آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے اسلام آباد میں گزرے انیس برسوں میں دنیا کیا سے کیا ہوگئی تھی ۔ دنیا چھوڑیں پاکستان کتنا بدل گیا تھا ۔ پاکستان ایک طرف رکھیں تو اسلام آباد کتنا بدل گیا تھا۔ لیکن اگر کوئی نہ بدل سکا تو وہ نواز شریف تھے... انہیں جیسے پایا تھا وہ آج تک وہی ہیں۔
نواز شریف کے ایک اور زوال کی شام یہ کالم لکھتے ہوئے سوچے بغیر نہیں رہ پارہا کہ انیس برس قبل ملتان سے اسلام آباد آنا بھی ایک عجیب رسک تھا۔ ملتان اور ملتانی دوست چھوڑنا ایک دکھ سے کم نہ تھا ۔ ریلوے اسٹیشن پر جمشید رضوانی، ذوالکفل بخاری،عمران مرزا، طاہر ندیم، علی شیخ،فیاض ملک، مختار پارس، سجاد جہانیاں، روشن ملک اور دیگر دوست چھوڑنے آئے تھے۔
ملتان ریلوے اسٹیشن کی وہ گرم لیکن اداس شام شاید کبھی دل سے نہ اترے ۔ ریل گاڑی چل پڑی تھی۔ دوست پیچھے رہ گئے تھے۔
جب پوری رات کے سفر بعد جو ٹرین میں جاگ کر گزاری تھی، اپنا بوریا بستر اٹھائے پنڈی ریلوے اسٹیشن پر اترا تو بھی نواز شریف کی حکومت ڈانواں ڈول ہورہی تھی اور آج ایک دفعہ پھر نواز شریف اپنے اقتدار کی شاید چند آخری شامیں گزار رہے ہیں ۔ وقت بدل گیا تھا لیکن سیاست اور سیاستدان نہیں بدلے تھے۔
کسی کتاب میں پڑھا تھا جب میں جوان تھا تو مجھے ذہین لوگ پسند تھے۔ جب میں بوڑھا ہوا تو مجھے رحم دل لوگ اچھے لگتے تھے۔
وقت سب کو بدل دیتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے اتنی مصیبتیں اور تجربات کے باوجود نواز شریف کو وقت کیوں نہ بدل سکا؟
مظلومیت کی کہانیاں اس وقت بھی سنائی جاتی تھیں اور آج بھی سنائی جارہی ہیں۔ میں نے جنرل ضیاء کے مارشل لاء کا سنا تھا لیکن پہلی دفعہ جنرل مشرف کے مارشل لاء کے اندر نو برس رپورٹنگ کرنے کا تجربہ ہوا۔ یقینا مشرف دور میں وہ سختیاں نہیں تھیں جو جنرل ضیاء دور میں تھیں۔ صحافیوں کو کوڑے نہ مارے گئے یا جیل نہ بھیجا گیا لیکن یہ ضرور ہوا کچھ نوکریوں سے ضرور گئے۔ ہراساں کرنے کا کلچر بھی تھا۔سکینڈلز جنرل مشرف دور میں بھی سامنے آتے رہے لیکن ابھی بھی کچھ بھرم باقی تھا جونہی خبر چھپتی کچھ نہ کچھ ایکشن ہوجاتا ۔ شوکت عزیز بھی وارداتیں ڈالتے رہتے لیکن رپورٹ نہ ہونے دیا جاتا۔ خبریں رکوا لی جاتیں۔ اور کچھ نہیں تو ایک عدد پریس ریلیز ضرور جاری ہوتی۔ جھوٹ اس وقت بھی بولے جاتے تھے۔آج بھی بولے جاتے ہیں۔ میرا خیال تھا شوکت عزیز کو اس کام میں بہت مہارت تھی لیکن جو جھوٹ آج کل بولے جارہے ہیں اس کا مقابلہ تو شوکت عزیز دور دور تک نہیں کر سکتا۔
تاہم شوکت عزیز نے ایک سمجھداری کی تھی۔ انہوں نے اسحاق ڈار کا ایک جھوٹ پکڑ کر انہیں عالمی سطح پر بدنام کر دیا ۔ آئی ایم ایف کو شوکت عزیز نے بتایا جناب ان سے پہلے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے انہیں جو پاکستانی اکانومی کے حوالے سے اعداودشمار دیے تھے‘ وہ سب جھوٹ تھا ۔ آئی ایم آئی نے فورا ًپاکستان کو چھ ارب روپے کا جرمانہ کر دیا جو شوکت عزیز نے بخوشی قوم کی جیب سے ادا کیا کیونکہ اس کے بعد اسحاق ڈار کو عمر بھر کے لیے ایک ایسا طعنہ مل رہا تھا جو آج تک جاری ہے۔ یہ اور بات ہے شوکت عزیز کو اس بات کا غصہ تھا کہ جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو وہ ان سے ملے تھے اور وہ اسٹیٹ بنک کے گورنر لگنے کی لابنگ کررہے تھے لیکن اسحاق ڈار نے درمیان میں ٹانگ اڑا کر انہیں گورنر نہیں بننے دیا تھا ۔ الٹا شوکت عزیز مارشل لاء کے بعد اسحاق ڈار کے شکر گزار ہوتے کہ اگر وہ گورنر اسٹیٹ بنک لگ جاتے تو جنرل مشرف نے انہیں کب وزیرخزانہ لگانا تھا، وہ پرانے دکھ لے کر بیٹھ گئے۔ سینیٹ میں بھی اسحاق ڈار اور شوکت عزیز کے درمیان یہ چپقلش نظر آتی۔ شوکت عزیز یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ وہ اسحاق ڈار سے بہتر وزارت خزانہ چلا رہے تھے۔ ڈار صاحب کے پاس جب سب دلائل ختم ہوجاتے تو وہ کہتے یہ بندہ کبھی ان سے اسٹیٹ بنک کی گورنری مانگنے آیا تھا ۔ شوکت عزیز جواب دیتے‘ اسحاق ڈار تو جھوٹے تھے اور ان کا ایک جھوٹ پاکستان کو چھ ارب روپے میں پڑا تھا ۔
شوکت عزیز کب کے اپنے اصلی وطن سدھار گئے ہیں لیکن ڈار صاحب ایک دفعہ پھر وزیرخزانہ ہیں۔ تاہم پرانے ڈار اور آج کے ڈار میں بہت فرق پڑ چکا ہے۔ آج ڈار صاحب کٹہرے میں کھڑے ہیں اور ان کی تقدیر کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ نے بڑے بڑوں کے اندر باہر کو ننگا کردیا ہے۔ رپورٹ پڑھتے جائیں تو بندہ حیران ہوجاتا ہے اس ملک کے ساتھ کیا کھلواڑ کھیلا جارہا تھا ۔ جعلی دستاویزات کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا گیا ہے۔
نواز شریف کو خدا نے بہت بڑا موقع دیا تھا۔ تاریخ میں کتنے لوگ ہیں جو تیسری دفعہ اپنے ملک کے سربراہ بنے ہوں۔ نواز شریف اور ان کے حواریوں کی لندن میں کی گئی باتیں یاد آتی ہیں تو حیران ہوتا ہوں یہ وہی لوگ ہیں؟ ہم اتنی جلدی کیوں بدل جاتے ہیں۔ کیا انسان کو خواب دکھا کر بیوقوف بنانا زیادہ آسان ہے لہٰذا اس طرح کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔
کیا ان سیاسی لوگوں کی یادداشت واقعی کمزور ہوتی ہے یا پھر یہ لوگ ایکٹنگ کرتے ہیں؟ ابھی نواز شریف کہتے ہیں ان کے خلاف سازش کی گئی۔ ان کا احتساب نہیں استحصال ہورہا ہے۔ ایسا تو پھر ہر دور میں ہوتا رہا ہے‘ جب سیف الرحمن لاہور ہائی کورٹ کے جج ملک قیوم کو فون پر لکھوا رہے تھے کہ سزا سات برس سے کم نہیں دینی ورنہ میاں صاحب ناراض ہوجائیں گے۔
نواز شریف اور ان کے خاندان نے ہمیشہ اداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہے جس کا نتیجہ سامنے ہے۔ پنجاب اور اسلام آباد میں طویل عرصے تک حکمرانی کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ انہوں نے ہر ایک کو خرید لیا ہے یا ساتھ ملا لیا ہے۔
لیکن لگتا ہے اس دفعہ برے دن واقعی آن پہنچے ہیں۔ وہ سیدھا کام بھی کرنے کی کوشش کریں تو منہ کے بل جاگرتے ہیں۔ ایسی ایسی غلطیاں ان سے ہوئی ہیں بندے کو حیرانی ہوتی ہے۔ یا تو پھر ان کا اعتماد اس لیول پر پہنچا ہوا تھا کہ ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ انہیں کبھی محسوس نہ ہوا تھا ان کا بھی احتساب ہوسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے جے آئی ٹی رپورٹ کو پڑھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کیسے شریف خاندان کے سب لوگوں کی یادداشت اچانک غائب ہوگئی تھی۔ مریم نواز تک کو تو جے آئی ٹی کے سامنے یہ بھی بھول گیا تھا کہ ماڈل ٹائون کا گھر کا مالک کون ہے۔ نواز شریف کو لندن فلیٹس تک یاد نہیں آرہے تھے۔ عدالت میں شریف خاندان کے وکیل نے حسین نواز کا دفاع یہ کہہ کر پیش کرنے کی کوشش کی کہ دراصل وہاں موجود فوجی افسران کی موجودگی سے وہ گھبرا گیا تھا لہٰذا شاید کچھ سوالات کے جوابات درست نہ دے سکا تھا ۔ اسحاق ڈار پر بھی برا وقت چل رہا ہے کہ وہ ساری دستاویزات خود ہی عدالت میں جمع کرادیں جن پر اب ہزاروں سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ایک ارب روپے شیخ مبارک سے لینے کا دعویٰ کیا اور اس کے لیے تین خط پیش کیے۔ ان خطوط میں باقی چیزوں کو چھوڑیں، شیخ مبارک بن النہیان کے نام میں تین غلطیاں ہیں۔
جوکہانیاں گھڑی گئیں اور جو تاریخ ساز بلنڈرز شریف خاندان کے بچوں اور ان کے وکیلوں نے پہلے جے آئی ٹی اور اب عدالت کے سامنے مارے ہیں اور جس طرح رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں، اس سے ہزاروں سال پرانی کہاوت یاد آتی ہے کہ جب خدا کسی کو سزا دینے پر تل جاتا ہے تو پھر کیا ہوتا ہے۔
Those whom the gods wish to destroy, they first make mad.