ایک ٹی وی چینل کے مطابق چوہدری نثار کے قریبی ذرائع سے دعوی کیا گیا ہے کہ وہ نواز شریف کے وفادار ہیں اور رہیں گے۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے ان ذرائع نے آج سے سترہ برس قبل کی اس پیشکش کا ذکر بھی کیا ہے‘ جب چوہدری نثار گھرمیں قید تھے اور جنرل مشرف کے قریبی ساتھی جنرل محمود نے انہیں وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی تھی جو انہوں نے قبول نہ کی تھی اور وہ نواز شریف کے وفادار رہے تھے۔
مجھے یاد آیا آج سے چودہ برس قبل میں چوہدری نثار کے گھر بیٹھا ان کا انٹرویو کر رہا تھا تو انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ جس جگہ آپ بیٹھے ہیں یہیں بیٹھ کر جنرل محمود نے انہیں وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی تھی۔ چوہدری نثار نواز شریف سے نالاں تھے اور اس کی وجہ وہ خاتون تھیں جنہوں نے اٹک جیل جا کر نواز شریف کے کان بھرے تھے کہ وہ وزیر اعظم ہو کر جیل میں ہیں جبکہ چوہدری نثار گھر میں قید ہے۔
چلیں جنرل مشرف نے اتنا خیال تو کیا کہ جس نے انہیں آرمی چیف بنوایا تھا‘ اسے جیل کی بجائے گھر میں قید کیا۔ یہ وہ بات ہے جو آج تک نواز شریف کے دماغ سے نہیں نکل سکی کہ چوہدری نثار نے جسے آرمی چیف بنوایا، اسی نے انہیں معزول کیا‘ وزیر اعظم کو جیل میں ڈال دیا اور چوہدری نثار کو گھر میں قید کر دیا۔
اب تک میں ایسے درجنوں سیاستدانوں سے مل چکا ہوں جو یہ دعویٰ بڑی سنجیدگی سے کرتے رہے کہ جنرل مشرف انہیں وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے اگر وہ بینظیر بھٹو یا نواز شریف کو چھوڑ کر اس کا ساتھ دیتے۔ حیران ہوتا ہوں کہ اگر وہ سب مان جاتے تو جنرل مشرف کہاں اتنے وزیر اعظموں کو نوکری دیتے؟ یقیناً آئین میں ترمیم کرنا پڑتی کہ پاکستان کے بیک وقت دس وزیر اعظم ہوں گے۔
عمران خان کو بھی یہ کہانی ڈالی گئی تھی کہ آپ ہمارے وزیر اعظم ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کے امین فہیم کو یہ کہانی بیچی گئی تو دوسری طرف نواز لیگ کے چوہدری نثار کو بھی۔ فاروق لغاری بھی وزیر اعظم بننے دو ہزار دو کی اسمبلی میں پہنچ گئے تھے۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ فوجی بھائی ان سے بہت بڑا کام لینا چاہتے ہیں۔ میاں اظہر کو تو باقاعدہ وزیر اعظم کا پروٹوکول ملتا تھا۔ مولانا فضل الرحمن دو ہزار دو کی اسمبلی میں وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے تھے۔ زرداری تو اس کھیل میں شریک تھے لیکن بینظیر بھٹو اور ان کی پارٹی گاڈ فادر کو وزیر اعظم کا ووٹ ڈال رہی تھی۔
یوسف رضا گیلانی کو بھی توڑنے کے لیے جیل میں اسی طرح کی پیشکش کی گئی تھی۔ جنرل مشرف کے پرنسپل سیکرٹری اڈیالا جیل جا کر انہیں پیشکش کرتے کہ ابھی ہاں کریں، کل حلف دلوا دیں گے۔ لیاقت جتوئی تک یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بس کل پرسوں کی بات ہے‘ جب ہما ان کے سر پر بیٹھا ہو گا۔
ان میں سے کسی کو بھی جنرل مشرف نے وزیر اعظم نہیں بنانا تھا۔ مقصد انہیں ان کی پارٹیوں سے توڑ کر اپنے ساتھ ملانا تھا۔ سب کو یہی کہانی ڈالی گئی اور یہ سب پلان کا حصہ تھا کہ ان کے ذہن میں وہ ڈال دو جو وہ سوچتے تھے یا جس کے خواب دیکھتے تھے۔
وزیر اعظم بنایا تو جمالی اور چوہدری شجاعت حسین کو جو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ کبھی وزیر اعظم بنیں گے۔ وزیر اعظم بنایا تو شوکت عزیز کو جو نواز شریف دور میں گورنر سٹیٹ بینک لگنے کے لیے منتیں ترلے کرتے رہے اور پھر وہ خود کئی گورنر لگا رہے تھے۔
یہ سب انسان کو توڑنے کے ہتھکنڈے ہوتے ہیں۔ لالچ، خوف اور خواب۔ یہ تین چیزیں انسان کو توڑنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ اس لیے جنرل مشرف اور ان کے ساتھی یہ تینوں کام بڑی ہوشیاری سے کر رہے تھے۔ کسی کو وزارتوں کا لالچ تو کسی کو نیب کا خوف اور کسی کو وزارت عظمیٰ کے خواب دکھائے گئے۔ آج تک بہت سے بے چارے یہی سمجھتے ہیں کہ وہ وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے۔
بندہ توڑنے کے لیے کوئی بھی وعدہ کر لیا جاتا ہے اور جب آپ کسی کے تنخواہ دار ملازم ہو جاتے ہیں تو پھر کہاں کے وعدے اور کیسے وعدے؟ آپ اسی تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔ میں تین چار میڈیا ہائوسز بھگت چکا ہوں۔ جوائن کرتے وقت کچھ اور خواب دکھائے جاتے ہیں لیکن جونہی آپ جوائن کر لیتے ہیں تو پھر آپ ایک ملازم اور وہ ایک مالک... یہی کچھ جنرل مشرف کر رہے تھے۔
اس لیے اگر چوہدری نثار جوائن کر لیتے تو ان کی حیثیت بھی فیصل صالح حیات سے زیادہ نہ ہوتی جنہیں پیپلز پارٹی چھوڑنے کی قیمت وزارت داخلہ کی شکل میں دی گئی۔ وقتی طور پر فیصل صالح حیات کو توڑنے کے لیے انہیں وزیر داخلہ بنانے کی ہامی بھر لی گئی کہ دو سال تک ماضی کا جتنا نقصان پورا کر سکتے ہو کر لو۔ انہوں نے بھی اس وزارت میں ایک منٹ ضائع نہ کیا اور ڈبل شفٹ میں کام کرتے رہے۔ دو سال بعد ان کی چھٹی کرا دی گئی۔ اب ایک اور سیاسی گھوڑا تیار ہو چکا تھا جس کا نام آفتاب شیرپائو تھا جو ایک سو ملین ڈالر کرپشن کے الزام میں لندن بھاگ گیا تھا۔ مشرف انہیں واپس لائے اور ملک کا وزیر داخلہ لگا دیا۔ وہ وزارت دے دی گئی جو کچھ دن پہلے تک اسی شیرپائو کو دنیا بھر میں تلاش کر رہی تھی۔ کیا کر لیا گیا جنرل مشرف کا؟ اگلے دن موصوف ماحولیات کی وزارت کا حلف لے کر پُرانے مشاغل میں مصروف ہو گئے تھے۔
جنرل مشرف نے ان سب کو بے نقاب کیا۔ اسے علم تھا سب کی قیمت ہوتی ہے کچھ کی زیادہ اور کچھ کی کم۔ وہی بینظیر بھٹو جو دو ہزار دو کے الیکشن کے بعد کم قیمت پر راضی نہ تھیں وہی دو ہزار سات میں این آر او لے کر تیار ہو گئیں۔
چوہدری نثار یقینا کلین ہوں گے اور سب سے بڑھ کر وہ نواز شریف کے ذاتی وفادار ہوں گے لیکن ان کی اس ذاتی وفاداری سے اس معاشرے کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ذاتی وفادار دراصل ذاتی انعام کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ اتنی وفاداری دکھانے کے بعد بھی چوہدری نثار کے ہاتھ کچھ نہیں آیا تو تسلی رکھیں مزید وفاداری سے بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ بس بلے بلے ہوتی رہے گی کہ دیکھا راجپوت خون نے دھوکا نہیں دیا۔ بادشاہ دھوکا دے جائے تو خیر ہے لیکن بادشاہ کے نورتن اور غلام اپنی جانیں قربان کرتے رہیں۔ چاہے مشہور ناول اور ٹی وی شو گیم آف تھرون کے Mad King کی طرح جب بھی بادشاہ سلامت کے منہ سے کوئی جملہ نکلے تو یہ کہ Burn them all اور اس کے سب وفادار جا کر بستیاں جلا دیں کہ وفاداری کا یہی تقاضا ٹھہرا۔ اسے پاگل بادشاہ تک کہا جانے لگا لیکن وفاداری کا تقاضا تھا لہٰذا حکم کی تعمیل پھر بھی ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ جب وہ میڈ کنگ مر رہا تھا تو بھی اس کے لبوں پر یہی جملہ تھا: Burn them all
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ بادشاہ ہمیشہ اپنے ماتحت انسانوں کی طرف سے اپنی جان پر کھیل کر دکھائی گئی وفاداری کو بھی اپنا پیدائشی اور آسمانی حق سمجھتے آئے ہیں۔ ان جان نثاروں اور وفاداروں کا احسان نہیں۔
لہٰذا میرے پسندیدہ چکری کے چوہدری نثار علی خان بھی دراصل پرانے تعلق کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے نواز شریف صاحب کو اپنی وفاداری کا بار بار یقین دلا کر اپنا فرض ادا کر رہے ہیں، بادشاہ سلامت پر کوئی احسان نہیں کر رہے۔
ویسے بھی ہر کوئی سپارٹیکس نہیں ہوتا جس نے دو ہزار سال قبل اپنے جیسے غلام اکٹھے کرکے رومن بادشاہوں کے خلاف بغاوت کرکے ان سے جنگ لڑی تھی!