شاید پاکستان میں فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے طے کر لیا ہے وہ دس سال سے زیادہ حکومت نہیں کریں گے اور ایک دوسرے کو موقع دیں گے۔ ممکن ہے یہ معاہدہ بغیر لکھت پڑھت کے کیا گیا ہو لیکن انڈر سٹینڈنگ یہی ہے کہ دس سال بعد دوسرے کی باری آنی ہے۔ دونوں ملک میں عوام کی خواہشا ت کا نعرہ مار کر آتے ہیں ۔ فوجی حکمران ہمیشہ خاموش اکثریت کا نعرہ مار کر اقتدار میں آتے ہیں تو سیاسی عوام کو اقتدار کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ دونوں کی قوت عوام ہی ہیں۔
تو کیا وہ لمحہ قریب ہے جب سب کچھ لپیٹ دیا جائے گا؟ دس سال پورے ہونے والے ہیں۔ دو ہزار آٹھ کے شروع میں جنرل مشرف کو پیپلز پارٹی کو اقتدار سونپنا پڑا تھا۔ چند ماہ بعد دس برس پورے ہونے والے ہیں۔ سائیکل پورا ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکمرانی سے عزیر بلوچ نکلا ہے تو نواز شریف سے پانامہ نکلا ہے۔ زرداری کی سندھ میں سترہ شوگر ملیں نکلی ہیں۔ درجنوں دوست نکلے ہیں۔ شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم حسین اور ایان علی جیسے کردار نکلے ہیں۔ کراچی شہر کی بربادی نکلی ہے۔ کراچی اور اندورن سندھ کو برابر کر دیا گیا ہے۔ دونوں کی حالت ایک جیسی ہے۔ اب اردو سپیکنگ بھائی شکایت نہیں کر سکتے ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوا۔ جتنے پس ماندہ سندھی تھے اتنا ہی کراچی کو کر دیا گیا ہے۔ عزیر بلوچ کے انکشافات کے بعد بھی زرداری صاحب کو داد دیں کہ وہ دیگر صوبوں میں جا کر تقریریں کرتے پھر رہے ہیں وہ ان کی حالت بھی ایسے بدلیں گے جیسے انہوں نے سندھ کی بدلی۔ رہے نام اللہ کا۔
دوسری طرف مرکز میں یہ حالت ہے کہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بیٹھے ہیں۔ لڑائی کب کی کھل کر سامنے آ چکی۔ سیاستدانوں کے پاس دس برس تھے یہ ملک کی حالت بدل کر رکھ دیتے لیکن وہ یہ طے کرچکے ہیں اپنے بچوں کی قسمتیں بدلیں گے‘ ملک کی نہیں۔ جب ناکام ہونے لگتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ انہیں یہ ملک نہیں چلانے دیا جاتا۔ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے اگر ان کی اہم معاملات (پاک، بھارت افغانستان یا امریکن معاملات) پر بات نہیں سنی جاتی تو ملک کے اندر تبدیلی لانے کے لیے انہیں کون روکتا ہے؟ جب یہ خود مار دھاڑ کر رہے تھے تو کسی نے روکا؟ جب بقول عزیر بلوچ‘ وہ زرداری کو سترہ شوگر ملوں کا قبضہ لے کر دے رہے تھے یا بلاول ہائوس کے اردگرد گھروں کے مالکان کو دھمکیاں دے کر سستے گھر خرید رہے تھے تو اس وقت ان کا کسی نے ہاتھ روکا؟ اگر زرداری ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین کو نکال کر لے گئے اور ان کا کوئی ہاتھ نہیں روک سکا تو سندھ کی ترقی پر کس نے روکنا تھا؟
یہ مشورہ بھی پنڈی والوں کا تھا کہ نواز شریف آٹھ آٹھ ماہ قومی اسمبلی نہ جائیں، چھ ماہ کابینہ کا اجلاس نہ بلائیں، سینیٹ سال میں ایک دفعہ جائیں اور سو سے زیادہ دورے کر لیں۔ اور اسحاق ڈار کو داتا دربار اور بری امام کے لنگر سمیت چوراسی کمیٹیوں تک کا بھی سربراہ مقرر کر دیں۔ کیا جمہوریت کا مطلب یہ ہوتا ہے چند لوگ محض اپنے خاندان سمیت ملک پر قابض ہوجائیں؟ چند صحافتی طبلچیوں کو بڑے عہدے اور لاکھوں کی تنخواہیں دے کر یہ ثابت کرائیں اگر ان کا احتساب ہوا تو ملک نہیں رہے گا۔ وہ دن رات ٹی وی اور کالموں میں یہ ثابت کریں ہمارے محسنوں کو کچھ کہا تو ملک اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔ بیس کروڑ عوام کو وہ ڈراتے رہیں اگر یہ خاندان حکمران نہ رہا تو کچھ نہیں بچے گا۔ جتنی محنت وہ بیس کروڑ لوگوں کو سمجھانے پر کرتے ہیں اگر اس سے کم وہ اپنے سیاسی محسنوں کو سمجھانے پر خرچ کریں تو شاید بات بن جائے۔ لیکن جب وہ اس خاندان کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو گھگی بندھ جاتی ہے ۔ خود بخود زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ جو ٹی وی چینلز پر نہیں سنبھالے جاتے وہ دربار میں ایسے سر جھکائے کھڑے ہوتے ہیں کہ رومن غلام یاد آ جاتے ہیں۔ رومن غلاموں کو یہاں تک تو داد دیں انہیں سپارٹیکس مل گیا تھا تو انہوں نے شہنشاہوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ یہاں تو ان غلاموں کی صفوں میں سپارٹیکس جیسا بھی کوئی نہیں۔
ایک اعلی سرکاری افسر سے ملاقات ہوئی تو بولا دس بارہ دن سے سب کاروبار حکومت ٹھپ ہو چکا ہے۔ کوئی فائل، کوئی کام نہیں ہو رہا ۔ سب انتظار کر رہے ہیں کہ کب کچھ ہوتا ہے۔
میں نے سرکاری دوست سے کہا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے پاس موقع تھا وہ خود کو چیف ایگزیکٹو ثابت کرتے۔ شروع میں کوشش کی لیکن لندن واپسی کے بعد تلوں میں تیل نہ رہا۔ اب لگتا ہے وہ بھی دن پورے کر رہے ہیں۔
دماغ پر یہی بوجھ لے کر میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ''حکومت اور صحافت: میں نے کیا دیکھا‘‘ میں ہونے والے سیمینار میں شریک تھا۔ جہاں سابق سیکرٹری اطلاعات انور محمود سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر شاہد صدیقی نے یونیورسٹی میں ایک نیا کلچر دیا ہے جہاں اب بحث مباحثے ہوتے ہیں۔ دانشور، لکھاری، صحافی اکٹھے ہوتے ہیں۔ شاہد صدیقی نے یونیورسٹی کا کلچر ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔
یہ میرے لیے حیرانی کی بات تھی جب انور محمود نے کہا ان کے نزدیک ان چالیس برسوں کی نوکری میں محمد خان جونیجو کو سب سے بہتر وزیراعظم پایا۔ ہم سب ان کی بات سن کر چونک گئے۔ پھر کہنے لگے کہ وہ شاید پاکستان کے پہلے اور آخری وزیراعظم تھے جو رات کو سونے سے پہلے چیک کرتے کہ وزیراعظم ہائوس کے کسی کمرے میں لائٹ تو نہیں جل رہی۔ ایک دن انور محمود سے پوچھ لیا سائیں یہ بتائیں یہ جو اخبارات کی ردی بچ جاتی ہے آپ اس کا کیا کرتے ہیں۔ اسے کس بھائو پر بیچتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ معمولی بات لگتی ہو لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی احساس کرتے ہیں۔ ایک دن اخبار میں خبر چھپی کل رات محمد خان جونیجو کی جنرل ضیاء سے ملاقات ہوئی‘ جس میں جنرل ضیاء نے وزیرخارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کی بہت تعریف کی اور وزیراعظم کو کہا کہ وہ انہیں وزیرخارجہ کے طور پر برقرار رکھیں۔ جونیجو نے اپنے پریس سیکرٹری انور محمود کو بلایا اور ان سے کہا پتا کرائیں یہ خبر کس نے چھپوائی ہے۔ پتا چلا وزیراعظم کے ملٹری اے ڈی سی نے یہ خبر دی تھی۔ شام کو پانچ بجے انور محمود کو وزیراعظم ہائوس بلوایا گیا۔ وزیراعظم نے انہیں کہا آپ انتظار کریں آپ سے کام ہے۔ رات کے جب پونے نو بج گئے تو انور محمود کو بلا کر کہا گیا کہ ایک خبر لکھیں اور پی ٹی وی کے نو بجے کے خبرنامہ میں اسے چلوائیں۔ جونیجو صاحب نے انور محمود کو خبر ڈکٹیٹ کروانا شروع کی: 'وزیراعظم نے وزیرخارجہ صاحبزادہ یعقوب کی خدمات کو سراہا ہے۔ وہ اچھے انسان ہیں لیکن ان کی صحت اچھی نہیں ہے۔ لہٰذا وزیراعظم نے ان کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے‘۔ انور محمود کو کہا گیا وہ نو بجے کی خبروں میں اسے چلوا دیں ۔ جنرل ضیاء اور صاحبزادہ یعقوب کو برطرفی کا پتا خبرنامے سے چلا۔
میں نے انور محمود صاحب سے پوچھا جونیجو نے جنرل ضیاء سے ٹکر لے لی تھی۔ وہ جنرل ضیاء جو بھٹو کو پھانسی دے چکا تھا اس سے تو سب ڈرتے تھے، جونیجو کیوں نہ ڈرا؟
انور محمود نے مختصر سا جواب دیا کہ جب آپ ایماندار ہوں‘ آپ نے کرپشن نہ کی ہو تو آپ دنیا کے بڑے سے بڑے انسان سے بھی ٹکر لے سکتے ہیں اور کسی کے سامنے بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔
بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں انہوں نے انور محمود کو بلایا‘ وہ کچھ پریشان تھیں۔ بولیں کچھ کریں زرداری صاحب کا نک نیم مسٹر ٹین پرسنٹ پڑ گیا ہے۔ مجھے بہت پشمانی ہوتی ہے۔ اس کا تدارک ہونا چاہیے۔ ایک دور تھا بینظیر بھٹو زرداری کے ٹین پرسنٹ پر پریشان تھیں۔ اب عزیر بلوچ نے پتا نہیں کیا کیا انکشافات کر دیئے ہیں، پیپلز پارٹی کے اندر سے کہیں ایک بھی چیخ سنائی نہیں دی۔
ایک جونیجو تھے جنہوں نے صاحبزادہ یعقوب کو اس وجہ سے برطرف کر دیا کہ جنرل ضیاء نے خبر لگوا کر یہ تاثر دیا تھا کہ وزیرخارجہ ان کا بندہ ہے‘ جونیجو کا نہیں۔ ایک وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہیں جو اسحاق ڈار کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتے کیونکہ وہ نواز شریف کے سمدھی ہیں۔
عزت اور طاقت کمانی پڑتی ہے، مفت میں کوئی نہیں دیتا۔ شاہد خاقان عباسی صاحب کو یہ راز کوئی نہیں سمجھا سکتا‘ جونیجو جیسے عزتِ نفس کے مالک انسان نے یہ بات خود سمجھ لی تھی۔