"RKC" (space) message & send to 7575

ریاست کی رٹ اور اشرافیہ کی لوٹ مار

یہ بات طے ہے‘ جو لوگ اس ریاست کو چلا رہے ہیں‘ وہ اتنا مال بنا چکے ہیں کہ اب انہیں اس مال کو ہضم کرنے میں دقت ہو رہی ہے۔ ان کی جانیں اور جائیدادیں اسی عوام کے ہاتھوں خطرے میں ہیں‘ جن کا پیسہ انہوں نے دل کھول کر لوٹا تھا۔ 
پاکستان کو تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف چھوڑ کر بھارت کی بات کرتے ہیں۔ ہندوستان میں آج کل فلم پدماوتی کو لے کر ہنگامے جاری ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک گرو جی‘ جس نے لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی تھی‘ کی وجہ سے چالیس لوگ ہنگاموں میں مارے گئے تھے۔ اس سے پہلے گائو ماتا کے نام پر بھارتی عوام نے سرِعام انسانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا شروع کر دیا تھا۔ 
کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے عوام اس قابل تھے کہ یہ خود پر حکمرانی کر سکتے؟ کیا ہمارے ذہنوں میں صدیوں سے بیٹھی غلامی، بت پرستی اور شخصیت پرستی آزاد انسان کے طور پر جینے دے گی؟ اس خطے کے مزاج میں غلامی اور شخصیت پرستی ہے۔ ہندوئوں میں بت پرستی تھی تو مسلمانوں میں شخصیت پرستی ابھری۔ 
ہم خود پر حکمرانی نہیں کر پا رہے۔ شاید ہمیں آج بھی بیرونی حملہ آور چاہئیں‘ جنہوں نے لوٹ مار کی، عورتیں اغوا کیں، بچے اپنے ساتھ لے گئے، ملتان سے دلی تک قتل و غارت ہوئی۔ مال غنیمت ہاتھیوں پر لادا اور چلے گئے۔ پھر دوبارہ چند سال بعد نمودار ہوئے اور سب کچھ لوٹ لیا۔ خود واپس چلے گئے تو بھی اپنے پیچھے راجے مہاراجے چھوڑ گئے‘ جن کا کام عوام سے ٹیکس وصول کرکے اپنے مالکوں کو بیرون ملک بھیجنا تھا۔ یوں غلامی اور شخصیت پرستی ہمارے خون اور ہماری سرشت میں ہے۔
یورپ بھی ایسا تھا لیکن پھر وہاں پرنٹنگ پریس نے دنیا بدل دی۔ ہمارے مغل سمجھدار تھے۔ انہوں نے پرنٹنگ پریس نہیں لگنے دیا‘ اور دو تین صدیوں بعد جب انگریز ہندوستان آیا‘ تو اپنے ساتھ پرنٹنگ پریس لایا‘ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ یورپ اور ہندوستان کے ذہن، سوچ، فکر اور اپروچ میں ہزار سال کا فرق پڑ چکا تھا۔ انگریز بھول گیا تھا کہ وہ جتنی کتابیں ہندوستانیوں کو پڑھا لے، نئے نظام سکھا لے‘ ان لوگوں کی روح میں صدیوں کا جبر اور غلامی اتنی شدید ہے کہ آسانی سے نہیں جائے گی۔ 
انگریز کے جانے کے بعد وہی حشر ہوا‘ جس کا اندیشہ تھا۔ 
آج دونوں ملکوں میں عوام کی حالت دیکھ لیں۔ ہندوستان بدترین غربت کا شکار ہے تو ہمارے ہاں دس کروڑ غریب ہیں۔ مغل بادشاہ تو ہندوستان میں نہ رہے‘ لیکن ہندوئوں نے بی جے پی کی شکل میں نئے بت پیدا کر لیے۔ بی جے پی کا قیام مسلمانوں کی نفرت میں عمل میں آیا۔ انہیں یاد آیا کہ مسلمان تو ایک ہزار سال ان پر حکمرانی کرتے رہے‘ اب ان سے بدلہ لیتے ہیں۔ بدلہ لینے کے چکر میں ہی ہندوستانی معاشرہ اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ہندوستانی دوست اور میڈیا لاکھ اسے چھپانے کی کوشش کرے‘ یہ نہیں چھپ سکتا۔ ہندوستانی معاشرہ تیزی سے تنزلی کا شکار ہے۔ عدم برداشت اور تشدد وہاں اسی طرح پھیل رہا ہے جیسے ہمارے ہاں۔ ہندوستان میں بھی عوام کا انصاف شروع ہے۔ جو جہاں ملتا ہے اسے وہیں مار دو۔ کسی پر گائو ماتا کا شک ہو اسے ٹکڑ ے ٹکڑے کر ڈالو۔ گھر جلا دو، گاڑیاں جلا دو۔ جو ہاتھ لگتا ہے لوٹ لو۔ ہندوستانی معاشرہ میں پہلے گائو ماتا، گرو کو جیل کی سزا اور اب فلم پدماوتی کے بعد ہونے والے ہنگاموں سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جمہوریت چاہے ستر سال پرانی ہو یا ہماری طرح سات سال پرانی، ہم سب اندر سے وحشی ہیں۔ ہمیں ہمارے لیڈرز جب چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ صرف نعرہ دینے کی ضرورت ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ ہم کہاں ناکام ہوئے ہیں؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں تھی‘ لہٰذا پاکستانی لوگوں میں وہ سمجھ بوجھ نہیں‘ جو جمہوریت پیدا کرتی ہے۔ ہندوستان کے بارے میں کیا کہیں گے؟ جہاں ایک فلم کی وجہ سے اس لیے تشدد شروع ہو گیا کہ اس میں ایک ہندوستانی رانی کا ایک مسلم حکمران سے رومانس دکھایا گیا ہے۔ اگر جمہوریت ستر سال بعد بھی ایک تاریخی رومانس کی کہانی برداشت نہیں کر سکتی تو اندازہ لگانا مشکل نہیں یہ کس کی ناکامی ہے۔ اس لیے جب میں ہندوستان کے حالات پر نظر ڈالتا ہوں تو میری فکر پاکستان کے حوالے سے کم ہو جاتی ہے‘ اگرچہ تشویش باقی ہے کہ ہم کس طرف چل پڑے ہیں۔ 
سوال یہ ہے کہ عوام کی غلطی ہے یا جو عوام کے حکمران تھے ان کی؟ آج جو ہم لوگ یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ دھرنے نے ریاست کی رٹ ختم کر دی‘ تو کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ کون لوگ ہیں اور یہاں تک کیسے پہنچے‘ اور انہیں یہاں تک لانے میں ہمارا اپنا کتنا ہاتھ ہے؟ میں خود ان علاقوں سے آیا ہوں جہاں غربت کی شرمناک شکلیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھی ہیں۔ ریاست نے کب ان لوگوں کا خیال کیا‘ کہ وہ ریاست اور اس کی رٹ کا خیال کریں؟ جب ریاست کو چند خاندانوں نے یرغمال بنا لیا ہو اور ان کا خیال ہو کہ وہ ایسی مقدس گائے ہیں‘ جس کا کام چارہ کھانا اور عوام کا کام ان کو چارہ کھلانا ہے‘ تو پھر یہی کچھ ہو گا جو ہو رہا ہے۔
اس ریاست کا فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟ چند کروڑ غریب لوگ یا وہ چند سو گھرانے جو اس جمہوریت کے فوائد سمیٹ رہے ہیں۔ آپ بتائیں کس لیڈر کی جائیداد اور بینک بیلنس بیرون ملک نہیں ہے؟ جب یہ غریب لوگ سنتے ہیں کہ نواز شریف کے بچوں نے کم عمری میں ہی لندن جائیدادیں خرید لیں تھیں‘ یا زرداری اور بینظیر بھٹو نے سرے محل خرید لیے تھے، اسحاق ڈار کے بچوں نے آدھا دوبئی خرید لیا تھا یا ہزاروں امیر پاکستانیوں نے دوبئی میں آٹھ ارب ڈالرز کی جائیدادیں خرید لی ہیں‘ یا پاکستانی بیوروکریسی کے بچے راتوں رات ارب پتی بن گئے ہیں‘ جبکہ عوام کو ماچس کی ڈبیا‘ پانی کی بوتل اور گھی کا ڈبہ خریدنے پر بھی سترہ فیصد ٹیکس دینا پڑتا ہے اور ان کے پاس سکول کی فیس یا دوائی کے پیسے بھی نہیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اندر کیا غصہ جنم لیتا ہو گا؟ 
ایک سو روپے کے موبائل کارڈ پر پچیس روپے ان حکمرانوں کو دینے پڑتے ہیں جو مری کے گورنر ہائوس کی آرائش پر پچاس کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں، چالیس گاڑیوں کے قافلے میں گھومتے ہیں‘ رائے ونڈ کی سکیورٹی پر دس ارب روپے خرچ کرتے ہیں‘ وزیر اعظم ہائوس کے باتھ روم پر تین کروڑ روپے لگاتے ہیں یا پھر پوری فلائٹ لندن سے لاہور کے لئے بک کرا لیتے ہیں‘ جس کا تین کروڑ روپے کا خرچہ عوام کے دئیے ہوئے ٹیکسوں سے ادا ہوتا ہے تو سوچئے عوام پر کیا گزرتی ہو گی؟
یہ ماتم بند ہونا چاہئے کہ غریب لوگ اس ریاست کے دشمن ہیں‘ لہٰذا ان پر توپیں چلا دو۔ میڈیا تو ان لوگوں کو بتا رہا ہے کہ فلاں فلاں صاحب نے کتنا مال بنا لیا ہے۔ ان کے خلاف اگر ملکی قانون حرکت میں آ جائے تو ٹی وی چینل پر بیٹھے کرائے کے لبرلز اور ٹھگ دانشوروں کو جمہوریت خطرے میں محسوس ہونے لگتی ہے۔ کیا ایسا کرنے والوں نے کبھی سوچا ہے کہ وہ اربوں جو لوٹ کر باہر لے گئے‘ وہ دراصل انہیں غریبوں پر خرچ ہونے تھے۔ ان کی تعلیم، صحت اور ان کی کوالٹی آف لائف پر۔ جب پنجاب کا پورا بجٹ لاہور پر خرچ ہو گا‘ تو پھر باقی صوبے میں غربت اور پسماندگی بڑھے گی۔ پس ماندہ اور غریب لوگوں میں احساس کمتری بڑھے گا۔ اس احساس کمتری کی کئی شکلیں سامنے آئیں گی۔ غربت کے انڈے بچے نکلیں گے۔ جب یہ غریب لوگ آپ کو گاڑی پر سوار دیکھیں گے تو ہنگاموں میں موٹر وے بلاک کرکے گاڑیاں توڑیں گے۔ آپ کے عالیشان گھر دیکھیں گے تو پھر جس دن کوئی ہنگامہ ہو گا یہ آپ کے گھر جلائیں گے۔ 
اگر ریاست بچانی ہے تو پھر بیوروکریسی اور سیاستدانوں کو حکمران کی بجائے خادم بننا ہوگا۔ اگر یہ ان غریبوں کا استحصال جاری رکھیں گے تو پھر ان کی اپنی خوشحالی خطرے میں پڑ جائے گی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جس معاشرے میں اشرافیہ نے لوٹ مار سے باز نہیں آنا‘ وہاں غربت اور پس ماندگی میں ڈوبے عوام نے بھی ان کی خوش حالی پر حملے کرنے ہیں۔ فیصلہ یہ کرپٹ اشرافیہ خود کرلے کہ کون سا راستہ آسان ہے... ریاست کے وسائل کی لوٹ مار، پروٹوکول‘ بیرون ملک جائیدادیں اور بینک بیلنس‘ خود کو قانون سے بالاتر سمجھنا یا پھر اس عوام کا اس طرح خیال رکھنا... جیسے اپنے بچوں کا یہ لوگ رکھتے ہیں۔ یہ طے ہے ریاست کی رٹ اور اشرافیہ کی لوٹ مار زیادہ دیر تک ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں