زرداری صاحب اسلام آباد میں ڈیرے لگا بیٹھے ہیں۔ واردات کا طریقہ پرانا ہے۔ نواز شریف اپنی باری لے چکے۔ اب وہ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کی باری واپس ملنی چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی شاید سبق سیکھ لیا ہے کہ نواز شریف کو کتنی ہی رعایتیں کیوں نہ دے دیں، اعتبار زرداری پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ اچھے بزنس مین کی طرح کاروبار اور ڈیل میں وہ دھوکا نہیں کرتے۔ زرداری اور گیلانی کتنے سیانے تھے۔ انہوں نے جنرل کیانی کو تین سال کی توسیع دے دی۔ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا کو بھی مدتِ ملازمت میں دو دفعہ توسیع دی۔ دونوں (جنرل کیانی‘ جنرل پاشا) میمو گیٹ میں ان کے خلاف عدالتوں میں تحریری گواہیاں دیتے رہے تو بھی برا نہیں منایا۔ اقتدار چاہیے تھا کسی بھی قیمت پر۔ کیوں ان عوام کے لیے لڑیں جو جیل کے دنوں میں نہ بھٹو کو چھڑوانے گئے اور نہ ہی زرداری کو۔ پھر کیوں ناں ان سے بنا کر رکھو جو انہیں بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ اصل طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ پنڈی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں ایک ایسے صحافی اور کالم نگار کو ملاقات کے لیے بلایا گیا‘ جس کے بارے میں انہیں کہیں سے اندر کی خبر مل گئی تھی کہ پنڈی کے نئے سربراہ ان کی ذاتی طور پر عزت کرتے ہیں۔ اس کالم نگار کو خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کی کیوں اتنی عزت افزائی کی جا رہی ہے۔ کچھ دیر بعد راز کھل گیا۔ کافی دیر تک فوج کی تعریفیں ہوتی رہیں۔ وہی فوج جس بارے کہا تھا: آپ نے چند برس رہنا ہے اور ہم نے تا قیامت۔ مطلب یہ تھا کہ فوج تک پیغام پہنچائو کہ ہم انہی کے وفادار ہیں۔
زرداری کے امیج کو دوبارہ بہتر بنانے کی مہم شروع ہو چکی ہے۔ ٹی وی انٹرویوز روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔ زرداری صاحب کو ایک طریقہ بڑا اچھی طرح آتا ہے کہ کیسے اپنے سامنے بیٹھے بندے کو مسکراہٹ سے قتل کرنا ہے۔ وہ صحافیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ اکثریت میری طرح گائوں سے آئی ہوئی ہے‘ جہاں تھانے کی چوکی سے کسی کی دعا سلام نکل آئے تو وہ پورے گائوں کو آگے لگا لیتا ہے اور یہاں تو وزیر اعظم، صدر، وزیروں تک دعا سلام کیا، ذاتی دوستیاں نکل آتی ہیں۔ زرداری صاحب جانتے ہیں کہ ان لوگوں کو تھوڑی سی اہمیت دے دو‘ پھر کہاں کی صحافت اور کہاں کے اصول۔ پھر سب انہی کے گیت گاتے ہیں۔ زرداری نے بے شک پورا ملک لوٹ لیا ہو لیکن ہم لکھیں گے‘ چھوڑو یار! کچھ بھی ہو زرداری یاروں کا یار ہے۔ ہمارے جیسے معاشرے میں ایسے نعرے بہت بکتے ہیں۔ زرداری صاحب ہم لوگوں کی بنیادی نفسیات یا احساس کمتری کو خوب سمجھتے ہیں۔ پانچ سال تک ایوانِ صدر میں ماسوائے ایک دو صحافیوں اور ٹی وی اینکرز‘ کے انہوں نے کبھی کسی کو گھاس نہ ڈالی‘ کیونکہ ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اب جبکہ اگلے سال ملک میں نئے الیکشن کے ساتھ ساتھ‘ نیا گائوں بسنے کا وقت آ رہا ہے‘ تو ہر روز ایک آدھ کو فون یا سفارش ہو رہی ہے کہ آئیں بڑے صاحب سے ملواتے ہیں۔ مجھے یاد ہے‘ اس وقت کے وزیرِ قانون بابر اعوان نے کئی دفعہ کہا کہ آپ کو زرداری صاحب سے ملانا ہے۔ میں نے ہر دفعہ انکار کیا۔ بابر اعوان حیران ہوتے۔ میں ان سے کہتا: زندگی میں دو دفعہ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ ایک دفعہ دو ہزار تین میں‘ جب وہ پنڈی عدالت میں اپنے کیس کی پیشی پر آئے ہوئے تھے‘ اور مجھے ان کا انٹرویو کرنا تھا... دوسری بار گڑھی خدا بخش میں چند لمحوں کے لیے۔ اس کے بعد دل نہیں چاہا کہ ان سے ملا جائے۔ خبریں وہ دیتے نہیں، اور ان کا امیج اچھا کرنے کا ہمیں شوق نہیں۔
بابر اعوان گواہ ہیں۔ پانچ دفعہ انہوں نے کہا‘ پانچ دفعہ انکار کیا۔ مان لیتے ہیں‘ صحافی کو ہر ایک سے ملنا چاہیے‘ لیکن بعض ایسے کردار ہوتے ہیں‘ جن سے زندگی میں چند لمحے مل لیا جائے تو بھی لگتا ہے کہ مزید کی ضرورت نہیں رہی۔ اچھے اچھے سوالات ہم سے ہو نہیں سکتے‘ اور برے سوالات وہ سننے کے لیے آپ کو بلاتے نہیں۔ زرداری صاحب مسلسل بولتے ہیں اور مجال ہے سامنے والے کو بولنے کا موقع دیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے زیادہ سیانا بندہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ شاید درست کہتے ہوں‘ لیکن کیا کریں نواز شریف صاحب کی طرح ایک دن سب کی خوش قسمتی اور خوش فہمی جواب دے جاتی ہے۔
کسی اینکر یا کالم نگار نے ان سے یہ پوچھنے کی جرات نہیں کی کہ جناب وہ ساٹھ ملین ڈالرز‘ جس کے لیے آپ نے گیلانی کو قربان کیا‘ کہاں گئے؟ سوئس بینکوں سے نکلوا کر کس جگہ لے گئے۔ ہم سب جاتے ہیں، گپیں لگا کر آ جاتے ہیں، اور ایسے کرداروں کو اچھا بنا کر عوام کی رائے پھر ہموار کرتے ہیں‘ اور وہ پھر نیا منجن عوام کو بیچنے کو تیار ہوتے ہیں۔
لیکن زرداری صاحب کی اس سمجھداری کا اس ملک کو کیا فائدہ ہوا؟ ملک کو چھوڑیں‘ سندھ کو کیا فائدہ ہوا؟ دس برس کے اقتدار کے بعد سندھ اور کراچی کی کیا حالت ہے؟... جتنا گندہ شہر کراچی بن چکا ہے شاید ہی دنیا میں کوئی اور ہو۔
مذکورہ صحافی دوست نے بتایا: جب وہ زرداری سے ملے تو وہاں ایک طرف فیصل صالح حیات بیٹھے تھے تو دوسری طرف عاصمہ ارباب عالمگیر تھیں۔ فیصل صالح کی وہ ویڈیو کبھی نکال کر دیکھیں‘ جس میں ایک ٹی وی شو کے دوران انہوں نے زرداری کی کرپشن، اس کے دوستوں اقبال زیڈ احمد اور انور مجید کے پاور پلانٹس پر تنقید کی تھی۔ انور مجید کے پاور پلانٹ کا مطلب ہے زرداری۔ اسی انور مجید نے اب کراچی کے قریب پاور پلانٹ لگایا ہے جس کے لیے سرکاری سستے نرخوں پر گیس لینے کے لیے پچھلے دنوں سندھ کے وزیر اعلیٰ فیڈریشن سے لڑائی لڑ رہے تھے۔ اب شوگر ملیں اپنی ہیں، پاور پلانٹس اپنے ہیں، سندھ میں ہزاروں ایکڑ زمینیں اپنی ہیں۔ حکومت اپنی ہے‘ اور اب ماشاء اللہ اینکرز بھی اپنے اپنے رکھے ہوئے ہیں‘ جو زرداری صاحب کے سامنے بیٹھ کر ان کی قاتلانہ مسکراہٹ سے متاثر ہو کر مسکراتے زیادہ اور سوالات کم کرتے ہیں۔
فیصل صالح حیات اب ہر وقت زرداری کے دائیں بائیں پائے جاتے ہیں۔ وہی فیصل صالح حیات جو سات برس قبل ایک ٹی وی شو میں راجہ پرویز اشرف‘ زرداری اور ان کے حواریوں کی کرپشن ایکسپوز کرکے ہمیں بتا رہے تھے کہ زرداری اور ان کے حواری ملک کو جس طرح لوٹ رہے ہیں‘ کسی نے آج تک نہیں لوٹا۔ آج وہی زرداری کے دائیں جانب بیٹھتے ہیں اور سنا ہے قہقہوں کی بارش میں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ بھی مارے جاتے ہیں۔ مبارک ہو! زرداری اور فیصل صالح حیات کی پرانی دوستیاں بحال ہو گئی ہیں۔
دوسری طرف عاصمہ ارباب عالمگیر ہیں۔ یہ وہی میاں بیوی ہیں‘ جو گیلانی دور میں مواصلات کی وزارت میں چھکے مار رہے تھے۔ موصوفہ نے اپنے میاں کی وزارت کی سب ڈیلیں کرنا ہوتی تھیں۔ ایک غیر ملکی کمپنی نے ایک ٹھیکے کے بدلے نقد پچیس لاکھ ڈالرز کا کمیشن سنگاپور میں ایک بینک میں پے آرڈرز پر ادا کیا‘ اور انہوں نے وہی دوبئی میں نکلوا لیا۔ اسی پیسے سے لندن میں چار فلیٹس پندرہ کروڑ روپے میں خریدے گئے۔ نیب نے پچھلے سال ریفرنس بنا کر بھیجا۔ کسی کی کیا مجال کہ عاصمہ ارباب کے خلاف اس ریفرنس کی منظوری دے۔ وہ بھی آج کل اس وقت زرداری کے ساتھ بیٹھی ہوتی ہیں‘ جب ہمارے اینکر اور کالم نگار دوست زرداری صاحب کا امیج بہتر کرنے کے لیے دوستانہ میچ کھیلنے جاتے ہیں۔ کسی کو جرات نہیں ہوتی کہ فیصل صالح حیات یا عاصمہ ارباب سے مندرجہ بالا معاملات کے بارے میں کوئی سوال کر لیں۔
وہی پرانے جال، وہی پرانے شکاری‘ وہی ہم تعلقات بنانے کے شوقین صحافی‘ اور وہی ہمارے دنیا کے سب سے سمجھدار اور ذہین انسان... ڈاکٹر آصف علی زرداری... نعرے لگاتے عوام... اور ہمارا ڈارلنگ زرداری سب پر بھاری۔