سینیٹر انور بیگ کا فون تھا۔
وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کا دل اس ملک کے لیے کڑھتا رہتا ہے۔ اس ملک سے محبت کی وجہ سے چالاک سیاستدان نہ بن سکے اور کسی بھی پارٹی میں ان کی جگہ نہ بن سکی۔ وہ کلین انسان ہیں اور کلین سیاست کرنا چاہتے تھے۔ ایسے لوگوں کے لئے کسی پارٹی میں جگہ نہیں ہوتی۔
پیپلز پارٹی میں‘ جب تک بینظیر بھٹو زندہ تھیں، ان کی قدر ہوئی۔ بی بی کے بعد زرداری صاحب کا دور آیا تو بینظیر بھٹو کے ایک ایک قریبی ساتھی کو ڈھونڈ کر ذلیل کیا گیا۔ آخر سب پارٹی چھوڑ گئے۔انور بیگ کا خیال تھا کہ نواز شریف، زرداری صاحب سے بہتر ثابت ہوں گے لیکن ان کی یہ سب امیدیں خاک میں مل گئیں اور وہی حشر ہوا جو پیپلز پارٹی میں ہوا تھا۔
جب زرداری صاحب صدر بنے تو انور بیگ ان کے پاس ایک پلان لے کر گئے کہ کیسے پاکستان کی بیرونی قرضوں سے جان چھڑا کر‘ زرمبادلہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ انور بیگ کے خیال میں‘ جیسے بھٹو صاحب نے مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں میں پاکستانیوں کے لیے نوکریوں کے راستے کھولے تھے، ایسے ہی اگر زرداری صاحب بھی کام کریں تو جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی بیرون ملک کھپ سکتے تھے‘ وہیں وہ بڑی تعداد میں پارٹی ووٹ بینک بھی اکٹھا کر سکتے تھے‘ اور پاکستان‘ جو اس وقت قرضوں میں جکڑا جا چکا ہے‘ کو ان قرضوں سے نجات دلائی جا سکے گی۔زرداری صاحب نے ان کی بات سنی ان سنی کر دی۔ چند دن بعد انور بیگ پیپلز پارٹی سے بھی باہر تھے۔
نواز شریف ابھی اپوزیشن میں تھے تو انور بیگ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ بیگ صاحب نے پھر اپنی پرانی بریفنگ کا پلندہ اٹھایا، اسے جھاڑ پونچھ کر صاف کیا اور نوازشریف کو بریف کرنے کی کوشش کی کہ جناب آپ کے عرب ملکوں سے اچھے تعلقات ہیں‘کوشش کریں تو لاکھوں پاکستانی قطر سمیت دیگر ملکوں میں کھپ سکتے ہیں‘ پاکستان کو اربوں ڈالرز مل سکتے ہیں اور بھٹو کی طرح اپنا مستقل ووٹ بینک بھی اکٹھا کر سکتے ہیں۔ نواز شریف نے بھی وہی کیا جو زرداری صاحب نے کیا تھا۔ انہوں نے بھی بیگ صاحب کی تقریر اور فارمولے سن کر کہا: اور سنائیں بیگ صاحب کیا حال ہے۔بیگ صاحب سر جھکائے‘ اپنی پوٹلی اٹھائے‘ گھر لوٹ گئے۔
آج پھر انور بیگ کا فون تھا۔ بولے: دیکھیں میں نہ کہتا تھا، ہم قرضوں میں جکڑے جا رہے ہیں۔ مین پاور بیرون ملک بھیجنے کے پلان پر کام کرنے کے بجائے یہ لوگ ہر دفعہ جا کر نیا قرضہ لے آتے ہیں اور پہلے سے بھی مہنگا ۔ اس بار مفتاح اسماعیل نے امریکہ سے قوم کو خوشخبری سنائی ہے کہ وہ ڈھائی ارب ڈالرز کا نیا قرضہ لینے میں کامیاب رہے ہیں۔ چار سالوں میں مسلم لیگی حکومت نے چالیس ارب ڈالرز کا قرضہ لے لیا ہے۔ ستر سالوں کا قرضہ ایک طرف اور ان چار سالوں کا قرضہ ایک طرف۔
بیگ صاحب نے مزید کہا: یار کوئی مین پاور ایکسپورٹ کو سیریس لینے کو تیار نہیں‘ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل صرف قرضہ ہے۔
میں نے کہا: بیگ صاحب مفتاح صاحب نے داد بھی مانگی ہے کہ میں نے سکوک بانڈز قرضہ‘ شرح سود 6.6 فیصد پر لیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ بہت سستا ہے۔ موصوف اپنا موازنہ اسحاق ڈار سے کر رہے ہیں۔ جب ڈار صاحب نے دو سال قبل پانچ سو ملین ڈالرز یورو بانڈز 8.25 فیصد پر لیے تھے تو پوری دنیا ششدر رہ گئی تھی کہ اتنا مہنگا قرضہ کیسے لے لیا گیا۔ اس وقت دنیا کے بہت سے ملکوں نے مارکیٹ سے قرضہ نہیں لیا تھا کہ یہ بہت مہنگا ہے‘ لیکن ڈار صاحب نے بھاگ کر وہ 500 ملین ڈالرز لیے۔ اب پاکستان دس برس بعد پانچ سو ملین اصل زر کے علاوہ‘ سرمایہ کاروں کو 410 ملین ڈالرز سود بھی ادا کرے گا‘ جبکہ اُنہی دنوں بھارتی کمپنی ریلائنس نے آٹھ سو ملین ڈالرز کا قرضہ سوا دو فیصد پر لیا تھا۔
میں نے کہا: بیگ صاحب! مزے کی بات یہ ہے کہ تیس نومبر کو مفتاح نے ڈھائی ارب ڈالرز کے سکوک بانڈز ساڑھے چھ فیصد پر لینے پر قوم کو مبارکباد دی اور کہا انہیں کریڈٹ دیں۔ جبکہ صرف ایک ہفتہ قبل‘ اکیس نومبر کو اُسی بھارتی کمپنی ریلائنس نے آٹھ سو ملین ڈالرز کے مزید بانڈز پھر فلوٹ کیے اور اس دفعہ انہیں 3.6 فیصد ریٹ ملا۔ اندازہ کریں بائیس کروڑ کے ملک پر سرمایہ کاروں کو اعتماد نہیں اور انہوں نے ساڑھے چھ فیصد شرح سود مانگا، جبکہ ایک نجی کمپنی پر زیادہ اعتماد کرتے ہوئے اسے پاکستان کی نسبت آدھے شرح منافع پر قرضہ دیا۔
بیگ صاحب بولے: میں تو دو سال پہلے سے کہہ چکا ہوں کہ پاکستان کو قرضوں کے جال میں پھنسایا جا رہا ہے۔ انہوں نے ایک مغربی ڈپلومیٹ کے حوالے سے کہا کہ اس نے دو سال پہلے بتایا تھا کہ ایک پلان کے تحت پاکستان کے قرضے نوے ارب ڈالرز تک لے جائیں گے اور جب پاکستانی ادائیگیوں کے قابل نہیں رہے گا تو اس کوڈیفالٹ پر مجبور کر کے‘ مرضی کی شرائط طے کی جائیں گی اور سب سے بڑی شرط ہوگی کہ اپنا نیوکلیئر پروگرام بند کرو۔
بیگ صاحب نے بات جاری رکھی: ہم اس کنارے پر آن پہنچے ہیں کہ اب پاکستان کو بیس ارب ڈالرز اس سال قرضہ واپس کرنے کے لیے چاہئیں جبکہ خزانے میں دس، بارہ ارب ڈالرز بھی نہیں ہیں۔ قطری حکمرانوں کے ساتھ شریف خاندان کے ذاتی تعلقات اور کاروباری مراسم ہیں۔ یہ چاہتے تو لاکھوں پاکستانیوں کو قطر میں کھپا سکتے تھے، جیسے ابھی بھارت کے ساتھ قطر نے معاہدہ کیا ہے‘ جس کے تحت لاکھوں بھارتی اب قطرکام کرنے جائیں گے لیکن زرداری اور نواز شریف‘ دونوں نے میری تجاویز کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
میں نے کہا: بیگ صاحب! آپ کو پتا ہے کہ آپ سے کہاں بنیادی غلطیاں ہوئی ہیں؟ اس وجہ سے آپ نہ پیپلز پارٹی میں پسند کیے گئے اور نہ ہی آپ کو نواز شریف کی پارٹی راس آئی۔
بیگ صاحب نے پوچھا: میں نے کیا غلط کیا؟
میں نے کہا: حضور! آپ سمجھدار ہوتے تو آپ زرداری اور نواز شریف کو یہ نہ سمجھاتے کہ جناب اگر آپ نے پانچ، دس لاکھ پاکستانی عرب ملکوں میں اپنے تعلقات استعمال کر کے کھپا دئیے تو ملک کا بھلا ہوگا، بلکہ آپ الٹا زرداری اور نواز شریف کے کانوں میں سرگوشی کرتے کہ حضور! اس پورے کھیل میں ان کا مالی فائدہ کتنا ہوگا۔ بیگ صاحب حیران ہوئے کہ ان لوگوں کو کیا ذاتی یا مالی فائدہ چاہیے تھا۔
بیگ صاحب بولے: تو زرداری اور نواز شریف کو کیا سمجھاتا؟
میں نے کہا: حضور! جب آپ یہ منصوبہ لے کر ان کے پاس گئے تھے تو آپ ان کو بتاتے کہ سر مال کمانے کا بہت بڑا موقع ہے۔ میاں صاحب، زرداری صاحب‘ آپ کے عربوں اور شاہی خاندان سے تعلقات ہیں۔ وہ آپ کے کاروباری پارٹنرز ہیں۔ فٹ بال ورلڈ کپ کی وجہ سے موقع نکلا ہے کہ لاکھوں لوگ وہاں کام کریں۔ بھارت بھی کنٹریکٹ لے رہا ہے۔ وہ آپ کو انکار نہیں کریں گے۔ مال بنانے کا طریقہ یہ ہے آپ کسی قابل اعتماد فرنٹ مین سے اوورسیز پروموٹرزکمپنی رجسٹرڈ کرائیں اور بیرون ملک بھیجنے کے سارے کنٹریکٹس آپ کی اس کمپنی کے ذریعے ہوں گے۔ راتوں رات آپ کروڑوں کمائیں گے۔ جونہی زرداری اور نواز شریف نے یہ سننا تھا کہ انہیں اس کام سے کروڑں‘ اربوں روپے کے مالی فائدے کے ساتھ سیاسی فائدہ بھی ہو گا تو انہوں نے آپ کو گلے لگا کر‘ ماتھا چوم کر مین پاور کا وزیر بنا دینا تھا کہ یہ تو بڑے کام کا آدمی ہے۔
میں نے کہا: بیگ صاحب ایک دن نجومی بیمار ہوا تو شاگرد کو کرسی پر بٹھا آیا۔ شام کو شاگرد روتا ہوا آیا اور بولا آج میں نے ایک بندے کا ہاتھ دیکھا اور درست درست بتایا کہ وہ ایک جھگڑالو، بدتمیز اور فضول خرچ انسان ہے۔ اس نے مجھے تھپڑ دے مارے۔
نجومی بولا: تمہیں درست تھپڑ پڑے۔ تم کہتے آپ بہادر، غصے کے تیز اور سخی انسان ہیں۔ منہ پر سخت بات کہنے والا بدتمیز اور جھگڑالو ہی بہادر ہوتا ہے۔ فضول خرچ ہی سختی ہوتا ہے۔ لفظوں کے انتخاب نے تجھے مار پڑوائی۔ اگر لفظ آگے پیچھے کر دیتا تو وہ تجھے انعام دے کر جاتا۔ میں نے کہا بیگ صاحب آپ کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔
میں ہیلو ہیلو کرتا رہ گیا۔ بیگ صاحب کب کے فون بند کر کے جا چکے تھے۔