چیخ و پکار جاری ہے۔ لٹ گئے، برباد ہو گئے، کچھ نہیں بچا‘ ظالم سب کچھ لے گئے۔ ایسا دل دہلا دینے والا ماتم ہم اس دن گائوں میں صبح سویرے سنتے تھے جب کسی گھر میں کوئی رات کو نقب لگا جاتا تھا۔ آج کل نواز شریف کی برطرفی کے بعد میڈیا پر بعض دانشوروں کا بھی ایسا ہی شور سننے میں آ رہا ہے۔
برصغیر میں شخصیت پرستی اور بت پرستی پہلے سے موجود تھی‘ رہی سہی کسر بیرونی حملہ آوروں نے پوری کر دی‘ جو جدید جمہوری نظریات سے ناواقف تھے۔ وہ لوٹ مار کے لیے ہندوستان آئے اور مایوس نہ ہوئے۔
اس بیرونی حملہ آور فوج کا حقہ پانی بادشاہ اور قبیلے کے ساتھ وفاداری پر چلتا تھا۔ قبائلی عصبیت صدیوں بعد آج بھی موجود ہے۔ یورپ میں بھی صورت حال یہی تھی‘ جہاں بادشاہت اور کلیسا نے لوگوں کو صدیوں تک غلام بنائے رکھا‘ لیکن اللہ بھلا کرے پرنٹنگ پریس اور نشاۃ ثانیہ کی تحریکوں کا‘ جنہوں نے یورپ والوں کو ان اندھیروں سے نکالا جن کا وہ شکار تھے۔ اس کے بعد صنعتی انقلاب نے نئے یورپ کو جنم دیا جس کے بعد انہوں نے تقریباً پوری دنیا کو فتح کر لیا۔ ہندوستان وہیں کا وہیں کھڑا رہا۔ آج بھی جب ڈیڑھ سو سال پہلے کا ادب پڑھتا ہوں‘ جس کی مجھے لت لگ چکی ہے‘ تو حیران ہوتا ہوں کہ ہماری ذہنی کیفیت کیا تھی اور ہم کس پستی میں جا گرے تھے۔ اس لمبی بحث میں پڑے بغیر‘ اگر ہم نے ذہنی غلامی کو آج محسوس کرنا ہو تو نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد پڑھی لکھی ایلیٹ جو بحث کر رہی ہے‘ اسے دیکھ لیں۔ ہم مسلمانوں کے لیے جمہوریت ایک ایسا پھل ہے‘ جسے ہم نہ نگل سکے ہیں اور نہ ہی نکال کر پھینک پائے۔ ہمارا خیال تھا کہ ناخواندگی اور جہالت کی وجہ سے ہندوستان میں شخصیت پرستی مضبوط ہوئی اور تعلیم عام ہونے سے بت ٹوٹیں گے‘ لیکن میرے لیے یہ ایک شاک ہے کہ پڑھی لکھی کلاس اس عمل کے خلاف ہے۔ اس نے جمہوریت کے نام پر شخصی بت پرستی کا درس دینا شروع کر دیا ہے۔ نواز شریف کو جمہوریت کا ایسا سمبل بنا کر پیش کیا جا رہا تھا‘ جیسے وہ نہ رہے تو کچھ نہیں بچے گا۔ آج چھٹا دن ہے کہ نواز شریف وزیر اعظم نہیں ہیں۔ تو ملک غائب ہو گیا ہے؟ نواز شریف آٹھ برس پاکستان میں نہیں تھے‘ تو کیا یہ ملک نہیں چل رہا تھا؟
یہ پڑھی لکھی ایلیٹ‘ جس نے دنیا کو دھوکا دینے کے لیے اپنا نک نیم لبرل رکھ لیا ہے‘ نواز شریف صاحب سے یہ تک پوچھنے کو تیار نہیں کہ بادشاہ سلامت سے کہاں غلطیاں ہوئیں؟ ہر دفعہ جمہوریت کیوں خطرے میں پڑ جاتی ہے؟ نواز شریف کیوں قومی اسمبلی میں آٹھ آٹھ ماہ تک نہیں گئے؟ کیوں سینیٹ ایک سال نہیں گئے؟ کابینہ کا اجلاس چھ چھ ماہ نہیں ہوتا تھا۔ وزیروں نے بھی ملاقات کرنی ہوتی تو صحافیوں سے سفارش کراتے کہ وقت لے دیں‘ جبکہ بیرونِ ملک کے ایک سو سے زائد دورے کر لیے۔ چار سالوں میں 35 ارب ڈالرز کا قرضہ کیسے لے لیا جبکہ ایکسپورٹس اس دوران چار ارب ڈالرز گر گئی ہیں؟ ستر سالوں کا قرضہ ایک طرف اور نواز شریف دور کا قرضہ ایک طرف۔ نامزد وزیر اعظم شہباز شریف‘ نواز شریف سے ایک قدم آگے ہیں۔ انہوں نے بھی پنجاب میں درجن بھر وزارتیں اپنے پاس رکھی ہوئی تھیں۔ لاہور اسمبلی وہ نہیں جاتے تھے اور اسلام آباد اسمبلی میں نواز شریف نہیں جاتے تھے‘ لیکن اگر ان دونوں کو گھر بھیج دیا جائے تو قیامت کا ماتم شروع ہو جاتا ہے۔
نواز شریف صاحب خود اپنی مرضی اور خفیہ ملاقاتوں کے بعد آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی چنتے ہیں اور پھر چند ماہ بعد یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ سازش ہو رہی ہے۔ اس کا مطب ہے کہ آپ بندہ شناس نہیں۔ پھر آپ پر کیوں بھروسہ کیا جائے؟ آپ ایک اچھا بندہ کسی بڑے عہدے پر نہیں لگا سکتے تو آپ کو پورے ملک کی ذمہ داری کیوں دی جائے؟ کیا آپ پر ذمہ داری صرف اپنے خاندان کی فلاح و بہبود کی ڈالی گئی تھی کہ کم سن بچوں کے نام پر ہی اربوں ڈالرز کی جائیداد چپکے سے خرید لی گئی؟ آپ کی ذمہ داری اس ملک کے بچے نہیں تھے جن کے بارے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے ان کی تعداد کروڑں میں ہے جنہیں پوری غذا تک نہیں ملتی؟ یہ جعلی لبرل‘ لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے کہ چند بڑے لوگوں کی کرپشن سے معاشرے میں غربت بڑھ رہی ہے۔ جب چند افراد کروڑں لوگوں کا مختص بجٹ خورد برد کرکے بیرون ملک جائیدادیں خریدیں گے‘ تو پھر غربت اور جہالت بڑھے گی ہی۔ ایک طرف یہ رونا روتے ہیں کہ بھٹو، بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف نے ان کے خاندان کو تباہ کر دیا‘ دوسری طرف چند برسوں میں پچاس کے قریب کارخانے، بیرون ملک جائیدایں نکل آئیں۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ ان کے آبائواجداد نے غربت سے شروع کیا جبکہ نواز شریف صاحب نے کہا کہ وہ جدی پشتی امیر تھے اور انگریزوں تک نے ان کا احتساب کیا تھا۔
لوئر مڈل اور مڈل کلاس سے ابھرے ان دانشوروں کا ماتم دیکھ کر مجھے دور ہزار برس پہلے کے ارسطو کی کتاب یاد آتی ہے جس میں لکھا ہے کہ جب بادشاہ زوال کا شکار ہوتا تو عام لوگ رونے لگتے تھے۔ وہ بادشاہ کی ہمدردی میں نہیں رو رہے ہوتے تھے‘ بلکہ اس ڈر اور خوف سے کہ اگر بادشاہ کے ساتھ قدرت یہ انصاف کر سکتی ہے، وہ زوال کا شکار ہو سکتا ہے،جیل جا سکتا ہے، تو پھر ان کی کیا اوقات۔ اپنے اندر کا خوف انہیں رونے پر مجبور کر دیتا تھا۔
یہی کچھ ہماری لبرل ایلیٹ کر رہی ہے۔ انہیں نواز شریف کا دکھ نہیں ہے، انہیں ارسطو کے ٹریجک ہیرو کے زوال کی فکر نہیں بلکہ ان کا اپنا رونا ہے کہ اگر ان کے ہیرو کے ساتھ یہ کچھ ہو سکتا ہے تو پھر ان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا وہ پہلے سے ہی شور مچانا شروع کر دیتے ہیں تاکہ قانون، انصاف یا قدرت کے ہاتھ ان کی طرف نہ بڑھیں۔ اس لیے یہ رونا نواز شریف صاحب کے لیے نہیں بلکہ صدیوں پرانے اس مزاج کا ہے کہ اگر بادشاہ قانون قدرت کی گرفت میں آ گیا تو بچیں گے وہ بھی نہیں۔
باقی جن لوگوں نے نواز شریف اور جمہوریت کو لازم و ملزوم قرار دیا‘ وہ جعلی لبرل کسی دن جارج واشنگٹن کے بارے میں پڑھ لیں۔ دو دفعہ امریکہ کا صدر رہنے کے بعد جب تیسری دفعہ صدر بننے کا وقت آیا تو جارج واشنگٹن نے انکار کر دیا۔ سب نے اصرار کیا‘ لیکن جارج واشنگٹن نے کہا کہ اب آپ لوگ کوئی نیا صدر ڈھونڈیں۔ اس انکار کے پیچھے کوئی قانونی وجہ نہیں تھی‘ محض ایک بڑے آدمی کا وژن تھا۔ جو بندہ آٹھ برس میں اپنی قوم اور ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتا تو یقین رکھیں وہ اسی برس حکومت کے بعد بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ باقی چھوڑیں چالیس سال کی سیاست میں نواز شریف صاحب اتنا نہیں کر سکے کہ اپنی پارٹی کے اندر سے اپنا متبادل ہی اس قوم کو دے دیتے۔ بادشاہوں کے طرز پر اب بھائی بادشاہ بنے گا۔ وہ نہ رہے تو پھر ایک اور شریف بادشاہ بنے گا۔ شیر شاہ سوری کو صرف ساڑھے چار سال ملے تھے۔ اور ہزار سال بعد بھی اس کی اصلاحات کا چرچا ہے۔ دل دکھ سے بھر گیا ہے۔ لیڈر چاہے عدالت کے ہاتھوں برطرف ہو جائے‘ جاتے وقت اپنی قوم اور پارٹی سے ایسا الوداعی خطاب کرتا کہ برسوں یاد رکھا جاتا‘ لیکن نواز شریف صاحب برطرف ہونے کے بعد دوبئی اقامہ کی وضاحتیں دے رہے تھے۔
مجھے محمد مالک کا میرے اور عامر متین کے ساتھ لائیو ٹرانسمشن میں بولا گیا ایک جملہ یاد آ گیا۔ مالک نے نواز شریف صاحب سے ایک دفعہ پوچھا: آپ کیlegacy (میراث) کیا ہو گی؟ نواز شریف کے جواب پر محمد مالک دنگ رہ گئے‘ لیکن نواز شریف کی پارٹی اور قوم کو اقامہ پر دی گئی طویل اور مضحکہ خیر وضاحت کے بعد مجھے کوئی شک نہیں کہ تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف صاحب کی کل میراث اور ساری عمر کی کمائی دوبئی کا اقامہ ہو گا۔