"RKC" (space) message & send to 7575

میرا قصور کیا تھا؟

نواز شریف صاحب کو اچانک پتہ چلا ہے انیس سو اکہتر کی ٹریجڈی کے بعد اگر ملک کو کوئی نقصان ہوا ہے تو وہ ان کی برطرفی ہے۔ حیران ہوتا ہوں‘ کب انسان کو یہ گمان ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ وہ اس کائنات کے لیے ناگزیر ہے۔ وہ نہ رہا تو آسمان گر پڑے گا۔ جب دنیا اس کے بغیر چلتی رہتی ہے تو یقینا جھٹکا لگتا ہو گا کہ یہ کیا ہوا۔ ابھی تک آسمان کیوں نہیں گرا۔ قیامت کیوں نہیں آئی۔ اب بھی سڑکوں پر ٹریفک چل رہی ہے۔ لوگ بازار آ جا رہے ہیں۔ بسیں، موٹریں‘ جہاز چل رہے ہیں۔ دنیا ویسے کی ویسے ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔ ہاں بدلا ہے تو ان کا اپنے بارے میں گمان۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ نہ رہے تو کچھ نہیں رہے گا۔
شاید جو لوگ بادشاہ بنتے ہیں ان کے ذہن اور ذہنی سوچ سب سے مختلف ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو چاہیں دنیا کے ساتھ کریں، دنیا ان کے ساتھ کچھ نہیں کر سکتی۔ وہ کبھی اس مائنڈ سیٹ سے نہیں نکل سکتے کہ اب وہ بادشاہ نہیں رہے۔ ہم زیادہ دور ماضی میں نہیں جاتے۔ صرف یہی دیکھ لیں کہ پچھلے پندرہ برس میں کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں‘ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان خود کو ناگزیر کیسے سمجھ لیتے ہیں‘ چاہے اپنی اس سوچ کے نتیجے میں ان کی ریاست کے لاکھوں لوگ کیوں نہ مارے جائیں‘ یا ان کا اپنا انجام بھی اچھا نہ ہو۔ 
ملا عمر صرف اس وجہ سے اپنی ریاست تباہ کرا بیٹھے کہ بھلا کیونکر وہ اپنے مہمان کو امریکہ کے حوالے کر دیں۔ امریکہ نے صرف یہ کہا تھا کہ اسامہ نے چونکہ اب مان لیا ہے کہ اس نے امریکہ پر گیارہ ستمبر کو حملے کرائے تھے‘ اس لئے اسے امریکہ کے حوالے کیا جائے۔ لیکن طالبان نے میزبانی کے نام پر نہ صرف اپنی حکومت تباہ کرا لی بلکہ ہزاروں افغان بھی مارے گئے اور باقی پاکستان میں بھیک مانگ کر گزارہ کرتے ہیں‘ لیکن سب فخر سے کہتے ہیں کہ دیکھیں جناب! ہم نے میزبانی کے اداب پورے کیے۔ ایک میزبان کو بچاتے بچاتے سلطنت بھی گئی اور لاکھوں لوگ بھی مارے گئے یا ہجرت پر مجبور ہوئے۔ حکمران نے کہا: جو فیصلہ میں نے کر دیا اس پر پکا رہوں گا‘ میں غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ 
لیبیا میں بھی یہی کچھ ہوا۔ کرنل قدافی ایک پل کے نیچے ہجوم کے ہاتھوں مارا گیا لیکن آخر دم تک سمجھتا رہا کہ اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ شاید دم نکلنے تک بھی وہ یہ سوچتا ہو گا کہ ابھی کوئی نہ کوئی معجزہ ہو گا اور وہ دوبارہ بادشاہ ہو گا۔ وہ معجزہ نہ ہو سکا۔ صدام حسین کو دیکھ لیں۔ کہا گیا کہ وہ اڑتالیس گھنٹوں میں ملک چھوڑ جائیں۔ وہ بھی یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ ان کے بغیر بھلا عراق کیسے چلے گا۔ بچے مروائے، خود بھی ایک بل سے برآمد ہوئے۔ پھانسی لگ گئے لیکن وہ یہ نہ سمجھ سکے ان کے اقتدار کا سورج ڈوب چکا ہے۔ وہ بھی پھانسی لگتے وقت یہی سوچتے ہوں گے کہ یہ سب کسی فلم کا سین ہے۔ ابھی ہدایت کار کی گونج دار آواز آئے گی... کٹ... اور ان کے گلے سے پھانسی کا پھندہ نکال لیا جائے گا۔ شاید بھٹو بھی یہی سوچتے سوچتے پھانسی چڑھ گئے کہ عوام ان کے لیے نکل کھڑے ہوں گے۔ پنڈی جیل پر حملہ کرکے انہیں چھڑا کر لے جائیں گے اور دوبارہ وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا دیں گے‘ جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت مضبوط ہے۔ بھٹو بھی شاید یہی سمجھتے رہے کہ ان کی موت کے بعد ہمالیہ روئے گا۔ وہ بھی یہ نہ سمجھ سکے کہ بہرحال دنیا چلتی رہتی ہے۔ اچھی یا بری۔
حیران ہوتا ہوں کہ کب کسی وزیر اعظم یا بادشاہ کے اندر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ناگزیر بن چکا ہے۔ شاید بادشاہ کے اردگرد درباری اور خوشامدی ہر وقت سر جھکائے رہتے ہیں۔ بادشاہ کے ہر اشارے پر وہ جھک جاتے ہیں۔ ایک اشارے پر کسی بھی انسان کی زندگی لی جا سکتی ہے یا جان بخشی کی جا سکتی ہے۔ آہستہ آہستہ بادشاہ اپنے بارے میں یہ سمجھنا شروع کر دیتا ہے کہ نہ اسے زوال آئے گا اور نہ ہی موت آئے گی۔ وہ لوگوں کے عروج و زوال کا فیصلہ کرے گا‘ لیکن اس کو زوال نہیں آئے گا۔ اس لیے جب زوال آتا ہے تو اسے یقین نہیں آتا کہ اچانک بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا۔ وہ تو سر پر آسمان اٹھائے بیٹھا تھا۔ اب دنیا کا کیا ہو گا۔ جبکہ اس کے درباری اپنے پرانے بادشاہ کو چھوڑ کر نئے بادشاہ کے گرد جمع ہو چکے ہوتے ہیں۔
شاید یہی وہ سوچ ہے جس نے نواز شریف صاحب کو اس حالت تک پہنچایا ہے۔ وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں کی اربوں کی جائیداد کا ان سے کوئی سوال نہیں کر سکتا تھا۔ وہ وزیر اعظم تھے اور انہیں جج نہیں ہٹا سکتے تھے۔ ایک معاشرے کو چلانے کے لیے جہاں پارلیمنٹ بنائی جاتی ہے‘ وہاں عدالت بھی بنائی جاتی ہے‘ لیکن ایک وزیر اعظم اپنے آپ کو عدالت سے بالا سمجھتا تھا۔ نواز شریف صاحب کو کوئی نہیں سمجھا سکتا کہ وہ کیوں نکالے گئے کیونکہ آپ کسی سوئے ہوئے بندے کو جگا سکتے ہیں لیکن جس کی آنکھیں کھلی ہوں اسے کیسے جگا سکتے ہیں۔ نواز شریف جس طرح کا طرزِ حکومت اختیار رکھے ہوئے تھے‘ اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ ان کی گورننس معاملات میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ سب معاملات اسحاق ڈار‘ ای سی سی میں دیکھ رہے تھے۔ باقی کاروبارِ حکومت ان کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے سنبھالا ہوا تھا؛ تاہم نواز شریف جو کام بڑی ایمانداری اور دلچسپی سے کر رہے تھے‘ وہ بیرونی ملکوں کے دورے تھے۔ ہر ہفتے وہ بیرون ملک جاتے تھے۔ ایک سو سے زائد دورے انہوں نے کیے۔ ان صحافیوں کا گروپ‘ جو ہر دورے میں ان کے ساتھ بیرون ملک ہوتا تھا‘ وہ مجھے جی ٹی روڈ پر ان کے ساتھ کہیں نظر نہیں آیا۔ شاید میرے وہ صحافی دوست اس وقت تک نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے دربار پہنچ چکے ہوں گے۔ اب وہ شاہد خاقان عباسی کو بتا رہے ہوں گے کہ خدا نے انہیں کتنے بڑے نیک کام کے لیے چنا ہے‘ اسی لیے نواز شریف کا پتا کاٹا گیا۔ اب شاہد خاقان عباسی ہی ان کے ان داتا ہوں گے۔ نواز شریف صاحب کے پاس چند روز تک کچھ وفاقی وزیر آتے جاتے رہیں گے تاکہ میاں صاحب کو یہ نہ لگے وہ نئے وزیر اعظم کے اسیر ہو گئے ہیں۔ پھر ان وزیروں کے رائے ونڈ دربار میں چکر لگنا کم ہو جائیں گے کیونکہ پاور کا مرکز شاہد خاقان عباسی ہوں گے۔ جب آپ وزیر اعظم نہیں رہتے تو آپ کو وزیر اعظم جمالی کی طرح راولپنڈی ریلوے سٹیشن پر بھی چھوڑنے کے لیے کوئی نہیں آتا۔ نواز شریف کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا چند ہزار لوگ تو جی ٹی روڈ پر انہیں الوداع کرنے ضرور آئے‘ لیکن ان کی اپنی پارٹی کا کوئی بڑا نام اور بندہ نظر نہ آیا‘ جس کا طعنہ چوہدری نثار علی خان نے بھی دیا۔ وقت کے ساتھ سب بدل جاتے ہیں۔ نواز شریف خود کون سا محمد خان جونیجو کو جنرل ضیا کے ہاتھوں برطرف کرانے کے بعد الوداع کرنے گئے تھے کہ انہیں کوئی الوداع کرنے آتا۔ پاور گیم اسی کو کہتے ہیں۔ جب تک سورج چڑھ رہا ہوتا ہے سب سلام کرتے ہیں۔ ڈھلتی شام اداس ہوتی ہے اور میاں صاحب کی سیاسی شام ڈھل چکی۔
نواز شریف بادشاہ ضرور تھے لیکن ہر بادشاہ بھی کنگ لئیر جیسا نہیں ہوتا جو تخت چھن جانے بعد جنگلوں کی خاک چھانتے اور طوفانوں کا سامنا کرتے اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ اس سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئی تھیں اور ٹریجڈی کا ذمہ دار اور کوئی نہیں وہ خود ہے۔ نواز شریف صاحب کی طرح کنگ لئیر بھی اپنی غلطیوں کا احساس کرنے سے پہلے جنگلوں کی خاک چھانتے ہوئے خود سے یہی سوال پوچھتا تھا: میرا قصور کیا تھا؟
ویسے تو قدرت ہم سب کو ہمارے قصور کی سزا ضرور دیتی ہے لیکن بادشاہوں کو سزا کے ساتھ اذیت بھی دینی ہو تو انہیں نواز شریف کی طرح ان کا قصور بھی نہیں بتاتی اور وہ بے چارے جی ٹی روڈ کی خاک چھانتے پوچھتے پھرتے ہیں... بتائو تو سہی‘ میرا قصور کیا تھا...؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں