انور عزیز چوہدری کے گھر ہفتے کی رات مزیدار ٹینڈے گوشت کھا چکے تھے۔
اکبر چوہدری کی اتوار شام امریکہ واپسی کی فلائٹ تھی۔ میں ان کے کان عامر متین کے خلاف بھر چکا تھا کہ دیکھ لیں وہ آپ کے بلانے پر بھی لاہور نہیں آئے۔ اکبر چوہدری اچھے اور سادہ دل انسان ہیں۔ مسکرا کر بولے: میں بھی اس دفعہ عامر متین سے ناراضی کا موڈ بنا چکا تھا لیکن کیا کروں اس کا فون آ گیا کہ چوہدری صاحب باقی سب دوست آپ کے عاشق ہیں، آپ میرے عاشق ہیں‘ بھلا کوئی معشوق سے بھی ناراض ہوتا ہے۔ میں بولا: پھر تو میری ساری محنت ضائع گئی کہ عامر متین پھر معشوقانہ ہاتھ کر گئے آپ کے ساتھ۔
چوہدری صاحب جب موڈ میں ہوں تو سیاست، تاریخ، فلسفہ، فوک اور صوفیانہ شاعری پر ان سے بہتر اور اچھی گفتگو شاید ہی کوئی کر سکتا ہو۔ بات اگلے الیکشن کی ہو رہی تھی اور رزاق ملکانہ ہمیں بتا رہے تھے کہ دانیال عزیز کو اپنے سیاسی مخالفوں پر کیا کیا اخلاقی برتری ہے اور وہ شکر گڑھ میں اگلا الیکشن جیت جائیں گے۔
ہمارے لاہور کے صحافی دوست طاہر ملک اور کالم نگار ذوالفقار راحت کی حالات حاضرہ پر شاندار گفتگو ختم ہو چکی تھی۔ کھانے کی میز پر احمد شفیق، خالد ساہی، ارشاد صاحب، رزاق ملکانہ کی گفتگو کے بعد میں نے کہا: چوہدری صاحب! آج کچھ گستاخی کرنے کو جی چاہ رہا ہے‘ آپ کی اجازت ہو تو کچھ عرض کروں؟ ایک بات آج تک ہضم نہیں ہوئی‘ عامر متین کے منہ سے آپ کی وہ تکلیف دہ داستان اور مشکلات سن چکا ہوں‘ جو نواز شریف دور میں آپ کو اٹھانا پڑی تھیں۔ آپ کے گھر پر حملہ ہوا۔ آپ کو قتل کرنے کی سازش کی گئی۔ حملہ آوروں میں سے ایک‘ جو دل کا دورہ پڑنے سے مر گیا تھا‘ کے قتل کا پرچہ بھی آپ پر ہی کاٹ دیا گیا۔ یہ اس وقت ہوا جب نواز شریف پنجاب کے مالک تھے۔ آپ چھ ماہ دربدر رہے۔ تکالیف دیکھیں۔ آپ جیسا دیہاتی بندہ کیسے نواز شریف کا انتقام بھول گیا؟ آپ تو جنرل ضیاء کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے‘ جب آپ نے خواجہ صفدر کے مقابلے میں فخر امام کو سپیکر بنوا کر ایک تاریخ رقم کی۔
رزاق ملکانہ بولے: آپ بھول رہے ہیں کہ چوہدری صاحب تو ایوب خان دور سے مزاحمت کرتے آئے ہیں۔ میں نے کہا: اچھا ہوا آپ نے یاد دلایا۔ جس سیاستدان نے جنرل ایوب، بھٹو، جنرل ضیا سے نواز شریف تک‘ بغاوت کی ہو، سختیاں اور مشکلیں بھی دیکھی ہوں، وہ آج کیسے اسی نواز شریف کی پارٹی میں ہے؟ آج اس کا بیٹا نواز شریف کے ہراول دستے کا سربراہ ہے۔ جتنا دفاع دانیال نواز شریف کا کرتا ہے، اتنا تو پوری پارٹی نہیں کر سکتی۔
چوہدری صاحب کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بولے بیٹے کے لیے سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ان کا اشارہ دانیال عزیز کے سیاسی کیریئر کی طرف تھا۔ میں نے کہا: دانیال عزیز بلاشبہ ایک ذہین انسان ہے اور اس کی ذہانت سے ہم سب متاثر ہیں۔ پڑھا لکھا ہے، ایشوز پر محنت کرتا ہے۔ لیکن میں ایک دیہاتی آدمی ہوں یا شاید اندر سے ابھی ہم سب قبائلی ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرے بیٹے کو پتا ہو کس نے اس کے گھر پر حملہ کرایا، اس کے باپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ ناکامی پر ایک قتل کا پرچہ بھی باپ پر کاٹ دیا گیا، وہ کئی ماہ دربدر رہا ہو، اپنا علاقہ، گھر اور صوبہ تک سب چھوڑنا پڑ جائے اور پھر میرا بیٹا جا کر میرے مخالفوں اور دشمنوں کے ساتھ مل جائے اور ان کا سب سے بڑا دفاع کرنے والا بن کر ابھرے؟ میں تو کبھی ایسے بیٹے کو قریب نہ آنے دوں‘ جسے باپ کی تکلیفوں کا احساس ہی نہ ہو۔
چوہدری صاحب پھر دھیرے سے بولے: بیٹے کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کہا: ایک عجیب سے بات ہو رہی ہے پاکستانی سیاست میں۔ نواز شریف نے اپنے ادوار میں جن سیاستدانوں کو ذلیل کیا، گالیاں دیں، ان پر قتل تک کے پرچے درج کرائے آج انہی کے بچے نواز شریف کے ہراول دستے میں شامل ہیں۔ باقی کو چھوڑیں‘ فاررق لغاری کے ساتھ نواز شریف نے کیا کچھ نہیں کیا؟ ذلیل کرکے ایوان صدر سے نکالا، اس سے پہلے جب وہ صدر تھے تو وہ ایک جلوس لے کر چوٹی زیریں گئے اور وہاں لغاری کے گھر کے باہر‘ انہوں نے ایک جلسے میں ایسی تقریریں کی گئیں‘ جنہیں سن کر آج بھی کانوں سے دھواں نکلتا ہے۔ آج اسی لغاری کے دونوں بیٹے جمال لغاری اور اویس لغاری‘ نواز شریف اور شہباز شریف کے سپاہی ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں جمال لغاری شہباز شریف کی شان میں وہ قلابے ملاتے ہیں کہ سن کر شرم آتی ہے۔
ایک دن دانیال عزیز نے عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر کی اور نواز شریف کا پاناما پر دفاع کیا تو آسمان نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ چوہدری انور عزیز کا بیٹا‘ جس پر نواز شریف دور میں قتل کے پرچے ہوئے‘ اسی نواز شریف کا دفاع کر رہا تھا اور جب دانیال عزیز کی نواز شریف کے حق میں تقریر ختم ہوئی تو فاروق لغاری کا بیٹا اویس لغاری اپنی سیٹ سے اٹھ کر گیا اور دانیال عزیز کی کمر تھپکی، شاباش دی۔ اس وقت نواز لیگ کے ایم این ایز معنی خیز نظروں سے مسکرا رہے تھے کہ انور عزیز‘ جس کو نواز شریف کی وجہ سے پنجاب بدر ہونا پڑا، کا بیٹا آج نواز شریف کا دھواں دھار دفاع کر رہا ہے اور جس کوگھر جا کر نواز شریف گالیاں دے کر آیا تھا، اس کا بیٹا اس دفاع پر داد دے رہا ہے۔ نواز شریف نے ماضی کے اپنے دو بڑے مخالفوں کے بچوں کو کیسے اپنی جیب میں ڈال لیا تھا۔
چوہدری صاحب بولے: میں سیاست میں survivalist ہوں۔ میں نے کہا: ناراض نہ ہوں تو پھر عرض کروں کہ اس وقت آپ مجھے اکبر بادشاہ لگ رہے ہیں۔ جب شہزادہ سلیم نے اپنے باپ اکبر سے بغاوت کی اور باپ بیٹے میں جنگ ہوئی تو بیٹا ہار گیا۔ گرفتار کرکے دربار میں لایا گیا تو باپ پر پدرانہ شفقت حاوی ہو گئی۔ وہ انصاف جو بیرم خان یا دیگر باغیوں کے مقدر میں تھا، وہ اپنے بیٹے کی بار ہار گیا۔ پورے دربار نے کہا ظل الٰہی رحم! باپ جیت گیا اور ایک بادشاہ ہار گیا۔ سلیم کو معافی مل گئی۔ کچھ برسوں بعد جب وہی شہزادہ سلیم ہندوستان کا بادشاہ بنا تو تاریخ ایک اور کہانی سناتی ہے۔ شہزادہ سلیم کے بیٹے نے بھی روایت برقرار رکھتے ہوئے باپ کے خلاف بغاوت کی۔ جنگ ہوئی، بیٹا ہارگیا۔ گرفتار کرکے باپ کے دربار میں لایا گیا۔ وہی سب کچھ ہوا جو اکبر بادشاہ کے دربار میں ہوا تھا۔ بیٹے نے عرض کی مجھے معاف کر دیں۔ جہانگیر بولا: کیسے کر دوں، باغیوں کی سزا تو موت ہوتی ہے؟ بیٹا بولا: آپ نے بھی تو بغاوت کی تھی، دادا جان نے آپ کو بھی تو معاف کر دیا تھا۔ جہانگیر بولا: آج اس تخت پر بیٹھ کر مجھے محسوس ہوا تمہارے دادا نے غلطی کی تھی، انہیں مجھے معاف نہیں کرنا چاہیے تھا۔
میں نے کہا: چوہدری صاحب آپ اس وقت اکبر بادشاہ والی کیفیت کا شکار ہیں۔ شہنشاہ جہانگیر تک آپ شاید نہ پہنچ پائیں۔ اکبر نے بیٹے کو معاف کر دیا تھا لیکن باقی کسی باغی کو معاف نہیں کیا۔ آپ نے بھی صرف بیٹے کے معاملے میں گنجائش نکالی ہوئی ہے۔
کیا سیاست انسان کو اتنا خود غرض بنا دیتی ہے؟ دانیال عزیز، اویس لغاری اور جمال لغاری بھول جاتے ہیں کہ ان کے والد کے ساتھ کیا سلوک ہوا اور ان پر کیسے زمین تنگ کی گئی تھی؟ تو کیا دانیال اور لغاری بردارز واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے والد غلط اور نواز شریف درست تھے؟ ان کے باپ کا نواز شریف سے ٹکرائو غلط تھا؟ یا پھر فاروق لغاری اور انور عزیز چوہدری وہ دنیاوی فائدے اپنے بچوں کو نہیں دے سکے جو نواز شریف دے سکتے ہیں۔
اسے جنریشن گیپ کہیں‘ باپ بیٹوں کے درمیان ایک اصولی اختلاف کہیں‘ چند ماہ کے لیے ایک وزارت کی ہوس کہیں‘ یا یہ کہ بے رحم سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یا پھر اپنے جیسوں انسانوں پر حکم چلانے کا وہ جنون‘ جس کے لیے کوئی بھی کمپرومائز کیا جا سکتا ہے۔ ایسا جنون جو سر چڑھ کر بولے اور ایک بے رحم صحرا کی طرح تھکے ہارے اور اقتدار کی تلاش میں سرگرداں بھوکے پیاسے مسافروں کو رات کے اندھیرے میں نگل جائے۔