ہم سمجھ بیٹھے تھے جمہوریت ایسا پھل لائے گی جس میں سب جوابدہ ہوں گے اور جو جتنا بڑا اور طاقتور ہوگا اس کا اتنا کڑا احتساب ہوگا ۔ جو لوگوں کو لیڈ کرنے کا دعویٰ کرے گا ، اپنی ذاتی زندگی چھوڑ کر پبلک لائف میں آئے گا‘ وہ سب کو جواب دہ ہوگا۔ وہ عوام کے ٹیکسوں سے وزیراعظم ہائوس میں رہے گا، چالیس چالیس گاڑیوں کے قافلے میں چلے گا، جس کے رائے ونڈ محل کو بھی وزیراعظم کیمپ آفس کا درجہ ہوگا، جو دنیا کے سو دورے کرے گا، لندن میں کئی ہفتے عوام کے پیسوں پر گزارے گا‘ جس کی صاحبزادی وزیراعظم ہائوس کی مالک بن بیٹھے گی، لندن سے پی آئی اے کا اکیلا جہاز پورے خاندان کو اڑا کر لائے گا، سب کھانا پینا اور گھر کا کچن تک عوام کے پیسوں سے چلے گا، وہ تو لوگوںکو اس طرح زیادہ جواب دہ ہوں گے جیسے گھر کے ملازم یا ان کے کارخانوں کے مزدور جنہیں یہ جیب سے تنخواہ دیتے ہیں لیکن اگر وہ چائے کا ایک کپ بھی زیادہ پی لیں تو ان کو کوئی رعایت نہیں ملتی۔
ہم تویہ سمجھ بیٹھے تھے کہ جمہوریت میں آپ عوام کے خادم اور ملازم تصور ہوتے ہیں۔ ان کے پیسوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کے خزانے کے محافظ ہوتے ہیں، راہزن نہیں۔ ہم تو سمجھ بیٹھے تھے جمہوریت ہوتی ہی کمزور کو تحفظ دینے اور طاقتور کو جواب دہ کرنے کے لیے۔ اگر طاقتور کا احتساب نہیں ہوسکتا تھا تو پھر بادشاہوں کا دور ہی ٹھیک تھا جہاں بادشاہ کے بارے میں یہ تصور تھا کہ بادشاہ کوئی غلط کام کر ہی نہیں کرسکتا‘ سزا کا تو سوچا ہی نہیں جاسکتا ۔
لیکن جس طرح کی مزاحمت نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی دیکھنے میں آرہی ہے اس کے بعد یہ یقین کمزور ہورہا ہے کہ جمہوریت کا مقصد طاقتور لوگوں کا احتساب ہے۔ نواز شریف یہ نعرہ مار کر کہ ان کا احتساب صرف بیس کروڑ عوام ہی کر سکتے ہیں‘ وہ معاشرے میں mob justice کو فروغ دے رہے ہیں ۔ کوئی عدالت کا فیصلہ قبول نہیں ہے، کوئی انکوائری تسلیم نہیں۔ کوئی پارلیمنٹ کا قانون منظور نہیں ۔ منظور ہے تو لوگوں کے ووٹ جو انہیں وزیراعظم بناسکتے ہیں ۔ ہاں آپ کے خیال میں اگر لوگ سمجھتے ہیں آپ کرپٹ ہیں تو پھر وہ آپ کو ووٹ نہ دیں۔ تو کیا لوگ اس لیے ووٹ ڈالتے ہیں آپ نے جا کر لُوٹ مار کرنی ہے؟ کیا جب الیکشن ہوتے ہیں تو اس وقت آپ لوگوں کو بتاتے ہیں کل کو وزیراعظم ہائوس میں بیٹھ کر کرپشن کرنی ہے لہٰذا مجھے ووٹ دو۔
ویسے اس طرح کی باتوں اور مزاحمت سے معاشرے کو کیا پیغام دیا جارہا ہے؟ اور چھوڑیں اسحاق ڈار کو ہی دیکھ لیں۔ کوئی سوچ ہی نہیں سکتا تھا انہیں کرسی اتنی عزیز ہوگی کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ان کے خلاف نیب میں چلنے والے مقد مات ہوں، ای سی ایل پر نام ہو، عدالت مفرور قرار دے چکی ہو لیکن پھر بھی وہ وزیررہیں گے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کوئی تین ماہ لندن چھٹی پر رہے اور پاکستان میں وہ وفاقی وزیر کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھے۔ تو کیا پوری قوم کو یہ میسیج دیا جارہا ہے کہ بڑے لوگوں کا جیسے دل چاہتا ہے وہ قانون کو اپنے حق میں مروڑ سکتے ہیں ۔ میڈیا بھی ان طاقتور لوگوں کا ساتھ دیتا ہے۔ ان طاقتور لوگوں کی جیب سے کچھ نہیں جاتا ۔ یوں سب کا کام چل رہا ہے۔ ابھی ایک سو ساٹھ سے زائد ایم این ایز نے بھی یہ سوچ کر قانون بدل دیے ہیں چاہے کسی کو سپریم کورٹ نااہل قرار دے وہ ہمارے لیے اہل ہوگا کیونکہ ہمیں ترقیاتی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے الیکشن سے پہلے اس نے دے دیے یا ہماری مرضی کا تھانیدار لگے گا اور ہم لوگوں کو چھتر مروا کر دوبارہ ووٹ لے کر اسمبلی میں پہنچ جائیں گے۔
نواز شریف کو نااہل ہونے کے باجود پارٹی صدر کا قانون بنا کر خفیہ طور پر ان پارلیمنٹیرینز نے بھی اپنے لیے فائدہ اٹھا لیا۔ اس نئے الیکشن قانون کے تحت اب وہ بھی الیکشن لڑ سکتے ہیں جنہوں نے اربوں روپے کے قرضے معاف کرائے ہیں یا ناہندہ ہیں۔ مطلب یہ ہے سب سپریم کورٹ سے نااہل ہوں تو بھی کوئی فکر کی بات نہیں۔ آپ پھر بھی پارٹی سربراہ ہوں گے۔ آپ نے اربوں روپوں کے قرضے معاف کرائے ہیں تو بھی فکر ناٹ ۔ جو قانون آپ کو کرپشن اور غلط کاموں سے روکتے تھے وہ ہٹا کر انہیں اب قرض خوروں، بینک ڈیفالٹرز اور جرائم پیشہ کے حق میں کر دیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے اگر جمہوریت میں یہ سب طاقتور لوگ اکٹھے ہوگئے ہیں اور وہ سب ترامیم کرارہے ہیں جو ان کے غیرقانونی کاروبار اورلوٹ مار کو جائز قرار دے رہی ہیں تو پھر یقین رکھیں یہ جمہوریت نہیں بلکہ چند لوگوں کا ٹولہ ہے جو الیکشن میں ووٹ مانگنے جاتے ہیں تو لوگوں کی زندگیاں بدلنے کی قسمیں کھاتے ہیں ۔ انہی کمزور اور غریب لوگوں سے ووٹ لے کر پھر ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کی لوٹ مار جو وہ ان غریبوں کے پیسے پر کرتے ہیں‘ وہ ہمارا اور ان غریبوں کے درمیان ذاتی مسئلہ ہے جس پر عدالت ‘میڈیا یا کسی اور ادارے کو پریشان ہونے یا مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ۔
تو کیا واقعی کرپشن نواز شریف اور عوام کے درمیان ذاتی مسئلہ ہے؟ اس میں باقی کسی کا کچھ لینا دینا نہیں ہے؟ مان لیتے ہیں یہ نواز شریف اور ڈیڑھ کروڑ ووٹروں کے درمیان ذاتی معاملہ ہے تو پھر ان ڈیڑھ کروڑ سے زائد ووٹروں کا کیا کہیں گے جنہوں نے اپوزیشن پارٹیوںکو ووٹ دیا ہے جو نواز شریف کی اس فلاسفی سے اتفاق نہیں کرتے اور وہ مانتے ہیں کہ ملک کے آئین اور قانون کے تحت انہیں سزائیں مل سکتی ہیں۔ چلیں آپ ان سب پارٹیوں کے تین کروڑ ووٹروںکو چھوڑ دیں‘ ان کی کیا رائے ہے اور ان کے احتساب کی کیا تعریف ہے۔ پاکستان کی کل آبادی اب اکیس کروڑ ہوچکی ہے۔ اس میں سے تین کروڑ ووٹرز نکال دیتے ہیں جنہوں نے ان پارٹیوں کو ووٹ دیے ہیں۔ باقی اٹھارہ کروڑ لوگوں کے بارے میں کیا کہنا ہے جن پر ملک کے سب قوانین اپلائی ہوتے ہیں؟ وہ اگر روٹی بھی چوری کرلیں تو ان کو گرفتار کر کے سزا دی جاتی ہے۔ جنہیں تھانوں اور عدالتوں میں پیش ہوکر سزائیں بھگتنا پڑتی ہیں۔ وہ اٹھارہ کروڑ لوگ آپ کے لیے حیثیت نہیں رکھتے جنہوں نے ووٹ نہیں دیا؟ تو ان کو کیا کرنا چاہیے۔ ان پر کوئی مقدمہ درج ہو، ان کے خلاف شکایت ہو یا انہیں سزا ہوجائے تو پھر ؟ انہیں فوراً محلے کا کونسلربن کر عدالت کو اپنے ووٹرز کی فہرست پیش کردینی چاہیے کہ جناب دیکھیں مجھے دو ہزار لوگوں نے ووٹ دے کر کونسلر بنا دیا ہے لہٰذا آپ میرے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے کیونکہ میں لوگوں کا نمائندہ ہوں۔ لوگوں نے مجھے ووٹ دے کر ثابت کردیا ہے کہ میں بے گناہ ہوں۔
یہ ہے وہ انصاف کا نیا نظام اور نظریہ جو نواز شریف پاکستان میں متعارف کرار ہے ہیں۔ وہ دراصل "عوامی انصاف" کو پروموٹ کررہے ہیں کہ عوام ہی قتل کا فیصلہ کریں گے۔ عوام ہی موقع پر ملزمان کو سزا دے سکتے ہیں ۔ عوام کسی چوک کچہری میں اپنی عدالت لگا سکتے ہیں۔ وہ جس کو چاہیں جیل بھیج دیں اور جس کو چاہیں گھر۔
یہ ہے وہ جمہوریت جس کا خواب دیکھ کر کئی نسلوں نے جنرل ضیاء کے دور سے لے کر جنرل مشرف تک کے مارشل لاء تک لڑائیاں لڑیں۔ جنرل ضیاء دور میں کئی جوانیاں شاہی قلعہ میں دم توڑ گئیں۔ سیاسی ورکرز کو باندھ کر کوڑے مارے گئے۔ پھانسیوںپر چڑھایا گیا۔ ان سب کو پتہ نہ تھا جس جمہوریت کے لئے وہ لڑ رہے ہیں‘ اس کی ایک دن تعریف یہ ہوگی کہ آپ عوام کے ووٹ لے کر قانون سے ماورا ہوجاتے ہیں۔ لندن، دبئی اورپاناما میں جائیدادیں بنا لیں ، بچے راتوں رات ارب پتی بن جائیں،پانچ براعظموں میں آپ کا مال بکھرا ہوا ہو اور آپ سے پوچھ لیاجائے تو آپ جواب دیں عوام نے ووٹ دیے تھے لہٰذا پانچ سال بعد جب ان کے پاس جائوں گا تو انہی کو جواب دوں گا‘ عدالت‘ نیب یا ایف آئی اے کون ہوتے ہیں پوچھنے والے؟
نواز شریف اور ان کے طبلچیوں کو کوئی بتائے گا ایسا فوجی آمر سوچتے ہیں کہ ان کا احتساب نہیں ہوسکتا ، ان پر قانون اپلائی نہیں کرتا یا عدالتیں ان کے خلاف فیصلے نہیں دے سکتیں ۔ وہ تو پہلے دن ہی آئین کو تروڑ مروڑ کر پھینک دیتے ہیں۔ ویسے نواز شریف کو ایک مشورہ ہے آئندہ وہ فوجی آمروں کی طرح عدالتوں سے بھی پی سی او کی طرز پر ذاتی وفاداری کا حلف اٹھوایا کریں کہ میرے خلاف کوئی فیصلہ نہیں آئے گا ورنہ آپ کی خیر نہیں ۔
نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری...!