جارجیا اٹلانٹا سے اعجاز بھائی کے پیغام نے دہلا کر رکھ دیاکہ''جو لوٹ مار آج دیکھ رہے ہیں‘کیا اس سے جاگیردار بہتر نہیں تھے؟‘‘
میں چپ ہوگیا ۔ واقعی ستر برس ہم جاگیرداروں کے خلاف لکھتے، بولتے اور لڑتے رہے(جو اپنی جگہ درست بھی تھا) ۔ اب ہم پر تاجر طبقہ مسلط ہوگیا ہے جاگیردار ان سے lesser evil تھے؟ برسوں ٹی وی پر ڈرامے دکھائے جاتے رہے کہ جاگیردار ظالم ہوتا ہے، مزارعے کو فصل کا پورا حق نہیں دیتا ، لڑکیاں اٹھوا لیتا ہے ، سکول اور سڑک نہیں بننے دیتا۔ ان ڈراموں اور تحریروں کے ذریعے ذہنوںمیں یہ بٹھادیا گیا کہ شہری اورکاروباری طبقہ روشن خیال اور ایماندار ہوتا ہے۔ مڈل کلاس ابھری تو تقدیر بدل جائے گی۔جاگیرداروں سے چھٹکارا پا کر ہی ملک ترقی کرے گا ۔ مڈل کلاس واحد امید تھی ۔ یہ بتایا گیا کہ پاکستان بننے کے بعد ملک جاگیرداروں کے قبضے میں رہا۔ ہر مارشل لاء میں یہ جاگیردار پیش پیش تھے۔ انہوں نے ہی معاشرے کو بدحالی تک پہنچا یا ۔ اسمبلیوں میں ان کی موجودگی سے زراعت پر ٹیکس نہ لگ سکا جو اس شہری کلاس اور دانشوروں کے نزدیک اس ملک کی پس ماندگی کی بڑی وجہ تھی۔ شہروں کی مڈل کلاس کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا ۔
اب کیا ہوا ؟ہماری پھر سے چیخیں کیوں نکل رہی ہیں؟ اس مڈل کلاس اور کاروباری طبقے نے ملک کا حشر کر دیا ہے۔ کراچی کی قتل و غارت میں مڈل کلاس کی پارٹی پیش پیش تھی۔ تاجروں نے سیاست کو بھی کاروبار بنا لیا۔جاگیردار اگر اپنی زمینیں بیچ کر سیاست کررہے ہیں تاکہ لوگوں پر ان کا ظلم و ستم جاری رہے اورگرفت کمزور نہ ہو تو کاروباری طبقات نے اپنا ایک گروہ بنا کر نواز شریف کی قیادت میں اسمبلیوں پر قبضہ کیا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ دیکھا دیکھی پیپلز پارٹی نے بھی کاروباریوں کو پارٹی میں نمایاں جگہ دی کیونکہ زرداری اور بینظیر کو سمجھ آگئی تھی کہ بغیر پیسے کے نواز شریف کے کاروباری دوستوں کے مال و زر کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا ‘دھیرے دھیرے دیہی سیاستدانوں کی گرفت کمزور پڑتی گئی اور شہری مڈل کلاس اور تاجروں کی نمائندگی بڑھتی گئی۔ 1985 میں جنرل ضیاء کی مہربانی سے یہ سائیکل پورا ہوا‘ جب پہلی دفعہ کاروباری خاندان کا برخوردار پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا ۔ پہلی بارسیاست میں کھل کر پیسے کا استعمال ہونا شروع ہوا۔ کاروبار میں اخلاقیات ، اصول اور ضمیر نہیں دیکھے جاتے، صرف منافع دیکھا جاتا ہے۔ خود بھی کھائو اور دوسروں کو بھی کھلائو۔ نواز شریف نے سیاستدانوں کو ایسے خریدنا شروع کیا تھا جیسے وہ سیاست میں آنے سے پہلے بیوروکریٹس کو خریداکرتے تھے۔ ایم پی ایز کو اے آئی ایس اور نائب تحصیلدار کی نوکریوں کا کوٹہ دیا گیا کہ وہ نوکریاں بیچ کر مال بنائیں۔الیکشن کے خرچے پورے کریں۔ جب اسلام آباد میں آئے ایم این ایز نے یہ لوٹ مار پنجاب میں دیکھی تو انہوں نے بھی دبائو ڈالا کہ ہماری چونچ بھی گیلی کرائو۔ یوں محبوب الحق نے ایم این ایز کو ترقیاتی فنڈز کی لت لگائی اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ یہی وجہ تھی کہ 1988 کے الیکشن میں ایک جاگیردار فاروق لغاری‘ ایک کاروباری نواز شریف سے ہار گیا کیونکہ اس بارمقابلہ دولت اور بولی کا تھا‘ جس کا بھائو اچھا تھا وہ جیت گیا ۔ نواز شریف کو علم تھا کہ کسی کو کیسے خریدنا ہے۔ چھانگا مانگا اور مری میں ایم اپی ایز اور ایم این ایز کو دولت کے درشن کرائے گئے۔ کھلے عام بولیاں لگیں اور اس کھیل میں نواز شریف فاتح بن کر ابھرے۔ وہ ایک رول ماڈل بن گئے۔ سیاست کرنی ہے تو نواز شریف جیسی کرو۔ سب کو خرید لو۔ جو نہیں بکتا جیل میںڈال دو۔ مخالفین کو بدنام کرو۔ بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی گندی تصویریں جہازوں سے پھنکوائو۔ ہرقیمت پر یہ کاروباری جنگ جیتنا تھی۔ کوئی بھی بولی لگانی پڑے‘لگا دو۔ معاشرے کو کرپٹ کرنا سرمایہ کاری سمجھا گیا۔ کرپشن کے ذریعے ہی اقتدار میں پہنچ کر اپنی ساری قیمت پوری کرسکتے تھے۔ پہلے پورا پنجاب اور پھر پورا ملک اس کام پر لگ گیا۔ سیاست کو کاروبار کا درجہ دے کر ہر ایک کو کرپٹ کر دیا گیا ۔ جو مال نہیں بنا سکتا تھا وہ نااہل قرار پایا‘ بیوقوف سمجھا گیا۔ایم این اے کے اپنے بچوں نے بھی باپ کا مذاق اڑانا شروع کردیاکہ'' گاڑی تک آپ کے پاس نہیں ہے‘‘۔ اولاد کے بعد محلے داروں، رشتہ داروں اور آخر میں انتخابی حلقے کے لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ چھوڑو یار، جو خود اپنے لیے کچھ نہیں کرسکا وہ ہمارے لیے کیا کرے گا؟۔
تاجروں کی حکومت نے اخلاقیات کو ایک گالی بنا کر رکھ دیا ۔ زمینداروں اور جاگیرداروں کو بھی اس کام پر لگا دیا گیا کہ سیاست کرنی ہے تومل لگا لو۔ نواز شریف کے اس سنہری اصول سے بینظیر بھٹو اور زرداری بھی متاثر ہوئے۔ نواز شریف ماڈل اپناتے ہوئے انہوں نے بھی دولت بیرون ملک بھیجنی شروع کردی۔ پھر ایک دن پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں سے آئے ہوئے ایم این اے اور سینیٹر خواتین اور مرد نے لکی مروت میں کروڑں روپے کے ترقیاتی فنڈز بیچنے شروع کردیے۔ ایک کروڑ روپے کے فنڈ کا ریٹ بیس لاکھ روپے لگا ۔ ٹھیکیدار نے چند ہزار کا واٹر پمپ لگا کر ایک کروڑ روپے لاگت دکھا کر بیس لاکھ روپے ایم این اے کو دے کر اسی لاکھ روپے کما لیے۔ پھر چل سو چل ۔
ان ایم این ایز کو پتہ نہ تھا کہ جنہوں نے انہیں ایک ایک کروڑ روپے دے کر بیس لاکھ روپے کمانے کا موقع دیا تھا وہ خود اربوں ڈالرز کا کھیل کھیل رہے تھے۔ انہوں نے اب جائیدادیں پاکستان میں رکھنے کی بجائے پاناما، دوبئی، لندن اور سوئس بینکوں میں رکھنے کا انتخاب کیا ۔ اپنے کاروبار کو فائدہ دینے کے لیے قوانین میں ترامیم کیں۔ اکانومک ریفارمز ایکٹ لا کر کروڑں ڈالر ملک سے باہر لے گئے۔ ہر بڑے ٹھیکے میں جو مال بنایا وہ باہر بھیج دیا ۔ سیاستدانوں کو کرپٹ کرنے کے بعد عدالتوں اور صحافیوں کی باری لگی۔ عدالتوں میں جسٹس ملک قیوم جیسے ججوں کو لایا گیا جو سیف الرحمن کے ایک فون پر بینظیر بھٹو اور زرداری کو سات برس قید کی سزا دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ منی لانڈرنگ کے لیے بیرون ملک اقامہ کلچر متعارف کرایا گیا ۔ گورنر سلمان تاثیر نے شہباز شریف کی طرف سے بھیجی گئی ہائی کورٹ میں 23 ججوں کی نامزدگی کی فہرست روک لی۔ گورنرنے پوچھا تو بولے ذرا نام پڑھو۔23میں سے بارہ جج کشمیری ہیں‘ اپنی برداری کے ہیں ۔ سلمان تاثیر خود بھی کشمیری تھے۔ بولے یہ سارے جج اب عمر بھر شریف خاندان کے کاروباری اور سیاسی مفادات کا خیال رکھیں گے۔ تاجروں کی حکومت نے اپنی مرضی کے آرمی چیف لانے کے لیے جرنیلوں سے خفیہ ملاقاتوں کے کلچر کو فروغ دیا۔ مرسیڈیز گاڑیوں کی چابیاں چیف تک کو پیش کی گئیں ۔ یہی کچھ میڈیا میں کیا گیا ۔ کالم نگاروں، دانشوروں میں عہدے بانٹنا شروع کردیے گئے۔ انہیں سمجھایا گیا کہ کس دنیا میں رہتے ہو؟۔ ہمارے لیے لکھو، بولو، ہمارے ہر غلط کام کو درست ثابت کرو اور عہدے پائو۔ہمارے مخالفین پر غرائو۔ مالکان کو اربوں روپے کے اشتہارات دیے گئے۔ چار برس میں دس ارب روپے کے اشتہارات میڈیا میں بانٹے گئے۔ بیوروکریسی میں جونیر افسران کو بڑے عہدے دے کر ان سے بندے تک قتل کرائے گئے۔ بیوروکریسی کا کام یہ رہ گیا وہ روزانہ بڑے منصوبے بنائے۔خود بھی کھائے اور ہمیں بھی کھلائے۔
پھر وکلاء کی باری لگی۔نام نہاد بڑے وکیلوں کو اپنا وکیل مقرر کر لیا گیا۔ جن کی فیس چند لاکھ روپے بنتی تھی انہیں خزانے سے کروڑں روپے دے کر خرید لیا گیا۔ باقی جو رہ گئے تھے انہیں سرکاری کارپوریشنز اور حکومت کے باقی کیسز دیے گئے تاکہ وہ چپ رہیں۔ بار ایسوسی ایشنز کو کروڑں کی گرانٹس دی گئیں ۔سب کا منہ بند ہوگیا ۔
آج کل وہ سب بھاڑے کے ٹٹو وکیل، صحافی، دانشور، ریٹائرڈافسران ہمیں سمجھاتے ہیں کہ قیامت قریب ہے کیونکہ ان کا ''ان داتا‘‘ نااہل ہوگیا ہے۔
جبکہ اعجاز بھائی دکھی دل سے کہتے ہیں جو لوٹ مار اور کرپشن کی کہانیاں تاجروں کی حکومت میںسامنے آرہی ہیں ان کے سامنے تو ماضی کے جاگیردار فرشتے لگنا شروع ہوگئے ہیں۔
ایک طرف گہری کھائی تو دوسری طرف خندق ... ہم نے ایک کا انتخاب کرنا تھا ... ہماری بدقسمتی ملاحظہ فرمائیں ہم دونوں میں جاگرے ہیں...!!