"RKC" (space) message & send to 7575

ٹرمپ سے پروفیسر غنی تک!

ٹرمپ کی دل دہلا دینے والی دھمکی سے جہاں پورے پاکستان میں حب الوطنی کے نعرے گونجے اور ہر سو نعروں کی صدائیں بلند ہوئیں‘ میرا دھیان ڈیڑھ دو سال پہلے ملنے والے چکوال کی خوبصورت دھرتی کے بیاسی سالہ آسٹرولوجسٹ دوست پروفیسر غنی جاوید کی طرف چلا گیا۔
سابق کمشنر اسلام آباد طارق پیرزادہ کے گھر جمی محفل میں ایک رات سابق سینیٹر طارق چوہدری اور خالد بھائی سے دور‘ ایک کونے میں بیٹھے پروفیسر صاحب مجھے سنجیدگی سے اس امر پر راضی کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ میں ان کی فرمائش پر ایک کالم لکھوں۔ میں رضامند نہیں ہو رہا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے۔
وہ بولے: لوگوں کا کیا ہے‘ کرنے دو مذاق‘ تم لکھو‘ اپنا فرض پورا کرو‘ پاکستان کے لوگوں کو سمجھائو کہ ملک کے لیے بہت برا وقت آرہا ہے‘ صرف پاکستان نہیں‘ پوری دنیا خطرات کی طرف جا رہی ہے‘ پاکستان بھی اس تباہی کا شکار ہو سکتا ہے‘ اس بار حالات 1971ء سے زیادہ خطرناک ہیں‘ اور پاکستان کوئی بہت بڑا نقصان اٹھائے گا‘ بہتر ہے ہم سدھر جائیں۔ ان کی باتیں سن کر میں دہل کر رہ گیا تھا۔ میرے چہرے پر پھیلے خوف کو محسوس کرکے طارق پیرزادہ اور طارق چوہدری‘ دونوں چونکے اور پوچھا: پروفیسر نے کیا کہہ دیا؟ طارق پیرزادہ ہمیشہ کہتے: پروفیسر کی اچھی خبر پوری ہونے میں شاید کچھ وقت لے‘ لیکن بری پیشگوئی شام تک پوری ہو چکی ہوتی ہے۔ طارق چوہدری نے بتایا: میں نے بینظیر بھٹو کے بارے میں پوچھا‘ جب وہ وطن لوٹیں‘ تو پروفیسر بولے: اگر دسمبر میں ان کی جان بچ گئی تو پھر بتائوں گا۔ نواز شریف کے ایک دوست پروفیسر صاحب کو وزیر اعظم ہائوس لے گئے کہ زائچہ بنائو۔ نواز شریف کی والدہ سے تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش پوچھ کر بتایا گیا۔ پروفیسر غنی کافی دیر کھوئے رہے‘ اور پھر اچانک بولے: نواز شریف تو سیدھے جیل جانے والے ہیں۔ وہ بندہ ڈر گیا اور بولا: خدا کا خوف کرو پروفیسر‘ مروائو گے۔ اس سیانے بندے نے پروفیسر سے کہا: نواز شریف صاحب کو مت بتانا‘ لیکن پروفیسر ڈٹ گیا کہ میں تو بتائوں گا۔ وہ بندہ فوراً اسے وزیر اعظم ہائوس کے باہر چھوڑ آیا کہ آپ گھر تشریف لے جائیں۔ کچھ عرصہ بعد نواز شریف ہتھکڑیاں پہنے جیل میں تھے۔ 
پروفیسر غنی جب بھی ملتے ہیں‘ مجھے کہتے ہیں: آپ بار بار لکھا کریں کہ ملک کو بہت خطرات ہیں‘ ہم سنبھل جائیں‘ ہم خود بچ جائیں بڑی بات ہے‘ ہم ٹھیکداری چھوڑ دیں۔ میں کہتا ہوں: پروفیسر صاحب! کاش میری اتنی طاقت ہوتی تو اپنے ملک کو دنیا کا بہترین ملک بنا دیتا‘ دنیا لیکن آپ کے اور میرے خوابوں پر بھلا کیسے چلتی ہے۔ وہ مایوس ہو کر خاموشی اختیار کر لیتے۔
مجھے پتہ ہے‘ ٹرمپ کی دھمکی کو ہمارے ہاں سنجیدہ نہیں لیا جا رہا ہے۔ ہم پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ہوش سے زیادہ جوش بھری تقریریں۔ پرانے احسانات کی ان گنت کہانیاں۔ لڑنے مرنے کی قسمیں کھائی جا رہی ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے بڑھکیں ماری جا رہی ہیں۔ مجھے علم ہے‘ پروفیسر غنی اس وقت ڈسٹرب ہوں گے۔ عرصہ ہوا‘ ان سے بات نہیں ہوئی۔ جب وہ کوئی بری پیشگوئی کرتے ہیں تو میں ان سے پوچھتا ہوں: یہ ٹل نہیں سکتی؟ وہ مسکرا دیتے ہیں اور مجھے بوڑھے یونانی دیوتا یاد آ جاتے ہیں‘ جو ڈلفی کے مقدس مقام پر پیش گوئیاں کرتے تھے‘ جن سے واضح ہوتا کہ قسمت کے لکھے کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ 
پروفیسر غنی کو فون کیا لیکن بات نہ ہو سکی۔ میرا دل چاہ رہا تھا‘ انہیں بتائوں کہ حالات واقعی اس طرف جا رہے ہیں‘ لیکن کیا کریں‘ جن کے ہاتھوں میں اس ملک کی قسمت ہے‘ وہ ہم سے زیادہ بہادر ہیں۔ ستر ہزار شہری شہید کروانے کے بعد اب ہماری زندگی کا رنگ لہو میں ڈھل چکا ہے۔ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یورپ میں پھیلنے والی دہشت گردی کا جواب ہمیں یہاں ملے گا۔ پوری دنیا ہمیں دہشت گرد سمجھتی ہے۔ ہم اتنے سمجھدار ہیں کہ بندے ہمارے مرے‘ امریکہ کا ساتھ ہم نے دیا‘ لیکن اب امریکہ انڈیا کو کہہ رہا ہے کہ وہ افغانستان میں اس کی مدد کرے۔ ہم پندرہ برس کے تعاون کے بعد اس حالت کو پہنچ چکے ہیں کہ امریکہ ہم پر بھروسہ نہیں کرتا۔ پارلیمنٹ میں تقریری مقابلے میں کسی نے فوجی قیادت سے پوچھنے کی زحمت کی کہ ہمیں بتایا جائے کہ آپ کے ہاتھ میں ستر برسوں سے امریکہ اور افغان پالیسی ہے تو پھر ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ فوجی قیادت کی پالیسی امریکہ‘ افغانستان پر چلتی ہے تو پھر سوال و جواب بھی انہی سے ہونے چاہئیں۔ کسی ایک نے بھی اپنی تقریر میں نہیں کہا کہ فوجی قیادت کو پارلیمنٹ بلا کر ان سے پوچھا جائے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں فوجی قیادت کو بلا کر سوال و جواب کیے جائیں‘ جیسے امریکہ میں رمزفیلڈ سے لے کر کنڈولیزا رائس، ہلری کلنٹن اور دیگر امریکہ جنرلوں سے ہوتے ہیں‘ اور کانگریس مین ان کا پسینہ نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ سب نے ایک ہی نعرہ بلند کیا۔ ایسی اندھی حب الوطنی آپ کو عراق، افغانستان وغیرہ کی طرح مروا سکتی ہے آپ کی نسلوں کو بہتر مستقبل نہیں دے سکتی۔ 
سمجھداری کا تقاضا ہے کہ ہم ٹرمپ کا رخ کسی اور طرف کر دیں‘ جیسے ایک سمجھدار سردار نے کیا تھا۔ جب ایک شرارتی بچے نے دکان کے سامنے سودا لینے کی غرض سے بیٹھے ہوئے سردار سے نازیبا حرکت کی تو اس نے ناراض ہونے کی بجائے اسے چونّی تھما دی۔ دکاندار حیران ہوا تو بولے: فکر نہ کرو۔ میں نے اس کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ اب یہ کسی اور طاقتور کو چھیڑے گا اور بہت کُٹ کھائے گا۔ ٹرمپ کے ساتھ بھی ہمیں یہی رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آدم بُو آدم بُو کرتے اس جن کو پاکستان کھینچ کر نہ لے آئیں‘ بلکہ کچھ دے دلا کر اس کا رخ کسی اور بڑے کی طرف کر دیں۔ دنیا میں بڑے بڑے بدمعاش رہتے ہیں۔ ہم کچھ عرصے کے لیے اپنی دھاک بٹھانے سے دستبردار ہو جائیں‘ تو بہتر ہو گا۔ ہم نے بہت جانوں کا صدقہ دے دیا۔ کسی اور کو اب اس اوکھلی میں سر دینے دیں۔ اس قوم کو معاف کر دیں۔ اس نے اتنے جرم نہیں کیے جتنی اسے افغانستان میں سٹریٹیجک ڈیپتھ کے نام پر نہ ختم ہونے والی سزا مل رہی ہے۔ جانے دیں... افغانستان پھر کبھی فتح کر لیجیے گا۔ اس وقت حالات موافق نہیں۔ یہ رومانس بھی نکال دیں دل سے کہ ہم نے ایک سپر پاور کو افغانستان میں شکست دی تھی‘ اب دوسری کو دیں گے۔ اُس وقت امریکہ اور یورپ سمیت سب ہمارے پیچھے کھڑے تھے اور آج وہی امریکہ اور یورپ ہمارے خلاف طبل جنگ بجا رہے ہیں۔ 
امریکہ کو افغانستان میں شکست دینے والے دانشوروں کے لیے عرض ہے: کسی گائوں میں سیانا رہتا تھا۔ ایک دن بچہ کنویں میں گر گیا۔ باہر نہ نکل پایا۔ پورا گائوں اکٹھا ہو گیا۔ سیانے کو بلایا گیا۔ وہ بولا: کسی جوان کو کنویں میں اتاریں۔ بچے کی کمر میں رسا باندھ کر اوپر اٹھا لیں۔ تھوڑی دیر بعد بچہ باہر نکل آیا۔ سب نے سیانے کی تعریف کی۔ چند روز بعد وہی بچہ درخت پر چڑھ گیا اور نیچے نہیں اتر سکتا تھا۔ پھر سیانے کو بلایا گیا۔ سیانے نے کہا: ایک بندہ اوپر درخت پر چڑھ جائے۔ رسہ بچے کی کمر سے باندھے۔ رسہ بندھ گیا تو اس نے درخت پر چڑھے شخص سے کہا: اب رسی نیچے پھینک دو۔ نیچے کھڑے لوگوں سے کہا: رسی کھینچو۔ رسی کھینچی گئی تو بچہ نیچے آ گرا اور فوراً مر گیا۔ سب گائوں والوں نے کہا: اوئے سیانے تیرا بیڑا غرق‘ بچہ مار دیا۔ سیانے نے کندھے اچکائے اور یہ کہہ کر چلتا بنا کہ اس کی موت آئی ہوئی تھی‘ ورنہ اسی طریقے سے میں نے بچے کو کنویں سے نکال لیا تھا۔
اس کہانی کا سبق یہ ہے کہ ضروری نہیں‘ روس کو افغانستان میں جس فارمولے سے شکست دی گئی‘ اسی فارمولے سے اب امریکہ کو بھی شکست دی جا سکتی ہے۔ باقی کرنی آپ نے اپنی مرضی ہے، جو مزاج یار میں آئے۔ ستر ہزار شہری شہید اور ملک تباہ کرانے کے بعد بھی ہمیں عقل نہیں آئی تو لگے رہو منا بھائی۔ 
مجھے غم صرف پروفیسر غنی کا ہے‘ جو قدیم یونانی دیوتائوں کی طرح خدا کی دی ہوئی صلاحیت کی وجہ سے مستقبل میں جھانک سکتے ہیں اور یقین کریں دو برسوں سے بہت خوفزدہ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں