قومی اسمبلی میں سوموار کے روز جس طرح سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور وزیر قانون زاہد عالم گھبراہٹ کے عالم میں‘ سب پراسس بلڈوز کرکے بغیر کوئی بحث کرائے شور شرابے میں آئین میں ترامیم پاس کرا رہے تھے، وہ دیکھ کر پہلی دفعہ سمجھ میں آیا کہ یہ ہے وہ اصلی نسلی جمہوریت جس کو لانے کے لیے میاں نواز شریف صاحب دس برس قبل لندن سے تشریف لائے تھے۔
پریس گیلری میں بیٹھے یاد آیا دو ہزار چار میں جب جنرل مشرف نے قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمن اور دیگر کے ساتھ ایک ڈیل‘ اور آئین میں جو ترمیم کی تھی‘ اس پر نواز شریف اور پیپلز پارٹی کو شدید اعتراضات تھے۔ اس وقت نواز شریف کے ایم این ایز نے اسی طرح آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا‘ جیسے کل تحریک انصاف والے شور مچا رہے تھے۔ اس وقت نواز شریف کے حامیوں کا کہنا تھا کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ اب یہی بات پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف والے کہہ رہے ہیں۔ جنرل مشرف اور نواز شریف نے اپنے اپنے انداز میں جمہوریت پر حملہ کیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو اس وقت بڑھ چڑھ کر جنرل مشرف کی اس ترمیم کا دفاع کر رہے تھے‘ ان میں زاہد حامد اور دانیال عزیز جیسے وزیر بھی شامل تھے۔ گزشتہ روز بھی عجیب سماں تھا۔ وہی زاہد حامد نااہل شخص کو کسی بھی پارٹی کا صدر بنانے کی ترمیم پیش کر رہے تھے۔ دانیال عزیز تو پورا زور لگا کر سپیکر کو بتا رہے تھے کہ وہ اس ترمیم کے حق میں ہیں‘ اس ملک سے کسی کو سپریم کورٹ سے سزا ملی ہو تو وہ پھر بھی پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے جیسے جنرل مشرف وردی کے ساتھ صدر بن گئے تھے۔
شاید ایسے کردار ہی ہر دور میں فاتح قرار پاتے ہیں۔ جنرل مشرف کے بھی یہ لوگ قریب تھے اور آج نواز شریف کا بھی جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔ زاہد حامد جس طرح نواز لیگ کے ارکان اسمبلی کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ہاتھ اٹھا کر بتا رہے تھے کہ اب جب سپیکر پوچھے تو ''ہاں‘‘ کہنی ہے، اس سے اندازہ ہوا کہ جمہوریت کا سودا کتنے میں بک رہا ہے جبکہ ہمیں دن رات بتایا جاتا ہے کہ دراصل ملک اور جمہوریت کی دشمن جہالت ہے۔ لوگ پڑھ لکھ جائیں تو پھر وہ بہتر لیڈرشپ کا انتخاب کرتے ہیں اور جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ اب کوئی بتائے گا کہ زاہد حامد اور دانیال عزیز سے زیادہ کون پڑھا لکھا ہو گا۔ دونوں نے جنرل مشرف کے وردی کے ساتھ صدر بننے کا قانون پاس کرایا تھا اور اب نااہلی کے باوجود نواز شریف کو پارٹی صدر بنانے کا قانون بھی پاس کرایا۔ ہم جو اس وقت جنرل مشرف کے وردی کے ساتھ صدر بننے کے خلاف لکھ رہے تھے‘ ان لوگوں کے نزدیک جمہوریت کے دشمن تھے۔ اور آج بھی جب ہم نواز شریف کو سپریم کورٹ کی سزا کے باوجود پارٹی صدر بنانے کے خلاف لکھ رہے ہیں تو بھی جمہوریت دشمن ہیں۔ جو ایک فوجی کو وردی کے ساتھ صدر بنانے کے لیے ووٹ ڈال رہے تھے یا اب ایک نااہل شخص کو پارٹی کا صدر بنا رہے تھے‘ وہ جمہوریت کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ کمال ہے!
داد دیں ان لوگوں کو جو جنرل مشرف اور نواز شریف‘ دونوں کو خوش رکھنے کا فن جانتے ہیں۔ کبھی خود اور کبھی ان پر حیرانی ہوتی ہے کہ ہم کس مٹی کے بنے ہیں۔ یہ ان کی سمجھداری اور چالاکی نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ ان لوگوں سے بھی ووٹ بٹور لیتے ہیں جو جنرل مشرف کو ووٹ ڈالتے تھے۔ ان لوگوں کا کیا یہی کام ہے کہ جس کے پاس طاقت ہے اس کے گن گائو؟
سب گلے پھاڑ پھاڑ کر سپیکر کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے اور سب کی نظریں سپیکر کی کرسی سے زیادہ زاہد حامد کی طرف تھیں کہ وہ کب انہیں اشارہ کریں اور وہ زور زور سے چلانا شروع کریں۔ کسی کو کچھ فکر نہ تھی کہ اس بل میں کیا ہے، اس کے فائدے اور نقصانات کیا ہوں گے۔ اس سے وہ پارلیمنٹ کو مضبوط کر رہے ہیں یا کمزور؟
پارلیمنٹ گیلری سے دیکھتے ہوئے احساس ہوا کیسے چند لوگ پارلیمنٹ کو ہائی جیک کر لیتے ہیں۔ جو نواز شریف کے نعرے لگا رہے تھے ان میں سے اکثریت کو میں نے خود اپنی آنکھوں سے جنرل مشرف کے نعرے لگاتے سنا تھا۔ اس وقت بھی ان لوگوں کے پاس ہزاروں دلائل تھے اور آج بھی وہ دلائل سے لدے ہوئے ہیں۔
کبھی میں حیرانی سے سوچتا ہوں‘ یہ لوگ ایسا کیسے کر لیتے ہیں؟ ان کا ضمیر ان کو کیسے یہ سب کچھ کرنے دیتا ہے۔ وہ یہ واردات کیسے ڈال لیتے ہیں۔ ویسے جنرل مشرف اور نواز شریف ایک دوسرے کے شدید مخالف تھے‘ لیکن یہ لوگ پھر بھی دونوں کو خوش رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک نوکری ہے۔ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتاکہ ان کا ماسٹر کون ہے۔ ان کی چھوٹی موٹی خواہشات ہیں جو بھی پوری کر دے‘ یہ اسی کے ساتھ رقص کرنے کو تیار ہیں۔
تو کیا اس طرح کے قوانین سے جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے؟ جس طرح بلڈوز کرکے ترامیم پاس کرائی گئی ہیں‘ اس سے جمہوریت آگے جائے گی یا پیچھے؟
مجھے پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کرتے پندرہ برس ہو چکے ہیں اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ان برسوں میں، میں نے جمہوریت کو مزید کمزور ہوتے ہی دیکھا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کے لیے جمہوریت کی پیٹھ میں چھرے گھونپے جاتے دیکھا ہے۔ کوئی بھی رعایت کرنے کو تیار نہیں۔ ہر ایک اس چکر میں ہے اس کا دائو کب لگ سکتا ہے۔
نواز شریف صاحب کی تقریر سنتے ہوئے کیا آپ کو کبھی احساس ہوا کہ یہ بندہ اس ملک کا تین مرتبہ وزیر اعظم رہا ہے؟ وہ فرماتے ہیں: ان کا احتساب کوئی نہیں کر سکتا۔ وہ فرماتے ہیں: صرف عوام ہی ان کا احتساب کر سکتے ہیں‘ کسی عدالت یا ادارے کو ان کا احتساب کرنے کی اجازت نہیں۔ تو پھر یہ عدالتیں کیوں آئین اور قانون میں رکھی گئی ہیں؟ پھر یہ سب قانون ملک کے دیگر لوگوں پر کیوں لاگو ہوتا ہے؟
مجھے اب شک نہیں رہا کہ اس ملک کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے۔ پہلے آمر آتے تھے۔ وہ ہائی جیک کر لیتے تھے۔ ہمیں جمہوریت کے فوائد کے نام پر بلیک میل اور پھر اکٹھا کرکے اقتدار حاصل کر لیا جاتا اور بعد یہ سیاستدان ملک کو وہیں دس برس پیچھے لے جاتے ہیں‘ جہاں چھوڑا تھا۔ یہ کیوں ہوتا ہے کہ ہر دس برس بعد سیاستدان اپنے آپ کو مظلوم بنا کر عوام کے سامنے پیش ہو جاتے ہیں؟
اب سب پوچھتے ہیں کہ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں ایسے ہوتا ہے‘ جو یہاں سیاسی وزیر اعظم کے ساتھ ہوا؟ تو کیا میرے دوست بتا سکتے ہیں کہ دنیا میں کوئی اور ملک ہے جس کا وزیر اعظم چار سال میں صرف دو دفعہ سینیٹ گیا ہو، آٹھ ماہ وہ قومی اسمبلی نہ گیا ہو، چھ چھ ماہ تک کابینہ کا اجلاس نہ بلائے، چار سال تک پارلیمانی پارٹی کا اجلاس نہ بلائے، جو چار سال میں ایک سو سے زائد غیرملکی دورے کر لے، تین سو دن پاکستان سے باہر گزارے اور پھر بھی ایکسپورٹس کا گراف گر جائے، اور پینتیس ارب ڈالر کے قرضے لے لے۔ یہ کہاں ہوتا ہے؟
میرا خیال ہے کہ نواز شریف صاحب کو جمہوریت اور پارلیمنٹ صرف وزیر اعظم بننے کے لیے چاہیے۔ اس سے زیادہ انہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ویسے عرض ہے کہ جارج واشنگٹن جب دو دفعہ امریکی صدر بن چکے اور تیسری دفعہ کہا گیا کہ وہ بن جائیں تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ بہت کر لیا‘ اب کسی اور کو صدر بنا لیں۔ ہمارے ہاں تو تین تین دفعہ وزیر اعظم بن کر بھی دل نہیں بھرتا۔
ویسے لیڈرشپ کا ڈی این اے صرف یورپ میں ہی کیوں بنتا ہے؟ بھارتی فلم ڈیڑھ عشقیہ کا ایک ڈائیلاگ یاد آیا۔ ایک خوبصورت مغنیہ پر عاشق کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ خاتون کو کیسے اپنا دیوانہ بنایا جائے۔ اس پر ایک صاحب بولے اس کے لیے نوابی ڈی این اے ہونا ضروری ہے۔ موصوف نے بیقراری سے پوچھا: پھر ایسا نوابی ڈی این اے کہاں سے مل سکتا ہے؟
میرا بھی حسین اور خوبصورت مغنیہ کے اس بیقرار ناکام عاشق کی طرح کا سوال ہے۔ کوئی بتائے گا کہ یہ لیڈری والا ڈی این اے کہاں سے ملے گا؟