو لانے کے لیے ارشد شریف اور میں دس ستمبر دو ہزار سات کو ایئرپورٹ پر نوازشریف کے ساتھ ناروا سلوک دیکھ کر افسردہ تھے اور وہ جمہوریت جس کے آنے کے دس برس بعد سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت سن کر محمد مالک اور عامر متیں افسردہ لوٹے۔۔
حیران ہوتا ہوں کہ یہ سب افسردگی ہماری ہی قسمت میں کیوں لکھ دی گئی ہے۔ جنہیں افسردہ ہونا چاہیے وہ پاکستان کے وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی دوبئی میں مارکیٹنگ منیجر لگ کر خوش و خرم ہیں اور سنا ہے ڈٹے بھی ہوئے ہیں ۔۔ ۔۔!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں